ہمالیہ کے دھولادھار کوہستانی سلسلہ میں واقع دھرم شالہ میں ۳۰ اپریل، ۲۰۲۳ کو پہلا ’پرائڈ‘ مارچ نکالا گیا۔
لوگوں کے ہاتھوں میں تختیاں تھیں، جن پر لکھا تھا، ’دِس ہوم اِز فار یو، می، ہم، ہر، دے، دیم‘ [یہ گھر آپ کے، میرے، اس کے، ان کے لیے ہے]۔ ہم جنس پرست افراد کا یہ قافلہ مین مارکیٹ سے دلائی لامہ مندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بعد میں یہ لوگ پریڈ کرتے ہوئے کوتوالی بازار پہنچ گئے، جو کہ دھرم شالہ کا ایک مصروف علاقہ ہے۔ یہ ہماچل پردیش میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی حمایت میں نکالی گئی پہلی عوامی ریلی تھی، جس میں ریاست کے گاؤوں اور چھوٹے شہروں کے بھی بہت سارے لوگوں نے شرکت کی۔
ہماچل کوئئر فاؤنڈیشن (ایچ کیو ایف) کے شریک بانی اور اس ریلی کے منتظمین میں سے ایک، ڈان ہسر کہتے ہیں، ’’ہم ’عجیب‘ لفظ کو بڑے فخر سے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ اس لفظ کے انتخاب کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ۳۰ سالہ ڈان ہسر مزید کہتے ہیں، ’’نرالا پن یا عجیب کو بیان کرنے کے لیے ہم انگریزی لفظ ’کوئئرنیس‘ کا استعمال کرتے ہیں، لیکن ہندی اور علاقائی بولیوں کے معاملے میں کیا کیا جائے؟ اس لیے ہم علاقائی زبانوں میں لکھے گئے گیتوں اور کہانیوں کی مدد سے جنس پرست افراد کی شناخت اور اس کی لچک کے بارے میں بات کرتے ہیں۔‘‘
اس پرائڈ مارچ میں دہلی، چنڈی گڑھ، کولکاتا، ممبئی، اور ہماچل پردیش کے چھوٹے شہروں سے ۳۰۰ افراد نے حصہ لیا، جنہیں کچھ دنوں پہلے ہی اس کی اطلاع دی گئی تھی۔ شملہ کے رہنے والے ۲۰ سالہ آیوش، ابھی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔ انہوں نے بھی اس پرائڈ مارچ میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے بتایا، ’’یہاں [ہماچل پردیش میں] کوئی بھی اس پر [ہم جنس پرست ہونے کے بارے میں] بات نہیں کرتا ہے۔‘‘ آیوش کو اسکول میں پڑھائی کے دوران باتھ روم کا استعمال کرنے میں کافی مشکل پیش آتی تھی۔ ’’میری کلاس کے لڑکے میرا مذاق اڑاتے تھے، مجھے پریشان کرتے تھے۔ جب مجھے آن لائن اس کمیونٹی کے بارے میں پتہ چلا، تو میں پہلے کی بہ نسبت خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرنے لگا۔ یہاں مجھے ایسے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا، جو مجھے اچھی طرح سمجھتے تھے۔‘‘
آیوش، کالج میں اس موضوع پر بات چیت شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ مذاکراتی حلقوں کا اہتمام کرتے ہیں، جس میں ایک پروفیسر بطور صلاح کار ان کی مدد کر رہے ہیں۔ لوگ صنف اور جنسیت کے بارے میں جاننے، کچھ شیئر کرنے اور سوال پوچھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
ششانک، ہماچل کوئئر فاؤنڈیشن کے شریک بانی ہیں اور کانگڑا ضلع کی پالمپور تحصیل کے ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں ہمیشہ خود کو سب سے الگ تھلگ محسوس کرتا تھا۔ آخر میں، سوشل میڈیا کے ذریعے میں ان لوگوں سے ملا جو اسی قسم کے چیلنجز کا سامنا کر رہے تھے – ان میں سے کئی لوگ شرمندگی یا احساس جرم میں مبتلا تھے۔ یہاں تک کہ میں جب ڈیٹ [رومانوی ملاقات] پر جاتا تھا، تو بھی ہم یہی بات کرتے تھے کہ ہم لوگ خود کو کتنا الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔‘‘ ان تمام چیزوں کی وجہ سے ششانک نے ۲۰۲۰ میں ایک کرائسس [ناگہانی] ہیلپ لائن کی شروعات کی، جس کا ایک مخصوص نمبر بھی ہے۔
ششانک نے ایک بہت ضروری بات کہی، ’’دیہی علاقوں کے ہم جنس پرستوں کی آوازیں کہاں ہیں؟‘‘ وہ اس بات کو لے کر شملہ ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کرنے والے ہیں کہ ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون، ۲۰۰۹ کے کچھ التزامات کو ہماچل پردیش میں نافذ نہیں کیا گیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس ریلی کا اہتمام کرنے کے لیے ہماچل پردیش کے الگ الگ حصوں سے ۱۳ لوگوں نے ایک منتظمہ کمیٹی بنائی۔ کولکاتا سے تعلق رکھنے والے ڈان ہسر بتاتے ہیں، ’’ہم نے دو ہفتے میں ہی پورا انتظام کر لیا۔‘‘ دھرمہ شالہ کی ایک تبتی بستی، میکلوڈ گنج میں ریلی نکالنے کے لیے منتظمین نے سب سے پہلے وہاں کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے اجازت حاصل کی۔
اس کے بعد، ایچ کیو ایف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈال کر لوگوں کو اس کی جانکاری دی، جسے لوگوں کا پرجوش ردعمل ملا۔ منتظمین میں سے ایک، منیش تھاپا کہتے ہیں، ’’پرائڈ میں مارچ کرنے کے لیے ہمت چاہیے۔ ہم یہاں [چھوٹے شہروں میں] بات چیت شروع کرنا چاہتے تھے۔‘‘
ڈان ہسر کے مطابق، ان کی یہ ریلی ذات اور طبقہ کے مظلومین اور زمین اور ریاست سے محروم لوگوں کی حمایت میں بھی تھی۔ جیسا کہ ایک تختی پر لکھا تھا، ’ذات پات کے خاتمہ کے بغیر ہم جنس پرست افراد کی آزادی ممکن نہیں۔ جے بھیم!‘
اس پرائڈ مارچ کا اہتمام اتوار کے روز کیا گیا تھا، جس نے شہر کے تجارتی علاقوں سے ہوتے ہوئے ۹۰ منٹ میں ۲ء۱ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ ناچنے اور بات کرنے کے لیے وہ درمیان میں جگہ جگہ رک بھی رہے تھے۔ اس راستے کے بارے میں پوچھنے پر منیش تھاپا کہتے ہیں، ’’[بازار میں] تقریباً ۳۰۰ چھوٹی دکانیں ہیں۔ ہمارے لیے ضروری تھا کہ ہم مرکزی سڑک سے ہو کر جائیں، تاکہ لوگ ہمیں دیکھ سکیں۔‘‘
نیشنل پورٹل فار ٹرانس جینڈر پرسنز سے پتہ چلتا ہے کہ ۲۰۱۹ میں اس کے قیام کے بعد سے ہماچل پردیش نے صرف ۱۷ ٹرانس شناختی کارڈ جاری کیے ہیں۔
ڈان ہسر کے مطابق، ’’ہماچل پردیش کے کانگڑا ضلع کا میں پہلا شخص ہوں، جسے ٹرانس شناختی کارڈ جاری کیا گیا تھا۔ اس کے لیے مجھے بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑی۔ لیکن اُن لوگوں کا کیا، جنہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اپنے حقوق کیسے حاصل کیے جائیں؟ کوئی ریاستی فلاحی بورڈ نہیں ہے؛ محفوظ رہائش گاہ اور فلاحی اسکیمیں کہاں ہیں؟ سرکاری اہلکار اس کے بارے میں سنجیدہ کیوں نہیں ہیں؟‘‘
پرائڈ مارچ کو دور سے دیکھ رہے کئی مقامی لوگوں کے درمیان بیداری کی کمی نظر آئی۔ آکاش بھاردواج، کوتوالی بازار میں ایک کرایے کی دکان چلاتے ہیں، جہاں وہ الیکٹرانکس اور اسٹیشنری کے سامان بیچتے ہیں۔ وہ اس دن دور سے اس ریلی کو دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار یہ ریلی دیکھی اور مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں ہے کہ وہ لوگ کیا کر رہے ہیں، لیکن انہیں ڈانس کرتے ہوئے دیکھ کر اچھا لگا۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔‘‘
دھرم شالہ میں گزشتہ ۵۶ برسوں سے رہتے چلے آ رہے نونیت کوٹھیوال کو ریلی میں لوگوں کو ناچتے ہوئے دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ ’’یہ سب میں نے پہلی بار دیکھا ہے اور اسے دیکھ کر اچھا لگا۔‘‘
حالانکہ، جب انہیں ریلی کے مقصد کے بارے میں پتہ چلا، تو ان کی سوچ بدل گئی۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب صحیح ہے۔ انہیں ان سب کے لیے آواز نہیں اٹھانی چاہیے، کیوں کہ یہ لوگ جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ قدرتی چیز نہیں ہے۔ انہیں بچے کیسے ہوں گے؟‘‘
ڈان ہسر کہتے ہیں، ’’ہم ماریکو [تبت کی پہلی ٹرانس خاتون] کے آنے سے بہت خوش تھے۔‘‘
ریلی جب دلائی لامہ مندر پہنچی، تو وہاں ایک تبتی بھکشو سیرنگ دور سے کھڑے اس ریلی کو وہاں سے گزرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں اور کئی ممالک نے انہیں شادی کرنے کے اختیارات دے دیے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہندوستان میں بھی ایسا ہو جائے۔‘‘
بھلے ہی ۲۰۱۸ میں تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۷۷ کو منسوخ کر دیا گیا ہو، لیکن ابھی ہم جنس جوڑوں کی شادی کو قانونی منظوری حاصل نہیں ہے۔ ہندوستان کے سپریم کورٹ نے اسی مہینے ہم جنس پرستوں کی شادی سے متعلق عرضیوں پر سماعت ختم کی ہے اور اس پر فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
نیلم کپور نام کی ایک خاتون پولیس ریلی کے دوران ٹریفک کو کنٹرول کر رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اپنے حقوق کے لیے لڑنا اچھی بات ہے۔ سبھی کو اپنے بارے میں سوچنا چاہیے۔ کہیں سے اس کی شروعات ہونی ہے، تو یہیں سے کیوں نہ ہو؟‘‘