’’چادر بادنی کٹھ پتلی کا ہمارے آباء و اجداد کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے،‘‘ تپن مرمو کہتے ہیں، ’’جب میں لوگوں کو اس کا کھیل دکھاتا ہوں، تو میں خود کو ان سب سے گھرا ہوا محسوس کرتا ہوں۔‘‘
یہ جنوری ۲۰۲۳ کے شروعاتی دن ہیں، اور مغربی بنگال کے بیر بھوم ضلع میں کھنجن پور گاؤں کی ایک چھوٹی سی بستی سرپوکورڈانگا میں فصلوں کی کٹائی کا تہوار منایا جا رہا ہے۔ تپن تقریباً تیس سال کے ایک کسان ہیں اور اپنی سنتھال آدیواسی برادری کی بیش قیمتی روایات سے انہیں گہرا لگاؤ ہے۔ ان روایات میں چادر بادنی نام کا کٹھ پتلی کا کھیل بھی شامل ہے۔
پاری سے بات چیت کرتے ہوئے تپن نے ہاتھ میں سرخ لال کپڑے سے لپٹا اور گنبد کی شکل کا کٹہرا پکڑ رکھا ہے۔ اس کے اندر انسانوں جیسی کئی چھوٹی چھوٹی مورتیوں والے پُتلے ہیں۔ یہ دراصل کٹھ پتلیاں ہیں، جنہیں لیور، بانس کی کمانیوں اور ایک رسی کے انتہائی پیچیدہ سسٹم کے ذریعے متحرک کیا جاتا ہے۔
’’میرے پیروں پر نظر ڈالیے اور دیکھئے کہ میں ان کٹھ پتیلوں کو کیسے نچاتا ہوں۔‘‘ جیسے ہی وہ اپنی مادری زبان سنتھالی میں گیت گانا شروع کرتے ہیں، ان کے مٹی سے بھرے پاؤں دیکھتے ہی دیکھتے متحرک ہو اٹھتے ہیں۔
تپن بتاتے ہیں، ’’چادر بادنی میں آپ جو دیکھتے ہیں وہ دراصل تہوار منانے کے لیے کیا جانے والا رقص ہے۔ کٹھ پتلی کا یہ رقص ہمارے تہوار کا ایک حصہ ہے، جو باندنا [فصل کی کٹائی کا جشن]، شادی بیاہ کی تقریبات، دسائے [سنتھال آدیواسیوں کا ایک تہوار]، درگا پوجا کے موقع پر ہوتا ہے۔‘‘
وہ کٹھ پتلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’’درمیان میں جو ہے وہ مورول [گاؤں کا مکھیا] ہے۔ وہ بنم [لکڑی سے بنے اکتارے] اور روایتی بانسری جیسے ساز بجاتا ہے۔ ایک طرف عورتیں رقص کرتی ہیں اور ان کے سامنے کھڑے مرد دھامسا اور مادل [آدیواسیوں کے آلات موسیقی] بجاتے ہیں۔‘‘
باندنا (جسے سوہرائی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) بیربھوم کے سنتھال آدیواسیوں کے لیے فصلوں کا سب سے بڑا تہوار ہے، جس میں کئی قسم کے رقص، گانے اور جشن ہوتے ہیں۔
اس فن میں جن کٹھ پتلیوں کا استعمال ہوتا ہے وہ خاص طور سے بانس یا لکڑی کی بنی ہوتی ہیں اور اونچائی میں تقریباً نو انچ کی ہوتی ہیں۔ انہیں چھوٹے سے اسٹیج پر بنے ایک پنڈال میں رکھا جاتا ہے۔ تار، لیور اور کمانیاں ایک چادر میں صفائی سے چھپائے گئے ہوتے ہیں اور اسٹیج کے نیچے سے آپریٹ ہوتے ہیں۔ تماشہ دکھانے والا تاروں کے ذریعے لیور کو چلاتا ہے، جن سے کٹھ پتیلوں کے اعضاء میں من چاہی حرکت پیدا کی جاتی ہے۔
برادری کے بزرگ بتاتے ہیں کہ چادر بادنی کے نام کا سلسلہ ڈھانپنے والی چادر یا چادور سے، جو اس پورے ڈھانچے کو باندھے رکھتی ہے جہاں کٹھ پتلیاں رکھی جاتی ہیں، سے شروع ہوا ہے۔
تپن کا کٹھ پتلی کھیل ایک خاص سنتھالی رقص پر مبنی ہے۔ دوپہر کے دوسرے پہر میں ہم اس کھیل کے پیچھے کی اصلیت، یعنی حقیقی رقص کو دیکھتے ہیں
تپن بتاتے ہیں کہ گاؤں کے دو چار بزرگ ہی اس فن کے ساتھ گائے جانے والے گیتوں کو جانتے ہیں۔ عورتیں اپنے اپنے گاؤوں میں یہ گیت گاتی ہیں، جب کہ مرد چادر بادنی کٹھ پتلیوں کے ساتھ ساتھ اپنے آس پاس کے علاقوں میں گھومتے ہیں۔ ’’ہم سات یا آٹھ لوگ اس علاقے کے آدیواسی گاؤوں میں دھامسا اور مادل جیسے اپنے آلات موسیقی کے ساتھ گھومتے ہیں۔ کٹھ پتلی کے اس کھیل میں کئی سازوں کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘
تپن، اس تہوار کے موسم میں برادری کے من مزاج کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ تہوار جنوری کی شروعات میں دس سے بھی زیادہ دنوں تک چلتا ہے اور جنوری کے بیچ میں پوش سنکرانتی کے آنے سے پہلے ختم ہو جاتا ہے۔
تپن بتاتے ہیں، ’’یہ ہمارے تہوار کے دن ہوتے ہیں، جب ہمارے گھروں میں کھیت سے تازہ کاٹے گئے دھان آتے ہیں۔ باندنا تہوار منانے کا یہ سب سے مناسب وقت ہوتا ہے۔ اس تہوار سے جڑے بہت سے رسم و رواج ہیں۔ ہر کوئی نئے نئے کپڑے پہنتا ہے۔‘‘
سنتھال آدیواسی پتھروں اور درختوں کو نذرانہ پیش کرتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کے آباء و اجداد کی علامت ہوتے ہیں۔ ’’ہمارے گھروں میں اچھا کھانا بنتا ہے، ہم اپنی روایتی شراب ہنڑیا بناتے ہیں، جو تازہ کٹے دھان سے بنتی ہے۔ روایات کے مطابق ہم شکار پر جاتے ہیں۔ گھروں کی صفائی کی جاتی ہے اور انہیں سجایا جاتا ہے۔ کھیتی میں کام آنے والے اوزاروں کی مرمت اور صفائی کی جاتی ہے، اور ہم اپنی گایوں اور بیلوں کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘
تہوار کے موسم میں پوری برادری جمع ہوتی ہے اور گاؤں میں اچھی کھیتی کے لیے دعا مانگی جاتی ہے۔ تپن بتاتے ہیں، ’’جو چیزیں بھی ہمیں زندہ رہنے میں مددگار ہوتی ہیں وہ سبھی مقدس مانی جاتی ہیں، اور پرب [تہوار] کے دوران ان کی پوجا کی جاتی ہے۔‘‘ شام کے وقت برادری کے لوگ ماجھر تھان [اجداد کے مقدس مقام] پر جمع ہوتے ہیں، جو گاؤں کے بالکل درمیان میں بنا ہوتا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں، ’’عورت، مرد، لڑکے اور لڑکیاں، چھوٹے بچے اور بڑے سبھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔‘‘
تپن کی کٹھ پتلیوں کا کھیل، جس میں ایک خاص سنتھالی رقص پیش کیا گیا ہے، صرف پہلی پرفارمنس ہے۔ دن کے دوسرے پہر میں، وہ ہمیں اس کے پیچھے کی حقیقت کو دیکھنے کے لیے مدعو کرتے ہیں، جو کہ ایک اصلی رقص ہوتا ہے۔
رنگ برنگی پوشاک کے ساتھ خوبصورت صافے اور پھول پتیوں سے سجی لکڑی کی یہ کٹھ پتلیاں جیتے جاگتے اور سانس لیتے انسانوں میں بدل جاتی ہیں، جو روایتی سنتھالی کپڑوں میں ہوتے ہیں۔ مرد اپنے سر پر پگڑی باندھتے ہیں، جب کہ عورتیں اپنے جوڑے میں تازہ پھول لگاتی ہیں۔ یہ ایک چہل پہل بھری شام ہے، کیوں کہ دھامسا اور مادل کی تھاپ پر نانچنے والوں کی منڈلی تھرک رہی ہے۔
برادری کے بڑے بزرگ ان کٹھ پتلیوں کے بارے میں کئی نسلوں سے چلی آ رہی ایک کہاوت سناتے ہیں۔ کہانی کچھ ایسی ہے: رقص سکھانے والے ایک گرو (استاد) نے ایک بار گاؤں کے پردھان سے کچھ ایسے رقاصوں کو جمع کرنے کی اپیل کی، جو ان کے ساتھ آس پاس کے علاقے میں فنی مظاہرہ کر سکیں۔ سنتھالی برادری کے بزرگوں نے اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو بھیجنے سے منع کر دیا، البتہ آلات موسیقی بجانے کے لیے وہ ضرور تیار ہو گئے۔ کوئی اور متبادل نہ ہونے پر، گرو نے اپنی یادداشت کی بنیاد پر عورتوں کی شکل والی ان کٹھ پتلیوں کو بنانے کا کام کیا، اور اس طرح چادر بادنی کٹھ پتلیاں وجود میں آئیں۔
’’آج ہماری نسل کے لوگ ہماری طرز زندگی سے بالکل بے خبر ہیں،‘‘ تپن کہتے ہیں۔ ’’وہ کٹھ پتلی کے اس فن، نایاب دھان کے بیجوں، دستکاری، کہانیوں، گیتوں اور ایسی بہت سی چیزوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘
اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ جشن کے ماحول پر ان کی بات کا منفی اثر نہ پڑے، وہ کہتے ہیں، ’’اصل فکر ان روایات کو بچانے کی ہے۔ اپنے حصے کی کوشش میں کر رہا ہوں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز