میری ماں اکثر مجھ سے کہا کرتی تھیں، ’’کمار، اگر میں نے مچھلی کا وہ برتن نہ اٹھایا ہوتا، تو ہم یہاں تک نہیں آ پاتے۔‘‘ یہ وہ سال تھا جب میرے پیدا ہونے کے بعد انہوں نے مچھلی بیچنا شروع کیا تھا اور اس کے بعد سے میری زندگی میں ہمیشہ مچھلیاں بنی رہیں۔
مچھلی کی بو ہمارے گھر میں پھیلی رہتی تھی۔ ایک کونے میں سوکھی مچھلیوں کا تھیلا ہمیشہ لٹکا رہتا تھا۔ پہلی بارش کے بعد کارپ مچھلی آتی تھی، جسے ماں پکاتی تھیں۔ یہ لذیذ کھانا سردیوں سے نمٹنے میں بڑا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جب ماں شوربہ دار کیٹ فش، اسپاٹیڈ اسنیک ہیڈ یا سیلاپّی بناتی ہیں، تو پیاری سی خوشبو پورے گھر میں بھر جاتی ہے۔
جب میں بچہ تھا تو مچھلی پکڑنے کے لیے اکثر خاموشی سے اسکول سے نکل جاتا تھا۔ ان دنوں ہر جگہ پانی ہوتا تھا۔ مدورئی کے جواہر لال پورم علاقے میں، ہمارے پورے ضلع میں کنویں، ندیاں، جھیلیں اور تالاب ہوتے تھے۔ میں اپنے دادا کے ساتھ ایک تالاب سے دوسرے تالاب تک گھومتا رہتا تھا۔ ہمارے پاس لٹکانے والی ٹوکری ہوتی تھی، جسے ہم پانی میں ڈالتے اور مچھلیاں پکڑتے تھے۔ ندی میں ہم چارہ لگا کر مچھلیاں پکڑتے تھے۔
ماں ہمیں بھوت پریت کی کہانیاں سنا کر ڈراتی تھیں، تاکہ ہم بہتے پانی کے پاس نہ جائیں، مگر ہمیشہ جھیلوں سے پانی بہتا رہتا اور ہم ہمیشہ پانی کے ارد گرد بنے رہتے۔ میں گاؤں کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ مچھلی پکڑتا تھا۔ جس سال میں نے ۱۰ویں کلاس پاس کیا، پانی کی کمی ہو گئی۔ جھیلوں میں پانی کی سطح کم ہو گئی اور اس کا کھیتی پر بھی اثر پڑا۔
ہمارے گاؤں جواہر لال پورم میں تین جھیلیں تھیں – بڑی جھیل، چھوٹی جھیل اور ماروتن کولم جھیل۔ میرے گھر کے پاس بڑی جھیل اور چھوٹی جھیل کو نیلام کرکے گاؤں کے لوگوں کو پٹہ پر دے دیا جاتا تھا۔ وہ لوگ اس میں مچھلی پالتے تھے اور اسی سے ان کا گھر چلتا تھا۔ تائی مہینے (وسط جنوری سے وسط فروری تک) کے دوران دونوں جھیلوں میں مچھلیوں کی پیداوار ہوتی تھیں – اسے مچھلی پکڑنے کا موسم مانا جاتا ہے۔
جب میرے والد جھیلوں والی مچھلیاں خریدنے جاتے، تو میں بھی ان کے ساتھ چلا جاتا تھا۔ ان کی سائیکل کے پیچھے ایک باکس بندھا ہوتا تھا اور ہم مچھلی خریدنے کے لیے کبھی کبھی ۲۰ سے ۳۰ کلومیٹر تک کئی گاؤوں کا دورہ کر لیتے تھے۔
مدورئی ضلع کی کئی جھیلوں میں مچھلی کی پیداوار کا جشن منایا جاتا ہے اور آس پاس کے گاؤوں کے لوگ مچھلی پکڑنے کے لیے جھیل پر پہنچتے ہیں۔ وہ اچھی بارش، اچھی فصل اور سبھی لوگوں کی خوشی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ لوگ مانتے ہیں کہ مچھلی پکڑنے سے بارش اچھی ہوتی ہے اور اگر مچھلی کی پیداوار کا جشن نہ منایا گیا، تو سوکھا پڑ جائے گا۔
ماں ہمیشہ کہتی تھیں کہ پیداوار کے دوران مچھلی کا وزن سب سے زیادہ ہوگا اور اس کا مطلب ہے بہتر منافع۔ لوگ اکثر زندہ مچھلی لینا پسند کرتے ہیں۔ آف سیزن میں مچھلیوں کا وزن کم ہو جاتا ہے اور وہ وافر مقدار میں پکڑی نہیں جاتی ہیں۔
مچھلی بیچنے کی وجہ سے ہی ہمارے گاؤں کی کئی عورتوں کی زندگی بچ پائی ہے۔ اس نے ان عورتوں کو معاش دیا جن کے شوہروں کی موت ہو گئی تھی۔
مچھلی نے مجھے ایک اچھا فوٹو گرافر بنایا۔ سال ۲۰۱۳ میں جب میں نے کیمرہ خریدا، تو میں مچھلی خریدنے کے لیے جاتے وقت اسے ساتھ لے جاتا تھا۔ کبھی کبھی میں مچھلی خریدنا بھول جاتا اور مچھلیوں کی تصویریں لینے لگتا تھا۔ میں تب تک سب کچھ بھولا رہتا جب تک کہ میرا فون نہیں بجنے لگتا اور ماں مجھے تاخیر کے لیے ڈانٹنے لگتیں۔ وہ مجھے یاد دلاتیں کہ لوگ ان سے مچھلی خریدنے کا انتظار کر رہے ہیں اور تب میں انہیں لینے کو دوڑ پڑتا تھا۔
جھیلوں پر صرف انسان نہیں ملتے تھے۔ جھیلوں کے کنارے پرندے اور مویشی ہوتے تھے۔ میں نے ایک ٹیلی لینس خریدا اور آبی پرندے جیسے سارس، بطخ، چھوٹے پرندوں کی تصویریں اتارنی شروع کر دیں۔ پرندوں کو دیکھنے اور ان کی تصویریں کھینچنے میں مجھے بہت مزہ آتا تھا۔
ان دنوں نہ تو بارش ہوتی ہے اور نہ جھیلوں میں پانی ہے۔ اور کوئی مچھلی بھی نہیں ہے۔
*****
جیسے ہی کیمرہ میرے پاس آیا، میں نے پچئی انّا، موکّا انا، کارتک، مارودھو، سینتھل کلئی جیسے ماہی گیروں کی تصویریں کھینچنی شروع کر دیں، جو جھیلوں میں اپنے جال پھینکا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ جال پھینک کر اور مچھلیاں پکڑ کر میں نے بہت کچھ سیکھا۔ یہ سبھی مدورئی کے مشرقی بلاک کے پڈوپٹّی گاؤں کے قریب کے رہنے والے ہیں۔ تقریباً ۶۰۰ لوگوں کے اس گاؤں میں زیادہ تر، یعنی ۵۰۰ لوگ مچھلی پکڑنے کا کام کرتے ہیں اور یہی ان کی روزی روٹی کا پہلا ذریعہ ہے۔
سی پچئی ۶۰ سال کے ماہی گیر ہیں، جنہوں نے ترونیل ویلی، راج پالیم، تینکاسی، کرائی کوڈی، دیو کوٹئی اور دوسری جگہوں کی جھیلوں میں مچھلی پکڑنے کے لیے دور دور تک کا سفر کیا ہے۔ انہوں نے دس سال کی عمر میں اپنے والد سے مچھلی پکڑنا سیکھا تھا اور وہ مچھلی پکڑنے کے لیے ان کے ساتھ گھومتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی تو اس کے لیے وہ کچھ دنوں تک رک جایا کرتے تھے۔
پچئی بتاتے ہیں، ’’ہم سال میں چھ مہینے تک مچھلی پکڑتے ہیں۔ اگلے چھ مہینے میں ہم اس پکڑی گئی مچھلی کو بیچتے ہیں اور بچی ہوئی مچھلی سُکھا لیتے ہیں، تاکہ سال بھر ہماری آمدنی ہوتی رہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ یہاں مچھلیاں ان انڈوں سے پیدا ہوتی ہیں، جو مٹی میں دبے ہوتے ہیں اور بارش سے انہیں مدد ملتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’کیلوتی، کوروا، ورا، پامپوڈی، کینڈا پڈی، ویلیچی جیسی دیسی مچھلیاں اب اتنی تعداد میں نہیں ہیں، جتنی پہلے ہوا کرتی تھیں۔ کھیتوں میں استعمال ہونے والے حشرہ کش سے آلودہ پانی جھیلوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اب سبھی مچھلیوں کی مصنوعی طریقے سے افزائش کرائی اور کھلائی جاتی ہے، جس سے جھیلوں کی زرخیزی مزید برباد ہو گئی ہے۔‘‘
مچھلی پکڑنے کا کام نہ ہونے پر پچئی نریگا (قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون) کے تحت نہر بنانے جیسے یومیہ مزدوری کے کام کرتے ہیں، جسے مقامی طور پر نور نال پانی کہا جاتا ہے، یعنی کوئی بھی کام جو مل جائے۔
ایک اور ماہی گیر، ۳۰ سالہ موکاّ کے مطابق ماہی پروری کا موسم ختم ہونے کے بعد انہیں بھی یومیہ مزدوری کرنی پڑے گی۔ ان کی بیوی ایک ہوٹل میں کام کرتی ہیں اور ان کے دو بچے تیسری اور دوسری جماعت میں پڑھ رہے ہیں۔
بچپن میں ہی ماں کی موت بعد دادی نے ان کی پرورش کی۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور میں نے کھیتوں میں کام کرنا شروع کر دیا اور دوسری چھوٹی موٹی نوکریاں کیں۔ مگر میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہوں، تاکہ انہیں اچھی نوکریاں ملیں۔‘‘
*****
مال کلئی ہاتھ سے مچھلی پکڑنے والا جال بناتے ہیں۔ یہ ہنر انہوں نے اپنے اجداد سے سیکھا۔ ۳۲ سالہ مال کلئی کا کہنا ہے، ’’صرف ہمارے گاؤں اوتا کڈئی میں ہم ابھی تک مچھلی پکڑنے کے لیے ہاتھ سے بنا جال استعمال کرتے ہیں۔ آج کے جال میرے دادا جی کے استعمال کیے گئے جالوں سے کافی الگ ہیں۔ وہ ناریل کے درختوں سے ریشہ لے کر، اس کی بنائی کرکے جال بناتے تھے۔ وہ جال بُننے کے لیے کوکو گھاس (کوائر) تلاش کرنے جاتے تھے، جس کی ہمارے گاؤں میں کافی قدر تھی۔ دوسری جگہوں پر مچھلی پکڑنے جاتے وقت لوگ اسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
’’مچھلی پکڑنا ہماری زندگی کا ایک خاص حصہ ہے اور ہمارے گاؤں میں کئی ماہی گیر ہیں۔ جب کوئی ہنرمند ماہی گیر مرتا ہے، تو گاؤں والے اس کی آخری رسومات کی ارتھی سے بانس کی ایک چھڑی نکال کر اس سے نئے جال کا نچلا حصہ بناتے ہیں۔ اس طرح اس کی وراثت کی عزت کی جاتی ہے۔ ہمارے گاؤں میں یہ روایت آج بھی جاری ہے۔
’’ہمارے لوگ جھیل کا پانی دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ اس میں کتنی بڑی مچھلیاں ہوں گی۔ وہ لوگ پانی ہاتھ میں لیتے ہیں اور اگر وہ گدلا ہو تو کہتے ہیں کہ مچھلی بڑی ہوگی۔ اگر پانی صاف ہے تو مچھلیوں کی تعداد کم ہوگی۔
’’مچھلی پکڑنے کے لیے ہم مدورئی ضلع کے چاروں طرف جاتے تھے – تونڈی، کرائی کڈی، یہاں تک کہ کنیا کماری سمندر (بحر ہند) تک۔ ہم تنکاسی کی سبھی جھیلوں کا دورہ کرتے اور باندھوں پر جاتے تھے۔ کبھی کبھی ہم تقریباً پانچ دس ٹن تک مچھلیاں پکڑ لیتے تھے۔ چاہے ہمارے ذریعے پکڑی گئی مچھلی کا سائز کچھ بھی ہو، ہماری مزدوری وہی رہتی تھی۔
’’مدورئی میں کسی زمانے میں تقریباً ۲۰۰ جھیلیں ہوا کرتی تھیں، مگر تیزی سے شہر کاری کے ساتھ یہ جھیلیں غائب ہو رہی ہیں۔ اس لیے ہم لوگوں کو مچھلی پکڑنے کے لیے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے جھیلیں غائب ہو رہی ہیں، ہم جیسے روایتی ماہی گیروں کی زندگی پر خراب اثر پڑ رہا ہے۔ مچھلی کے کاروباری بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
’’میرے والد کے تین بھائی بہن تھے اور میرے بھی تین بھائی بہن ہیں۔ ہم سبھی مچھلی پکڑتے ہیں۔ میری شادی ہو چکی ہے اور میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ہمارے گاؤں کے نوجوان اب اسکول و کالج جاتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کی دلچسپی مچھلی پکڑنے میں رہتی ہے۔ اسکول و کالج کے بعد وہ اپنا وقت مچھلی پکڑنے میں گزارتے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز