مدھیہ پردیش کے پنّا اور اس کے ارد گرد موجود غیر قانونی، کھلی کانوں میں – جن میں کچھ ٹائیگر ریزرو اور اس سے ملحق جنگلاتی علاقوں میں آتی ہیں – بچے، جوان اور بزرگ ایسے پتھروں کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں جو اُن کی قسمت کو بدل دے گی۔
زیادہ تر گونڈ آدیواسی برادری (ریاست میں درج فہرست قبائل کے طور پر درج) سے تعلق رکھنے والے یہ بچے یہاں ریت اور مٹی کھودنے کا کام کرتے ہیں، اور وہیں ان کے والدین ہیرے کی کانوں میں کام کرتے ہیں۔
ان میں سے ایک بچہ ہمیں بتاتا ہے، ’’اگر مجھے ہیرا مل گیا، تو اس سے میں اپنی آگے کی پڑھائی پوری کر سکتا ہوں۔‘‘
بچہ مزدوری کی روک تھام اور اس کے ضابطوں سے متعلق ترمیمی قانون، ۲۰۱۶ کے تحت کانکنی کی صنعت – جسے اس قانون میں خطرناک پیشہ قرار دیا گیا ہے – میں (۱۴ سال سے کم عمر کے) بچوں اور (۱۸ سال سے کم عمر کے) نو عمروں کو روزگار دینے پر پابندی ہے۔
یہاں سے تقریباً ۳۰۰ کلومیٹر دور، اتر پردیش کے مرزا پور میں بھی بچے اپنے والدین کے ساتھ کام پر جاتے ہیں۔ اس معاملے میں، یہ پتھر کی غیر قانونی کانیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت سے کنبے، جن کا تعلق حاشیہ بردار طبقوں سے ہے، کانوں کے آس پاس ہی رہتے ہیں، جو کہ بیحد خطرناک ہے۔
ایک بچی کہتی ہے، ’’میرا گھر اس کان کے پیچھے ہے۔ ایک دن میں یہاں تقریباً پانچ دھماکے ہوتے ہیں۔ [ایک دن] میرے گھر کے اوپر ایک بڑی چٹان آ کر گری اور [گھر کی] چاروں دیواریں پھٹ گئیں۔‘‘
یہ فلم اُن معصوم بچوں پر مبنی ہے جو کانکنی کے غیر منظم شعبہ میں مزدوری کرتے ہیں، اور جن کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر انہیں تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز