تقریباً ۹۷ سال کی عمر میں بھی لوکھی کانتو مہتو کی آواز گیت گاتے وقت بالکل صاف ہے اور گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ اثردار شخصیت کے مالک لوکھی دادا کی شکل دیکھ کر آپ کو رابندر ناتھ ٹیگور کی یاد آ جاتی ہے۔

مارچ ۲۰۲۲ میں جب ہم لوکھی دادا سے ملے تھے، تو وہ مغربی بنگال کے پیرڑا گاؤں میں واقع ایک کمرے کے خستہ حال کچے مکان میں اپنے سب سے عزیز دوست، ٹھیلو مہتو کے ساتھ چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔

ٹھیلو دادا کی عمر تب ۱۰۳ سال تھی۔ اسی سال (۲۰۲۳ میں) ان کا انتقال ہوگیا۔ پڑھیں: ٹھیلو مہتو نہیں رہے، لیکن ان کا کنواں اب بھی ہے

ٹھیلو دادو اس علاقے کے آخری مجاہدین آزادی میں سے ایک تھے۔ تقریباً اسّی (۸۰) سال پہلے، انہوں نے پرولیا ضلع کے پولیس اسٹیشنوں پر ہوئے احتجاجی مارچ میں حصہ لیا تھا۔ سال تھا ۱۹۴۲ اور ان کا یہ بغاوتی قدم بھارت چھوڑو تحریک کے تحت مقامی سطح پر اٹھایا گیا تھا۔

لوکھی دادا تب کافی چھوٹے تھے، اور پولیس اسٹیشن کے باہر چل رہے مظاہروں کا حصہ نہیں تھے، کیوں کہ تحریک کے قائدین نے گھیرا بندی میں حصہ لینے کے لیے ۱۷ سال کی عمر ہونے کی شرط لگا دی تھی، جب کہ لوکھی دادا کی عمر اس سے کچھ کم تھی۔

ٹھیلو دادا اور لوکھی دادا، دونوں ہی مجاہدین آزادی کے بارے میں پھیلائی گئی باتوں کے موافق نظر نہیں آتے۔ ریاست اور اشرافیہ کے معاشرے کی طرف سے پھیلائی گئی بدگمانیوں کے موافق تو بالکل بھی نہیں۔ اور نہ ہی وہ بھیڑ چال میں یقین کرنے والے رہے کہ جن کا استعمال احتجاجی مظاہروں میں صرف تعداد بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے موضوعات کے بارے میں گہرا علم رکھتے ہیں: ٹھیلو دادا کاشتکاری سے متعلق مسائل اور علاقے کی تاریخ کے بارے میں، اور لوکھی دادا موسیقی اور ثقافت کے بارے میں۔

ویڈیو دیکھیں: لوکھی مہتو کے گیتوں میں مٹی کی خوشبو

لوکھی دادا نے اس مزاحمت میں ثقافتی طریقے سے شرکت کی تھی۔ وہ دھمسا (ایک بڑا طبلے جیسا ڈرم) اور مادول (ہاتھ سے بجایا جانے والا ایک ڈرم) جیسے آدیواسی ساز بجانے والے گروپ کا حصہ تھے۔ ان کا استعمال عام طور پر سنتھال، کرمی، بیرہور اور دیگر آدیواسی گروپوں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ یہ لوگ ایسے لوک گیت بھی گاتے تھے، جو سننے میں سیدھے سادے لگتے تھے۔ حالانکہ، اس زمانے کے پس منظر میں دیکھیں تو ان گیتوں نے معنی کے لحاظ سے ایک نئی اہمیت حاصل کر لی تھی۔

یہ بتاتے ہوئے کہ ڈھول بجانے والے پیغام رساں اور گلوکار بھی برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کا بگل پھونک رہے تھے، لوکھی دادا کہتے ہیں، ’’ہم بیچ بیچ میں ’وندے ماترم‘ کا نعرہ بھی لگاتے تھے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے یاد کرتے ہیں کہ انگریزوں کو ویسے تو ہمارے نعروں یا گیتوں سے خاص فرق نہیں پڑتا تھا، ’’لیکن وہ اس سے ناراض ہو جاتے تھے۔‘‘

ٹھیلو دادا اور لوکھی دادا، دونوں ہی مجاہدین آزادی کو ملنے والی پنشن سے محروم رہے۔ اور انہوں نے پنشن پانے کی کوشش کرنا بھی بہت پہلے چھوڑ دیا تھا۔ ٹھیلو دادا ۱۰۰۰ روپے کی بڑھاپے کی پنشن پر گزارہ کرتے رہے۔ وہیں لوکھی دادا کو صرف ایک مہینہ ہی یہ پنشن ملی تھی۔ پھر وہ بھی پر اسرار طریقے سے اچانک بند ہو گئی۔

Left: Lokkhi Mahato sharing a lighter moment with his dearest friend, Thelu Mahato in Pirra village of West Bengal, in February 2022.
PHOTO • Smita Khator
Right: Lokkhi was a part of the cultural side of the resistance. He performed with troupes that played tribal instruments such as the dhamsa (a large kettle drum) and madol (a hand drum)
PHOTO • P. Sainath

بائیں: فروری ۲۰۲۲ میں مغربی بنگال کے پیرڑا گاؤں میں اپنے سب سے عزیز دوست، ٹھیلو مہتو کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہوئے لوکھی مہتو۔ دائیں: لوکھی دادا نے مزاحمت میں ثقافتی طریقے سے شرکت کی تھی۔ وہ دھمسا اور مادول جیسے آدیواسی ساز بجانے والے گروپ کا حصہ تھے

انگریزوں کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے الگ الگ پس منظر کے لوگ بڑھ چڑھ کر آگے آئے تھے، جن میں ٹھیلو اور لوکھی جیسے نوجوان بھی شامل تھے – جو عزم اور سمجھ بوجھ میں لیفٹسٹ (بائیں بازو کے) اور شخصیت کے لحاظ سے گاندھیائی تھے۔ دونوں کا تعلق کرمی برادری سے ہے، جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والی برادریوں میں سے ایک تھی۔

لوکھی دادا ہمیں ٹوسو گان سناتے ہیں، جو کرمی برادری کے ٹوسو جشن یا فصل کٹائی کے تہوار سے جڑا ہوا ہے۔ ٹوسو کوئی مذہبی تہوار نہیں ہے، بلکہ ایک سیکولر تہوار رہا ہے۔ کسی زمانے میں ان گیتوں کو صرف غیر شادی شدہ لڑکیاں گاتی تھیں، لیکن وقت کے ساتھ انہیں دوسرے لوگ بھی گانے لگے۔ لوکھی دادا جو گیت سنا رہے ہیں، اس میں ٹوسو کو ایک نوجوان عورت کی روح کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے گیت میں تہوار کے ختم ہونے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔

টুসু নাকি দক্ষিণ যাবে
খিদা লাগলে খাবে কি?
আনো টুসুর গায়ের গামছা
ঘিয়ের মিঠাই বেঁধে দি।

তোদের ঘরে টুসু ছিল
তেই করি আনাগোনা,
এইবার টুসু চলে গেল
করবি গো দুয়ার মানা।

سنا ہے کہ ٹوسو جنوب کی طرف بڑھی
کھائے گی کیا وہ جو بھوک بڑھی؟
لاؤ مجھے دو ٹوسو کا گمچھا*
باندھوں مٹھائی جو گھی کی چڑھی۔

تمہارے گھر کے چکر لگے
کیوں کہ اُدھر کو ہی ٹوسو رہے
اب جب کہ ٹوسو چلی گئی ہے
تیرے گھر آنے کا نہ بہانہ بچے۔

*ایک پتلا، سوتی کپڑا جسے تولیہ، اسکارف یا پگڑی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گمچھا حالات کے مطابق ڈھل جانے والا ایک لباس بھی ہے۔

کور اسٹوری: اسمیتا کھٹور

مترجم: محمد قمر تبریز

پی سائی ناتھ ’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ کے بانی ایڈیٹر ہیں۔ وہ کئی دہائیوں تک دیہی ہندوستان کے رپورٹر رہے اور Everybody Loves a Good Drought اور The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom کے مصنف ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز پی۔ سائی ناتھ
Video Editor : Sinchita Parbat

سنچیتا ماجی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کی سینئر ویڈیو ایڈیٹر ہیں۔ وہ ایک فری لانس فوٹوگرافر اور دستاویزی فلم ساز بھی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Sinchita Parbat
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique