’’مرچ، لہسن، ادرک…لوکی کے پتّے، کریلا…گڑ۔‘‘

یہ مرچ، لہسن، ادرک، کریلا وغیرہ کو ملا کر پکایا جانے والا کوئی کھانا نہیں ہے…بلکہ نامیاتی کھیتی کرنے والی کسان، گلاب رانی کی طاقتور کھاد اور حشرہ کش ہے، جنہیں وہ پنّا ٹائیگر ریزرو کے کنارے آباد اپنے گاؤں چُنگُنا میں تیار کرتی ہیں۔

گلاب رانی (۵۳) ہنستے ہوئے یاد کرتی ہیں کہ جب انہوں نے پہلی دفعہ اس لسٹ کو سنا، تو ان کی ہنسی چھوٹ پڑی تھی۔ ’’میں نے سوچا، مجھے یہ چیزیں کہاں سے ملیں گی؟ لیکن میں نے جنگل میں لوکی تو اُگائی تھی…‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ گڑ اور دوسری چیزیں انہوں نے بازار سے خریدی تھیں۔

تشویش میں مبتلا پڑوسیوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ ان کی تو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بنا رہی ہیں۔ لیکن دوسرے کیا سوچتے ہیں، اس بات نے گلاب رانی کو کبھی پریشان نہیں کیا۔ ظاہر سی بات تھی کہ تقریباً ۵۰۰ لوگوں کی آبادی والے ان کے گاؤں میں نامیاتی (آرگینک) کھیتی کی شروعات کرنے والی وہ پہلی کاشتکار تھیں۔

’’جو اناج ہم بازار میں خریدتے ہیں ان میں دوائیں ہوتی ہیں اور تمام قسم کے کیمیکل ڈالے جاتے ہیں، اس لیے ہم نے سوچا کہ انہیں کیوں کھائیں،‘‘ چار سال پہلے اس بارے میں اپنے گھر پر ہوئی بات چیت کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں۔

’’میرے گھر والوں کو بھی نامیاتی کھیتی کرنے کا خیال پسند آیا۔ ہم سب نے سوچا کہ اگر ہم نامیاتی طریقے سے اُگایا گیا کھانا کھائیں گے، تو اس سے ہماری صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔ کیمیکل کھادوں کے سبب کیڑوں کی صحت پر برا اثر پڑے گا اور ہم تندرست ہو جائیں گے!‘‘ وہ اپنے ہی مذاق پر ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: پنّا ضلع کے چُنگُنا گاؤں میں اپنے گھر میں بنے اسٹور روم کے باہر گلاب رانی۔ دائیں: اپنے شوہر اُجیان سنگھ اور قدرتی کھاد سے بھرے گھڑے کے ساتھ، جسے انہوں نے کریلے کے پتّے، گائے کے پیشاب اور دیگر اشیاء کی مدد سے بنایا ہے

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

’میری فیملی کے لوگوں کو نامیاتی کھیتی کرنے کا خیال پسند آیا۔ ہم سب نے سوچا کہ اگر ہم نامیاتی طریقے سے اُگائے گئے اناج اور سبزیاں کھائیں گے، تو اس سے ہماری صحت کو بھی فائدہ پہنچے گا،‘ گلاب رانی کہتی ہیں

اپنے ڈھائی ایکڑ کے کھیت میں نامیاتی کھیتی کرتے ہوئے ان کا یہ تیسرا سال ہے۔ وہ اور ان کے شوہر اُجیان سنگھ خریف کی فصل کے طور پر دھان، مکئی، ارہر کی دال، تل اور ربیع کے موسم میں گیہوں، سفید چنا، سرسوں اُگاتے ہیں۔ سبزیاں تو سال بھر اُگائی جاتی ہیں – مثلاً ٹماٹر، بیگن، مرچ، گاجر، مولی، چقندر، بھنڈی، پتیدار سبزیاں، لوکی، کروندا، پھلیاں اور بہت سی دوسری سبزیاں۔ ’’ہمیں بازار سے بہت کچھ خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے،‘‘ یہ بتاتے ہوئے وہ اپنی خوشی کو ظاہر ہونے سے نہیں روک پاتی ہیں۔

چُنگنا گاؤں مشرقی مدھیہ پردیش میں پنّا ٹائیگر ریزرو کی سرحد پر آباد ہے۔ یہاں اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے خاندان راج گونڈ آدیواسی برادری سے آتے ہیں، جو اپنی زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر کھیتی کرتے ہیں۔ انہیں سینچائی کے لیے مانسون اور پاس کی ایک نہر پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ پاس کے شہر کٹنی یا اتر پردیش کی قریبی جگہوں پر مزدوری کی تلاش میں مہاجرت کر جاتے ہیں۔

’’شروعات میں ہم ایک یا دو ہی کسان تھے، جنہوں نے نامیاتی کھیتی کرنا شروع کیا۔ بعد میں ۹-۸ دوسرے لوگ بھی شامل ہو گئے،‘‘ گلاب رانی بتاتی ہیں، جن کے مطابق ان کی برادری کے ذریعہ جوتی جانے والی تقریباً ۲۰۰ ایکڑ قابل کاشت زمین پر اب نامیاتی کھیتی ہونے لگی ہے۔

سماجی کارکن شرد یادو کہتے ہیں، ’’چُنگُنا میں اب لوگوں کی مہاجرت میں کمی آئی ہے، اور جنگلات پر ان کا انحصار بھی صرف جلاون کی لکڑی کے لیے ہی ہے۔‘‘ شرد خود بھی کسان ہونے کے ساتھ ساتھ پیپلز سائنس انسٹی ٹیوٹ (پی ایس آئی) میں کلسٹر کوآرڈینیٹر ہیں۔

پی ایس آئی ملازم شرد بتاتے ہیں کہ گلاب رانی کی ترقی پذیر شبیہ اور سوال کرنے کی ان کی عادت نے انہیں طاقتور خاتون کے طور پر شہرت دلانے میں مدد کی ہے۔ وہ پہلی کسان تھیں، جنہوں نے مکئی کی کھیتی کے لیے بتائے گئے طریقوں کو آزمایا، اور ان کی اس کوشش کے اچھے نتیجے سامنے آئے۔ ان کی کامیابی نے دوسروں کو بھی آمادہ کیا۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: اپنے ڈھائی ایکڑ کے کھیت میں گلاب رانی، جہاں وہ نامیاتی کھاد اور حشرہ کش کا استعمال کرتی ہیں۔ دائیں: ان کی پوری فیملی اپنی غذائی ضروریات اپنے ہی کھیت سے پورا کر لیتی ہے

*****

’’ہم ہر مہینے ۵۰۰۰ روپے کھاد اور حشرہ کش پر خرچ کرتے تھے – یوریا اور ڈی اے پی پر،‘‘ اُجیان سنگھ کہتے ہیں۔ ان کا کھیت پوری طرح سے کیمیکل، یا جسے مقامی زبان میں ’چھڑکا کھیتی‘ کہتے ہیں، پر منحصر ہو چکا تھا، شرد بتاتے ہیں۔

’’اب ہم اپنا خود کا مٹکا کھاد بناتے ہیں،‘‘ گھر کے پیچھے رکھے ایک بڑے مٹی کے گھڑے کو دکھاتی ہوئی گلاب رانی کہتی ہیں۔ ’’مجھے اپنے گھر کے کاموں سے وقت نکالنا پڑتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ کھیت کے علاوہ فیملی کے پاس ۱۰ مویشی بھی ہیں۔ وہ ان کا دودھ نہیں بیچتے، بلکہ اسے دو بیٹیوں اور شادی شدہ بیٹے کی اپنی چھوٹی سی فیملی کے استعمال کے لیے بچا کر رکھتے ہیں۔

مرچ، ادرک، اور گائے کے پیشاب کے علاوہ کریلا، لوکی اور نیم کی پتیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’ہمیں انہیں ایک گھنٹہ کے لیے اُبالنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد استعمال کرنے سے پہلے ہم اسے ڈھائی سے تین دنوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن گھڑے میں وہ تب تک رہ سکتا ہے، جب تک ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ’’کچھ لوگ اسے ۱۵ دنوں تک بھی چھوڑ دیتے ہیں، تاکہ یہ اچھی طرح گل جائے،‘‘ گلاب رانی بتاتی ہیں۔

ایک بار میں وہ ۵ سے ۱۰ لیٹر حشرہ کش بناتی ہیں۔ ’’ایک ایکڑ کے لیے ایک لیٹر کافی ہے۔ اسے کم از کم دس لیٹر پانی میں گھول کر استعمال کرنا چاہیے۔ اگر آپ زیادہ استعمال کریں گے، تو یہ پھولوں کو برباد کر سکتا ہے اور پوری فصل برباد ہو سکتی ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ شروع میں آس پاس کے کسان آزمانے کے ارادے سے ان سے ایک بوتل مانگ کر لے جاتے تھے۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: اپنی پوتی انامکا کے ساتھ باورچی خانہ میں گلاب رانی۔ دائیں: اُجیان سنگھ، اور دور نظر آتا وہ سولر پینل جو پمپ کے چلانے میں کام آتا ہے

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: راجندر سنگھ، ٹیکنالوجی ریسرچ سنٹر (ٹی آر سی) کی انتظامیہ کو سنبھالتے ہیں، جو کھیتی کے کام کے لیے قرض مہیا کراتا ہے۔ دائیں: سیہاون گاؤں کا ایک کھیت، جہاں چاول کی چار الگ الگ قسموں کی روپائی کی گئی ہے

’’کھیت سے سال بھر کے لیے اپنے کھانے لائق پیداوار ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد بھی ہم سال بھر میں تقریباً ۱۵ ہزار روپے تک کی فصل بیچنے کی حالت میں رہتے ہیں،‘‘ اُجیان سنگھ کہتے ہیں۔ وسطی ہندوستان کے دوسرے کاشتکاروں کی طرح یہ کسان بھی جنگلی جانوروں کے ذریعہ فصلوں کو برباد کر دیے جانے کا زخم برداشت کر رہے ہیں۔ ’’ہم انہیں پکڑ یا مار نہیں سکتے، کیوں کہ حکومت نے نئے قانون بنا دیے ہیں۔ نیل گائیں گیہوں اور مکئی کھا جاتی ہیں، اور فصلوں کو بھی برباد کر دیتی ہیں،‘‘ گلاب رانی پاری کو بتاتی ہیں۔ جنگلی حیات کے تحفظ کا قانون ۱۹۷۲ جنگلی سؤروں کے شکار پر پابندی عائد کرتا ہے۔

پاس کے ایک جھرنے سے سینچائی کا پانی کھینچنے کے لیے سولر پمپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنے کھیت کے سرے پر سولر پینلوں کو دکھاتے ہوئے اُجیان سنگھ کہتے ہیں، ’’بہت سے کسان سال بھر میں تین پیداوار تک اُگا لیتے ہیں۔‘‘

پیپلز سائنس انسٹی ٹیوٹ نے ایک ٹیکنالوجی سیوا کیندر (ٹی آر سی) بھی قائم کیا ہے، جو بلپورہ پنچایت کے گرد و نواح کے ۴۰ گاؤوں کو اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ ’’ٹی آر سی میں چاول کی ۱۵ اور گیہوں کی ۱۱ قسموں کو ذخیرہ کرنے کی سہولت ہے، جن میں سے زیادہ تر روایتی بیجوں والی قسمیں ہیں۔ یہ کم بارش اور کڑاکے کی ٹھنڈ میں بھی اچھی پیداوار دینے کے قابل ہیں اور یہ کیڑوں اور گھاس پھوس سے بھی نسبتاً محفوظ رہتی ہیں،‘‘ ٹی آر سی کی انتظامیہ سنبھالنے والے راجندر سنگھ کہتے ہیں۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

ٹیکنالوجی سیوا کیندر میں رکھی گئی چاول (بائیں) اور دال (دائیں) کی روایتی قسمیں، جنہیں بِلپورہ پنچایت کے چُنگُنا سمیت ۴۰ دیگر گاؤوں میں مہیا کرایا جاتا ہے

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

آج دوسرے پہر ہونے والی ہل چھٹھ پوجا میں جانے سے پہلے، ندی میں غسل کے لیے جاتی ہوئیں چنگنا کی عورتیں

’’ہم اپنے کاشتکار ممبران کو دو کلو تک بیج مہیا کراتے ہیں اور اس کے عوض فصلوں کو کاٹنے کے بعد وہ ہمیں دوگنی مقدار میں بیج لوٹاتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ تھوڑے ہی فاصلہ پر وہ ہمیں ایک ایکڑ میں لگی دھان کی فصل دکھاتے ہیں، جہاں چار الگ الگ قسموں کو ایک ساتھ لگایا گیا ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس قسم کو کب کاٹا جائے گا۔

اس علاقہ کے کسانوں کا اگلا منصوبہ سبزیوں کی مشترکہ فروخت سے متعلق ہے۔ نامیاتی کھیتی کی کامیابی سے خوش کسانوں کو اب اچھی قیمت ملنے کی بھی امید ہے۔

جب ہمارے جانے کا وقت آیا، تو گلاب رانی بھی گاؤں کی دوسری خواتین کے ساتھ غسل کرنے کے لیے نہر کی طرف روانہ ہونے لگیں۔ انہیں بھی اپنا اُپواس توڑنے سے پہلے ہل چھٹھ پوجا میں شامل ہونا تھا۔ یہ پوجا ہندو کیلنڈر کے پانچویں مہینہ، یعنی بھادو میں ہوتی ہے، جسے بچوں کی صحت و تندرستی کی دعا کے لیے کیا جاتا ہے۔ ’’ہم مہوا پکائیں گے – چھاچھ میں اسے اُبالیں گے اور اسے کھا کر اپنا ورت توڑیں گے،‘‘ گلاب رانی کہتی ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں نامیاتی طریقے سے اُگائے گئے چنے کو بھونیں گی اور انہیں بھی کھائیں گی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Priti David

پریتی ڈیوڈ، پاری کی ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔ وہ جنگلات، آدیواسیوں اور معاش جیسے موضوعات پر لکھتی ہیں۔ پریتی، پاری کے ’ایجوکیشن‘ والے حصہ کی سربراہ بھی ہیں اور دیہی علاقوں کے مسائل کو کلاس روم اور نصاب تک پہنچانے کے لیے اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Priti David
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

سربجیہ بھٹاچاریہ، پاری کی سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار بنگالی مترجم ہیں۔ وہ کولکاتا میں رہتی ہیں اور شہر کی تاریخ اور سیاحتی ادب میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique