’’اب ٹی وی اور موبائل آ گیا ہے۔ لوگ اسی سے تفریح کرتے ہیں،‘‘ ڈھول (یا ڈھولک) کے چھلّے کو کستے ہوئے مسلم خلیفہ کہتے ہیں۔
مسلم خلیفہ ۱۲ویں صدی کے دو جانباز بھائیوں- آلہا اور اودل (کہیں کہیں اودل کی جگہ رودل بھی لکھا ہوا ملتا ہے) کی شجاعت کی داستان گاتے ہیں۔ فوک گلوکار اور ڈھول بجانے والے یہ فنکار بہار کے سمستی پور ضلع سے ہیں، اور تقریباً پانچ دہائیوں سے گھوم گھوم کر گاتے بجاتے ہیں؛ ان کی آواز میں ایک چٹخ اور تیکھاپن ہے، جو ان کے ایک ماہر گلوکار ہونے کی منادی کرتا ہے۔
اپریل و مئی کے مہینے میں دھان، گندم اور مکئی کی کٹائی کے سیزن میں وہ کھیتوں میں گھوم گھوم کر ڈھول کے ساتھ گانا بجانا کرتے ہیں اور کسانوں کو شجاعت کی داستان سناتے ہیں۔ تقریباً دو گھنٹے تک گیت سنانے کے عوض انہیں تقریباً ۱۰ کلو تک اناج مل جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’تین فصلوں کی کٹائی میں ایک مہینہ لگتا ہے، اس لیے اس پورے مہینہ کھیتوں میں گھومتے ہیں۔‘‘ شادی کے تین مہینے کے سیزن میں ان کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور اس دوران وہ ۱۰ سے ۱۵ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔
آلہا اودل کی داستان اتنی لمبی ہے کہ اگر پوری سنانے لگیں، تو کئی دن لگ جاتے ہیں اور اس کے لیے پوری توجہ سے سننے والے سامعین ہونے چاہئیں۔ خلیفہ کہتے ہیں، ’’آج کی تاریخ میں کون اتنا لمبا سنے گا؟‘‘ خالص پور گاؤں کے یہ ۶۰ سالہ لوک گلوکار اب اس فن کی مانگ میں کمی دیکھ رہے ہیں، جس کا سیدھا اثر ان کی آمدنی پر پڑ رہا ہے۔ وہ افسوس کے ساتھ بتاتے ہیں کہ خود ان کے بچوں کی آلہا اودل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
خلیفہ مذہب اسلام کے پیروکار ہیں، لیکن نٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو بہار میں درج فہرست ذات میں شامل ہے۔ بہار میں نٹ برادری کی آبادی ۵۸۸۱۹ ہے، لیکن مئی میں پاری سے بات چیت کرتے ہوئے مسلم خلیفہ کہتے ہیں، ’’دس بیس گاؤوں میں مشکل سے ایک آدھ ایسے [آلہا اودل] گلوکار ملتے ہیں۔‘‘
خالص پور گاؤں میں ان کی جھونپڑی میں کھونٹی پر ایک ڈھول ٹنگا ہوا ہے۔ سونے کے لیے کمرے میں ایک چوکی (تخت) رکھی ہے اور کچھ سامان پڑا ہوا ہے۔ اسی جھونپڑی میں چھ نسلوں سے مسلم خلیفہ کے آباء و اجداد رہتے آئے تھے؛ اب وہ یہاں اپنی بیوی مومنہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہم نے جب ان سے آلہا اودل کی داستان سنانے کی گزارش کی، تو انہوں نے شام کے وقت کو گلوکاری کے موافق نہ ہونے کی بات کہہ، اگلی صبح آنے کے لیے کہا۔ اگلی صبح ہم جب ان کے گھر پہنچے، تو چوکی پر ڈھول رکھا ہوا تھا اور وہ اپنی پتلی مونچھوں میں خضاب لگا رہے تھے۔
اگلے پانچ منٹ تک انہوں نے ڈھول کے دونوں سروں پر لگے چمڑے کو کسنے کے لیے اس میں بندھے پیتل کے چھلوں کو رسی کی دوسری طرف کیا، اور ڈھول کو انگلیوں سے بجا کر اس بات کو یقینی بنایا کہ آواز ٹھیک آ رہی ہے کہ نہیں۔ اگلے پانچ منٹ تک انہوں نے گیت سنایا، جس میں آلہا اودل، بیتوا ندی، جنگ، ان کی شجاعت وغیرہ کا ذکر تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں وہ آلہا اودل گانے کے لیے ۱۰ کوس [تقریباً ۳۱ کلومیٹر] سے زیادہ کا سفر طے کرتے تھے۔
گانا سنانے کے بعد، انہوں نے ڈھول کے چھلے کو نیچے کرکے چمڑے کو ڈھیلا کیا اور واپس کھونٹے میں ٹانگ دیا۔ ’’چمڑے کو ڈھیلا نہیں کریں گے، تو خراب ہو جائے گا اور اگر بارش میں بجلی چمکی تو ڈھول پھوٹ بھی جاتا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے، نہیں پتہ۔‘‘
ان کے ڈھول کا ڈھانچہ لکڑی کا بنا ہوا ہے، اور تقریباً ۴۰ سال پرانا ہے۔ حالانکہ، رسی اور چمڑا وقتاً فوقتاً بدلتے رہتے ہیں، لیکن ڈھانچہ نہیں بدلتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ڈھول کا ڈھانچہ بچا ہوا ہے۔ اس میں سرسوں کا تیل پٹا دیتے ہیں۔ گھُن [دیمک] نہیں لگتا ہے۔‘‘
مسلم خلیفہ ۳۰-۲۰ سال پہلے کے دور کو آلہا اودل کے گلوکاروں کا سنہرا دور مانتے ہیں، جب ’بدیسیا ناچ‘ پروگراموں میں آلہا اودل گلوکاروں کی مانگ رہتی تھی۔ ’’بڑے زمیندار بھی اپنے یہاں بلاتے تھے یہ شجاعت بھری داستان سننے کے لیے۔‘‘
آلہا اودل کی شجاعت بھری داستان اتنی لمبی [۵۲ ابواب] ہے کہ اگر پوری سنانے لگیں، تو کئی دن لگ جاتے ہیں۔ خلیفہ کہتے ہیں، ’لیکن آج کی تاریخ میں کون اتنا لمبا سنے گا؟‘
بدیسیا، مشہور بھوجپوری ڈرامہ نگار آنجہانی بھکاری ٹھاکر کا ایک بیحد مشہور ناٹک ہے۔ روزگار کے لیے شہر کی طرف مہاجرت پر مبنی اس ناٹک کو گلوکاری اور رقص کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے۔
خلیفہ اس دور کو یاد کرتے ہیں جب زمیندار لوگ ان کے جیسے آلہا اودل گلوکاروں کی بہت خاطرداری کرتے تھے۔ ’’سال بھر گانے کی مانگ اتنی زیادہ رہتی تھی کہ فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ اتنا گاتے تھے کہ گلا بیٹھ جاتا تھا۔ کئی بار انہیں منع کرنا پڑتا تھا۔‘‘
*****
آلہا اودل کی داستان ہندوستان کی شمالی ریاستوں میں کافی مقبول رہی ہے۔ ’دی ورلڈ آف میوزک‘ رسالہ میں شائع کرین شومر کے مضمون کے مطابق، ۱۲ویں صدی میں اتر پردیش کے مہوبہ میں چندیل راجہ پرمال کی حکومت تھی۔ آلہا اور اودل، دو بھائی ان کے سپہ سالار تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ مہوبہ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالنے والے دونوں بھائی بہادر اور ماہر جنگجو تھے۔ آلہا اودل کی شجاعت پر مبنی یہ داستان مہوبہ اور دہلی کے درمیان ہوئی خطرناک جنگ کے ساتھ مکمل ہو جاتی ہے۔
مسلم خلیفہ کے مطابق، ان کے آباء و اجداد مہوبہ ضلع کے ہی رہنے والے تھے اور انہوں نے مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں وہاں سے بھاگ کر بہار میں پناہ لی تھی۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد راجپوت ذات سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آباء و اجداد جب بہار آئے، تو ان کے پاس آلہا اودل کی داستان گوئی کا ہنر تھا، لہٰذا انہوں نے اسے گانا شروع کیا اور آمدنی کا ذریعہ بنایا۔ تب سے ہی یہ ہنر ان کے خاندان میں نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔
والد سراج الخلیفہ کا جب انتقال ہوا، تب مسلم خلیفہ صرف دو سال کے تھے۔ پھر ان کی ماں نے اکیلے ہی ان کی پرورش کی۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہوش سنبھالا، تو جب کوئی گلوکار آلہا اودل گاتا تھا، ہم سننے چلے جاتے تھے، سرسوتی کی دین تھی کہ ایک بار جو گانا سن لیتے تھے، یاد ہو جاتا تھا۔ اسی [آلہا اودل کی داستان] کے دیوانے تھے، کسی اور کام میں من ہی نہیں لگتا تھا۔‘‘
اسی دور میں وہ رحمن خلیفہ نام کے ایک گلوکار کے رابطہ میں آئے، جنہیں وہ ’استاد‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ’’ہم، ان کے ساتھ پروگرام میں جاتے تھے۔ ان کی خدمت کرتے تھے، ان کا سامان ڈھوتے تھے۔‘‘ کبھی کبھی رحمٰن خلیفہ انہیں ڈھول پکڑا دیتے اور کہتے کہ گاؤ۔ ’’ان کے ساتھ رہتے ہوئے ہم نے آلہا اودل کی داستان کے ۲۰-۱۰ ابواب یاد کر لیے۔‘‘
خلیفہ پڑھے لکھے نہیں ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ انہیں پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ سرکاری اسکول بھی جایا کرتے تھے، لیکن ایک دن ایک ٹیچر نے انہیں پیٹ دیا، تو انہوں نے اسکول جانا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔
وہ کہتے ہیں، ’’سات آٹھ سال کی عمر رہی ہوگی۔ میری آواز شروع سے ہی اچھی تھی، تو اسکول میں ٹیچر مجھے خوب پسند کرتے تھے اور گانا گواتے تھے۔ ایک روز پرارتھنا گاتے وقت مجھ سے غلطی ہوگئی، تو ایک ٹیچر نے زور سے تھپڑ مار دیا۔ اس سے غصہ ہو کر میں نے اسکول جانا بند کر دیا۔‘‘
مسلم خلیفہ کی زندگی خود کسی داستان سے کم نہیں ہے۔ انہیں اس بات کا اطمینان ہے کہ آلہا اودل گا کر جس چیز کا شوق تھا اسے پورا کیا، لیکن ان کی زندگی میں کچھ افسوس بھی ہیں۔ اس ہنر کی بدولت انہوں نے اپنے چاروں بچوں کی پرورش کی، اور یہی ڈھول بجا بجا کر چاروں بچوں کی شادی کی۔ لیکن، اب وہ دور ختم ہو چکا ہے اور اس کام سے گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ اب ایک دو گھریلو تقریبات میں ہی انہیں مدعو کیا جاتا ہے، جس کے عوض انہیں ۳۰۰ سے ۵۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔
اُس وقت تو ان کا کلیجہ چاک ہی ہو گیا، جب ان کے اکلوتے بیٹے نے ایک دن پوچھ لیا کہ انہوں نے کیا اثاثہ بنایا۔ وہ تھوڑا اداس ہو کر کہتے ہیں، ’’یہ سن کر مجھے خاموش رہ جانا پڑا۔ تب خیال آیا کہ گانے بجانے سے تو سچ میں کوئی اثاثہ نہیں بنا پائے۔ اپنا گھر بنانے کے لیے ایک کٹھہ زمین تک نہیں خرید سکے۔ جہاں بھی گئے، وہاں عزت تو خوب ملی، مگر پیٹ پالنے لائق ہی کمائی ہوئی۔‘‘
وہ کہتے ہیں، ’’میری چھ پشتیں یہاں گزر گئیں۔ جس زمین پر میری جھونپڑی ہے، وہ تالاب کے کنارے کی سرکاری زمین پر ہے۔‘‘
ان کی بیوی مومنہ (۵۵ سالہ) ایک زمانے میں ماہر ٹیٹو (گودنا) کاریگر ہوا کرتی تھیں۔ اب وہ دمّہ کی مریض ہیں اور ٹھیک سے سن بھی نہیں پاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’پہلے ہم گاؤں گاؤں گھوم کر ہاتھ سے گودنا گودتے تھے۔ اب جسم میں طاقت ہی نہیں بچی کہ کوئی کام کریں۔ میرے شوہر ہی ہیں، جو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
خلیفہ کی زندگی میں ذاتی افسوس تو ہیں، مگر ایک بڑی ٹیس بھی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ نوجوان نسل کو آلہا اودل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، اور ان کے بعد فیملی میں اس ہنر کو آگے بڑھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
’’میرے باپ دادا اور ان کے آباء و اجداد آلہا اودل ہی گاتے تھے۔ اب میں گا رہا ہوں، لیکن میرے بیٹے نے یہ نہیں سیکھا۔ بچوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم لوگ شوق سے گانا بجانا شروع کیے تھے۔ لیکن ابھی کے بچوں کو اس پر چاق [دھیان] نہیں ہے۔‘‘
خلیفہ بتاتے ہیں، ’’پہلے شادیوں میں کھُردَک [شہنائی اور طبلہ جیسے آلات موسیقی کی سنگت] بجتا تھا۔ بعد میں اس کی جگہ انگریزی باجا [اس میں ڈرم، تُرہی، شہنائی، کی بورڈ وغیرہ ایک ساتھ بجائے جاتے ہیں] نے لے لی۔ انگریزی کے بعد آیا ٹرالی، جس میں انگریزی باجے کی دُھن پر مقامی گلوکار گانا گاتے ہیں، اور اب ڈی جے چل رہا ہے۔ باقی سارے ساز چلن سے باہر ہو گئے ہیں۔‘‘
’’دکھ ہوتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد اس فن کا نام و نشان ختم ہو جائے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر سمٹی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے گزری تھی۔
مترجم: محمد قمر تبریز