یہ سال ۲۰۲۳ کا ستمبر مہینہ ہے اور ہم مغربی گھاٹ کی ’پھولوں کی وادی‘ میں ہیں، جہاں گلابی اور بینگنی رنگ کے پھولوں کی سینکڑوں قسمیں ہر سال اس سیزن میں پھولتی ہیں۔ ان میں بے شمار پھول صرف اسی حیاتیاتی تنوع والے ماحولیاتی نظام میں پھلتے پھولتے ہیں، اور یہاں ہر سال کھلتے ہیں۔

حالانکہ، اس سال یہاں صرف زمین پر گرے ہوئے مرجھائے پھول ہی نظر آ رہے ہیں۔

تقریباً ۱۲۰۰ میٹر کی اونچائی پر واقع کاس سطح مرتفع کو ۲۰۱۲ میں یونیسکو کے ذریعہ ورلڈ ہیریٹیج سائٹ (عالمی ورثہ کا مقام) قرار دیا گیا تھا۔ تب سے یہ لوگوں کے لیے مہاراشٹر میں سیاحت کا ایک بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔ خاص کر پھول کھلنے کے موسم، یعنی اگست سے اکتوبر کے درمیان یہاں بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں، اور اس مسئلہ کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔

’’پہلے یہاں کوئی نہیں آتا تھا۔ کاس ہمارے لیے صرف ایک پہاڑی تھا، جہاں ہم اپنے مویشی اور بکریاں چرانے آتے تھے،‘‘ سُلا بائی بداپوری کہتی ہیں۔ ’’اب سیاح یہاں پھولوں کو روندتے ہیں، تصویریں کھینچتے ہیں اور پودوں کو جڑوں سے اکھاڑتے ہیں!‘‘ سیاحوں کے اس رویہ سے پریشان ۵۷ سالہ سُلا بائی کہتی ہیں، ’’یہ کوئی باغ نہیں ہے؛ یہ پتھروں پر کھلنے والے پھول ہیں۔‘‘

کاس سطح مرتفع ستارا ضلع کے ستارا تعلقہ میں ۱۶۰۰ ہیکٹیئر کے رقبے میں پھیلی چٹانوں کی ایک پلیٹ ہے، جسے کاس پٹھار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

Sulabai Badapuri (left) is among the 30 people working on Kaas Plateau as guards, waste collectors, gatekeepers and guides with the Kaas forest management committee.
PHOTO • Jyoti Shinoli
The average footfall of tourists (right) crosses 2,000 every day during the flowering season
PHOTO • Jyoti Shinoli

سُلا بائی بداپوری (بائیں) اُن ۳۰ لوگوں میں شامل ہیں، جو کاس پٹھار کی پہریداری، کچرے کی صفائی، مرکزی دروازے کی رکھوالی، اور کاس فاریسٹ مینجمنٹ کے تحت گائڈ کا کام کرتے ہیں۔ پھولوں کے موسم میں یہاں روزانہ اوسطاً ۲۰۰۰ سے زیادہ لوگ آتے ہیں

Kaas Plateau was awarded UNESCO's World Heritage Site in 2012. Since then, it has become a major tourist attraction in Maharashtra, especially from August to October
PHOTO • Jyoti Shinoli
Kaas Plateau was awarded UNESCO's World Heritage Site in 2012. Since then, it has become a major tourist attraction in Maharashtra, especially from August to October
PHOTO • Jyoti Shinoli

کاس سطح مرتفع کو ۲۰۱۲ میں یونیسکو کے ذریعہ ورلڈ ہیریٹیج سائٹ قرار دیا گیا تھا۔ تب سے یہ جگہ مہاراشٹر میں سیاحت کا ایک بڑا مرکز بن گئی ہے۔ خاص کر اگست سے لے کر اکتوبر تک یہاں سیاحوں کا مجمع لگا رہتا ہے

سُلا بائی کہتی ہیں، ’’مجمع کو قابو میں کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ سطح مرتفع پر صبح ۹ بجے سے شام ۶ بجے تک پہریداری کا کام کرتی ہیں۔ وہ ان ۳۰ لوگوں میں شامل ہیں، جو کاس پٹھار کی پہریداری، کچرے کی صفائی، مرکزی دروازہ کی رکھوالی، اور کاس فاریسٹ مینجمنٹ کے تحت گائڈ کا کام کرتے ہیں۔

ستارا کی جوائنٹ مینجمنٹ فاریسٹ کمیٹی کے مطابق، پھولوں کے موسم میں یہاں اوسطاً ۲۰۰۰ سے زیادہ لوگ روزانہ آتے ہیں۔ سُلا بائی جب انہیں ٹوکتی ہیں، تب وہ تھوڑی دیر کے لیے رک جاتے ہیں۔ ’’ اہو میڈم! براہ کرم پھولوں پر پیر نہ رکھیں۔ وہ بہت نازک ہیں اور جلد ہی اکتوبر میں سوکھ جائیں گے۔‘‘ سیاح رسمی طور پر معافی تو مانگ لیتے ہیں، لیکن جلد ہی ان کی بات کو بھول کر تصویریں کھنچوانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

پھولوں کے موسم میں یہ سطح مرتفع ۸۵۰ قسم کے پودوں کی انواع سے بھر جاتا ہے، جن میں ۶۲۴ انواع ریڈ ڈیٹا بُک میں درج ہیں۔ اس کتابچہ میں ایسی انواع کی فہرست شامل ہے جو ناپید ہونے کے دہانے پر ہیں۔ ان میں کاس علاقے میں پائی جانے والی ۳۹ مقامی انواع ہیں۔ یہاں تقریباً ۴۰۰ جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ’’اس علاقے میں ایسے کئی بزرگ اور تجربہ کار لوگ ہیں جو ان جڑی بوٹیوں کو پہچانتے ہیں اور گھٹنے کے درد، سردی کھانسی، بخار وغیرہ کے علاج میں انہیں استعمال کرنا جانتے ہیں،‘‘ لکشمن شندے بتاتے ہیں۔ وہ ۶۲ سال کے ایک کسان ہیں اور قریب کے ہی وانجول واڑی گاؤں میں رہتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق، نباتات کے علاوہ کاس میں خشکی اور تری پر پائے جانے والے جانوروں کی تقریباً ۱۳۹ انواع پائی جاتی ہیں، جن میں مختلف قسم کے مینڈک بھی ہیں۔ یہاں پائے جانے والے مختلف ممالیے، رینگنے والے جانور اور کیڑے مکوڑے بھی اس علاقے کے ماحولیاتی نظام کو فعال بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پونے میں رہنے والی آزاد محقق پریرنا اگروال نے گزشتہ پانچ برسوں میں کاس سطح مرتفع میں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی نظام پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔ ’’پھولوں اور نباتات کی ان مقامی انواع کو بھیڑ کے ذریعہ پیروں سے کچلے جانے جیسے خطرات سے کافی نقصان پہنچتا ہے۔ ان کی وجہ سے پرپل (بینگنی) بلیڈر وارٹ [یوٹری کیوکیریا پرپراسن] جیسے پھول خراب ہو جاتے ہیں، اور مالابار ہل بوریج [ایڈلوکیریم مالاباریکم] کی انواع بھی تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔

Purple bladderwort (left) and opposite-leaved balsam (right) are endemic flora of this valley which are sensitive to external threats like crowd and trampling
PHOTO • Jyoti Shinoli
Purple bladderwort (left) and opposite-leaved balsam (right) are endemic flora of this valley which are sensitive to external threats like crowd and trampling
PHOTO • Jyoti Shinoli

پرپل بلیڈر وارٹ (بائیں) اور اُلٹے پتّوں والی گل مہندی (دائیں) اس وادی میں پائے جانے والے مقامی پودے ہیں، جو بھیڑ کے ذریعہ کچلے جانے جیسے باہری خطروں سے تباہ ہو سکتے ہیں

The local jangli halad [Hitchenia caulina] found on the plateau is effective for knee and joint aches.
PHOTO • Jyoti Shinoli
The Malabar crested lark (right) is among the many birds and mammals that aid the ecosystem’s functioning here.
PHOTO • Jyoti Shinoli

مقامی جنگلی ہلدی [ہچینیا کولینا] جو اسی سطح مرتفع پر ملتی ہے، گھٹنے اور جوڑوں کے درد کے لیے فائدہ مند مانی جاتی ہے۔ یہاں کے ماحولیاتی نظام کو فعال بنائے رکھنے میں کلغی والے چنڈول (دائیں) جیسے متعدد پرندے اور جانور اہم رول ادا کرتے ہیں

المیہ یہ ہے کہ سیاحت کے سبب آس پاس کے گاؤوں کے لوگوں کے لیے اگست سے اکتوبر کے درمیان روزگار کے راستے کھل جاتے ہیں۔ کاسنی، ایکیو اور اٹالی گاؤوں کے کھیتوں میں ملنے والی ۱۵۰ روپے کی دہاڑی سے موازنہ کرتے ہوئے سُلا بائی کہتی ہیں، ’’میں دن بھر میں تقریباً ۳۰۰ روپے کما لیتی ہوں۔ یہ کھیتوں میں یومیہ مزدوری کرنے سے بہتر ہے۔‘‘

سال کے باقی دن وہ اپنی فیملی کی ایک ایکڑ زمین پر دھان کی کھیتی کرنے کا کام کرتی ہیں، جو پوری طرح مانسون پر منحصر ہے۔ ’’کھیتی کرنے کے علاوہ یہاں اور کوئی خاص روزگار نہیں ہے۔ اس تین مہینوں میں ہماری اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے،‘‘ سُلا بائی کہتی ہیں، جو کاس سے چار کلومیٹر دور کاسنی گاؤں میں رہتی ہیں، اور اپنے گاؤں سے یہاں پیدل آتی جاتی ہیں۔ ’’اس میں مجھے تقریباً ایک گھنٹہ کا وقت لگتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

ہر سال اس سطح مرتفع پر بہت تیز بارش ہوتی ہے، جو عموماً ۲۵۰۰-۲۰۰۰ ملی میٹر درج کی جاتی ہے۔ مانسون کے دنوں میں ان پتھروں پر تھوڑی بچی ہوئی مٹی میں نباتات کی کچھ منفرد اور نایاب انواع کو زندگی ملتی ہے۔ ’’کاس کی یہ سرخ چٹانیں باریک سوراخوں کے ذریعہ پانی جذب کرنے کی اپنی صلاحیت کے سبب اسفنج کی طرح کام کرتی ہیں اور بعد میں اس پانی کو آس پاس گرنے والے کسی آبشار (جھرنے) یا تالاب میں ملا دیتی ہیں،‘‘ ڈاکٹر اپرنا واٹوے سمجھاتی ہیں۔ پونے میں رہنے والی یہ کنزرویشنسٹ اور ماہر نباتات آگاہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اس سطح مرتفع کو ہونے والے کسی بھی نقصان سے اس علاقے کی مقامی زیر زمین پانی کی سطح کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

ڈاکٹر واٹوے ابھی تک مہاراشٹر کے شمال مغربی گھاٹ اور کونکن کے ۶۷ سطح مرتفع کا زمینی مطالعہ کر چکی ہیں۔ سطح مرتفع کے ۱۵ مربع کلومیٹر کے دائرے میں تیزی سے بڑھتی سیاحت، ہوٹلوں کی تعمیر اور ریزورٹ کی تعداد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’کاس ماحولیات کے نقطہ نظر سے ایک حساس علاقہ ہے۔ تعمیرات سے متعلق سرگرمیوں میں تیزی یہاں کے ماحولیاتی نظام کے لیے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘

This 1,600-hectare bedrock shelters 850 plant species . 'The laterite rock on Kaas acts like a sponge by retaining water in its porous structure, and slowly distributing it to the streams nearby,' explains Dr. Aparna Watve. Extreme infrastructure activities causing damage to these plateaus disturbs the water table in the region
PHOTO • Jyoti Shinoli
This 1,600-hectare bedrock shelters 850 plant species . 'The laterite rock on Kaas acts like a sponge by retaining water in its porous structure, and slowly distributing it to the streams nearby,' explains Dr. Aparna Watve. Extreme infrastructure activities causing damage to these plateaus disturbs the water table in the region
PHOTO • Jyoti Shinoli

تقریباً ۱۶۰۰ ہیکٹیئر کے اس علاقے میں نباتات کی ۸۵۰ انواع پھلتی پھولتی ہیں۔ ’کاس کے سرخ پتھر اپنے باریک سوراخوں میں پانی کو اسفنج کی طرح جذب کر لیتے ہیں اور بعد میں اس پانی کو آس پاس کے تالابوں یا آبشاروں کو دے دیتے ہیں،‘ ڈاکٹر اپرنا واٹوے بتاتی ہیں۔ تعمیرات سے متعلق سرگرمیوں میں تیزی یہاں کے ماحولیاتی نظام کے لیے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے

Laxman Shinde (left) from Vanjolwadi collects plastic and non-disposable debris on Kaas during the flowering season. Ironically, it is the tourism that has opened seasonal employment opportunities between August and October for Laxman, Sulabai (right) and others from the surrounding villages
PHOTO • Jyoti Shinoli
Laxman Shinde (left) from Vanjolwadi collects plastic and non-disposable debris on Kaas during the flowering season. Ironically, it is the tourism that has opened seasonal employment opportunities between August and October for Laxman, Sulabai (right) and others from the surrounding villages
PHOTO • Jyoti Shinoli

وانجول واڑی کے لکشمن شندے (بائیں) پھولوں کے موسم میں کاس سطح مرتفع پر پلاسٹک اور نہ سڑنے گلنے والے کچرے چننے کا کام کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ سیاحت نے یہاں لکشمن، سُلا بائی (دائیں) اور آس پاس کے گاؤوں کے دیگر لوگوں کے لیے اگست سے لے کر اکتوبر تک روزگار کے نئے راستے کھول دیے ہیں

یہاں رہنے والے کئی ممالیے، رینگنے والے جانور اور کیڑے مکوڑے انسانوں کے ذریعہ پیدا کردہ اسباب سے ختم ہو رہے کیڑوں اور پھولوں کی کمی کی وجہ سے تیزی سے اپنا کھانا گنوا رہے ہیں، اور خطرے میں ہیں۔ ’’ان جانوروں کی دستاویز کاری بہت ضروری ہے، کیوں کہ وہ اور کہیں نہیں جا سکتے، اور نہ کہیں دوسری جگہوں پر ان کی انواع بچی رہ سکتی ہیں۔ اگر آپ ان کی پناہ گاہوں کو آلودہ یا پراگندہ کریں گے، تو ان کے زندہ بچے رہنے کا کوئی دوسرا متبادل نہیں رہے گا اور وہ ختم ہو جائیں گے،‘‘ سائنس داں سمیر پادھیے کہتے ہیں۔ ان کے مطابق، کیڑوں اور پھولوں کی عدم موجودگی کے سبب پھولوں کے کھلنے کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے، اور اس کی وجہ سے پورے ماحولیاتی نظام پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ مقامی انواع کو نقصان پہنچنے کی حالت میں زیرہ پوشی کا عمل بھی متاثر ہوگا اور سطح مرتفع کے ارد گرد موجود گاؤوں کے آبی وسائل ختم ہو سکتے ہیں۔

لکشمن ہمیں جنگلی ہلدی کا پودا دکھاتے ہیں، جو گھٹنے اور جوڑوں کے درد میں فائدہ مند ہے۔ چار دہائی قبل کا زمانہ یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ’’اُن دنوں کاس میں بہت پھول کھلتے تھے۔‘‘ پھولوں کے موسم میں وہ کاس پٹھار سے پلاسٹک اور نہ سڑنے گلنے والے دیگر کچرے اکٹھا کرتے ہیں۔ اس کام کے عوض انہیں یومیہ ۳۰۰ روپے ملتے ہیں۔ سال کے باقی دن وہ اپنے دو ایکڑ کھیت میں دھان کی کھیتی کرتے ہیں۔

’’یہیں ہماری پیدائش ہوئی ہے۔ ہم یہاں کے کونے کونے سے واقف ہیں،‘‘ سُلا بائی کہتی ہیں۔ ’’اس کے بعد بھی کوئی ہماری باتوں پر دھیان نہیں دیتا، کیوں کہ ہم غیر تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ لیکن یہ تعلیم یافتہ لوگ فطرت کے ساتھ کیسا برتاؤ کر رہے ہیں؟‘‘

کاس اب پہلے سے بالکل الگ دکھائی دیتا ہے۔ ’’ یہ بیکار نظر آتا ہے۔ یہ میرے بچپن کا کاس نہیں ہے،‘‘ افسردہ آواز میں سُلا بائی کہتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jyoti Shinoli

جیوتی شنولی پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کی ایک رپورٹر ہیں؛ وہ پہلے ’می مراٹھی‘ اور ’مہاراشٹر۱‘ جیسے نیوز چینلوں کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز جیوتی شنولی
Editor : Siddhita Sonavane

سدھیتا سوناونے ایک صحافی ہیں اور پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا میں بطور کنٹینٹ ایڈیٹر کام کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنی ماسٹرز ڈگری سال ۲۰۲۲ میں ممبئی کی ایس این ڈی ٹی یونیورسٹی سے مکمل کی تھی، اور اب وہاں شعبۂ انگریزی کی وزیٹنگ فیکلٹی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Siddhita Sonavane
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique