یہ بتانا مشکل ہوگا کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔‘‘
محمد شبیر قریشی (۶۸) اپنے اور ۵۲ سال کے اپنے پڑوسی اجے سینی کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ دونوں ایودھیا کے رہائشی ہیں اور رام کوٹ کے دوراہی کنواں علاقہ میں گزشتہ ۴۰ برسوں سے ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
دونوں خاندانوں کے درمیان کافی قربت ہے، ان کی ایک جیسی تشویشیں ہیں اور یہ لوگ ایک دوسرے پر کافی بھروسہ کرتے ہیں۔ اجے سینی یاد کرتے ہیں، ’’ایک بار جب میں کام پر تھا، تو گھر سے فون آیا کہ بیٹی بیمار ہے۔ جب تک میں گھر آتا، میری بیوی نے بتایا کہ قریشی فیملی ہماری بیٹی کو اسپتال لے گئی ہے، اور دوائیں بھی خریدی ہیں۔‘‘
پیچھے جس آنگن میں دونوں بیٹھے ہیں، وہاں بھینسیں، بکریاں اور آدھا درجن مرغیاں بھی موجود ہیں۔ دونوں خاندانوں کے بچے ادھر ادھر دوڑ بھاگ رہے ہیں، کھیل رہے ہیں اور آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔
یہ جنوری ۲۰۲۴ کا دن ہے، ایودھیا میں زور شور سے رام مندر کے افتتاح کی تیاری چل رہی ہے۔ نئی، بھاری بھرکم دوہرے بیریکیڈ والی لوہے کی باڑ ان کے گھروں کو مندر کے احاطہ سے الگ کرتی ہے۔
سینی تب نوجوان تھے، جب وہ اور ان کی فیملی ۸۰ کی دہائی میں قریشی کے بغل والے گھر میں رہنے آئی تھی۔ وہ تب بابری مسجد کے احاطہ میں رام کی مورتی دیکھنے آنے والے عقیدت مندوں کو ایک روپیہ میں پھولوں کی مالائیں بیچا کرتے تھے۔
قریشی فیملی بنیادی طور پر قصائی تھی۔ فیملی کے پاس ایودھیا شہر کے باہری علاقے میں گوشت کی ایک دکان ہوا کرتی تھی۔ سال ۱۹۹۲ کے دوران ہوئی آگ زنی میں گھر برباد ہونے کے بعد فیملی نے ویلڈنگ کا کام شروع کیا۔
’’ان بچوں کو دیکھئے…یہ ہندو ہیں…ہم مسلمان ہیں۔ یہ سبھی بھائی بہن ہیں،‘‘ قریشی آس پاس کھیل رہے سبھی چھوٹے بڑے پڑوس کے بچوں کی بھیڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ پھر مزید کہتے ہیں، ’’اب آپ ہمارے رہن سہن سے پتہ لگائیے کہ یہاں کون کیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کرتے۔‘‘ اجے سینی کی بیوی گڑیا سینی اس سے متفق ہیں اور کہتی ہیں، ’’اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا مذہب الگ ہے۔‘‘
ایک دہائی قبل، قریشی کی اکلوتی بیٹی نور جہاں کی شادی ہوئی تھی۔ اجے سینی بتاتے ہیں، ’’ہم اس میں شامل ہوئے تھے، مہمانوں کا استقبال اور ان کی خدمت کی تھی۔ ہمیں ایک خاندان کے فرد کے برابر ہی عزت ملتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہے۔‘‘
جلد ہی بات چیت رام مندر پر آ جاتی ہے، جسے اُس جگہ سے دیکھا جا سکتا ہے جہاں وہ بیٹھے ہیں۔ یہ عالیشان عمارت ابھی بھی بن رہی ہے، بڑے بڑے کرینوں سے گھری ہے، اور سردیوں کی دھند میں لپٹی ہے۔
قریشی نئے مندر کے اس شاندار ڈھانچہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو ان کے معمولی اینٹ گارے سے بنے گھر سے بمشکل کچھ فٹ دور ہے۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’وہ مسجد تھی، وہاں جب مغرب کے وقت اذان ہوتی تھی، تو میرے گھر میں چراغ جلتا تھا۔‘‘ وہ مسجد گرائے جانے سے کچھ عرصے پہلے کی بات بتا رہے ہیں۔
مگر جنوری ۲۰۲۴ کی شروعات میں صرف اذان کا خاموش ہونا ہی قریشی کو پریشان نہیں کرتا۔
سینی اس رپورٹر کو بتاتے ہیں، ’’ہمیں کہا گیا ہے کہ رام مندر احاطہ سے منسلک ان تمام گھروں کو خالی کرایا جائے گا۔ اپریل- مئی (۲۰۲۳) کے مہینوں میں محکمہ محصولات اراضی کے ضلعی حکام نے علاقے کا دورہ کیا تھا اور گھروں کی پیمائش کی تھی۔‘‘ ایسا اس لیے ہے، کیوں کہ سینی اور قریشی کا گھر مندر کے احاطہ اور دوہری بیریکیڈ والی گھیرابندی سے سٹا ہوا ہے۔
گڑیا مزید کہتی ہیں، ’’ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے گھر کے پاس اتنا بڑا مندر بنا ہے اور آس پاس یہ سب ترقی ہو رہی ہے۔ مگر ان چیزوں [نقل مکانی] سے ہماری مدد نہیں ہونے والی۔ ایودھیا کا کایا پلٹ ہو رہا ہے، پر ہم ہی لوگوں کو پلٹ کے۔‘‘
کچھ فاصلہ پر رہنے والی گیان متی یادو کا گھر پہلے ہی جا چکا ہے اور ان کی فیملی اب گائے کے گوبر اور خشک گھاس سے ڈھکی ایک عارضی پھوس کی جھونپڑی کے نیچے رہتی ہے۔ بیوہ گیان متی نئے ماحول میں فیملی کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑے گا، تاکہ رام کو اپنا مندر ملے۔‘‘ یادو فیملی دودھ بیچ کر اپنا گزارہ کرتی ہے۔
ان کا چھ کمروں پر مشتمل پختہ گھر اہیرانہ محلہ میں مندر کے سامنے داخلی دروازہ سے منسلک تھا، لیکن دسمبر ۲۰۲۳ میں اسے مسمار کر دیا گیا۔ ان کے بڑے بیٹے راجن کہتے ہیں، ’’وہ بلڈوزر لائے اور ہمارے گھر کو گرا دیا۔ جب ہم نے انہیں دستاویز، ہاؤس ٹیکس اور بجلی بل دکھانے کی کوشش کی، تو افسروں نے کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اُس رات چار بچوں، ایک بزرگ سسر اور چھ مویشیوں پر مشتمل فیملی بغیر چھت کے سردیوں کی ٹھنڈ میں کانپ رہی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا، ’’ہمیں کچھ بھی لے جانے نہیں دیا۔‘‘ ترپال کے ٹینٹ میں آنے سے پہلے ہی یہ فیملی دو بار جگہ بدل چکی ہے۔
گیان متی کہتی ہیں، ’’یہ میرے شوہر کا آبائی گھر تھا۔ پانچ دہائی سے بھی پہلے ان کی اور ان کے بھائی بہنوں کی پیدائش یہیں ہوئی تھی۔ مگر ہمیں کوئی معاوضہ نہیں ملا، کیوں کہ افسروں نے کہا کہ یہ نزول کی زمین تھی، جب کہ ہمارے پاس اپنا مالکانہ حق ثابت کرنے والے کاغذ موجود تھے۔‘‘
قریشی اور ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ اگر مناسب معاوضہ ملا، تو وہ ایودھیا شہر کی سرحد کے اندر زمین کا ایک ٹکڑا لے لیں گے، مگر یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی۔ شبیر کے چھوٹے بیٹوں میں سے ایک جمال قریشی کہتے ہیں، ’’یہاں ہمیں ہر کوئی جانتا ہے۔ ہمارے گہرے تعلقات ہیں۔ اگر ہم یہاں سے چلے جائیں اور [مسلم اکثریتی] فیض آباد میں بس جائیں، تو ہم دوسرے عام لوگوں کی طرح ہی ہو جائیں گے۔ ہم ایودھیا واسی [ایودھیا کے رہائشی] نہیں رہیں گے۔‘‘
یہی خیال اجے سینی کا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہماری عقیدت اس زمین سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر ہمیں کوئی ۱۵ کلومیٹر دور بھیج دے، تو ہماری عقیدت اور روزی روٹی دونوں ہی چھن جائیں گے۔‘‘
اپنے کام کی وجہ سے ہی سینی بھی گھر چھوڑ کر کہیں دور جانے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں یہاں سے نیا گھاٹ کے پاس ناگیشور ناتھ مندر میں پھول بیچنے کے لیے روزانہ ۲۰ منٹ سائیکل چلا کر جاتا ہوں۔ سیاحوں کی بھیڑ کے حساب سے میں روزانہ ۵۰ سے ۵۰۰ روپے تک کما لیتا ہوں۔ گھر چلانے کے لیے یہی میری آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ کسی بھی تبدیلی کا مطلب ہوگا ’’آنے جانے میں لمبا وقت اور اضافی خرچ۔‘‘
جمال کہتے ہیں، ’’ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے پیچھے ہی اتنا عالیشان مندر کھڑا ہے۔ اسے ملک کی عدالت عظمی نے عقیدت کی بناپر منظوری دی ہے اور اس کی مخالفت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہمیں یہاں رہنے نہیں دیا جائے گا۔ ہمیں بے دخل کیا جا رہا ہے۔‘‘
یہ خاندان پہلے ہی سی آر پی ایف جوانوں کے ساتھ ملٹری والے علاقے میں آباد ہونے کا دباؤ جھیل رہے ہیں۔ ان کے گھر کے پاس مندر کے پیچھے ایک واچ ٹاور پر پہرہ دیا جاتا ہے۔ گڑیا کہتی ہیں، ’’ہر مہینے الگ الگ ایجنسیاں یہاں رہنے والوں کی تصدیقی جانچ کے لیے چار بار آتی ہیں۔ اگر ہمارے یہاں مہمان اور رشتہ دار رات بھر رک جائیں، تو ان کے بارے میں پولیس کو بتانا ہوتا ہے۔‘‘
مقامی لوگوں کو اہیرانہ گلی اور مندر کے پاس کچھ سڑکوں پر سواری کرنے کی ممانعت ہے۔ اس کے بجائے انہیں ہنومان گڑھی کے درمیان پہنچنے کے لیے لمبا گھماؤدار راستہ لینا پڑتا ہے۔
۲۲ جنوری، ۲۰۲۴ کو رام مندر کی شاندار افتتاحیہ تقریب کے دوران دوراہی کنواں میں ان کے گھروں کے آگے کا راستہ سیاسی لیڈروں، وزیروں اور مشہور ہستیوں جیسے وی آئی پی لوگوں کا راستہ بن گیا تھا، جو وہاں بڑی تعداد میں آئے تھے۔
*****
۵ فروری ۲۰۲۴، بروز پیر کو ریاستی حکومت نے ۲۵-۲۰۲۴ کے لیے اپنا بجٹ پیش کیا اور اسے بھگوان رام کو وقف کیا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا، ’’بجٹ کے تصور، عہد اور ہر لفظ میں بھگوان شری رام ہیں۔‘‘ بجٹ میں ایودھیا میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے ۱۵۰۰ کروڑ روپے سے زیادہ دیے گئے ہیں۔ اس میں سیاحت کے فروغ کے لیے ۱۵۰ کروڑ روپے اور بین الاقوامی رامائن اور ویدک تحقیقی ادارہ کے لیے ۱۰ کروڑ روپے شامل ہیں۔
رام مندر کا احاطہ تقریباً ۷۰ ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے، وہیں مندر تقریباً ۷ء۲ ایکڑ میں بنا ہوا ہے۔ پورے پروجیکٹ کے پیسے شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ (ایس آر جے ٹی کے ٹی) سے آتے ہیں۔ یہ ٹرسٹ فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر اے) کے تحت رجسٹرڈ کچھ خاص اداروں میں شامل ہے، جسے غیر ملکی شہریوں سے عطیہ لینے کی اجازت ہے۔ ہندوستانی شہریوں کی طرف سے ٹرسٹ کو دیے گئے عطیہ پر ٹیکس میں چھوٹ ملتی ہے۔
مرکزی حکومت پہلے ہی ایودھیا کے لیے دل کھول کر پیسے مختص کر چکی ہے، جس میں ۱۱ ہزار ۱۰۰ کروڑ روپے کے ’ترقیاتی‘ پروجیکٹوں کے ساتھ ریلوے اسٹیشن کی از سر نو تعمیر کے لیے ۲۴۰ کروڑ روپے اور نئے ہوائی اڈے کے لیے ۱۴۵۰ کروڑ روپے کی تجویز ہے۔
افتتاح کے بعد مزید اٹھا پٹک کا خدشہ ہے۔ مُکیش میشرام کہتے ہیں، ’’مندر کھلنے کے بعد ایودھیا میں روزانہ ۳ لاکھ سے زیادہ سیاحوں کے آنے کی امید ہے۔‘‘ میشرام حکومت اتر پردیش کے پرنسپل سکریٹری (سیاحت) ہیں۔
اضافی مہمانوں کی تیاری کے لیے شہر بھر میں بنیادی ڈھانچے کو توسیع بخشنے والے منصوبے تیار کیے جائیں گے جو پرانے گھروں اور بھائی چارے کو روند کر نکلیں گے۔
قریشی کے بیٹے جمال کہتے ہیں، ’’گلی کے کونے پر رہنے والی مسلم فیملی ہماری رشتہ دار ہے۔ انہیں پہلے ہی معاوضہ مل چکا ہے۔ ان کے گھر کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا ہے، کیوں کہ وہ مندر کی باڑ کو چھوتا ہے۔‘‘ جمال تقریباً ۲۰۰ کنبوں کا ذکر کرتے ہیں، جن میں ۵۰ مسلم خاندان ہیں، جو مندر کے ۷۰ ایکڑ کے احاطہ میں رہتے ہیں اور جو اب بے دخلی کے دہانے پر ہیں، کیوں کہ مندر ٹرسٹ (ایس آر جے ٹی کے ٹی) کا ارادہ ان جائیدادوں کو تحویل میں لینے کا ہے۔
وی ایچ پی لیڈر شرد شرما کے مطابق، ’’جو گھر مندر کے احاطہ میں تھے انہیں ٹرسٹ نے خرید لیا ہے اور لوگوں کو مناسب معاوضہ دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ تحویل کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘ حالانکہ، مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ٹرسٹ مندر کے آس پاس کے رہائشی مکانوں اور فقیرے رام مندر اور بدر مسجد جیسے مذہبی مقامات سمیت زمینوں کو زبردستی تحویل میں لے رہی ہے۔
دریں اثنا، پہلے سے بے دخل یادو فیملی نے داخلی دروازہ پر بھگوان رام کی تصویر ٹانگ دی ہے۔ راجن کہتے ہیں، ’’اگر ہم پوسٹر نہیں دکھائیں گے، تو وہ ہمارے لیے یہاں رہنا مشکل کر دیں گے۔‘‘ اس ۲۱ سالہ پہلوان نے اپنا گھر چلانے کے لیے کشتی کی ٹریننگ درمیان میں ہی چھوڑ دی تھی، جنہیں گھر کھونے کے بعد پریشان کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے پاری کو بتایا، ’’ہر ہفتے سرکاری عہدیدار اور انجان لوگ یہاں آ کر ہمیں زمین خالی کرنے کی دھمکی دیتے ہیں، جہاں ہم نے جھونپڑی بنائی ہے۔ یہ زمین ہماری ہے، مگر ہم یہاں کوئی تعمیر نہیں کر سکتے۔‘‘
*****
’’میرا گھر جل رہا تھا۔ اسے لوٹا جا رہا تھا۔ ہم [مشتعل بھیڑ] سے گھرے ہوئے تھے،‘‘ قریشی ۶ دسمبر، ۱۹۹۲ اور اس کے بعد کے واقعات کو یاد کرتے ہیں، جب ہندوؤں کے مجمع نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا اور ایودھیا میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
تیس سال بعد وہ اس منظر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایسے ماحول میں آس پاس کے لوگوں نے ہم کو چھپا لیا اور اس کے بعد باعزت ہم کو رکھا۔ یہ بات مرتے دم تک بھول نہیں پائیں گے دل سے۔‘‘
قریشی فیملی دوراہی کنواں کے ہندو اکثریتی علاقے میں رہائش پذیر مٹھی بھر مسلمانوں میں شامل ہے۔ اپنے گھر کے پیچھے آنگن میں لوہے کی اپنی چارپائی پر بیٹھے قریشی نے اس رپورٹر کو بتایا، ’’ہم نے کبھی جانے کے بارے میں نہیں سوچا۔ یہ میرا پشتینی گھر ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ہمارے کتنے باپ دادے یہاں رہے۔ میں یہاں کے ہندوؤں کی طرح آبائی باشندہ ہوں۔‘‘ وہ ایک بڑے خاندان کے سربراہ ہیں جس میں ان کے دو بھائی اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہی ان کے اپنے آٹھ بیٹے، ان کی بیویاں اور بچے شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے خاندان کے ۱۸ ارکان جو یہیں تھے، انہیں ان کے پڑوسیوں نے چھپا دیا تھا۔
گڑیا سینی کہتی ہیں، ’’وہ ہمارے خاندان کی طرح ہیں اور سکھ دکھ میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اگر ہندو ہو کر آپ مشکل کے وقت ہماری مدد نہیں کرتے، تو ایسے ہندو ہونے کا کیا فائدہ؟‘‘
قریشی اس میں اپنی بات جوڑتے ہیں: ’’یہ ایودھیا ہے، آپ یہاں نہ تو ہندو کو سمجھ سکتے ہیں، اور نہ مسلمان کو۔ آپ یہ نہیں جان سکتے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کتنی گہرائی سے گھلے ملے ہوئے ہیں۔‘‘
اپنا گھر جل جانے کے بعد فیملی نے زمین کی ایک تنگ پٹّی پر پھر سے گھر کے کچھ حصے کھڑے کیے۔ خاندان کے ۶۰ افراد کی رہائش کے لیے کھلے آنگن کے ارد گرد تین الگ الگ ڈھانچے کھڑے ہیں۔
قریشی کے دوسرے بڑے بیٹے عبدالواحد (۴۵)، اور چوتھے جمال (۳۵) ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں اور انہوں نے نئے مندر کی تعمیر کو قریب سے دیکھا ہے۔ جمال کہتے ہیں، ’’ہم نے ۱۵ سال تک اندر کام کیا ہے۔ مندر کے احاطہ کے چاروں طرف ۱۳ واچ ٹاور اور ۲۳ بیریئر کھڑے کرنے سمیت کئی ویلڈنگ کے کام کیے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ آر ایس ایس، وی ایچ پی اور سبھی ہندو مندروں میں کام کرتے ہیں، اور آر ایس ایس بلڈنگ کے اندر ایک واچ ٹاور بنا رہے ہیں۔ جمال کہتے ہیں، ’’یہی تو ایودھیا ہے! ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔‘‘
ان کی دکان نیو اسٹائل انجینئرنگ ان کے گھر کے سامنے والے حصہ سے چلتی ہے۔ یہ المیہ کہ دائیں بازو کی تنظیموں کے پیروکاروں نے ہی ان جیسے مسلمانوں کو نشانہ بنایا، یہ بات قریشی فیملی پوری طرح سے نہیں مانتی۔ جمال کے مطابق، ’’پریشانی تب شروع ہوتی ہے، جب باہری لوگ آتے ہیں اور تنازع کھڑا کرتے ہیں۔‘‘
یہ خاندان فرقہ وارانہ تناؤ کے خطرات کو جانتے ہیں، خاص کر اس انتخابی سال میں۔ قریشی مضبوطی سے کہتے ہیں، ’’ہم نے کئی بار ایسے خطرناک حالات دیکھے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ سیاسی فائدے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ کھیل دہلی اور لکھنؤ میں کرسی کے لیے کھیلے جاتے ہیں۔ اس سے ہمارے رشتے نہیں بدل سکتے۔‘‘
سینی جانتے ہیں کہ مشتعل بھیڑ کے سامنے ان کی ہندو شناخت عارضی طور پر انہیں بچا سکتی ہے، جیسا دسمبر ۱۹۹۲ میں ہوا تھا، جب ان کا گھر چھوڑ کر صرف قریشی خاندان پر حملہ کیا گیا تھا۔ سینی کہتے ہیں، ’’اگر ان کے گھر میں آگ لگی ہے، تو آگ کے شعلے میرے گھر تک بھی آئیں گے۔‘‘ ان کے مطابق، ایسے کسی موقع پر ’’ہم چار بالٹی اضافی پانی ڈالیں گے اور آگ بجھا دیں گے۔‘‘ قریشی خاندان کے ساتھ اپنی وابستگی کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’ہم جانتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
گڑیا اس میں اپنی بات جوڑتی ہیں، ’’ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہت پیار اور محبت کے ساتھ رہتے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز