جب سدھو گاوڑے نے اسکول جانے کے بارے میں سوچا، تو ان کے ماں باپ نے ۵۰ بھیڑوں کا ایک ریوڑ ان کے حوالے کردیا۔ ان کی فیملی کے دوسرے لوگوں اور ان کے دوستوں کی طرح ان سے بھی یہی امید کی جاتی تھی کہ وہ بچپن سے ہی مویشیوں کو چرانے کا اپنا آبائی پیشہ اپنائیں گے؛ لہٰذا اسکول جانے کا ان کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو پایا۔
گاوڑے کا تعلق دھنگر برادری سے ہے، جن کا کام بکریوں اور بھیڑوں کو پالنا ہے۔ ان کی برادری مہاراشٹر میں خانہ بدوش قبیلہ کے طور پر درج ہے۔ سال میں چھ مہینے سے بھی زیادہ وقت تک وہ اپنے گھروں سے سینکڑوں کلومیٹر دور رہتے ہیں اور اپنے مویشیوں کو چراتے ہیں۔
ایک دن اپنے گھر سے تقریباً سو کلومیٹر دور جب وہ شمالی کرناٹک کے کاردگا گاؤں میں اپنی بھیڑیں چرا رہے تھے، تو انہوں نے اپنے ایک ساتھی چرواہے کو دھاگوں کی مدد سے گول گول پھندے بناتے ہوئے دیکھا۔ ’’مجھے یہ بہت دلچسپ کام لگا۔‘‘ اس بزرگ دھنگر (چرواہے) کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ کیسے اُس نے سوتی کے سفید دھاگے سے بنائے گئے پھندوں کی مدد سے ایک جالی (گول تھیلی) بنا ڈالی، جس کا رنگ اس کے مکمل ہونے تک دھیرے دھیرے بادامی بھورا ہوتا گیا تھا۔
اتفاق سے ہوئی اُس ملاقات نے چھوٹی عمر کے گاوڑے کو یہ ہنر سیکھنے کے لیے آمادہ کیا، جو آنے والے ۷۴ سالوں تک ان کے ساتھ جاری رہنے والا تھا۔
جالی ہاتھوں سے بُنی ہوئی کندھے پر لٹکائی جانے والی ایک متناسب تھیلی ہے، جو سوتی دھاگوں سے بنتی ہے اور کندھے کے چاروں طرف باندھی جاتی ہے۔ ’’اپنے [مویشیوں کو چرانے کے] لمبے سفر میں تقریباً ہر ایک دھنگر اس جالی کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے،‘‘ سدھو بتاتے ہیں۔ ’’اس کے اندر کم از کم ۱۰ بھاکری [روٹی] اور ایک جوڑی کپڑے آرام سے رکھے جا سکتے ہیں۔ بہت سے دھنگر اس میں پان کے پتّے، سپاڑی، تمباکو، چونا وغیرہ بھی رکھتے ہیں۔‘‘
اسے بنانے میں جس ہنر کی ضرورت پڑتی ہے اسے اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جالی کی ایک متعینہ پیمائش ہوتی ہے، لیکن اسے بنانے کے لیے چرواہے کسی اسکیل (فٹا) یا ورنیئر کیلیپرس کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ’’اس کی لمبائی ایک ہتھیلی اور چار انگلی کے برابر ہونی چاہیے،‘‘ سدھو بتاتے ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی ہر ایک جالی کم از کم ۱۰ سال تک چلتی ہے۔ ’’یہ بارش میں بھیگنی نہیں چاہیے۔ اس کے علاوہ، چوہوں کو بھی اسے کاٹنے میں بڑا مزہ آتا ہے، لہٰذا، اسے بہت حفاظت سے رکھنا ہوتا ہے۔‘‘
سدھو آج کاردگا میں سوتی دھاگے کی مدد سے جالی بنانے والے واحد کسان بچے ہیں۔ ’’کنّڑ میں اسے جالگی کہتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ کاردگا، مہاراشٹر اور کرناٹک کی سرحد پر واقع بیلگاوی ضلع کے چکوڑی تعلقہ کے قریب ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً ۹۰۰۰ لوگ رہتے ہیں، جو مراٹھی اور کنڑ دونوں زبانیں بولتے ہیں۔
اپنے بچپن کے دنوں میں سدھو اُن ٹرکوں کا انتظار کرتے رہتے تھے جن میں سوتی (کپاس کے ریشے یا دھاگے) آیا کرتے تھے۔ ’’تیز چلنے والی ہواؤں کی وجہ سے، پاس سے گزرتے ٹرکوں سے دھاگے نیچے گر جاتے تھے اور میں انہیں اکٹھا کیا کرتا تھا۔‘‘ وہ ان دھاگوں کے پھندے (گانٹھ) بنا کر ان سے کھیلتے تھے۔ ’’مجھے یہ ہنر کسی نے سکھایا نہیں ہے۔ بلکہ، میں نے اسے ایک مہاتارا [بزرگ] دھنگر کو دیکھ کر سیکھا تھا۔‘‘
پہلے سال میں سدھو نے صرف پھندا بنانا سیکھا اور گانٹھ بنانے کی کوشش بہت بار کی۔ ’’آخرکار اپنی بھیڑوں اور کتے کے ساتھ ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد، میں نے یہ مشکل ہنر سیکھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اصل کاریگری اس بات میں ہے کہ اس دائرہ کار تھیلی کے سبھی پھندے ایک دوسرے سے برابر فاصلہ پر رہیں، اور جالی کے مکمل طور پر تیار ہرنے تک یہ شکل ویسی ہی بنی رہے۔‘‘ حیرت کی بات یہ ہے کہ بُنائی کے لیے وہ سوئیوں کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔
چونکہ پتلے دھاگے سے اچھی گانٹھ نہیں تیار ہو سکتی ہے، اس لیے سب سے پہلا کام سدھو یہ کرتے ہیں کہ وہ دھاگے کی موٹائی کو بڑھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے کسی بڑے لچھّے سے وہ تقریباً ۲۰ فٹ کا ایک سفید دھاگہ لیتے ہیں۔ وہ اسے لکڑی کے ایک روایتی آلہ سے باندھ دیتے ہیں۔ اس آلہ کو تکلی یا مراٹھی میں ’بھنگری‘ کہتے ہیں۔ تکلی (یا تکلہ) لکڑی سے بنا ایک لمبا اوزار ہوتا ہے، جس کا ایک سرا مشروم کی طرح خمدار ہوتا ہے اور دوسرا سرا نوک دار ہوتا ہے۔ یہ اوزار تقریباً ۲۵ سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔
پھر وہ ۵۰ سال پرانی ببول کی لکڑی سے بنی تکلی کو اپنے دائیں پیر پر رکھ کر تیزی سے گھماتے ہیں۔ گھومتی ہوئی تکلی کو روکے بغیر وہ اسے اپنے بائیں ہاتھ سے اٹھاتے ہیں اور دھاگے کو اس سے کھینچنے لگتے ہیں۔ ’’یہ دھاگے کی موٹائی کو بڑھانے کا ایک روایتی طریقہ ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ تقریباً ۲۰ فٹ کے پتلے دھاگے کو موٹا کرنے میں دو گھنٹے کا وقت لگ جاتا ہے۔
سدھو دھاگے کو موٹا بنانے کے لیے ابھی بھی اسی روایتی طریقہ کا استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ جیسا وہ بتاتے ہیں، موٹا دھاگہ خریدنا انہیں مہنگا پڑتا ہے۔ ’’ تین پدراچہ کراوا لاگتوئے [تین دھاگوں کو ملانے کے بعد موٹا دھاگہ ملتا ہے]۔‘‘ بہرحال، پیر پر رکھ کر تکلی گھمانے کے سبب ہونے والی رگڑ سے وہاں سوجن ہو جاتی ہے۔ ’’ مگر کائے ہوتئے، دون دیوس آرام کرائیچہ [تب کیا ہوتا؟ دو دن آرام کرنا پڑتا ہے]،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
سدھو بتاتے ہیں کہ تکلی اب بہت مشکل سے ملتی ہے۔ ’’نئے بڑھئی مستری اسے بنانا نہیں جانتے ہیں۔‘‘ سال ۱۹۷۰ کی دہائی کی شروعات میں انہوں نے گاؤں کے ایک مستری سے ۵۰ روپے میں اسے خریدا تھا۔ یہ اُس زمانے کے حساب سے ایک خاصی موٹی رقم تھی، جب اچھے قسم کا ایک کلو چاول صرف ایک روپیہ میں ملتا تھا۔
ایک جالی بنانے کے لیے وہ تقریباً دو کلو سوتی دھاگہ خریدتے ہیں، اور دھاگے کی موٹائی اور کثافت کے مطابق وہ اس سے کئی کئی فٹ لمبے دھاگے نکالتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک وہ نو کلومیٹر دور مہاراشٹر کے ریندال گاؤں سے سوتی دھاگے خریدتے تھے۔ ’’اب ہمیں اپنے ہی گاؤں میں دھاگہ مل جاتا ہے اور معیار کی بنیاد پر اس کی قیمت ۸۰ سے ۱۰۰ روپے فی کلو ہوتی ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ۹۰ کی دہائی میں یہی دھاگہ صرف ۲۰ روپے فی کلو ملتا تھا، اور اسی قیمت پر دو کلو دھاگہ وہ بھی خریدتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جالی بُننے کا ہنر روایتی طور پر مردوں کا کام ہے، لیکن ان کی آنجہانی بیوی مایاوّا دھاگے کو موٹا بنانے میں ان کی مدد کرتی تھیں۔ ’’وہ ایک بہترین کاریگر تھیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ مایاوّا کڈنی خراب ہو جانے کی وجہ سے ۲۰۱۶ میں چل بسیں۔ ’’ان کا غلط علاج ہوا۔ ہم ان کے استھما (دمّہ) کا علاج کرانے گئے تھے، لیکن غلط دواؤں کے سائیڈ افیکٹ کی وجہ سے ان کی کڈنی خراب ہو گئی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
سدھو کے مطابق، ان کی بیوی کی طرح برادری کی عورتیں بھیڑوں کے بال کاٹنے اور ان سے اون بنانے کے کام میں ماہر ہوتی ہیں۔ اس کے بعد دھنگر ان دھاگوں کو سَنگروں کو دے دیتے ہیں، جو کرگھے (پِٹ لوم) پر ان دھاگوں سے گھونگڈی (اونی کمبل) بناتے ہیں۔ پِٹ لوم گڑھے میں فٹ کیا گیا ایک کرگھا ہوتا ہے، جس پر بُنکر پیڈلوں کی مدد سے بُنائی کا کام کرتے ہیں۔
وقت کی دستیابی اور ضرورت کے مطابق سدھو دھاگوں کی موٹائی طے کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ انگلیوں کی مدد سے بُنائی کرتے ہیں۔ یہ جالی کی بُنائی کا سب سے پیچیدہ کام ہے۔ وہ دھاگوں کے پھندوں کی انٹر لیسنگ یا اندرونی بُنائی کی مدد سے ایک سلپ ناٹ (رسیوں کے تاننے سے کسنے یا کھل جانے والی گانٹھ) بناتے ہیں۔ ایک تھیلی بنانے کے لیے وہ ۲۵ پھندوں والی ایک زنجیر بناتے ہیں اور اسے برابر فاصلہ پر ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔
’’سب سے مشکل کام اس کی شروعات کرنا اور گول پھندے بنانا ہے۔‘‘ وہ ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ گاؤں میں ۳-۲ دھنگر ہی جالی بنانے کا ہنر جانتے ہیں، لیکن ’’دائرہ کار شکل بنانے میں انہیں مشکل پیش آتی ہے، جب کہ جالی بنانے کی بنیاد یہی ہے۔ اس لیے اب اس کام کو کوئی نہیں کرتا۔‘‘
سدھو اس دائرہ کار شکل کو بنانے میں ۱۴ گھنٹے سے بھی زیادہ وقت لگاتے ہیں۔ ’’اگر آپ سے ایک بھی غلطی ہو جاتی ہے، تو آپ کو سب کچھ نئے سرے سے دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ایک جالی بنانے میں کم از کم ۲۰ دن لگتے ہیں۔ گزشتہ ۷۰ سالوں میں وہ کئی دھنگروں کے لیے ۱۰۰ سے بھی زیادہ جالیاں بنا چکے ہیں۔ اس کاریگری میں مہارت حاصل کرنے کے لیے وہ ابھی تک اپنے ۶۰۰۰ گھنٹے لگا چکے ہیں۔
سدھو کو عزت و احترام سے لوگ ’پٹکر مہاتار‘ (پگڑی والے بزرگ) بھی کہتے ہیں۔ وہ روزانہ سفید پگڑی (صافہ) پہنتے ہیں۔
بڑھاپے کے باوجود وہ گزشتہ نو سالوں سے مشہور واری تہوار کے موقع پر وٹھوبا مندر تک پیدل جاتے ہیں۔ یہ مندر مہاراشٹر کے سولاپور ضلع کے پنڈھر پور گاؤں میں ہے اور ان کے گاؤں سے تقریباً ۳۵۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ پورے مہاراشٹر اور شمالی کرناٹک کے متعدد ضلعوں سے عقیدت مند آشاڑھ (جون/جولائی) اور کارتک (دیوالی کے بعد اکتوبر/نومبر) مہینے میں گروپوں میں وہاں جاتے ہیں۔ اس پد یاترا (پیدل سفر) میں وہ بھکتی (عقیدت کے) گیت، جسے ’ابھنگ‘ کہتے ہیں، اور سنت تُکارام، گیانیشور اور نام دیو کی نظمیں گاتے ہوئے جاتے ہیں۔
’’میں کوئی سواری نہیں لیتا ہوں۔ وٹھوبا آہے ماجھیا سوبت۔ کاہی ہیں ہوت ناہیں [میں جانتا ہوں وٹھوبا میرے ساتھ ہیں، اور مجھے کچھ نہیں ہوگا]،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اس پیدل سفر کو پورا کرنے میں انہیں ۱۲ دن لگے۔ اس سفر کے دوران وہ جہاں بھی آرام کرنے کے لیے رکے، پھندے بنانے کے لیے سوتی دھاگے نکال لیتے تھے۔
سدھو کے آنجہانی والد، بالو بھی جالی بناتے تھے۔ چونکہ اب جالی بنانے والا کوئی دوسرا کاریگر نہیں ہے، تو زیادہ تر دھنگر خریدے ہوئے کپڑے کی تھیلی استعمال کرتے ہیں۔ سدھو کہتے ہیں، ’’ان کو بنانے میں جتنا وقت، محنت اور پیسہ لگتا ہے، اسے دیکھتے ہوئے اب اس ہنر کو زندہ رکھ پانا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ سوت خریدنے میں وہ تقریباً ۲۰۰ روپے خرچ کرتے ہیں، جب کہ ایک تیار جالی صرف ۳۰۰-۲۵۰ روپے میں ہی فروخت ہوتی ہے۔ ’’ کاہی ہی اُپیوگ ناہی [اس کا کوئی مطلب نہیں ہے]،‘‘ وہ اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔
ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ ان کے بیٹوں- ملپّا (۵۰) اور کلپّا (۳۵) نے اب بھیڑ چرانے کا کام چھوڑ دیا ہے اور اپنی ایک ایک ایکڑ زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔ وہیں، بالو (۴۵) کھیتی کرنے کے ساتھ ساتھ ۵۰ بھیڑوں کے اپنے ریوڑ کو پالنے کے لیے دور دراز کا سفر کرتے ہیں۔ ان کی بیٹی شانا، جو تقریباً ۳۰ سال کی ہیں، ایک خاتون خانہ ہیں۔
ان کے بیٹوں میں سے کسی نے یہ ہنر نہیں سیکھا ہے۔ ’’ شیکلی بی ناہیت، تیانا جمت بی ناہی آنی تیانی ڈوسک گھاتل ناہی [انہوں نے نہ یہ سیکھا، نہ انہوں نے کبھی اس کی کوشش کی، اور نہ کبھی اس کی طرف دھیان ہی دیا]۔‘‘ وہ ایک سانس میں یہ بات کہتے ہیں۔ لوگ ان کا کام پوری توجہ سے دیکھتے ہیں، لیکن ان کے مطابق کوئی بھی ان سے یہ کام سیکھنے نہیں آیا۔
ان پھندوں کو بنانا، دیکھنے میں بہت آسان لگتا ہے، لیکن یہ بہت مشکل کام ہے۔ کئی بار سدھو اس کی وجہ سے جسمانی تکلیفوں سے بھی گزرتے ہیں۔ ’’ ہاتالا مونگیا یتات [کوئی سوئی کے چبھنے کا احساس]،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اس کام کی وجہ سے ان کی پیٹھ میں درد اور آنکھوں میں تناؤ جیسی پریشانیاں ہوتی ہیں۔ کچھ سال پہلے موتیابند کے سبب ان کی دونوں آنکھوں کا آپریشن بھی ہو چکا ہے اور اب انہیں چشمہ لگانا پڑتا ہے۔ انہی وجہوں سے اب ان کی رفتار پہلے کی طرح تیز نہیں رہی، لیکن اس ہنر کو زندہ رکھنے کا ان کا جنون ابھی بھی پہلے کی طرح ہی برقرار ہے۔
جنوری ۲۰۲۲ کے گراس اینڈ فوریج سائنس میں ہندوستان میں چارے کی پیداوار پر شائع ایک تحقیقی مقالہ کے مطابق، ہندوستان ہرے چاروں کے ساتھ ساتھ مویشیوں کی غذائی اجناس اور فصلوں کی سوکھی باقیات کے بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ حالت مویشیوں کے سنگین غذائی بحران کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
چارے کی کمی اُن متعدد وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے گاؤں میں اب کچھ ہی دھنگر بکری اور بھیڑ پالنے کا کام کرتے ہیں۔ گزشتہ ۷-۵ برسوں میں ہماری بے شمار بھیڑ بکریاں موت کی شکار ہوئی ہیں۔ کسانوں کے ذریعے گھاس پھوس اور حشرہ کش کیمیکل کے اندھا دھند استعمال کی وجہ سے یہ حالت پیدا ہوئی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ زراعت اور کسانوں کی بہبود کی وزارت کے مطابق، کرناٹک کے کاشتکاروں نے اکیلے ۲۳-۲۰۲۲ میں ۱۶۶۹ میٹرک ٹن کیمیاوی حشرہ کش کا استعمال کیا۔ سال ۱۹-۲۰۱۸ میں یہ مقدار ۱۵۲۴ میٹرک ٹن تھی۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ بھیڑ بکریاں پالنا اب بہت مہنگا کام ہے۔ ان کے علاج میں ہونے والے خرچ پر عموماً کسی کی توجہ نہیں جاتی ہے۔ ’’ہر سال مویشی پروروں کو مویشیوں کی دواؤں اور سوئیوں پر تقریباً ۲۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، کیوں کہ بھیڑ بکریاں بار بار بیمار پڑتی ہیں۔‘‘
وہ بتاتے ہیں کہ ہر بھیڑ کو سالانہ چھ ٹیکے لگوانے ضروری ہیں۔ ’’کوئی بھیڑ زندہ رہتی ہے، تبھی ہم اس سے کچھ کمائی کر سکتے ہیں۔‘‘ اس علاقے کے کسان اپنی ایک ایک انچ زمین پر گنّا اُگانا چاہتے ہیں۔ سال ۲۰۲۲-۲۰۲۱ میں ہندوستان نے ۵۰۰ ملین میٹرک ٹن سے بھی زیادہ گنّے کی پیداوار کرکے دنیا میں سب سے زیادہ گنّے کی پیداوار اور کھپت کرنے والے ملک کا مقام حاصل کیا تھا۔
سدھو نے بھیڑ اور بکری پالنے کا کام بیس سال پہلے ہی بند کر دیا تھا اور اپنے ۵۰ سے بھی زیادہ مویشیوں کو اپنے بیٹوں کے درمیان تقسیم کر دیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بارش ہونے میں تاخیر کے سبب کیسے ان کی کھیتی متاثر ہوئی۔ ’’اسی سال جون سے جولائی کے وسط تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے میری تین ایکڑ زمین خالی پڑی رہی۔ میرے پڑوسی نے میری مدد کی، تو میں کسی طرح مونگ پھلی اُگانے میں کامیاب رہا۔‘‘
لو (گرم ہوا) کے تھپیڑوں میں آئی تیزی اور بے ترتیب بارش کے موسمیاتی پیٹرن میں آئی اس تبدیلی کے سبب کھیتی باڑی اب چیلنجز سے بھرا کام ہو گیا ہے۔ ’’پہلے والدین بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے انہیں بھیڑ بکریاں سونپ جاتے تھے۔ اب وقت اتنا بدل گیا ہے کہ کوئی مفت میں بھی ملنے والے مویشیوں کو لینے کے لیے راضی نہیں ہے۔‘‘
یہ اسٹوری سنکیت جین کے ذریعے دیہی کاریگروں پر لکھی جا رہی سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا مالی تعاون حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز