وولر جھیل کے کنارے کھڑے عبدالرحیم کاوا کہتے ہیں، ’’آج لگاتار چھٹا دن ہے جب بغیر کوئی مچھلی پکڑے واپس جا رہا ہوں۔‘‘ عبدالرحیم (۶۵) یہاں اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ایک منزلہ مکان میں رہتے ہیں۔
بانڈی پورہ ضلع کے کنی بٹھی علاقے میں واقع وولر، جہلم اور مدھومتی کے آبی چشمے سے مل کر جھیل بنتی ہے۔ وولر جھیل کے کنارے تقریباً ۱۸ گاؤوں آباد ہیں اور ہر گاؤں میں کم از کم ۱۰۰-۱۰۰ گھر ہیں۔ اور ان گاؤوں میں رہنے والے لوگوں کے معاش کا واحد ذریعہ یہی ایک جھیل ہے۔
عبدالرحیم کہتے ہیں، ’’مچھلی پکڑنا ہماری آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ لیکن، اب جھیل میں پانی ہی نہیں ہے۔‘‘ وہ کناروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اب ہم کنارے سے ہوتے ہوئے جھیل کو پیدل پار کر سکتے ہیں، کیوں کہ جھیل کے کناروں پر پانی چار یا پانچ فٹ ہی رہ گیا ہے۔‘‘
عبدالرحیم اپنے خاندان میں تیسری نسل کے ماہی گیر ہیں اور گزشتہ ۴۰ برسوں سے شمالی کشمیر کی اس جھیل میں مچھلی پکڑ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’بچپن میں میرے والد اپنے ساتھ لے آتے تھے۔ انہیں دیکھ کر میں نے مچھلی پکڑنا سیکھا۔‘‘ اب عبدالرحیم کے بیٹے بھی خاندانی پیشہ میں شامل ہو گئے ہیں۔
ہر صبح عبدالرحیم اور ان کے ساتھی مچھلی پکڑنے کے لیے وولر جھیل آتے ہیں۔ وہ مچھلی پکڑنے کے لیے نائلان کے دھاگے سے بنے جال کا استعمال کرتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ پانی میں جال پھینک کر مچھلی کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے ہاتھ سے تیار کردہ ڈرم بجاتے ہیں۔
وولر، ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے، لیکن پچھلے چار سالوں میں حالات بدل گئے ہیں۔ وولر کا پانی بہت زیادہ آلودہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے مچھلی پکڑنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ عبدالرحیم کہتے ہیں، ’’پہلے ہم سال میں کم از کم چھ مہینے مچھلی پکڑتے تھے۔ لیکن، اب ہم صرف مارچ اور اپریل میں ہی مچھلی پکڑنے آتے ہیں۔‘‘
جھیل کے آلودہ ہونے کی بنیادی وجہ سرینگر میں بہنے والی جہلم ندی کے ذریعے لایا گیا کچرا ہے۔ الگ الگ جگہوں سے بہہ کر آتی ہوئی اس ندی میں شہر کا کچرا جمع ہوتا رہتا ہے۔ اس جھیل کو ۱۹۹۰ کے رامسر کنونشن میں ’’بین الاقوامی اہمیت کے حامل آبستان‘‘ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ لیکن، اب یہ جھیل پرنالے، صنعتی کچرے اور باغبانی کے فضلے کی نالی بن کر رہ گئی ہے۔ عبدالرحیم یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’ایک وقت تھا جب جھیل کے بالکل درمیان میں ۴۰ سے ۵۰ فٹ گہرا پانی ہوا کرتا تھا، لیکن اب پانی گھٹ کر صرف ۸ سے ۱۰ فٹ ہی رہ گیا ہے۔‘‘
ان کی یادداشت واقعی میں اچھی ہے، کیوں کہ ہندوستانی خلائی تنظیم ’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘ کے ۲۰۲۲ کے ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جھیل ۲۰۰۸ سے ۲۰۱۹ کے درمیان ایک چوتھائی سکڑ گئی ہے۔
عبدالرحیم بتاتے ہیں کہ سات سے آٹھ سال پہلے تک وہ کشمیری اور پنجیاب [تمام غیر کشمیری اشیاء کے لیے استعمال کیا جانے والا مقامی لفظ] نام کی دو قسم کی گاڈ (مچھلی) پکڑ لیتے تھے پھر، پکڑی گئی مچھلیوں کو وہ وولر مارکیٹ میں ٹھیکہ داروں کے ہاتھوں بیچتے تھے۔ وولر کی مچھلیوں نے نہ صرف سرینگر، بلکہ پورے کشمیر کو ذائقہ فراہم کیا ہے۔
عبدالرحیم کہتے ہیں، ’’جب جھیل میں پانی تھا، تو مچھلیاں پکڑ کر اور اسے بیچ کر ایک دن میں ایک ہزار روپے کما لیتا تھا۔‘‘ جس دن وہ کم مچھلیاں پکڑ پاتے ہیں، اس دن اسے بیچنے کی بجائے گھر لے جاتے ہیں اور وہی کھاتے ہیں۔
آلودگی اور پانی کی سطح میں آئی کمی کے سبب مچھلیوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ اس لیے، اب ماہی گیروں کو مجبوراً نومبر سے فروری کے درمیان پانی سے سنگھاڑا نکالنے اور بیچنے جیسے دیگر کام کرنے پڑتے ہیں۔ وہ اسے مقامی ٹھیکہ داروں کے ہاتھوں ۳۰ سے ۴۰ روپے فی کلو کے حساب سے بیچتے ہیں۔
یہ فلم آلودگی کی شکار وولر جھیل کی کہانی بیان کرتی ہے، جس کے سبب ماہی گیر اپنا معاش کھو رہے ہیں۔
مترجم: قمر صدیقی