’’کاغذ ہی صحیح تھا۔ مشین میں تو پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ آپ کون سا بٹن دبا رہے ہیں، اور ووٹ کس کو جا رہا ہے!‘‘
یہ ہیں قلم الدین انصاری، جن کا کہنا ہے کہ ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کی بجائے وہ پیپر بیلٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ پلامو کے کُمنی گاؤں کے رہنے والے ۵۲ سالہ قلم الدین اس وقت مقامی مویشیوں کے میلہ میں موجود ہیں۔ اپریل کا مہینہ چل رہا ہے، اس لیے یہاں جھارکھنڈ میں تیز دھوپ سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے سر پر ایک سفید گمچھا (رومال) لپیٹ رکھا ہے۔ پاتھر نام کی اس جگہ پر مویشیوں کا میلہ ہر ہفتے لگتا ہے، لہٰذا وہ بھی اس میلہ میں اپنا بیل بیچنے کے لیے گاؤں سے ۱۳ کلومیٹر پیدل چل کر آئے ہیں۔ ’’ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
پچھلے سال (۲۰۲۳) ان کی دھان کی پوری فصل تباہ ہو گئی تھی۔ ربیع کے موسم میں انہوں نے سرسوں کی بوائی کی تھی، لیکن ایک تہائی فصل کو کیڑے مکوڑے چاٹ گئے۔ ’’ہمیں تقریباً ڈھائی کوئنٹل فصل ہی مل پائی تھی، جسے ہم نے قرض چکانے کے لیے پورا کا پورا بیچ دیا تھا،‘‘ قلم الدین بتاتے ہیں۔
چار بیگھہ (تقریباً تین ایکڑ) میں کھیتی کرنے والے کسان، قلم الدین مقامی ساہوکاروں سے کئی قرض لینے کی وجہ سے کافی پریشان ہیں۔ ’’بہت پیسہ لے لیوا لے [انہوں نے کافی پیسہ لے لیا ہے]،‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ یہ بتانا بھی نہیں بھولتے ہیں کہ ہر سو روپے کے عوض پانچ روپے سود کے طور پر دینے سے ان کی مالی حالت کافی خستہ ہو چکی ہے۔ ’’میں نے قرض کے طور پر ۱۶ ہزار روپے لیے تھے، جو اب بڑھ کر ۲۰ ہزار روپے ہو چکے ہیں۔ لیکن اس میں سے میں ۵۰۰۰ روپے ہی واپس کر پایا ہوں۔‘‘
اب ان کے پاس اپنے بیل کو فروخت کر دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ ’’اسی لیے کسان چُرمُرا جاتا ہے۔ کھیتی کیے کہ بیل بیچا گیا [اسی لیے کسانوں کو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں کھیتی کرتا ہوں اور اب مجھے بیل بیچنا پڑ رہا ہے] ،‘‘ قلم الدین کہتے ہیں۔ انہیں امید تھی کہ ۲۰۲۳ میں بارش ہوگی۔
جھارکھنڈ میں ۷۰ فیصد کسانوں کے پاس ایک ہیکٹیئر سے کم زمین ہے۔ تقریباً تمام قابل کاشت زمین ( ۹۲ فیصد ) سینچائی کے لیے بارش کے پانی پر منحصر ہے۔ کنوؤں کا پانی سینچائی کی ضروریات کا صرف ایک تہائی ( ۳۳ فیصد ) ہی پورا کر پاتا ہے۔ قلم الدین جیسے چھوٹے کسان اپنی پیداوار کے ساتھ کوئی خطرہ مول لینے کی حالت میں نہیں ہیں، اور مجبوراً بیجوں اور کھادوں کی خرید کے لیے قرض پر پیسے لیتے ہیں۔
اس لیے، ان کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۴ میں ہونے والے عام انتخابات میں وہ اسی امیدوار کو اپنا ووٹ دیں گے، جو ان کے گاؤں میں سینچائی کا انتظام کرے گا۔ وہ نئی دہلی سے تقریباً ۱۰۰۰ کلومیٹر دور ایک ایسے گاؤوں میں رہتے ہیں، جہاں نہ تو ٹیلی ویژن ہے اور نہ ہی موبائل فون۔ ان کے مطابق، ان کو الیکٹورل بانڈ کے بارے میں کسی قومی خبر کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔
میلہ میں الگ الگ گاہکوں کے ساتھ تقریباً تین گھنٹے تک مول تول کرنے کے بعد قلم الدین نے آخرکار اپنا بیل ۵۰۰۰ روپے میں بیچ دیا، حالانکہ انہیں ۷۰۰۰ روپے ملنے کی امید تھی۔
اپنا بیل فروخت کر دینے کے بعد قلم الدین کے پاس اب دو گائیں اور ایک بچھڑا بچ گئے ہیں۔ ان کو بھروسہ ہے کہ ان کے سہارے وہ اپنی سات رکنی فیملی کا گزارہ کر لیں گے۔ ’’ہم ان کو ہی اپنا ووٹ دیں گے جو کسانوں کے لیے کچھ کریں گے،‘‘ وہ پختگی سے کہتے ہیں۔
لگاتار پڑنے والی خشک سالی کے سبب ریاست پوری طرح سے متاثر رہی ہے۔ سال ۲۰۲۲ میں تقریباً پوری ریاست کو – ۲۲۶ بلاک – خشک سالی سے متاثرہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اگلے سال (۲۰۲۳) ۱۵۸ بلاکس کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔
پلامو ضلع کے سبھی ۲۰ بلاکس میں پچھلے سال اوسط سے بہت کم بارش درج کی گئی تھی، اسی لیے ریاست کے ذریعے ہر کسان فیملی کے لیے اعلان کی گئی راحت کی رقم – ۳۵۰۰ روپے – یہاں عام انتخابات کا بنیادی ایشو ہے، کیوں کہ زیادہ تر خاندانوں کو یہ رقم ابھی تک نہیں ملی ہے۔ ’’میں نے سُکھاڑ [خشک سالی] راحت بھارم بھرنے کے لیے پیسے دیے تھے۔ میں نے ایک سال [۲۰۲۲ میں] ۳۰۰ روپے اور اگلے سال [۲۰۲۳ میں] ۵۰۰ روپے دیے تھے۔ لیکن مجھے اب تک کوئی پیسہ نہیں ملا ہے،‘‘ سونا دیوی کہتی ہیں۔
یہ دوپہر کے آس پاس کا وقت ہے اور جھارکھنڈ کے براؤں گاؤں میں درجہ حرارت ۳۷ ڈگری سیلسیس کے قریب پہنچ چکا ہے۔ تقریباً ۵۰ سال کی سونا دیوی ایک چھینی اور ہتھوڑی کی مدد سے لکڑیاں چیر رہی ہیں۔ یہ لکڑیاں کھانا پکانے کے کام آئیں گی۔ پچھلے سال شوہر کملیش بھوئیاں کے لقوہ سے متاثر ہونے کے بعد یہ کام بھی سونا دیوی کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ میاں بیوی بھوئیاں دلت برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی روزی روٹی کے لیے بنیادی طور پر کھیتی پر منحصر ہیں۔
کملیش بتاتے ہیں کہ انہوں نے موجودہ رکن اسمبلی آلوک چورسیا کے لیے ۲۰۱۴ میں چناؤ پرچار کیا تھا اور ان کی انتخابی مہم کے لیے ۶۰۰۰ سے زیادہ روپے کا چندہ اکٹھا کیا تھا۔ لیکن ’’گزشتہ ۱۰ سالوں میں ایم ایل اے ایک بار بھی ہمارے علاقے میں نہیں آئے۔‘‘
دو کمروں کا ان کا مٹی کا گھر ان کی ۱۵ کٹھہ (تقریباً آدھا ایکڑ) زمین کی نگرانی کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ’’گزشتہ دو سالوں سے ہم نے کھیتی کے نام پر کچھ نہیں کیا ہے۔ پچھلے سال [۲۰۲۲]، بارش بالکل بھی نہیں ہوئی۔ اس سال [۲۰۲۳] بھی نام کی بارش ہوئی، لیکن دھان کے پودے ٹھیک سے بڑے نہیں ہوئے،‘‘ سونا بتاتی ہیں۔
جب اس رپورٹر نے ان سے عام انتخابات پر ایک سوال پوچھا، تو انہوں نے بپھرتے ہوئے پوچھا: ’’ہماری پرواہ ہی کسے ہے؟ صرف ووٹ ڈالنے کے وقت وہ [نیتا لوگ] ہمارے پاس آتے ہیں اور دیدی، بھیا اور چاچا کہہ کر ہمیں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیت جانے کے بعد تو وہ ہمیں پہچانتے بھی نہیں ہیں۔‘‘ سونا پر لگاتار دو سال سے پڑ رہی خشک سالی اور شوہر کے علاج کے اخراجات کے سبب ۳۰ ہزار روپے کا قرض ہو گیا ہے۔ ’’ہم اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے، جو ہماری مدد کرے گی۔‘‘
اس رپورٹر کو دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’آپ ان سے [نیتاؤں سے] ملنے جائیں گے، تو یہ آپ کو بیٹھانے کے لیے کرسی دیں گے۔ اور ہم! ہمیں وہ باہر بیٹھا کر انتظار کرنے کو کہہ دیں گے۔‘‘
سونا کے پڑوس میں رہنے والی ۴۵ سالہ مالتی دیوی بھی ایک کسان ہیں۔ ان کے پاس ایک بیگھہ [ایک ایکڑ سے کم] زمین ہے اور وہ زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ ’’ہمیں اپنی زمین [ایک بیگھہ] کے علاوہ دوسروں کی زمین سے کم از کم ۱۵ کوئنٹل چاول صرف بٹیّا [کاشتکاری] کے ذریعے مل جاتا تھا۔ اس سال ہم نے آلو اُگایا، لیکن پیداوار اتنی نہیں ہوئی کہ ہم اسے بازار میں بیچ پاتے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
بہرحال، پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ایک گھر ملنے سے خوش وہ کہتی ہیں کہ گھر کی تقسیم کے سبب انہوں نے اپنا ووٹ مودی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ پہلے وہ ’پنجہ چھاپ‘ کو اپنا ووٹ دینے کے بارے میں سوچ رہی تھیں جو کانگریس کا انتخابی نشان ہے۔ ’’ہم اس بارے میں گاؤں کی بقیہ عورتوں سے بھی بات چیت کریں گے اور اس کے بعد ہی ایک اجتماعی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اپنا ووٹ کسے دیں۔ ہم میں سے کئیوں کو ایک ہینڈ پمپ کی ضرورت ہے، کسی کو کنواں چاہیے، اور کچھ کو رہنے کے لیے کالونی۔ ان ضروریات کو جو بھی پورا کرے گا، ہم اس کے حق میں ووٹ دیں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
*****
’’دالیں، گیہوں، چاول، سبھی چیزیں مہنگی ہیں،‘‘ پلامو کے چیانکی گاؤں میں رہنے والی آشا دیوی کہتی ہیں۔ تیس کی عمر پار کر چکے اس جوڑے کی کل چھ اولادیں ہیں؛ شوہر سنجے سنگھ ۳۵ کے آس پاس کے ہیں اور مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ یہ فیملی چیرو آدیواسی برادری سے تعلق رکھتی ہے، جو جھارکھنڈ میں آباد ۳۲ آدیواسی برادریوں میں سے ایک ہے۔ ’’کھیتی اگر ٹھیک ٹھاک ہوئی، تو ایک موسم میں ہمیں اتنا اناج مل جاتا تھا جو دس سال تک چلتا تھا۔ اب یہی چیزیں ہمیں خریدنی پڑتی ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
بہرحال، جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ مہنگائی اور قحط جیسے مسائل کو ذہن میں رکھ کر ووٹ دیں گی، تب آشا دیوی جواب میں کہتی ہیں، ’’لوگ کہتا ہے کہ بڑی مہنگائی ہے، کچھ نہیں کر رہے ہیں مودی جی۔ ہم لوگ تو اسی کو ابھی بھی چُن رہے ہیں،‘‘ وہ اس رپورٹر سے دو ٹوک لہجے میں کہتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ صرف ایک بچے کو پرائیویٹ اسکول بھیجنے کے قابل ہیں جہاں انہیں فیس کے طور پر ۱۶۰۰ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔
سال ۲۰۱۹ کے عام انتخابات میں ڈالے گئے کل ووٹوں میں ۶۲ فیصد اپنے حق میں لا کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے وشنو دیال رام نے جیت حاصل کی تھی۔ انہوں نے راشٹریہ جنتا دل کے گھورن رام کو ہرایا تھا۔ اس سال بھی وشنو دیال رام ہی بی جے پی کے امیدوار ہیں، جب کہ راشٹریہ جنتا دل کو ابھی اپنا امیدوار طے کرنا باقی ہے۔ اس پارلیمانی حلقہ میں ووٹروں کی کل تعداد ۱۸ لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
مہنگائی کے علاوہ خشک سالی اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ’’یہاں لوگوں کو پینے کے پانی کے بارے میں بھی سوچنا پڑتا ہے۔ گاؤوں کے زیادہ کنویں سوکھ چکے ہیں۔ ہینڈ پمپ میں بھی پانی بہت مشقت کے بعد ہی آتا ہے، اور وہ بھی بہت کم،‘‘ آشا دیوی بتاتی ہیں، اور ’’نہر بننے کے بعد سے تو اس میں پانی ہی نہیں دکھائی دیا ہے۔‘‘
ان کے پڑوسی اور ان کی ہی آدیواسی برادری کے رکن امریکہ سنگھ پچھلے دو سالوں میں تین لاکھ روپے کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پہلے کوئی دوسری پیداوار نہیں بھی تھی، تو ہم سبزیاں تو اُگا ہی لیتے تھے۔ لیکن اس سال میرا کنواں پوری طرح سوکھ چکا ہے۔‘‘
پلامو کے دوسرے کسانوں کی طرح امریکہ سنگھ بھی اس علاقے میں پانی کی قلت کو سب سے بڑا مسئلہ مانتے ہیں۔ ’’پانی کی کمی کی حالت میں کھیتی کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کنویں کے پانی کے بھروسے ہم کتنی کھیتی کر سکتے ہیں!‘‘
یہ مانا جاتا تھا کہ شمالی کوئل ندی پر بنے منڈل باندھ سے تھوڑی مدد ملے گی۔ ’’نیتا لوگ صرف وعدہ کرتے ہیں۔ سال ۲۰۱۹ میں مودی نے کہا تھا کہ منڈل باندھ پر ایک پھاٹک لگایا جائے گا۔ اگر وہ لگایا گیا ہوتا، تو پانی کی سپلائی کی امید تھی،‘‘ امریکہ سنگھ کہتے ہیں۔ ’’آپ ہی دیکھئے، مناسب قیمت کے مطالبہ کو لے کر کسانوں نے کتنا آندولن کیا! لیکن ان کی پرواہ ہی کسے ہے؟ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ سرکار کو اڈانی اور امبانی کے مفادات کی فکر ہے۔ وہ ان کے ہی قرض معاف کرے گی۔ لیکن کسانوں کا کیا؟‘‘
’’دیکھئے، ابھی تو بی جے پی کی سرکار ہے۔ جو تھوڑا بہت ہمیں مل رہا ہے، ان کی بدولت ہی مل رہا ہے۔ اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا، تو دوسری پارٹی نے بھی کہاں کچھ کیا!‘‘ کسان سریندر کہتے ہیں۔ وہ الیکٹورل بانڈ اور مہنگائی کے ایشو کو غیر ضروری بتاتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’وہ بڑے لوگوں کے مسائل ہیں۔ ہم اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں… سب سے بڑا مسئلہ پلامو ضلع میں خشک سالی کا ہے۔ یہاں کسان پانی کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔‘‘
سریندر کے پاس پلامو کے براؤں گاؤں میں قابل کاشت پانچ بیگھہ (ساڑھے تین ایکڑ) زمین ہے اور وہ کھیتی کے لیے بارش کے پانی پر منحصر ہیں۔ ’’لوگ لت (عادت) کے طور پر جوا کھیلتے ہیں۔ ہمارے لیے کھیتی کرنا جوا کھیلنے سے کم نہیں ہے۔‘‘
مترجم: قمر صدیقی