’’مجھے نہیں معلوم، ان جنگلوں میں ہماری کتنی نسلوں نے اپنی زندگی گزاری ہے،‘‘ مستو (وہ اپنا نام بس یہی بتاتے ہیں) کہتے ہیں۔ ون گوجر برادری سے تعلق رکھنے والا یہ چرواہا فی الحال سہارنپور ضلع کے شاکمبھری رینج میں پڑنے والے بیہٹ گاؤں میں رہ رہا ہے۔
ون گوجر، خانہ بدوش مویشی پروروں کی برادری کا ایک حصہ ہیں جو موسم کے لحاظ سے شمالی ہندوستان کے میدانی علاقوں سے لے کر ہمالیہ کے کوہستانی سلسلوں کے درمیان گھومتے رہتے ہیں۔ مستو اور ان کا گروپ فی الحال اتر کاشی ضلع کے بُگیالوں تک پہنچنے کے لیے اتراکھنڈ اور اتر پردیش کی سرحد پر واقع شیوالک رینج سے ہو کر گزر رہا ہے۔ سردی کا موسم شروع ہونے سے پہلے وہ دوبارہ شیوالک لوٹ آئیں گے۔
حقوق جنگلات قانون (ایف آر اے) ۲۰۱۶ ، جنگل میں رہنے والے لوگوں یا اپنے معاش کے لیے جنگلات پر منحصر لوگوں کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ یہ قانون ان برادریوں اور جنگل کے دیگر روایتی باشندوں کے حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور ان کے معاش کے لیے جنگلاتی وسائل کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی، ون گوجروں کے لیے ان حقوق تک رسائی حاصل کر پانا ناممکن ہے جو قانون کے ذریعے انہیں دیے گئے ہیں۔
ماحولیاتی بحران سے پیدا ہوئے اسباب کی وجہ سے جنگلوں کی حالت مزید بدتر ہوئی ہے۔ سوسائٹی فار پروموشن آف ہمالین انڈیجینس ایکٹیوٹیز کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر، مُنیش شرما کہتے ہیں، ’’پہاڑوں کے حیاتیاتی نظام میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ غیر خوردنی نباتات میں تیزی سے اضافہ کے ساتھ ساتھ چراگاہوں کی دستیابی میں کمی آتی جا رہی ہے۔‘‘
سہن بی بی فکرمند لہجے میں کہتی ہیں، ’’جنگل جب ختم ہو جائیں گے، تب ہم اپنے مویشیوں کا پیٹ کیسے بھریں گے؟‘‘ وہ بھی اپنے بیٹے غلام نبی کے ساتھ مستو کے گروپ میں شامل ہیں اور اتراکھنڈ جا رہی ہیں۔
یہ فلم اس خانہ بدوش برادری کی نقل مکانی کو بیان کرتی ہے اور اس سفر میں ان کے سامنے ہر سال آنے والے مسائل کو پیش کرتی ہے۔