میں تھک گیا ہوں۔ میرا جسم بھاری اور دماغ بوجھل ہے۔ میری آنکھوں میں موت کا کرب ہے – قرب و جوار کے استحصال زدہ افراد کی موت کا کرب۔ جن کہانیوں پر میں نے کام کیا ہے، انہیں لکھنے سے خود کو قاصر محسوس کر رہا ہوں۔ میری زبان گنگ ہے۔ اور اب جب کہ میں یہ اسٹوری لکھنے بیٹھا ہوں، حکومت چنئی کے انَگ پُتور میں دلتوں کے مکانات منہدم کر رہی ہے۔ میرا ذہن مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
میں ابھی تک ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کو تمل ناڈو کے ہوسور میں پٹاخے کے گوداموں میں مزدوروں کی موت سے خود کو الگ نہیں کر سکا ہوں۔ میں اب تک ۲۲ اموات درج کر چکا ہوں۔ ان میں سے ۸ طباء تھے، جن کی عمر ۱۷ سے ۲۱ سال کے درمیان تھی۔ سبھی اس گودام میں کام کرتے تھے جہاں پٹاخے رکھے تھے۔ آٹھوں بچے ایک ہی گاؤں کے تھے اور قریبی دوست تھے۔
فوٹو گرافی سیکھنے کے شروعاتی دنوں سے ہی مجھے ان لوگوں کی زندگیوں میں دلچسپی رہی ہے جو پٹاخوں کے کارخانوں، گوداموں اور دکانوں میں کام کرتے ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی، لیکن مجھے مطلوبہ اجازت نہیں ملی۔ ہر کوشش میں مجھے یہی بتایا گیا کہ گودام والے، کبھی کوئی اجازت نہیں دیں گے۔ تصویریں لینے کی بات چھوڑیے، اندر داخل ہونا ہی مشکل تھا۔
میرے والدین نے دیوالی کے موقع پر کبھی بھی ہمارے لیے نئے کپڑے یا پٹاخے نہیں خریدے۔ وہ ان کے دسترس سے باہر کی چیزیں تھیں۔ میرے بڑے پاپا – والد کے سب سے بڑے بھائی – ہمارے لیے نئے کپڑے لاتے تھے۔ دیوالی منانے کے لیے ہم انہی کے گھر جاتے تھے۔ وہ ہمارے لیے پٹاخے بھی خریدتے تھے اور ہم بچوں کے ساتھ مل کر انہیں پھوڑتے بھی تھے۔
مجھے پٹاخے پھوڑنے میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا پٹاخوں سے میں نے مکمل طور پر دوری اختیار کر لی۔ میں نے بشمول دیوالی کے تمام دوسرے تہوار بھی منانا چھوڑ دیا۔ فوٹو گرافی کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد ہی میں نے مزدور پیشہ افراد (پرولتاریہ) کی زندگیوں کے بارے میں سمجھنا شروع کیا۔
فوٹو گرافی نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے۔ ہر سال دیوالی کے موقع پر پٹاخوں کے گوداموں میں آگ لگتی اور حادثات ہوتے تھے۔ میں ایسی جگہ رہتا تھا جہاں مجھے ایسے حادثات کی زیادہ پرواہ نہیں تھی۔
تاہم، اس سال [۲۰۲۳] میں نے سوچا کہ مجھے کم از کم ان حادثات کو قلم بند کرنا چاہیے۔ اسی دوران میرے علم میں آیا کہ تمل ناڈو اور کرناٹک کی سرحد پر واقع کرشنا گیری کے قریب پٹاخوں کے گودام میں ہوئے دھماکے میں ایک ہی گاؤں کے آٹھ بچے ہلاک ہو گئے ہیں۔ مجھے اس کی جانکاری سوشل میڈیا کے ذریعہ ملی، بالکل ویسے ہی جیسے انسٹاگرام اور فیس بک کے ذریعہ بہت سے دیگر واقعات و حادثات کی جانکاریاں ملتی ہیں۔ مجھے سوشل میڈیا سے ہی احتجاج کے بارے میں پتہ چلا تھا۔
اس خبر کے ملنے کے بعد جب میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ تمام ہلاک شدگان کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے اور وہ سبھی دیوالی کے سیزن میں کام پر گئے ہوئے تھے۔ اس بات نے مجھے پریشان کر دیا۔ کیونکہ ہم بھی ایسے لوگ ہیں جنہیں سال کے بس کچھ خاص مہینوں میں، سیزن کے حساب سے ہی کام ملتا ہے۔ وِنائکر [گنیش] چترتھی کے دوران ہم لوگ اروگم پُل [دوب کی گھاس] اور ایروکّم پُل [مدار کے پھول] سے مالا بناتے تھے اور انہیں بیچتے تھے۔ شادیوں کے موسم میں ہم شادی کے کچن میں کام کرتے تھے اور کھانا پیش کرتے تھے۔ میں نے بھی لڑکپن میں اپنے کنبے کے [مالی] حالات کی وجہ سے ایسے کام کیے ہیں۔
یہ جان کار مجھے بہت دکھ ہوا کہ ایک لڑکا، جو بالکل میری طرح موسمی کام کے سلسلے میں گیا تھا، لیکن حادثے کا شکار ہو کر مر گیا۔
مجھے ہرحال میں اس حادثے کو قلم بند کرنا تھا۔ میں نے تمل ناڈو کے دھرم پوری ضلع کے آمور تعلقہ میں امّاپیٹّئی گاؤں سے شروعات کی۔ یہ گاؤں دھرم پوری اور تیروونّ ملئی کے درمیان سے گزرنے والی تین پنّئی ندی کے کنارے آباد ہے۔ بس ندی پار کیجئے اور آپ تیروونّ ملئی پہنچ جائیں گے۔
مجھے گاؤں پہنچنے کے لیے تین بسیں بدلنی پڑیں۔ بس میں سفر کے دوران میں نے ان ساتھیوں سے بات کی جو حالات سے واقف تھے۔ آمور کے ایک ساتھی نے مجھے امّاپیٹّئی جانے والی بس میں بیٹھا دیا اور وعدہ کیا کہ بس اسٹینڈ پر مزید ساتھی میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ اماپیٹئی پہنچنے کے بعد سب سے پہلے میری نظر جالی میں بند امبیڈکر کے مجسمہ پر پڑی۔ پورے گاؤں پر ایسی خاموشی چھائی ہوئی تھی جیسے کسی قبرستان کی خاموشی ہو۔ یہ خاموشی میرے جسم میں سرایت کر گئی اور میں کانپنے لگا۔ کسی گھر سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہر جگہ اندھیرے کی حکمرانی ہو۔
میں جب سے اس کام کے لیے نکلا تھا، مجھے کچھ بھی کھانے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے امبیڈکر کے مجسمہ کے سامنے ایک چائے کی دکان پر چائے اور دو وَڑے کھائے اور ساتھیوں کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔
ساتھی آئے اور مجھے پہلے اس گھر میں لے گئے، جنہوں نے اپنا بیٹا کھویا تھا۔ گھر کی چھت ایسبیسٹس کی بنی ہوئی تھی، جبکہ دیوار کا صرف ایک حصہ پلاسٹر کیا ہوا تھا۔
ہم کئی منٹ تک بند دروازے پر دستک دیتے رہے، تب ایک عورت نے دروازہ کھولا۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگا کہ وہ کئی دنوں سے سوئی نہیں ہیں۔ ساتھیوں نے بتایا کہ وہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے وی گیری کی ماں وی سیلوی (۳۷) ہیں۔ انہیں نیند سے اٹھانے پر مجھے افسوس ہوا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی ہماری نظریں بغیر پلاسٹر کی دیوار پر آویزاں پھولوں کی مالا پہنے یونیفارم میں ملبوس ایک لڑکے کی تصویر سے ٹکرائیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے بھائی کو دیکھ رہا ہوں۔
لاک ڈاؤن کے فوراً بعد میرا بھائی پٹاخوں کی دکان پر کچھ مہینے کے لیے کام کرنے گیا ہوا تھا۔ کام پر جانے سے روکنے کی ہماری تمام تر التجائیں بیکار گئیں تھیں۔ جب تک وہ واپس نہیں آگیا میری والدہ مسلسل فکرمند رہیں تھیں۔
گیری کی ماں پر خاموشی کا غلبہ تھا۔ جب میں نے ان کے بیٹے کے بارے میں پوچھا تو وہ گھر کے کونے میں بیٹھ کر رونے لگیں۔ ساتھی نے کہا کہ ہمیں متوفی کے بھائی کا انتظار کرنا چاہیے۔ گیری کے دوسرے بڑے بھائی نے آکر اپنے چھوٹے بھائی کی موت کی کہانی دہرائی۔
’’میرا نام سوریہ ہے، میری عمر ۲۰ سال ہے۔ میرے والد کا نام ویڈی یپّن ہے۔ دل کا دورہ پڑنے سے آٹھ سال قبل ہمارے والد کی موت ہو گئی تھی۔‘‘
سوریہ کے بعد ان کی ماں روہانسی آواز میں بولنا شروع کرتی ہیں۔ ’’ان کی موت کے بعد زندگی مشکل ہو گئی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میرے بڑے بیٹے نے ۱۲ویں جماعت تک کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کام تلاش کرنے اور پیسے کمانے کی غرض سے شہر سے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے اپنا قرض چکانا شروع کر دیا۔ اس دوران اس کے بھائی بڑے ہو رہے تھے۔ ہم نے اس کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی شادی کو صرف تین ماہ ہوئے ہیں۔ میں ایسے مشکل حالات میں بچوں کو تعلیم دلانے میں کامیاب ہوئی تھی، لیکن میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔
’’وہ ایک سال تک کالج نہیں جا سکا تھا اس لیے دو ماہ تک ایک کپڑے کی دکان میں کام کرنے چلا گیا اور پھر دو مہینے تک گھر پر رہا۔ وہ پٹاخوں کی دکان پر اس لیے گیا کیونکہ اس کے دوست جا رہے تھے۔ پھر یہ ہو گیا۔‘‘
’’اس سیزن میں تمبی [چھوٹا بھائی] عام طور پر کپڑوں کی دکانوں پر کام کرنے جاتا تھا۔ اس سال اس نے اس کام [پٹاخوں کی دکان] پر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ۱۲ویں کے امتحانات پاس کرنے کے بعد پیرامیڈیکل کورس کے لیے درخواست دی تھی۔ اس کی درخواست کم نمبروں کی وجہ سے مسترد کر دی گئی تھی۔ پھر اس نے کپڑوں کی دکانوں پر کام کرنا شروع کیا۔ ایک بار آڈی کے دوران [ وسط جولائی سے وسط اگست کے درمیان جہاں کپڑوں کی دکانوں پر خصوصی فروخت اور چھوٹ ہوتی ہے]، اس نے ۲۵ ہزار [روپے] کمائے تھے۔ اس میں سے اس نے ۲۰ ہزار روپے کا استعمال فیملی کا قرض چکانے میں کیا تھا۔
’’آٹھ سال قبل والد کی موت کے بعد، ہم دونوں کپڑوں کی دکانوں پر جاتے تھے، اور جو رقم بھی کماتے تھے اس کا استعمال اپنے قرضوں کی ادائیگی میں کرتے تھے۔ ہمارے بڑے بھائی کی شادی ہوئی اور اس کے لیے ہم نے ۳۰ ہزار روپے کا قرض لیا۔
’’لہذا، ہم نے ہر طرح کے کام کے۔ ہم میں سے بہتوں کے لیے اگر حالات سازگار نہیں ہوتے تھے، تو ہم گھر واپس آ جاتے تھے۔ پٹاخوں کی دکان کے مالک نے ہمارے علاقے کے ایک لڑکے سے بات کی اور کہا کہ دکان پر کام ہے۔ ایک گروپ پہلے گیا۔ میرا بھائی دوسرے گروپ میں گیا تھا۔
’’لیکن کام کے لیے گئے لڑکوں کے درمیان کچھ مسئلہ پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے میرا بھائی، گیری، واپس آکر ہمارے بڑے بھائی کے پاس کام کرنے لگا، اور پھر میرے بڑے بھائی یہاں مندر میں درشن کرنے آ گئے۔
’’یہ وہی وقت تھا جب میرے چھوٹے بھائی کو پٹاخوں کی دکان پر کام کر رہے لڑکوں کا دوبارہ فون آیا، جنہوں نے اسے کام پر واپس آنے کو کہا۔ میرا بھائی ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کو کام پر گیا تھا۔ اسی دن وہ حادثہ ہوا۔
اس نے صرف ایک دن کام کیا تھا۔
میرے بھائی کی پیدائش ۳ اکتوبر ۲۰۰۶ کو ہوئی تھی۔ ہم نے چند روز قبل اس کی سالگرہ منائی تھی اور ۷ اکتوبر کو یہ حادثہ پیش آگیا۔
ہم میں سے [گاؤں میں] کسی کو بھی نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوا ہے۔ گاؤں کے دو لڑکوں نے جو حادثے میں بچ گئے تھے، ہمیں اس کی اطلاع دی۔ مزید تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارے گاؤں کے سات لڑکے ہلاک ہوئے ہیں۔ ہم نے ایک کار کرایے پر لی اور لاشوں کی شناخت کے لیے وہاں پہنچے۔
مقدمہ درج کرایا گیا۔ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ، وہاں کے وزیر کے پی امب لگن، ایک ایم ایل اے، ایم پی اور دوسرے بہت سے لوگ آئے۔ ان لوگوں نے تین لاکھ روپے کا چیک دیا۔ کہا گیا کہ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ بھی آئیں گے، لیکن وہ نہیں آئے۔
ہمارا مطالبہ تھا کہ ہر متاثرہ کنبے کو ان کی تعلیمی لیاقت کے مطابق سرکاری نوکری دی جائے۔‘‘
گیری کے اہل خانہ کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ باقی دو بیٹوں میں سے ایک کو سرکاری نوکری دی جائے گی۔ ’’ہم بہت مشکل سے اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔ اگر ہم میں سے کسی کو سرکاری نوکری مل جائے تو اس سے ہمیں مدد ملے گی۔‘‘
ان کی ماں کی بات ختم ہونے کے بعد ہم نے گیری کی تصویر مانگی۔ بھائی نے اپنے متوفی والد کی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ فریم کے کونے میں گیری کی بچپن کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے، جس میں وہ کھڑا ہے۔ یہ ایک خوبصورت تصویر تھی۔
ساتھی بالا نے بتایا، ’’کاش ہمارے پاس کرور میں بھی ایس آئی پی سی او ٹی جیسا کوئی ادارہ ہوتا، تو ہمارے لڑکے کام کے لیے اتنا دور نہ جاتے۔ پچھلی بار لڑکوں کو بہلایا پھسلایا گیا تھا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ جب وہ واپس آئیں گے تو انہیں ایک نیا فون ملے گا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ گودام میں پٹاخے پھٹ گئے ہیں۔ آٹھوں لڑکوں کی دم گھٹنے سے موت ہو گئی تھی۔ ہماری جانچ میں معلوم ہوا کہ گودام سے نکلنے کا راستہ اتنا چھوٹا تھا کہ وہ ایک ساتھ باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ یہ پہلا موقع ہے جب لڑکے پٹاخوں کی دکان پر کام کر رہے تھے۔‘‘
جب ساتھی بالا نے یہ کہا تو مجھے اپنے بھائی بالا کی یاد آگئی۔ وہ جگہ ہیبت ناک بن گئی۔ میرا دم گھٹنے لگا، ایسا لگا میرا دل بیٹھ جائے گا۔
آٹھوں مرنے والوں کے اہل خانہ نے اپنے عزیزوں کی تصویریں فریم کروا رکھی تھیں۔ ہر گھر قبرستان جیسا تھا۔ لوگ آتے تھے جاتے تھے۔ حادثے کو ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن درد اور آنسو برقرار ہیں۔ رشتہ دار یہاں رکے ہوئے ہیں۔
حادثہ کے ایک اور شکار ۱۹ سالہ آکاش کی تصویر کو ہار پہنا کر گھر کے سامنے ایک کرسی پر رکھا گیا تھا۔ اس کے والد تصویر کے سامنے لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے گھر میں صرف دو کمرے تھے۔ جب میں ان کے گھر کے اندر داخل ہوا تو مجھے دوسری کرسی پر آکاش کی ماں کی تصویر نظر آئی۔
جب میں نے آکاش کے والد سے بات چیت شروع کی تو وہ بے قابو ہو کر رونے لگے۔ وہ شراب کے نشے میں دھت تھے۔ مجھے وہاں لے جانے والے میرے ساتھی نے انہیں سنبھالا اور ہم سے بات چیت کرنے پر راضی کیا۔
’’میں ایم راجہ ہوں۔ میری عمر ۴۷ سال ہے۔ میں چائے کی دکان پر گلاس دھوتا ہوں۔ میرا بیٹا پٹاخوں کی دکان پر صرف اس لیے گیا تھا کیونکہ اس کے دوست وہاں گئے تھے۔ وہ ایک اچھا لڑکا تھا۔ ذہین بھی تھا۔ کام پر جاتے ہوئے اس نے مجھے ۲۰۰ روپے دیے تھے اور شراب نہ پینے کی تلقین کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ وہ ۱۰ دنوں میں واپس آ جائے گا اور میرا خیال رکھے گا۔ پہلی مرتبہ وہ اس قسم کی نوکری پر جا رہا تھا۔ میں نے اسے کبھی کام پر جانے کو نہیں کہا تھا۔‘‘
راجہ نے بتایا کہ آکاش کو امبیڈکر سے عقیدت تھی۔ ’’اس نے ان [امبیڈکر] کی تصویر دیوار سے لٹکا رکھی تھی تاکہ جب وہ بیدار ہو تو سب سے پہلے اس کی نظر ان پر پڑے۔ میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ ہمارے بچے زندگی میں کس طرح آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور یہ میرے بیٹے کے ساتھ ہو گیا۔ وہ شروع میں کام کے لیے کپڑے کی دکان پر گیا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ اس بار پٹاخوں کی دکان پر جا رہا ہے۔ اس نے دو سال بعد کالج جانے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی، لیکن ہم کبھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ کام کرے۔ میں چائے کی دکان پر ۴۰۰ روپے روزانہ کماتا ہوں۔ میری ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ میں صرف اپنے بچوں کے لیے جیتا ہوں۔ میری بیوی کو مرے ہوئے ۱۲ سال ہو گئے ہیں۔‘‘
اس کے بعد ہم ویڈپّن (۲۱) کے گھر گئے۔ امبیڈکر کی تصویر کے ساتھ کوٹ و سوٹ پہنے ہوئے اس کی ایک تصویر دیوار پر ٹنگی ہوئی تھی، جو ہمیں اس کی موت کی اطلاع دے رہی تھی۔ آٹھوں ہلاک شدگان میں صرف وہی تھا، جس کی شادی ہوئی تھی؛ اس کی شادی کو محض ۲۱ دن گزرے تھے۔ اس کے والد کے علاوہ کوئی بھی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ ویڈپّن کی بیوی ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔
’’ہمارا تعلق دھرم پوری ضلع کے ٹی امّاپیٹّئی گاؤں سے ہے۔ ہمارا کنبہ بہت خوش حال نہیں ہے۔ ہمارے گاؤں سے ۷ لوگ اور ضلع سے ۱۰ لوگ جا چکے ہیں۔ وہ صرف روزگار کی کمی کی وجہ سے ان کاموں کے لیے گئے تھے۔ محض دو تین دن کام کرنے کے بعد یہ حادثہ پیش آیا تھا۔
’’نہ تو کرناٹک حکومت نے اور نہ ہی تمل ناڈو حکومت نے اس حادثے کی وجہ بتائی ہے۔ موت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تمل ناڈو حکومت ہمیں موت کا سرٹیفکیٹ دے، معاوضہ دے اور ہر فیملی کو ان کی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر سرکاری نوکری کی پیشکش کرے۔‘‘
کرشنا وینی، آر کیشوَن کی ماں ہیں۔ ان کی عمر ۳۰ سے ۴۰ کے درمیان ہوگی۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا پٹاخوں کی دکان پر کام کرنے گیا ہے۔ ’’وہ اپنے دوستوں کے ساتھ چلا گیا تھا۔ حکومت نے اب تک ہم سے کوئی بات نہیں کی ہے، لیکن امید ہے کہ وہ ہمیں نوکری دے گی۔‘‘
اس حادثے میں اپنا بیٹا کھو چکیں ۳۵ سالہ کماری، حادثے کے دن اپنے بیٹے کی جانب سے شیئر کی گئی سیلفی کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ’’وہ ایسے خطرناک کام پر صرف اس لیے جاتے ہیں کہ دیوالی کے دوران ہمیں کچھ پیسے دے سکیں۔ تاکہ ہمیں نئے کپڑے یا تحفے مل سکیں۔ وہ پٹاخوں کی دکان پر ۱۲۰۰ روپے کماتے ہیں، جب کہ کپڑوں کی دکانوں میں انہیں صرف ۷۰۰ سے ۸۰۰ روپے ملتے ہیں۔
’’ذرا سوچیں کہ میں نے دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے ان کی سیلفیاں دیکھی تھیں اور اس کے فوراً بعد ان کی لاشوں کو دیکھ کر میں نے کیسا محسوس کیا ہوگا؟‘‘
کماری کہتی ہیں، ’’کسی بھی فیملی کو ہماری طرح تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ پٹاخوں کی دکانوں میں کوئی حادثہ نہ پیش آئے۔ اور اگر کوئی حادثہ پیش آ جائے، تو وہاں موجود لوگوں کے لیے فرار ہونے کا کوئی نہ کوئی راستہ ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا ہے، تو دکان چلانے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارے بعد اب کسی اور فیملی کو اس طرح کا نقصان نہ اٹھانا پڑے۔‘‘
جب ہم ۱۸ سال کے ٹی وجئے راگھون کے گھر گئے، تو اس کی والدہ شدید طور پر بیمار تھیں اور ہسپتال گئی ہوئی تھیں۔ جب وہ واپس آئیں تو میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ کس قدر تھکی ہوئی ہیں۔ جب ہم نے وجئے راگھون کی بہن کی طرف سے پیش کردہ چھاچھ پی، اس کے بعد ہی انہوں نے ہم سے بات کی۔
سریتا (۵۵) کہتی ہیں، ’’اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ کپڑے کی دکان پر جا رہا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ پٹاخوں کی دکان پر کیوں گیا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ اپنے کالج کی فیس ادا کرنا چاہتا تھا اور ہم پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا، کیونکہ ہم اپنی بیٹی کے علاج پر پیسے خرچ کر رہے تھے۔ اگر حکومت ہمیں کوئی نوکری دے تو ہم شکر گزار ہوں گے۔‘‘
چند ساتھیوں اور وجئے راگھون کے والد کے ساتھ ہم اس جگہ پر گئے جہاں ان آٹھ لڑکوں کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں۔ وجئے راگھون کے والد نے کہا، ’’وہ پہلے ہی اتنے جل چکے تھے کہ پہچاننا مشکل تھا۔ اس لیے ہم نے ایک ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی۔‘‘
تین پنّئی ندی کی پرسکون دھارا آٹھ نوجوان زندگیوں کی آخری رسومات کی ادائیگی کی گواہی دے رہی تھی، جنہوں نے کبھی مستقبل سے محبت کے وعدے کیے تھے۔
میں واپس آ گیا۔ میرا دل بھر گیا تھا۔
دو دن بعد، میں شیو کاشی میں ۱۴ لوگوں کی موت کی خبر کے ساتھ بیدار ہوا۔ شیو کاشی پٹاخے بنانے کا ایک بڑا مرکز ہے۔
مترجم: شفیق عالم