عبدالوہاب ٹھوکر، گلمرگ کی برفیلی پھسلنوں پر اپنی سلیج (برف گاڑی) پر سیاحوں کو گھمانے کے لیے تیار تھے۔ لیکن، ۱۴ جنوری ۲۰۲۴ کے دن اپنی گاڑی پر بیٹھے عبدالوہاب، نا امید ہو کر سامنے کے ویران منظر کو دیکھ رہے تھے – جس میں دور دور تک صرف بنجر زمین نظر آ رہی تھی۔
’’یہ چلۂ کلاں [یخ بستہ سردی] کا موسم ہے اور گلمرگ میں برف کا نام و نشان تک نہیں ہے،‘‘ انتہائی حیرانی کے ساتھ ۴۳ سالہ عبدالوہاب ٹھوکر کہتے ہیں۔ گزشتہ ۲۵ برسوں سے سلیج کھینچنے کا کام کرنے والے عبدالوہاب کہتے ہیں ایسا منظر انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور یہ واقعی میں ایک خوفناک منظر ہے: ’’اگر حالات ایسے ہی رہے، تو جلد ہی ہم قرض کے بوجھ سے دبے ہوں گے۔‘‘
مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے ایک مشہور ہل اسٹیشن گلمرگ کے برف سے ڈھکے پہاڑ ہر سال دنیا بھر کے لاکھوں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ یہاں کی تقریباً ۲۰۰۰ کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) کی مقامی معیشت، اور روزگار کی تلاش میں عبدالوہاب جیسے باہر سے آئے متعدد دیگر افراد کی آمدنی میں سیاحت ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔
وہ بارہمولہ کے کلنتار گاؤں کے رہنے والے ہیں اور کام ملنے کی امید میں روزانہ گلمرگ پہنچنے کے لیے مقامی گاڑیوں سے ۳۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ ’’ان دنوں مجھے اگر کوئی گاہک مل بھی جاتا ہے، تو میں مشکل سے ۱۵۰ سے ۲۰۰ روپے ہی کما پاتا ہوں، کیوں کہ گھومنے کے لیے یہاں برف ہی نہیں ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ابھی زیادہ سے زیادہ ہم یہی کر سکتے ہیں کہ سیاحوں کو جمے ہوئے پانی [پہلے کی پگھلی ہوئی برف سے] تک گھمانے لے جائیں۔‘‘
جموں و کشمیر کی آفیشیل ویب سائٹ کے مطابق، ’’سردیوں میں گلمرگ میں ہونا ایک ’شاندار تجربہ‘ ہے، پوری طرح برف کی چادروں سے ڈھکا ہوا، جو اسکیئنگ کرنے والوں کے لیے جنت میں بدل جاتا ہے۔ یہاں کی قدرتی ڈھلانوں کو آج بھی سر نہیں کیا گیا ہے اور اسکیئنگ کرنے والے ماہر کھلاڑیوں کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں!‘‘
گلمرگ کی زمینی حقیقت اس بیان سے بالکل مختلف ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہمالیہ کی ان ڈھلانوں کے ذریعہ فراہم کردہ معاش کے مواقع کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ برفباری نہ ہونے کے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں، جو یہاں کے ماحولیاتی نظام اور لوگوں کی مالی حالت پر طویل مدتی اثرات ڈالیں گے، خاص کر چرواہوں کے معاش پر بھی برا اثر دیکھنے کو ملے گا کیوں کہ یہاں کے چراگاہ برفباری کی وجہ سے ہی تیار ہوتے ہیں۔ ’’پوری دنیا کی آب و ہوا بدل رہی ہے، اور کشمیر بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے،‘‘ ڈاکٹر محمد مسلم کہتے ہیں، جو کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات و سائنس میں ایک سائنس داں ہیں۔
عبدالوہاب کی آمدنی کو ہی لے لیجئے۔ سال کے اچھے دنوں میں بقول ان کے، وہ ایک دن میں ۱۲۰۰ روپے کما لیتے تھے۔ لیکن، ان دنوں ان کے خود کے سفر اور گھریلو ذمہ داریوں پر خرچ ہونے والا پیسہ ان کی آمدنی سے تجاوز کر چکا ہے۔ ’’میں یہاں ایک دن میں صرف ۲۰۰ روپے ہی کما پاتا ہوں، جب کہ میرا روزانہ کا خرچ ۳۰۰ روپے سے زیادہ ہے،‘‘ وہ رنجیدہ لہجے میں کہتے ہیں۔ عبدالوہاب اور ان کی بیگم دونوں ہی آج کل نوجوان بچوں کا اور اپنا پیٹ پالنے کے لیے اپنی معمولی سی بچت پر منحصر ہیں۔
اس سال برف کی کمی ’مغربی خلل‘ (ویسٹرن ڈسٹربینسز) میں تبدیلیوں کی وجہ سے ہوئی ہے، ایسا ڈاکٹر مسلم کا ماننا ہے۔ یہ موسمیات سے متعلق ایک واقعہ ہے، جو بحیرہ روم کے خطہ میں منطقہ حارہ سے ملحق علاقوں سے پیدا ہونے والے طوفانوں کی شکل میں جیٹ اسٹریم (تیز چلنے والی ہوا) کے ذریعے مشرقی سمت کی جانب بڑھتی ہے، جس کے نتیجہ میں پاکستان اور شمالی ہندوستان میں برفباری اور بارش ہوتی ہے۔ اس علاقے میں پانی کا تحفظ، زراعت اور سیاحت کے نظریہ سے مغربی خلل انتہائی اہم ہے۔
راجدھانی سرینگر میں ۱۳ جنوری کو زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ۱۵ ڈگری سیلسیس درج کیا گیا، جو گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اسی وقت شمالی ہندوستان کے کئی دوسرے شہر سرینگر کے مقابلے کئی ڈگری زیادہ ٹھنڈ کا سامنا کر رہے تھے۔
سرینگر کے موسمیاتی مرکز کے ڈائرکٹر، ڈی مختار احمد کہتے ہیں، ’’اب تک، کشمیر میں کہیں بھی زیادہ برفباری نہیں ہوئی ہے اور موسم گرم ہوتا جا رہا ہے۔ پہلگام میں ۱۵ جنوری کو درجہ حرارت ۱ء۱۴ ڈگری سیلسیس درج کیا گیا، جو آج تک کا سب سے زیادہ ہے۔ اس سے پہلے وہاں ۲۰۱۸ میں سب سے زیادہ درجہ حرارت ۸ء۱۳ ڈگری سیلسیس درج ہوا تھا۔‘‘
سونمرگ اور پہلگام میں بہت کم برفباری ہوئی ہے۔ ان جگہوں پر درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے پورے علاقے میں جاڑے کا موسم اب اُتنا ٹھنڈا نہیں رہا۔ پچھلی دہائی میں ہوئی کئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہمالیہ میں درجہ حرارت بڑھنے کی شرح عالمی اوسط سے زیادہ رہی ہے۔ اس لیے یہ علاقہ ماحولیاتی تبدیلی کے برے نتائج سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق، موسم سرما میں یہ جگہ اب ریگستان جیسی دکھائی دے رہی ہے، اور سیاحت کی صنعت پر اس کا بہت برا اثر پڑا ہے۔ دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ ہوٹل میں کام کرنے والوں، گائڈوں، اسکی ٹرینرز اور اے ٹی وی (آل ٹیرین ویہکل) ڈرائیوروں کو موجودہ حالت کے سبب مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گلمرگ میں ہوٹل خلیل پیلیس کے منیجر مدثر احمد (۲۹) کہتے ہیں، ’’صرف جنوری میں ۱۵۰ سیاحوں نے اپنا سفر ردّ کر دیا۔ اگر حالات ایسے ہی رہے، تو یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں اتنا خراب موسم پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘ ان کے اندازہ کے مطابق، اس سیزن میں انہیں اب تک تقریباً ۱۵ لاکھ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
ہل ٹاپ ہوٹل کے ملازمین گاہکوں کے ذریعہ ہوٹل جلدی خالی کر دینے کے واقعات بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہل ٹاپ کے منیجر ۳۵ سالہ اعجاز بھٹ بتاتے ہیں، ’’برفباری ہوتے ہوئے دیکھنے کی خواہش لے کر آئے سیاحوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی مہمان وقت سے پہلے کمرہ خالی کرکے جانے لگا ہے۔‘‘ اس ہوٹل میں تقریباً ۹۰ لوگ کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گلمرگ کے زیادہ تر ہوٹلوں کی یہی حالت ہے۔ ’’پچھلے سال اس وقت تک تقریباً ۶-۵ فٹ برفباری ہو چکی تھی، اس سال دو چار انچ ہی برف گری ہے۔‘‘
جاوید احمد ریشی، جو ایک اسکی گائڈ ہیں، ماحولیات میں ہونے والی ان ناموافق تبدیلیوں کے لیے مقامی لوگوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ’’میں کسی ٹورسٹ کو قصوروار نہیں ٹھہراتا کہ انہوں نے گلمرگ آ کر اس جگہ کو برباد کیا ہے۔‘‘
اے ٹی وی ڈرائیور مشتاق احمد بھٹ، گزشتہ ایک دہائی سے اسے چلا رہے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں جب بھاری برفباری ہوتی ہے، تو برف میں اے ٹی وی نقل و حمل کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ ڈرائیور ڈیڑھ گھنٹے کی سواری کے عوض تقریباً ۱۵۰۰ روپے تک وصول کرتے ہیں۔
مشتاق کی بھی یہی رائے ہے کہ گاڑیوں کی تعداد بڑھنے کے سبب اس علاقے کے موسم پر گہرا اثرپڑا ہے۔ ’’حکام کو گلمرگ باؤل [اوپر ہوا سے دیکھنے پر یہ کسی پیالے جیسا نظر آتا ہے] کے اندر گاڑیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، کیوں کہ اس سے علاقے کی ہریالی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہاں برفباری کم ہونے کے لیے بھی ذمہ دار ہے۔ اس سے ہماری آمدنی پر بہت برا اثر پڑا ہے،‘‘ مشتاق (۴۰) کہتے ہیں۔
مشتاق کو کوئی گاہک ملے تین دن سے بھی زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ ان کی چڑچڑاہٹ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ۱۰ لاکھ روپے کا قرض لے کر اپنا اے ٹی وی خریدا ہے۔ جب انہوں نے یہ گاڑی خریدی تھی، تو انہیں لگا کہ آنے والے سالوں میں اس گاڑی سے ان کی اچھی کمائی ہوگی اور وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنا قرض جلد ہی واپس ادا کر دیں گے۔ ’’اب مجھے لگنے لگا ہے کہ میں اپنا قرض تو نہیں ہی ادا کر پاؤں گا، اس موسم گرما میں مجھے کہیں اے ٹی وی ہی نہ بیچنا پڑ جائے۔‘‘
یہاں تک کہ کرایے پر کپڑے وغیرہ دینے والے تمام اسٹور بھی گاہکوں سے خالی ہیں اور وہاں بھی صرف ملازم ہی نظر آتے ہیں۔ ’’ہمارا کاروبار پوری طرح سے برفباری پر منحصر ہے، کیوں کہ ہم گلمرگ آنے والے سیاحوں کو کوٹ اور برف میں پہنے جانے والے بوٹ مہیا کراتے ہیں۔ ہم ان دنوں ۵۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے تک بھی بڑی مشکل سے کما پا رہے ہیں،‘‘ ۳۰ سال کے فیاض احمد دیدڑ کہتے ہیں، جو کہ کرایے پر کپڑے دینے والے ایک مقامی اسٹور پر کام کرتے ہیں۔ یہ اسٹور گلمرگ سے تقریباً آدھے گھنٹہ کی دوری پر آباد قصبہ ٹن مرگ میں کوٹ اور بوٹ اسٹور کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فیاض احمد اور ۱۱ دیگر ملازمین بے صبری سے برفباری کا انتظار کر رہے ہیں، تاکہ وہ اچھے دنوں کی طرح کمائی کر سکیں۔ جب برفباری ہوتی ہے، تو ۲۰۰ روپے فی کوٹ یا جیکٹ کے حساب سے وہ ۲۰۰ کوٹ اور جیکٹ کرایے پر دے کر ایک دن میں ۴۰ ہزار روپے تک کما لیتے ہیں۔
برفباری نہ ہونے سے صرف سیاحت کی صنعت ہی متاثر نہیں ہو رہی ہے، بلکہ اس کا اثر دوسری چیزوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ ’’برفباری کم ہونے کا خمیازہ پوری وادی کو بھگتنا پڑے گا۔ پینے اور کھیتی کے لیے پانی کی تنگی ہو جائے گی۔ ٹن مرگ کے گاؤوں پہلے سے ہی پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں،‘‘ اسکی گائڈ جاوید ریشی بتاتے ہیں۔
سردیوں میں ہونے والی برفباری گلیشیئر اور سمندری برف (جسے کرہ ارض پر پانی کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ بھی تصور کیا جاتا ہے) جیسے برف کے تودوں کے ذخائر کو دوبارہ بھرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ ذخائر اس خطہ کے آبی ذخائر کے لیے بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں۔ مسلم کہتے ہیں، ’’گلیشیئر کی برف میں کوئی بھی کمی ہمارے کھیت کی سینچائی پر برا اثر ڈالے گی۔ کشمیر کے اونچے پہاڑوں میں گرمیوں میں جو برف پگھلتی ہے، وہی پانی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ لیکن، آج ہمارے یہاں پہاڑوں پر برف نہیں ہے۔ وادی کے لوگوں کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔‘‘
ادھر ٹن مرگ میں کپڑے کی دکان پر موجود فیاض احمد اور ان کے دوسرے ساتھی اپنی تشویشوں کا کوئی حل نہیں نکال پا رہے ہیں۔ ’’یہاں ۱۲ لوگ کام کرتے ہیں، اور ہم سب کی فیملی میں ۴-۳ لوگ ہیں۔‘‘ موجودہ حالات میں وہ ایک دن میں ۱۰۰۰ روپے کماتے ہیں اور اس پیسے کو آپس میں برابر بانٹ لیتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں، ’’ہم اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کیسے کریں گے؟ یہ موسم ہماری جان لے رہا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز