ڈھیوری گاؤں کی ۲۹ سالہ کسان کرونا دیوی افسوس اور اداسی کے ساتھ کہتی ہیں، ’’اگر پان [پتے] بچ گئے ہوتے، تو اس سے مجھے [۲۰۲۳ میں] کم از کم دو لاکھ روپے مل جاتے۔‘‘ جون ۲۰۲۳ میں بہار کے نوادہ ضلع میں گرمی کی شدید لہر میں کرونا دیوی کی فصل تباہ ہو گئی تھی۔ ان کا بریجا ، جو کبھی سرسبز و شاداب رہتا تھا، اس کی جالیاں مشہور مگہی پان کے چمکدار پتوں سے لدی رہتی تھیں، کنکال کے ڈھانچے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اب وہ دوسروں کے بریجا میں نوکری کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔
نوادہ ان درجن بھر اضلاع میں شامل تھا جہاں کئی دنوں تک شدید گرمی کا قہر جاری رہا تھا۔ ’’لگتا تھا کہ آسمان سے آگ برس رہی ہو اور ہم لوگ جل جائیں گے۔ دوپہر کو گاؤں بالکل ویران ہو جاتا تھا جیسے کرفیو لگا دیا گیا ہو،‘‘ وہ اس سال کی گرمی کو بیان کرتے ہوئے مزید کہتی ہیں۔ ضلع کے وارث علی گنج کے موسمیاتی مرکز میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ۹ء۴۵ ڈگری سیلسیس درج کیا گیا تھا اور ۱۸ جون ۲۰۲۳ کو دی ہندو میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، اس کے بعد آنے والی گرمی کی لہر (لو) کی وجہ سے بہار اور اتر پردیش میں ۱۰۰ سے زائد افراد کی جان گئی تھی۔
جھلسا دینے والی گرمی کے باوجود، ’’ہم بریجا میں جاتے تھے،‘‘ کرونا دیوی کہتی ہیں۔ یہ فیملی کوئی جوکھم نہیں اٹھانا چاہتی تھی کیونکہ انہوں نے چھ کٹھا [تقریباً ۸۰۰۰ مربع فٹ] زمیں پر بنے بریجا کی کاشت کے لیے ایک لاکھ روپے کا قرض لے رکھا تھا۔
پان کے پتوں کے باغ کو بہار میں بریجا یا بریٹھا کہا جاتا ہے۔ پان کی نازک بیلیں شدید موسم کو برداشت نہیں کر سکتیں، اس لیے یہ جھونپڑی نما ڈھانچہ انہیں گرمیوں میں چلچلاتی دھوپ اور سردیوں میں تیز ہواؤں سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ عام طور پر بانس کے لٹھوں، اور کھجور اور ناریل کے پتوں، ناریل کے ریشوں، دھان کے تنکوں اور ارہر کے ڈنٹھلوں سے بنایا گیا باڑ ہوتا ہے۔ بریجا کے اندر، زمین کو لمبی اور گہری قطاروں میں جوتا جاتا ہے۔ تنوں کو اس طرح لگایا جاتا ہے کہ پانی جڑ کے قریب جمع نہ ہو اور پودے سڑ نہ جائیں۔
کرونا دیوی کے شوہر یاد کرتے ہیں کہ پچھلے سال شدید گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے کس طرح ’’ہم دن میں صرف ۲-۳ بار پانی دے پاتے تھے کیونکہ زیادہ آب پاشی کرنے سے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا۔ لیکن موسم اتنا گرم تھا کہ فصل تباہ ہو گئی۔‘‘ سنیل چورسیا (۴۰) کہتے ہیں، ’’پودے سوکھنے لگے، اور جلد ہی بریجا خراب ہوگیا۔‘‘ ان کی پان کی پوری کاشت ضائع ہو گئی۔ ’’مجھے نہیں معلوم کہ قرض کی ادائیگی کیسے ہوگی،‘‘ کرونا فکر مند ہوکر کہتی ہیں۔
اس خطے کا مطالعہ کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مگدھ کے علاقے میں موسم کے انداز بدل رہے ہیں۔ ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ پہلے موسم کا انداز باقاعدہ ہوا کرتا تھا، وہ اب کافی حد تک بے قاعدہ ہو گیا ہے۔ درجہ حرارت میں اچانک اضافہ ہوتا ہے اور بعض اوقات ایک یا دو دن میں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے،‘‘ ماحولیاتی سائنسداں، پروفیسر پردھان پارتھ سارتھی کہتے ہیں۔
’ہندوستان کے جنوبی بہار میں ماحولیاتی تبدیلی اور زیر زمین پانی کی تغیر پذیری‘ کے عنوان سے ۲۰۲۲ میں سائنس ڈائریکٹ جریدہ میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالہ میں کہا گیا ہے کہ ۱۹۵۸ اور ۲۰۱۹ کے دوران اوسط درجہ حرارت میں ۵ء۰ ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۱۹۹۰ کی دہائی کے بعد سے مانسون میں بھی بہت زیادہ بے قاعدگی دیکھی جا رہی ہے۔
ڈھیوری گاؤں کے ایک اور کسان اجے پرساد چورسیا کہتے ہیں، ’’مگہی پان کا کھیتی جوا جیسا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بہت سے مگہی کسانوں کی نمائندگی کر رہے تھے، جن کے حالات اب دگرگوں ہیں۔ ’’ہم بہت محنت کرتے ہیں، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ پان کے پودے زندہ بچیں گے۔‘‘
سال در سال شدید موسم اس علاقے میں مگہی پان کی فصلوں کو تباہ کر رہا ہے۔ پان کے پتوں کی کھیتی روایتی طور پر بہار کے انتہائی پسماندہ طبقے [ای سی بی] سے تعلق رکھنے والے چورسیا برادری کے لوگ کرتے ہیں۔ بہار حکومت کی طرف سے کرائے گئے ذات کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، ریاست میں چھ لاکھ سے زیادہ چورسیا براداری کے لوگ رہتے ہیں۔
ڈھیوری گاؤں نوادہ کے ہسوا بلاک میں واقع ہے۔ اس کی آبادی ۱۵۴۹ ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)، جس میں نصف سے زیادہ لوگ زراعت سے منسلک ہیں۔
سال ۲۰۲۳ کی گرمی کی لہر سے پہلے ۲۰۲۲ میں بہت تیز بارش ہوئی تھی۔ ’’لگتا تھا جیسے پرلے [قیامت] آنے والا ہو، اندھیرا چھا جاتا تھا اور لگاتار برسا ہوتا تھا (بارش ہوتی تھی)۔ ہم لوگ بھیگ بھیگ کر کھیت میں رہتے تھے،‘‘ رنجیت چورسیا کہتے ہیں۔
اس ۵۵ سالہ کسان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہیں بخار ہو گیا تھا اور بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے گاؤں میں زیادہ تر پان کے کاشتکاروں کو اس سال نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میں نے پانچ کٹھا [تقریباً ۶۸۰۰ مربع فٹ] میں پان کی کاشت کی تھی۔ پانی بھر جانے کی وجہ سے پان کی بیلیں سوکھ گئیں۔‘‘ اوڈیشہ میں آئے ’اسانی‘ طوفان کی وجہ سے تین چار دنوں تک شدید بارش ہوئی تھی۔
پان کے کاشتکاروں کی تنظیم ’مگہی پان اُتپادک کلیان سمیتی‘ کے صدر رنجیت کہتے ہیں، ’’گرمی کی لہریں مٹی کو خشک کر دیتی ہیں، جس سے پودوں کا نمو رک جاتا ہے اور جب اچانک بارش ہوتی ہے، تو پودے سوکھ جاتے ہیں۔ پودے نئے تھے۔ ان کی دیکھ بھال نوزائیدہ بچے کی طرح ہونی چاہیے تھی۔ جنہوں نے ایسا نہیں کیا، ان کی بیلیں سوکھ گئیں۔‘‘
رنجیت کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۳ میں ان کے پودے شدید گرمی کی لہر کو اس لیے برداشت کر گئے کیونکہ انہوں نے دن میں کئی مرتبہ پانی کا چھڑکاؤ کیا، ’’مجھے کئی بار پانی دینا پڑتا تھا، کبھی کبھی تو دن میں۱۰ بار تک۔‘‘
مگہی پان کے ایک ساتھی کسان اور پڑوسی اجے کہتے ہیں کہ انہیں پانچ سالوں میں دو بار شدید موسمی حالات کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔ سال ۲۰۱۹ میں، اس ۴۵ سالہ نوجوان نے چار کٹھا (تقریباً ۵۴۴۴ مربع فٹ) میں پان کے پودے لگائے تھے، جو سخت سردی وجہ سے خراب ہو گئے تھے۔ اکتوبر ۲۰۲۱ میں طوفان گلاب کے ہمراہ آنے والی شدید بارشوں نے پتوں کو مکمل طور پر روند ڈالا تھا۔ ’’مجھے دونوں سالوں میں تقریباً ۲ لاکھ روپے کا مجموعی نقصان اٹھانا پڑا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
*****
اجے چورسیا پان کی بیلوں کو بانس یا سرکنڈے کے پتلے ڈنڈوں سے باندھ رہے ہیں، تاکہ انہیں ڈولنے اور گرنے سے روکا جا سکے۔ دل کی شکل کے چمکدار سبز پان کے پتے بیل پر لٹکتے ہیں؛ اور یہ چند دنوں میں توڑنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔
اس سرسبز و شاداب ڈھانچے کے اندر درجہ حرارت باہر کے مقابلے کم ہوتا ہے۔ اجے کہتے ہیں کہ انتہائی گرمی، سردی اور ضرورت سے زیادہ بارش پان کے پودوں کے لیے سب سے بڑے خطرے ہیں۔ شدید گرمیوں میں اگر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت ۴۰ ڈگری سیلسیس سے زیادہ بڑھ جائے تو انہیں دستی طور پر پانی کا چھڑکاؤ کرنا ہوتا ہے۔ وہ پانچ لیٹر پانی کا ایک مٹی کا برتن اپنے کندھے پر اٹھا کر پانی کے بہاؤ کو پھیلانے کے لیے اپنی ہتھیلی کا استعمال کرتے ہیں، بیلوں کے درمیان آہستہ آہستہ چلتے ہیں، اور چلتے چلتے پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں۔ ’’اگر موسم بہت گرم ہو، تو ہمیں ایسا کئی بار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بارش اور سردی سے تحفظ کا کوئی طریقہ نہیں ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
’’حالانکہ ایسا کوئی مطالعہ نہیں ہے، جو یہ ظاہر کرے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے موسم کی بے قاعدگی میں کس حد تک اپنا کردار ادا کیا ہے، لیکن موسم کے بدلتے ہوئے انداز موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں،‘‘ سارتھی کہتے ہیں۔ وہ سنٹرل یونیورسٹی آف ساؤتھ بہار، گیا کے اسکول آف ارتھ، بائیولوجیکل اینڈ انوائرمنٹل سائنس کے ڈین ہیں۔
اجے کے پاس اپنی آٹھ کٹھا (تقریباً ۱۰ ہزار مربع فٹ) زمین ہے، لیکن یہ ٹکڑوں میں بکھری ہوئی ہے، اس لیے انہوں نے تین کٹھے کا ایک پلاٹ ۵۰۰۰ روپے سالانہ کے حساب سے لیز پر لیا ہے، جس پر مگہی پان کی کاشت کے لیے وہ تقریباً ۷۵۰۰۰ روپے خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک مقامی سیلف ہیلپ گروپ سے ۴۰ ہزار روپے قرض لیے ہیں، جسے اگلے آٹھ مہینوں میں ۶۰۰۰ روپے فی مہینہ کے حساب سے ادا کرنا ہے۔ ’’ابھی تک میں نے دو قسطوں میں صرف ۱۲۰۰۰ روپے جمع کرائے ہیں،‘‘ انہوں نے ستمبر ۲۰۲۳ میں ہم سے بات کرتے ہوئے کہا تھا۔
اجے کی بیوی گنگا دیوی (۴۰) کبھی کبھی کھیت میں ان کی مدد کرتی ہیں، اور دوسرے کسانوں کے کھیتوں میں زرعی مزدور کے طور پر کام بھی کرتی ہیں۔ ’’یہ ایک محنت طلب کام ہے، لیکن ہمیں روزانہ صرف ۲۰۰ روپے ملتے ہیں،‘‘ وہ اپنی مزدوری کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ان کے چاروں بچے (ایک نو سال کی بیٹی اور ۱۴، ۱۳ اور ۶ سال کے بیٹے) ڈھیوری کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں۔
موسم کی مار کے سبب فصلوں کے نقصانات نے پان کے کسانوں کو دوسرے کسانوں کے کھیتوں میں مزدوری کرنے پر مجبور کیا ہے، کیونکہ وہ اس فصل کی کاشت میں مہارت رکھتے ہیں۔
*****
مگہی پان کی وجہ تسمیہ مگدھ ہے جہاں خصوصی طور پر اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ بہار کے مگدھ علاقے میں جنوبی بہار کے گیا، اورنگ آباد، نوادہ اور نالندہ ضلعے شامل ہیں۔ ’’کوئی نہیں جانتا کہ مگہی کے پودے کا پہلا قلم کب اور کیسے یہاں پہنچا، لیکن اس کی کاشت کئی نسلوں سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ پہلا پودا ملیشیا سے آیا تھا،‘‘ رنجیت چورسیا کہتے ہیں، جو پان کی کھیتی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور انہوں نے ہی مگہی پان کے پتے کے جغرافیائی نشان (جی آئی) والے ٹیگ کے لیے درخواست دی تھی۔
مگہی پان کا پتا ایک چھوٹے بچے کی ہتھیلی کے برابر (۸ سے ۱۵ سینٹی میٹر لمبا اور ۶ء۶ سے ۱۲ سینٹی میٹر چوڑا) ہوتا ہے۔ خوشبودار اور نرم پتوں میں تقریباً کوئی ریشہ نہیں ہوتا، اس لیے یہ منہ میں بہت آسانی سے گھل جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو اسے پان کے پتوں کی دوسری اقسام سے برتر بناتی ہے۔ اس کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ توڑنے کے بعد اسے ۳-۴ ماہ تک رکھا جا سکتا ہے۔
رنجیت کہتے ہیں، ’’آپ کو انہیں گیلے کپڑے میں لپیٹ کر کسی ٹھنڈی جگہ پر رکھنا ہوتا ہے اور روزانہ چیک کرنا ہوتا ہے کہ آیا کوئی پتہ سڑ تو نہیں رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو آپ کو اسے فوری طور پر ہٹانا ہوتا ہے ورنہ یہ دوسرے پتوں میں پھیل جاتا ہے۔‘‘ ہم انہیں اپنے پکے مکان کے اندر فرش پر بیٹھ کر پان کے پتے لپیٹتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
وہ ۲۰۰ پتوں کو تلے اوپر رکھتے ہیں اور ڈنٹھل کو ہیکسا بلیڈ سے کاٹتے ہیں۔ پھر پتوں کو دھاگے سے باندھ کر بانس کی ٹوکری میں رکھتے ہیں۔
پان کے پودوں کو قلموں کے ذریعے لگایا جاتا ہے، کیونکہ ان پر پھول نہیں لگتے، اس لیے بیج نہیں ہوتے۔ رنجیت چورسیا کہتے ہیں، ’’جب کسی ساتھی کسان کی فصل ناکام ہو جاتی ہے، تو دوسرے کسان اسے اپنی فصل لگانے کے لیے اپنی فصلوں کے قلم اسے دیتے ہیں۔ ہم اس کے لیے کبھی ایک دوسرے سے پیسے نہیں لیتے،‘‘ رنجیت چورسیا کہتے ہیں۔
یہ بیلیں بریجا میں لگائی جاتی ہیں اور ایک کٹھا (تقریباً ۱۳۶۱ مربع فٹ) زمین پر بریجا بنانے کے لیے ۳۰ ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں؛ جبکہ دو کٹھا کے لیے ۴۵ ہزار روپے صرف ہوتے ہیں۔ ہل کے ذریعہ لمبی اور گہری نالیاں بنائی جاتی ہیں، اور بیلوں کو نالیوں کے باندھوں پر لگایا جاتا ہے، تاکہ پانی پودوں کی جڑوں تک نہ پہنچ سکے، کیونکہ جڑ میں پانی جمع ہونے سے پودے سڑ جاتے ہیں۔
مگہی پان کی ایک بیل پر اس کی ایک سالہ زندگی میں کم از کم ۵۰ پتے لگتے ہیں۔ مقامی بازاروں اور اتر پردیش کے وارانسی کی ہول سیل منڈی (جو ملک کی سب سے بڑی پان کے پتوں کی منڈی ہے) میں ایک پتہ ایک یا دو روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
مگہی پان کو ۲۰۱۷ میں جی آئی ٹیگ سے نوازا گیا تھا۔ یہ جی آئی خصوصی طور پر مگدھ کے جغرافیائی خطے کے ۴۳۹ ہیکٹیئر میں اگائے جانے والے پتوں کے لیے ہے۔ کسان جی آئی ملنے پر خوش تھے اور راحت محسوس کر رہے تھے۔ تاہم کئی سال گزرنے کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ’’ہمیں توقع تھی کہ حکومت مگہی کی تشہیر کرے گی، جس سے مانگ میں اضافہ ہوگا اور ہمیں اچھی قیمت ملے گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،‘‘ رنجیت چورسیا نے پاری کو بتایا۔ ’’افسوس کی بات یہ ہے کہ جی آئی ٹیگ کے باوجود حکومت پان کے کسانوں کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے۔ حکومت پان کو زراعت تصور نہیں کر رہی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
بہار میں پان کی کاشت باغبانی کے تحت آتی ہے، اور کسانوں کو فصل بیمہ جیسی زرعی اسکیموں کا فائدہ نہیں ملتا ہے۔ رنجیت چورسیا کا کہنا ہے، ’’ہماری فصلوں کو خراب موسم کی وجہ سے نقصان پہنچنے پر صرف ایک ہی معاوضہ ملتا ہے، لیکن معاوضے کی رقم مضحکہ خیز حد تک کم ہے۔‘‘ ایک ہیکٹیئر (تقریباً ۷۹ کٹھا) کے نقصان کے لیے ۱۰ ہزار روپے تک کا معاوضہ ملتا ہے۔ ’’اگر اسے فی کٹھا کے حساب سے دیکھیں، تو ہر کسان کو ایک کٹھا کے نقصان پر تقریباً ۱۲۶ روپے کا معاوضہ ملتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ کسانوں کو کئی بار ضلع کے زراعتی دفتر کا چکر لگانا پڑتا ہے، اس لیے وہ عموماً معاوضے کا دعویٰ نہیں کرتے۔
*****
سال ۲۰۲۳ میں شدید گرمی میں اپنی فصل کی تباہی کے بعد سنیل اور ان کی بیوی اب دوسرے کسانوں کے بریجا میں کام کرتے ہیں۔ ’’گھر کے اخراجات کے لیے مجھے مزدوری کرنی پڑتی ہے۔ بریجا میں کام کرنا میرے لیے آسان رہا ہے، کیونکہ میں کئی سالوں سے پان کی کاشت کر رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ دن میں ۸ سے ۱۰ گھنٹے تک کام کرکے سنیل ۳۰۰ روپے کماتے ہیں، اور ان کی بیوی کرونا دیوی ۲۰۰روپے۔ اس کمائی سے چھ افراد (۳ سال کی ایک بیٹی، اور ایک، پانچ اور سات سال کی عمر کے تین بیٹوں) پر مشتمل اس کنبے کی کفالت میں مدد ملتی ہے۔
سال ۲۰۲۰ میں، کووڈ۔۱۹ کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھی انہیں نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ’’لاک ڈاؤن کے دوران بازار سے لے کر گاڑیوں تک سب کچھ بند تھے۔ میرے پاس گھر میں ۵۰۰ ڈھولی [۲۰۰ پان کے پتوں کا بنڈل] پان رکھا ہوا تھا۔ میں اسے فروخت نہیں کر سکا اور وہ سڑ گئے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
کرونا دیوی کہتی ہیں، ’’میں اکثر ان سے کہتی ہوں کہ وہ [پان کی] کاشت چھوڑ دیں۔‘‘ تاہم، سنیل ان کے خدشات کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیتے ہیں کہ ’’یہ ہمارے آباء و اجداد کی میراث ہے۔ ہم اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں اور چھوڑ کر بھی کیا کریں گے؟‘‘
یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر سمٹی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری تھی۔
مترجم: شفیق عالم