سدھیر کوسرے اپنے زخم دکھانے کے لیے ایک چارپائی پر بے ڈھنگے انداز میں بیٹھے ہیں: ان کے دائیں پاؤں میں گہرا زخم لگا ہے؛ دائیں ران میں تقریباً پانچ سینٹی میٹر لمبا شگاف ہے؛ دائیں بازو کے نیچے ایک لمبا اور کاری ضرب لگا ہوا ہے جس پر ٹانکے لگے ہیں۔ دراصل، ان کے پورے جسم پر زخم کے نشانات ہیں۔
بغیر پلاسٹر والے اپنے دو کمرے کے گھر میں ایک کمرے کی مدھم روشنی میں بیٹھے وہ نہ صرف خوفزدہ ہیں، بلکہ کافی تکلیف میں بھی ہیں۔ ان کی بیوی، ماں اور بھائی ان کے ساتھ ہیں۔ باہر تیز بارش ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں یہ بارش ایک طویل انتظار اور پریشان کن تاخیر کے بعد ہو رہی ہے۔
۲ جولائی ۲۰۲۳ کی شام کو سدھیر – جو ایک بے زمین مزدور ہیں اور جن کا تعلق لوہار-گاڈی برادری سے ہے (جسے گاڈی لوہار بھی کہا جاتا ہے، اور جو ریاست میں دیگر پسماندہ ذات کے طور پر درج ہے) – کھیت میں کام کے دوران ایک خونخوار جنگلی سؤر کے زبردست حملے کی زد میں آ گئے تھے۔ دبلے پتلے لیکن گٹھیلے بدن والے اس ۳۰ سالہ زرعی مزدور کا کہنا ہے کہ حالانکہ اس حملے میں وہ بری طرح زخمی ہوئے تھے، لیکن خوش قسمتی سے ان کے چہرے اور سینے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔
پاری نے ۸ جولائی کی شام کو چندر پور ضلع کی ساؤلی تحصیل میں واقع علاقائی جنگلات سے متصل ان کے اجاڑ آبائی گاؤں کَوَٹھی میں جب ان سے ملاقات کی، تو وہ ابھی ابھی ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر گھر واپس آئے تھے۔
انہیں یاد ہے کہ مدد کے لیے ان کی چیخ و پکار سن کر کیسے کھیت میں ٹریکٹر چلا رہے ایک ساتھی مزدور نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر سؤر پر پتھر برساتے ہوئے ان کی طرف دوڑ لگائی تھی۔
سؤر - جو غالباً ایک مادہ تھی - نے ان پر اپنے دانتوں (ٹسک) سے حملہ کیا تھا۔ جب وہ گرے تھے تو ان کی خوفزدہ اور بے جان آںکھیں ابر آلود آسمان کی جانب تک رہی تھیں۔ ’’وہ پیچھے ہٹ کر اپنے لمبے دانتوں سے مجھ پر حملے کر رہی تھی،‘‘ جب سدھیر یہ باتیں کہہ رہے تھے تو اس دوران ان کی بیوی بے یقینی کے ساتھ مبہم آواز میں کچھ کہہ رہی تھیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے شوہر موت کے منھ سے نکل کر آئے ہیں۔
قریبی جھاڑیوں میں بھاگنے سے پہلے اس سؤر نے انہیں شدید طور پر زخمی کر دیا تھا۔
سدھیر جس کھیت میں کام کر رہے تھے اس میں اس دن وقفے وقفے سے ہونے والی بارش کی وجہ سے پانی لگا ہوا تھا۔ پندرہ دن سے زیادہ کی تاخیر کے بعد بوائی شروع ہو گئی تھی۔ سدھیر کے ذمہ جنگل سے متصل باندھوں کو سیدھا کرنا تھا۔ اس کام کے لیے اس روز انہیں ۴۰۰ روپے ملنے والے تھے؛ یہ کام ان کے بہت سے کاموں میں سے ایک ہے، جنہیں وہ روزی روٹی کمانے کے لیے انجام دیتے ہیں۔ اس طرح کے کام کے لیے انتظار کو وہ علاقے کے دیگر بے زمین لوگوں کی طرح دور دراز مقامات پر ہجرت کرنے پر ترجیح دیتے ہیں۔
اس رات ساؤلی کے سرکاری دیہی ہسپتال میں ابتدائی طبی امداد کے بعد سدھیر کو ۳۰ کلومیٹر دور گڑھ چرولی شہر کے ضلع ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا، جہاں انہیں ٹانکے لگائے گئے اور بحالی صحت کی خاطر چھ دن کے لیے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
اگرچہ کَوَٹھی گاؤں چندر پور ضلع میں واقع ہے، لیکن گڑھ چرولی شہر چندر پور شہر سے زیادہ قریب ہے: چندر پور وہاں سے تقریباً ۷۰ کلومیٹر دور ہے۔ انہیں ریبیز کے رابیپور انجیکشن لگوانے، زخموں کی پٹی بدلوانے اور دیگر حفاظتوں کے لیے ساؤلی کے کاٹیج (سرکاری) ہسپتال جانا ہوگا۔
جنگلی سؤر کے حملے کا سدھیر کا تجربہ زراعت سے متعلق خطرے کو بالکل نئے معنی عطا کرتا ہے۔ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، موسم کی مار اور اس قسم کی کئی دیگر تبدیلیاں کاشتکاری کو سب سے زیادہ خطرناک پیشوں میں سے ایک بنا دیتی ہیں۔ لیکن یہاں چندر پور میں، اور درحقیقت ہندوستان کے تحفظ شدہ اور غیرتحفظ شدہ جنگلات کے آس پاس کے بہت سے خطوں میں، زراعت کا پیشہ ایک خونی پیشہ بن گیا ہے۔
جنگلی جانور فصلوں کو تباہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے کسانوں کو چوکنا رہتے ہوئے راتوں کی نیندیں حرام کرنی پڑ رہی ہیں اور اپنی فصلوں کو بچانے کے لیے (جو کہ ان کا واحد ذریعہ آمدنی ہے) انہیں عجیب و غریب طریقے ایجاد کرنے پڑ رہے ہیں۔ پڑھیں: ’یہ ایک نئی قسم کی خشک سالی ہے‘
اگست ۲۰۲۲ کے بعد، اور اس سے پہلے بھی، اس رپورٹر نے باگھوں، چیتوں اور دیگر جنگلی جانوروں کے حملوں سے زندہ بچ جانے والے، شدید طور پر زخمی مردوں اور عورتوں، کسانوں، یا سدھیر جیسے زرعی مزدوروں سے ملاقات کی ہے اور ان کا انٹرویو لیا ہے۔ یہ لوگ چندر پور ضلع میں واقع تاڈوبا اندھاری ٹائیگر ریزرو (ٹی اے ٹی آر) کے ارد گرد کی جنگلاتی تحصیلوں – مول، ساؤلی، سندے واہی، برمھاپوری، بھدراوتی، ورورا، چیمور کے گاؤوں میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہے۔ جنگلی جانوروں خاص طور پر باگھوں اور انسانوں کے درمیان تصادم پچھلی دو دہائیوں سے یہاں خبروں کی سرخیوں میں ہے۔
اس رپورٹر کے ذریعہ حاصل شدہ ضلعی جنگلات کے اعداد وشمار کے مطابق، پچھلے سال صرف چندر پور ضلع میں باگھوں کے حملوں میں ۵۳ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ۳۰ افراد کا تعلق ساؤلی اور سندے واہی کی پٹی سے تھا۔ یہ اعداد و شمار انسانوں اور باگھوں کے تصادم کے ہاٹ-سپاٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
زخموں اور ہلاکتوں کے علاوہ خوف اور دہشت نے ٹی اے ٹی آر کے علاقوں (اس کے بفر علاقوں اور اس کے باہر) کے گاؤوں کو اپنی زد میں لے رکھا ہے۔ زراعت پر اس کے نتائج پہلے ہی واضح ہیں: جانوروں کے خوف اوراس احساس شکشت کے درمیان کسان ربیع (موسم سرما کی فصل) کی کھیتی ترک کر رہے ہیں، انہیں اندیشہ ہے کہ جنگلی سؤر، ہرن، یا نیل گائیں فصل کاٹنے کے لیے کچھ نہیں چھوڑیں گی۔
سدھیر خوش قسمت ہیں کہ وہ زندہ ہیں، ان پر باگھ نے نہیں بلکہ جنگلی سؤر نے حملہ کیا تھا۔ پڑھیں: مچان سے رات بھر کھیت کی پہریداری ۔
*****
بھاوِک زارکر (۲۰ سالہ) جب اگست ۲۰۲۲ کی ایک دوپہر کو بارش کے دوران چند دوسرے مزدوروں کے ساتھ ایک کھیت میں دھان کی روپائی کر رہے تھے، تو انہیں اپنے والد کے دوست وسنت پیپرکھیڑے کا فون موصول ہوا تھا۔
پیپرکھیڑے نے فون پر بھاوِک کو بتایا کہ کچھ دیر پہلے ان کے والد بھکتادا پر ایک باگھ نے حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں بھکتادا کی موت ہوگئی تھی اور ان کی لاش کو وہ جانور گھسیٹ کر اپنے ساتھ جنگل میں لے گیا تھا۔
باگھ کے ۴۵ سالہ شکار اور ان کے تین دوست جنگل سے متصل ایک کھیت میں کام کر رہے تھے کہ اچانک باگھ کہیں سے نمودار ہوا اور ان پر جھپٹ پڑا۔ اس وقت وہ بیٹھ کر آرام کر رہے تھے۔ باگھ عقب سے برآمد ہوا اور بھکتادا کی گردن دبوچ لی، شاید وہ انسان کو شکار سمجھ رہا تھا۔
’’ہم باگھ کو دیکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکے۔ وہ ہمارے دوست کو جھاڑیوں میں گھسیٹتے ہوئے لیے جا رہا تھا،‘‘ پیپرکھیڑے یاد کرتے ہیں، جو اب بھی اس دردناک واقعہ کے ایک بے بس گواہ ہونے کے احساس جرم میں مبتلا ہیں۔
ایک دوسرے مزدور اور اس واقعہ کے عینی شاہد سنجے راؤت کہتے ہیں، ’’ہم نے بہت شور مچایا۔ لیکن باگھ نے پہلے ہی بھکتادا کو پکڑ لیا تھا۔‘‘
دونوں دوستوں کا کہنا ہے کہ بہت آسانی سے یہ حادثہ ان دنوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی پیش آسکتا تھا۔
باگھ اس علاقے میں گھوم رہا تھا، لیکن انہیں توقع نہیں تھی کہ کھیت میں اس درندے کا سامنا ہو جائے گا۔ بھکتادا کی موت باگھ کے حملے میں گاؤں کی پہلی انسانی ہلاکت تھی۔ اس سے قبل گاؤں والے مویشی اور بھیڑیں کھو چکے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ساؤلی اور اس کے آس پاس کی دیگر تحصیلوں میں کئی لوگ مارے جا چکے ہیں۔
’’میں منجمد ہو گیا تھا،‘‘ اپنی ۱۸ سالہ بہن راگنی کے ساتھ ہیرا پور گاؤں میں اپنے گھر میں بیٹھے بھاوک یاد کرتے ہیں۔ ہیرا پور سدھیر کے گاؤں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خبر ان پر اور ان کے کنبے پر ایک سخت صدمے کی طرح اچانک نازل ہوئی تھی۔ جس طرح سے ان کے والد اپنے المناک انجام کو پہنچے تھے، اس سے وہ اب بھی حیران ہیں۔
بہن بھائی اب گھر کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ جب پاری نے ان سے ملاقات کی تو ان کی والدہ لتا بائی گھر پر موجود نہیں تھیں۔ راگنی کہتی ہیں، ’’وہ ابھی تک صدمے سے باہر نہیں نکل پائی ہیں۔ باگھ کے حملے میں میرے والد کی موت کو سمجھنا اور اس صدمے سے باہر نکلنا مشکل ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
گاؤں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے اور کسانوں کا کہنا ہے کہ ’’آج بھی کوئی تنہا باہر نہیں نکلتا ہے۔‘‘
*****
جابجا پھیلے ہوئے ساگوان اور بانسوں کے درختوں کے درمیان دھان کے کھیتوں میں بارش کے پانی کو روکنے کے لیے بنائے گئے بند (باندھ) کھیتوں کو مربع اور مستطیل کے خانوں میں بانٹتے نظر آتے ہیں۔ یہ علاقہ چندر پور ضلع کے سب سے زیادہ حیاتیاتی تنوع والے علاقوں میں سے ایک ہے۔
ساؤلی اور سندے واہی کی تحصیلیں تاڈوبا کے جنگلات کے جنوب میں واقع ہیں۔ تاڈوبا کے جنگلات میں باگھوں کے تحفظ کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ سال ۲۰۲۳ میں نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی (این ٹی سی اے) کی جانب سے جاری کردہ ٹائیگر کو-پریڈیٹرز کی ۲۰۲۲ کی اسٹیٹس رپورٹ میں بتایا گیا ہے سال ۲۰۱۸ میں ٹی اے ٹی آر میں باگھوں کی تعداد ۹۷ درج کی گئی تھی جو اس سال بڑھ کر ۱۱۲ ہو گئی ہے۔
ان میں سے بہت سے باگھ محفوظ پناہ گاہوں (پی اے) سے باہر انسانی آبادی سے متصل جنگلاتی علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا، ان جنگلی بلیوں کے محفوظ مقامات سے باہر نکلنے اور گھنی انسانی بستیوں میں بھٹکنے کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ باگھوں کے حملوں کی زیادہ تر وارداتیں بفر ژون اور اس کے آس پاس کے کھیتوں میں ہوتی ہیں، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ باگھ ریزرو (محفوظ کردہ علاقے) سے باہر نکل رہے ہیں۔
سال ۲۰۱۳ میں ٹی اے ٹی آر کے تناظر میں کیے گئے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر حملے محفوظ علاقے کے باہر بفر ژون اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہوئے ہیں۔ یہ حملے سب سے زیادہ جنگلات میں ہوتے ہیں، اس کے بعد زرعی اراضی اور تنزلی کے شکار جنگل اور شمال مشرقی راہداری کے ساتھ والے پیڑوں کے جھرمٹ میں ہوئے ہیں جو ریزرو، بفر ژون، اور بکھرے ہوئے جنگلات کو جوڑتا ہے۔
انسان اور باگھ کا تصادم باگھوں کے تحفظ میں آئی تیزی کا منفی پہلو ہے۔ یہ باتیں جولائی ۲۰۲۳ میں ممبئی میں ریاستی اسمبلی کے حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے مانسون اجلاس میں مہاراشٹر کے وزیر جنگلات سدھیر منگنٹیوار نے قانون ساز اسمبلی کو توجہ دلانے کی تحریک کے جواب میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ’ٹائیگر ٹرانس لوکیشن‘ (باگھوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے) کے تجربے کے ایک حصے کے طور پر دو بالغ باگھوں کو گونڈیا کے ناگزیرہ ٹائیگر ریزرو میں منتقل کیا ہے اور حکومت مزید باگھوں کو ان جنگلات میں منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے جہاں ان کے رہنے کی گنجائش ہے۔
اسی جواب میں انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ہلاکتوں یا زخموں، یا فصلوں کے نقصانات اور باگھوں کے حملوں میں مویشیوں کی ہلاکت کے متاثرین کے لیے معاوضے میں اضافہ کرے گی۔ اگرچہ حکومت نے انسانی اموات کی صورت میں معاوضے کی رقم ۲۰ لاکھ روپے سے بڑھا کر ۲۵ لاکھ روپے کر دی ہے، لیکن فصلوں کے نقصان اور مویشیوں کی موت کے لیے معاوضے کی رقم میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔ یہ معاوضہ فصل کے نقصان کی صورت میں زیادہ سے زیادہ ۲۵ ہزار روپے اور مویشیوں کی موت پر ۵۰ ہزار روپے ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے، تو اس بحران کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آ رہا ہے۔
ٹی اے ٹی آر کے علاقوں (ریزرو کے باہر بفر ژون اور اس کے نواح) میں کیے گئے ایک جامع مطالعہ کے مطابق، ’’ہندوستان کی وسطی ریاست مہاراشٹر میں تاڈوبا اندھاری ٹائیگر ریزرو کے آس پاس گزشتہ دو دہائیوں کے دوران انسانوں پر گوشت خور جانوروں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔‘‘
سال ۲۰۰۵ سے ۲۰۱۱ کے دوران کیے گئے اس مطالعے میں ’’تاڈوبا اندھاری ٹائیگر ریزرو میں اور اس کے آس پاس انسانوں پر باگھوں اور چیتوں کے حملوں کی انسانی اور ماحولیاتی صفات کا جائزہ لیا گیا تاکہ انسانوں اور بڑے گوشت خور جانوروں کے درمیان تصادم کو روکنے یا کم کرنے کے لیے سفارشات پیش کی جا سکیں۔‘‘ اس علاقے میں ہوئے ۱۳۲ حملوں میں سے باگھوں اور چیتوں کی حصے داری بالترتیب ۷۸ فیصد اور ۲۲ فیصد تھی۔
اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ’’متاثرین پر نمایاں طور پر زیادہ حملے دیگر سرگرمیوں کے مقابلے میں معمولی جنگلاتی مصنوعات جمع کرنے کے دوران ہوئے ہیں۔‘‘ جیسے جیسے جنگل سے دوری بڑھتی جاتی ہے حملوں کے امکان بھی اسی لحاظ سے کم ہوتے جاتے ہیں۔ مطالعہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ انسانی اموات اور دیگر تصادم کو کم کرنے کے لیے ٹی اے ٹی آر کے قریب جس حد تک ممکن ہو سکے انسانی سرگرمیوں کو منظم اور محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ متبادل ایندھن کے ذرائع (مثال کے طور پر بائیو گیس اور شمسی توانائی) تک رسائی میں اضافہ تحفظ شدہ علاقوں میں لکڑی کی کٹائی کے دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔
انسانی آبادی والے علاقوں میں گوشت خور جنگلی جانوروں کے پھیلاؤ کے وسیع رویوں اور جنگلی شکار کی کم دستیابی نے باگھوں کے تصادم میں ملوث ہونے کے امکان کو بڑھا دیا ہے۔
تاہم حالیہ برسوں میں ہونے والے واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ باگھوں کے زیادہ تر حملے نہ صرف اس وقت ہوتے ہیں جب لوگ جنگلی پیداوار جمع کر رہے ہوتے ہیں یا مویشی چرا رہے ہوتے ہیں، بلکہ اس وقت بھی ہوتے جب وہ کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ چندر پور ضلع کے بیشتر حصوں میں جنگلی جانوروں، خاص طور پر سبزی خور جانوروں کے ذریعہ فصلوں کا نقصان کسانوں کے لیے ایک بڑا درد سر ہے، لیکن ٹی اے ٹی آر کے نواحی علاقوں میں کھیتوں یا جنگل کے کنارے باگھوں اور چیتوں کے حملے خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں، جس سے کوئی راحت ملتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
پورے خطے میں سفر کے دوران یہ معلوم ہوا کہ لوگوں کے لیے جنگلی جانوروں اور باگھوں کے حملے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔ پونے میں مقیم جنگلی حیات کے ماہر حیاتیات ڈاکٹر ملند واٹوے کا خیال ہے کہ آنے والے وقتوں میں مسئلے کے اثرات ہندوستان کی تحفظ کی ضروریات پر بھی مرتب ہوں گے۔ اگر مقامی لوگ جنگلی حیات کے مخالف ہو جائیں، جیسا کہ وہ فطری طور پر ہوتے ہیں، تو محفوظ کردہ جنگلات سے باہر کے جنگلی جانور کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں!
موجودہ بحران صرف ایک باگھ کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایک سے زیادہ باگھوں سے پیدا ہوا ہے جو غلطی سے انسانوں کو اپنا شکار سمجھ کر ان پر حملے کر رہے ہیں۔ ایسے حملوں میں اپنے افراد خانہ کو کھونے والے کنبے اور ان واقعات کے گواہ کبھی نہ ختم ہونے والے صدموں کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ہیرا پور سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور ساؤلی تحصیل کے چاندلی بی کے گاؤں کے پرشانت یلٹّیوار کا کنبہ ایسا ہی ایک کنبہ ہے۔ ۱۵ دسمبر ۲۰۲۲ کو ان کی بیوی سؤروپا ایک بالغ باگھ کا شکار ہوگئیں۔ اس دن اس خوفناک منظر کو گاؤں کی پانچ دیگر خواتین نے دہشت کے عالم میں دیکھا تھا۔ جنگلی جانور ان پر جھپٹا تھا اور ان کی لاش کو گھسیٹ کر جنگل میں لے گیا تھا۔ یہ حادثہ ۱۵ دسمبر ۲۰۲۲ کی صبح ۱۱ بجے کے قریب پیش آیا تھا۔
سال ۲۰۲۳ میں ہم سے بات کرتے ہوئے یلٹّیوار کہتے ہیں، ’’اسے گزرے ہوئے چھ مہینے ہو گئے ہیں۔ میں ابھی تک سمجھ نہیں سکا کہ کیا ہوا تھا۔‘‘
یلٹّیوار کنبے کے پاس صرف ایک ایکڑ زمین ہے۔ وہ زرعی مزدوروں کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ جب یہ سانحہ پیش آیا تھا اس وقت سؤروپا دیگر خواتین کے ساتھ گاؤں کے ایک کسان کے کھیت میں کپاس چننے میں مصروف تھیں (دھان کی اس پٹی میں کپاس ایک نئی فصل ہے)۔ سؤروپا پر ایک باگھ نے اچانک حملہ کر دیا اور انہیں جنگل کے اندر آدھا کلومیٹر تک گھسیٹ کر لے گیا۔ گاؤں والوں نے جنگل کے اہلکاروں اور محافظوں کی مدد سے اس دردناک حادثے کے چند گھنٹے بعد ان کی مسخ شدہ اور ساکت لاش برآمد کی تھی۔ اس علاقے میں باگھوں کے حملوں کے شکار لوگوں کی طویل فہرست میں ان کا بھی نام شامل ہوگیا۔
’’باگھ کو خوفزدہ کرنے کے لیے ہمیں بہت شور مچانا پڑا، ہم نے تھالیاں بجائیں اور ڈھول پیٹے،‘‘ وستاری ایلّوروار کہتے ہیں، جو گاؤں کے ان لوگوں میں شامل تھے جو اس دن سؤروپا کی لاش لینے گئے تھے۔
’’ہم نے یہ سب کچھ دہشت کے عالم میں دیکھا،‘‘ سوریہ کانت ماروتی پاڈیوار کہتے ہیں، جو چھ ایکڑ زمین جوتنے والے کسان ہیں اور یلٹّیوار کنبے کے پڑوسی ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ ’’گاؤں میں خوف کا عالم ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اس حادثے کے بعد گاؤں والوں میں کافی غصہ تھا؛ انہوں نے مطالبہ کیا کہ محکمہ جنگلات مسئلہ پیدا کرنے والے باگھوں کو پکڑے یا ان کو ختم کرکے انہیں راحت پہنچائے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد احتجاج دم توڑ گیا۔
سؤروپا کے شوہر ان کی موت کے بعد کام پر واپس جانے کی ہمت نہیں کر پائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک باگھ اب بھی اس گاؤں کے اطراف میں آتا ہے۔
سات ایکڑ کی جوت والے ۴۹ سالہ کسان دیدّی جاگلو بدّموار کہتے ہیں، ’’ہم نے ایک ہفتہ قبل اپنے کھیتوں میں ایک باگھ کو دیکھا تھا۔ اس کے بعد ہم نے کبھی کسی کام کے سلسلے میں ادھر کا رخ نہیں کیا۔‘‘ یہ باتیں انہوں نے جولائی کے شروع میں کہیں، جب اچھی بارشوں کے بعد بوائی شروع ہو چکی تھی۔ ’’اس واقعہ کے بعد کسی نے ربیع کی فصل کاشت نہیں کی۔‘‘
پرشانت کو اپنی بیوی کی موت کے معاوضہ کے طور پر ۲۰ لاکھ روپے ملے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ رقم ان کی بیوی کو زندہ نہیں کر سکے گی۔ سؤروپا کے پسماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔
*****
سال ۲۰۲۳ ان معنوں میں ۲۰۲۲ سے مختلف ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ چندر پور ضلع کے وسیع و عریض ٹی اے ٹی آر کے نواحی علاقوں کے کھیتوں میں باگھوں کے حملے اور جنگلی جانوروں کے حملے ہنوز جاری ہیں۔
ایک ماہ قبل (۲۵ اگست ۲۰۲۳ کو) ایک قبائلی خاتون کسان لکشمی بائی کنّاکے، جن کی عمر ساٹھ کی دہائی میں تھی، باگھ کے حملے کی تازہ ترین شکار بنی تھیں۔ ان کا گاؤں ٹیکاڑی، بھدراوتی تحصیل میں ٹی اے ٹی آر کے کنارے واقع ہے، جو مشہور پہاڑی سلسلے موہرلی کے قریب ہے، اور جو اس شاندار جنگل میں داخل ہونے کا مرکزی دروازہ ہے۔
اس منحوس شام کو وہ اپنی بہو سلوچنا کے ساتھ ارائی ڈیم کے پانی کے ذخیرے سے ملحق اپنے کھیت میں کام کر رہی تھیں۔ شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب سلوچنا نے ایک باگھ کو دیکھا جو جنگلی گھاس کے درمیاں دبے پاؤں لکشمی بائی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ چیخ کر اپنی ساس کو خطرے سے آگاہ کرتیں، باگھ بوڑھی عورت پر جھپٹا مار چکا تھا۔ اس نے ان کی گردن پکڑ لی، اور ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈیم کے پانی میں لے گیا۔ سلوچنا نے بھاگ کر خود کو بچایا اور اور مزید لوگوں کو مدد کے لیے کھیت میں بلایا۔ لکشمی بائی کی لاش کو گھنٹوں بعد پانی سے برآمد کیا گیا۔
محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے فوری طور پر ۵۰ ہزار روپے جاری کر دیے، اور گاؤں والوں کے غصے اور ممکنہ عوامی احتجاج کی آنچ کو محسوس کرتے ہوئے اس کے چند روز بعد ہی ان کے ۷۴ سالہ سوگوار شوہر رام راؤ کناکے کو ۲۵ لاکھ روپے کی بڑھی ہوئی امدادی رقم دے دی تھی۔
گارڈوں کا ایک عملہ ٹیکاڑی میں چوکسی رکھتا ہے، باگھوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے کیمرے کے جال نصب کیے گئے ہیں، اور دہشت زدہ گاؤں والے گروپوں میں اپنے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے جاتے ہیں۔
اسی تحصیل (بھدراوتی) میں، ہماری ملاقات ۲۰ سالہ منوج نیل کنٹھ کھیرے سے ہوئی، جو گریجویشن کے دوسرے سال کے طالب علم ہیں، اور جو یکم ستمبر ۲۰۲۳ کی صبح جنگلی سؤر کے حملے میں شدید طور پر زخمی ہونے کے بعد صحت یاب ہو رہے ہیں۔
منوج کہتے ہیں، ’’میں اپنے والد کے کھیت میں گھاس کی نکائی کے کاموں کی نگرانی کر رہا تھا، جب ایک سؤر پیچھے سے بھاگتا ہوا آیا اور مجھ پر اپنے دانتوں سے حملہ کر دیا۔‘‘
بھدراوتی تحصیل کے گاؤں پیرلی میں اپنے ماموں منگیش آسوٹکر کے گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے منوج نے اس واقعے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ ’’سب کچھ ۳۰ سیکنڈ میں ہوا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
سؤر نے ان کی بائیں ران کو پھاڑ دیا تھا، اب اس پر پٹی لگی ہوئی ہے۔ اس نے بائیں پنڈلی کو اس زور سے کاٹا تھا کہ ان کی پوری پنڈلی ٹانگ سے الگ ہو گئی تھی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی پنڈلی حاصل کرنے کے لیے پلاسٹک سرجری کروانی پڑے گی، جس کا مطلب ہے اس کنبے کو ان کے علاج پر بہت بڑی رقم خرچ کرنی ہوگی۔ ’’میں خوش قسمت ہوں کہ میں اس حملے میں بچ گیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اور کوئی دوسرا زخمی نہیں ہوا۔
منوج ایک صحت مند اور اچھی قد کاٹھی کے نوجوان ہیں، اور اپنے کسان والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ چونکہ ان کا گاؤں وڈگاؤں ایک دور افتادہ گاؤں ہے اور یہاں عوامی ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ہے، اس لیے ان کے ماموں انہیں پیرلی لے آئے، جہاں سے ۲۷ کلومیٹر دور بھدراوتی قصبے کے ہسپتال جانا آسان ہے۔
اپنے اسمارٹ فون پر وہ اس دن کے حملے میں اپنے تازہ زخموں کی تصاویر دکھاتے ہیں۔ یہ تصاویر ان کے زخموں کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔
چاندلی گاؤں میں نیم گلہ بان کرمار (ریاست میں دیگر پسماندہ ذات کے طور پر درج) برادری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چنتامن بالموار کا کہنا ہے کہ لوگوں کی موت اور دائمی معذوری کے علاوہ، ایسے واقعات کھیتی کے کام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ’’کسان شاید ہی کبھی ربیع کی فصلیں کاشت کرتے ہیں اور مزدور کھیتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
جنگلی جانوروں کے حملے اور باگھوں کی نقل و حرکت بہت سے گاؤوں میں ربیع کی بوائی کو متاثر کرتی ہے۔ رات کی نگرانی عملی طور پر رک گئی ہے، اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پہلے کی طرح لوگ گاؤں چھوڑنے اور شام کو باہر نکلنے اور سفر کرنے سے ڈرتے ہیں۔
دریں اثنا، کَوَٹھی میں سدھیر کی ماں ششی کلا بائی، جو اس گاؤں کی ایک پرانی زرعی مزدور ہیں، کو معلوم ہے کہ جنگلی سؤر کے ساتھ اس منحوس دن کی مڈبھیڑ میں کس طرح ان کا بیٹا بال بال بچا تھا۔
’’آجی ماجھا پورگا وچلا جی،‘‘ بھگوان کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ مراٹھی زبان میں بار بار دہراتی ہیں۔ میرا لڑکا اس دن موت کے منہ سے نکل کر آیا تھا، وہ کہہ رہی ہیں۔ ’’وہ ہمارا تنہا سہارا ہے۔‘‘ سدھیر کے والد نہیں رہے۔ وہ بہت پہلے گزر چکے ہیں۔ اس ماں کا سوال ہے کہ ’’اس دن اگر سؤر کی جگہ باگھ ہوتا، تب کیا ہوتا؟‘‘
مترجم: شفیق عالم