’’وہ کہتے ہیں کہ یہ جگہ بدبودار ہے، گندی دکھائی دیتی ہے، اور کوڑے سے بھری ہوئی ہے،‘‘ سڑک کے دونوں طرف قطار میں لگے مچھلی کے ڈبوں اور وہاں بیٹھے مچھلی فروشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے این گیتا احتجاجی لہجے میں کہتی ہیں۔ ’’یہ کوڑا ہماری دولت ہے۔ یہ بدبو ہمارا ذریعہ معاش ہے۔ اسے چھوڑ کر ہم کہاں جا سکتے ہیں؟‘‘ ۴۲ سالہ گیتا پوچھتی ہیں۔

ہم مرینا ساحل کے ساتھ ۵ء۲ کلومیٹر تک چلنے والی لوپ روڈ پر نوچی کُپّم کے عارضی مچھلی بازار میں کھڑے ہیں۔ ’وہ لوگ‘ جو شہر کی خوبصورتی کے نام پر دکانداروں کو یہاں سے ہٹانا چاہتے ہیں، وہ دراصل طبقہ اشرافیہ کے قانون ساز اور شہری حکام ہیں۔ گیتا جیسے ماہی گیروں کے لیے نوچی کُپّم ان کا او رو (گاؤں) ہے۔ سونامیوں اور طوفانوں کے باوجود اس جگہ سے ان کا تعلق ہمیشہ قائم رہا ہے۔

بازار کی رونق بڑھنے سے پہلے گیتا صبح صبح اپنا اسٹال درست کر رہی ہیں۔ چند الٹی ہوئی کریٹوں کے سہارے پلاسٹک کے بورڈ سے بنائی گئی عارضی میز پر وہ پانی چھڑک رہی ہیں۔ اس اسٹال پر وہ دوپہر ۲ بجے تک رہیں گی۔ دو دہائی سے بھی کچھ عرصہ قبل اپنی شادی کے بعد سے وہ یہاں مچھلیاں فروخت کر رہی ہیں۔

لیکن ایک سال سے کچھ عرصہ پہلے، ۱۱ اپریل ۲۰۲۳ کو انہیں اور لوپ روڈ کے تقریباً ۳۰۰ دیگر مچھلی فروشوں کو گریٹر چنئی کارپوریشن (جی سی سی) کی جانب سے بے دخلی کا نوٹس موصول ہوا ہے۔ مدراس ہائی کورٹ کے ایک آرڈر میں جی سی سی کو ایک ہفتے کے اندر سڑک خالی کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ ’’گریٹر چنئی کارپوریشن قانونی عمل کی پاسداری کرتے ہوئے لوپ روڈ پر موجود ہر تجاوزات [مچھلی فروشوں، اسٹالوں، وہاں کھڑی گاڑیوں] کو ہٹائے گی۔ اس عمل کو یقینی بنانے میں پولیس کارپوریشن کو مدد فراہم کرے گی تاکہ سڑک کا پورا حصہ اور فٹ پاتھ تجاوزات سے پاک ہو جائے اور ٹریفک کی آزادانہ آمد و رفت ممکن ہو سکے اور پیدل چلنے والے بھی آسانی سے آ جا سکیں۔‘‘

PHOTO • Abhishek Gerald
PHOTO • Manini Bansal

بائیں: نوچی کُپّم مارکیٹ میں بیچنے کے لیے رکھی گئیں تِلپیا، مَیکریل اور تِھریڈ فنس مچھلیوں کے ساتھ گیتا۔ دائیں: ماہی گیر آج پکڑی گئیں مچھلیوں کو چھانٹ رہے ہیں

PHOTO • Abhishek Gerald
PHOTO • Manini Bansal

بائیں: احاطے کے اندر نئی مارکیٹ کا ایک حصہ، جس کے مرکز میں کار پارکنگ کی ایک جگہ بھی ہے۔ دائیں: نوچی کُپّم میں کھڑی ۲۰۰ کے قریب کشتیوں میں سے کچھ کشتیاں

تاہم، ماہی گیر برادری خود کو یہاں کا پوروا کُڈی یعنی اصل باشندہ تصور کرتی ہے۔ اور ان کا خیال ہے کہ شہر نے  ان کی زمین پر آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا، جو تاریخی طور پر ان سے تعلق رکھتی تھی۔

چنئی (یا مدراس) کے آباد ہونے سے بہت پہلے اس ساحلی پٹی پر سمندر میں چھوٹے چھوٹے بے شمار کٹّو مرم (کیٹ مرین) نظر آتے رہتے تھے۔ ماہی گیر یہاں کی مدھم روشنی میں صبر سے بیٹھے ہواؤں کو محسوس کرتے، باد نسیم کی خوشبو لیتے، اور ونڈ تنّی کی علامات کے لیے لہروں پر نظر رکھتے تھے۔ کاویری اور کولیدم ندیوں کی گاد سے لبریز دھارا کو ’ونڈ تنّی‘ کہتے ہیں جو موسمی طور پر چنئی کی ساحلی پٹی کی جانب بڑھتی ہے۔ کبھی یہ موجیں اپنے ساتھ مچھلیوں کا جھنڈ لے کر آتی تھیں۔ آج مچھلیاں بہت زیادہ نہیں ہیں، لیکن چنئی کے ماہی گیر اب بھی سمندری ساحل پر انہیں فروخت کرتے ہیں۔

’’آج بھی، ماہی گیر ونڈ تنّی کا انتظار کرتے ہیں، لیکن شہر کی ریت اور کنکریٹ نے چنئی کی اس یاداشت کو مٹا دیا ہے جو کبھی ماہی گیروں کے کُپّم [ایک ہی پیشہ اپنانے والے لوگوں کی بستی] کا مجموعہ ہوا کرتی تھی،‘‘ ایس پالیَم ایک آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ نوچی کُپّم مارکیٹ سے ندی کے دوسرے کنارے پر واقع اُرور آلکاوٹ کُپّم گاؤں کے ایک ماہی گیر ہیں۔ ’’کیا لوگوں کو وہ یاد ہے؟‘‘

ساحلی بازار ماہی گیروں کے لیے زندگی کی لکیر کی طرح ہے۔ جی سی سی کے منصوبے کے مطابق مچھلی بازار کی منتقلی سے شہر کے دیگر باشندوں کو معمولی تکلیف ہو سکتی ہے، لیکن نوچی کُپّم کے مچھلی فروش ماہی گیروں کے لیے یہ ذریعہ معاش اور شناخت کا بھی سوال ہے۔

*****

مرینا بیچ (ساحل) کے لیے لڑائی بہت پرانی ہے۔

انگریزوں اور ان کے بعد یکے بعد دیگرے آنے جانے والی سبھی حکومتوں کی مرینا بیچ کی خوبصورتی میں حصہ داری ادا کرنے کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔ ایک لمبی سیرگاہ، اس کا احاطہ کرتی لان، ترتیب سے لگائے گئے درخت، صاف ستھرے راستے، خوبصورت چھتریاں، ریمپ وغیرہ ان قصوں کی مثالیں ہیں۔

PHOTO • Manini Bansal
PHOTO • Manini Bansal

بائیں: نوچی کُپّم لوپ روڈ پر گشت لگاتے پولیس اہلکار۔ دائیں: فروخت کے لیے بازار میں رکھے گئے تازہ سمندری جھینگے

PHOTO • Manini Bansal
PHOTO • Sriganesh Raman

بائیں: نوچی کُپّم میں عارضی خیمے اور شیڈ۔ ماہی گیر ان کا استعمال جال رکھنے اور تفریح ​​کے لیے کرتے ہیں۔ دائیں: ماہی گیر مرینا بیچ پر اپنے جال میں پھنسی مچھلیاں نکال رہے ہیں

اس بار عدالت نے لوپ روڈ پر ٹریفک کی بدنظمی کے پیش نظر ایک سوموٹو پٹیشن کے ذریعے ماہی گیروں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ خیال رہے کہ مدراس ہائی کورٹ کے جج صاحبان اپنی روزانہ کی آمد و رفت کے لیے خود اس سڑک کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سڑک کے کنارے لگنے والے مچھلی اسٹالوں کو ہٹانے کے احکامات اس لیے دیے گئے تھے، کیونکہ ان کے بارے میں خیال تھا کہ وہ بھیڑ بھاڑ والے اوقات میں بدنظمی کا باعث بن رہے ہیں۔

جب ۱۲ اپریل کو جی سی سی اور پولیس حکام نے لوپ روڈ کے مغربی جانب مچھلی کے اسٹالوں کو مسمار کرنا شروع کیا، تو اس علاقے کی ماہی گیروں نے ایک سے زیادہ موقعوں پر عوامی احتجاج کیا تھا۔ احتجاج کو اس وقت معطل کر دیا گیا جب جی سی سی نے عدالت سے وعدہ کیا کہ جدید مچھلی بازار کی تکمیل تک وہ لوپ روڈ پر ماہی گیروں کا انتظام دیکھے گی۔ اب علاقے میں اکثر پولیس موجود رہتی ہے۔

’’خواہ جج ہوں یا چنئی کارپوریشن، سبھی حکومت کا حصہ ہیں۔ ہے کہ نہیں؟ تو حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے؟ ایک طرف وہ ہمیں ساحلی علاقوں کی علامت کہتے ہیں اور دوسری طرف، ہمیں اپنے ذریعہ معاش سے محروم رکھنا چاہتے ہیں،‘‘ سمندری ساحل پر مچھلی فروخت کرنے والی ۵۲ سالہ ایس سروجا کہتی ہیں۔

وہ حکومت کی جانب سے ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۵ کے درمیان الاٹ شدہ نوچی کُپّم ہاؤسنگ کامپلیکس کی جداری نقاشی کا حوالہ دے رہی ہیں۔ یہ کامپلیکس سڑک کی دوسری جانب واقع ہے، جو انہیں سمندری ساحل سے الگ کرتی ہے۔ مارچ ۲۰۲۳ میں تمل ناڈو اربن ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ بورڈ، ایس ٹی+آرٹ نامی این جی او اور ایشین پینٹس نے اس کامپلیکس کی ’تزئین کاری‘ کی پہل کی۔ انہوں نے نیپال، اوڈیشہ، کیرالہ، روس اور میکسیکو کے فنکاروں کو نوچی کُپّم میں ۲۴ مکانات کی دیواروں پر جداری نقاشی کے لیے مدعو کیا۔

عمارتوں کی طرف دیکھتے ہوئے گیتا کہتی ہیں، ’’انہوں نے دیواروں پر ہماری روزمرہ کی زندگیوں کی تصویر کشی کی اور پھر ہمیں ہی علاقے سے بے دخل کر رہے ہیں۔ ان عمارتوں میں ’مفت مکان‘ اور کچھ تو ہو سکتے ہیں لیکن مفت نہیں ہو سکتے۔ ’’ایک ایجنٹ نے مجھ سے ایک اپارٹمنٹ کے لیے پانچ لاکھ روپے ادا کرنے کو کہا،‘‘ نوچی کُپّم کے ایک تجربہ کار ماہی گیر، ۴۷ سالہ پی کنّ داسن کہتے ہیں۔ ’’اگر ہم ادائیگی نہیں کرتے ہیں تو اپارٹمنٹ کسی اور کو الاٹ کر دیا جاتا،‘‘ ان کے ۴۷ سالہ دوست ارسو کہتے ہیں۔

شہری آبادی کے طور پر چنئی کی تیزرفتار قلب ماہیت اور ماہی گیروں کی رہائش گاہوں اور سمندری ساحل کے درمیان لوپ روڈ کی تعمیر، سٹی کارپوریشن کے ساتھ ماہی گیروں کے بار بار جھگڑے کا سبب بنے ہیں۔

PHOTO • Manini Bansal
PHOTO • Manini Bansal

نوچی کُپّم میں کنّ داسن (بائیں)۔ ارسو (دائیں) اور ان کے بیٹے نتیش (خاکی ٹی شرٹ میں) چھتری کے سائے میں اپنی دادی کے ساتھ کیمرے کے لیے پوز دیتے ہوئے

PHOTO • Sriganesh Raman
PHOTO • Sriganesh Raman

بائیں: بازار میں مچھلی فروخت کرتے ہوئے رنجیت۔ دائیں: حکومت کی جانب سے ماہی گیروں کے لیے مختص ہاؤسنگ کامپلیکس پر جداری نقاشی

ماہی گیر خود کو ایک کُپّم (بستی) سے جڑا ہوا مانتے ہیں۔ ’’اگر مردوں کو سمندر میں اور ساحل پر کام کرنا پڑے، لیکن عورتوں کو گھر سے دور تو کپم کیسا ہوگا؟‘‘ ۶۰ سالہ پالیم پوچھتے ہیں۔ ’’ہم اپنے اور سمندر کے درمیان تعلق کے تمام احساس کو کھو دیں گے۔‘‘ بہت سے کنبوں کے لیے بات چیت کا واحد وقت مردوں کی کشتیوں سے خواتین کے اسٹال پر مچھلیوں کی منتقلی کے دوران ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد رات کو مچھلیاں پکڑتے ہیں اور دن کو سوتے ہیں، جب عورتیں مچھلیاں بیچنے نکلتی ہیں۔

دوسری جانب سیر کرنے والے اور جاگر (دوڑنے والے) اس جگہ کو عام طور پر ماہی گیروں سے متعلق سمجھتے ہیں۔ مرینا پر سیر کرنے والوں میں سے ایک ۵۲ سالہ چٹی بابو کہتے ہیں، ’’بہت سے لوگ صبح کے وقت یہاں آتے ہیں۔ وہ خاص طور پر مچھلیاں خریدنے کے لیے آتے ہیں… یہ ان [ماہی گیروں] کی آبائی تجارت ہے اور [وہ] طویل عرصے سے یہاں موجود ہیں۔ ان کو یہاں سے کہیں اور جانے کے لیے کہنے کا کوئی مطلب نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

نوچی کُپّم کے ۲۹ سالہ ماہی گیر رنجیت کمار اتفاق کرتے ہیں۔ ’’مختلف قسم کے لوگ ایک ہی مقام کو استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ٹہلنے والے صبح ۶ سے ۸ بجے تک آتے ہیں۔ اس وقت ہم سمندر میں ہوتے ہیں۔ جب ہم واپس آتے ہیں اور خواتین اپنا اسٹال لگاتی ہیں، تو یہ تمام لوگ وہاں سے جا چکے ہوتے ہیں۔ ہمارے اور چہل قدمی کرنے والوں کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صرف حکام ہی مسئلہ پیدا کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

*****

یہاں مختلف نوع کی مچھلیاں فروخت کے لیے رکھی جاتی ہیں. کچھ چھوٹی، اتھلے پانی کی مچھلیوں، جیسے کریسنٹ گَرنٹر (ٹیراپون جاربُوا)، اور پُگنوز پونی فش (ڈیویکسیمینٹم انسیڈی ایٹر)، کو یہاں نوچی کُپّم بازار سے ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے فی کلوگرام کے لحاظ سے خریدا جا سکتا ہے۔ انہیں گاؤں کے ۲۰ کلومیٹر کے دائرے میں مقامی طور پر پکڑا جاتا ہے اور بازار کے ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ بازار کے دوسری طرف بڑی اور اونچی قیمت والی مچھلیاں فروخت ہوتی ہیں، جیسے سیر مچھلی (اسکومبیرومورس کامرسن) کی قیمت عام طور پر ۹۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے فی کلوگرام ہوتی ہے جبکہ بڑے سائز کی ٹریویلی (سیوڈوکیرینکس ڈینٹیکس) ۵۰۰ سے ۷۰۰ روپے فی کلوگرام کے حساب سے خریدی جا سکتی ہیں۔ یہاں کے ماہی گیر ان اقسام کے لیے مقامی نام استعمال کرتے ہیں، جیسے کِیچَن، کار پوڈی، وَنجرم، اور پارئی۔

سورج کی تپش مچھلیوں کو خراب ہونے سے پہلے ہی فروخت کر لینے کے لیے وقت کے ساتھ دوڑ شروع کر دیتی ہے۔ کیونکہ پارکھی نظر رکھنے والے گاہک تازہ مچھلیوں اور خراب ہو رہی مچھلیوں کو آسانی سے پہچان لیتے ہیں۔

PHOTO • Manini Bansal
PHOTO • Sriganesh Raman

بائیں: ایک مچھلی فروش سارڈینز کو چھانٹتے ہوئے۔ دائیں: خواتین مچھلی فروش بازار میں سڑک پر مچھلیاں صاف کر رہی ہیں

PHOTO • Abhishek Gerald
PHOTO • Manini Bansal

بائیں: نوچی کُپّم میں میکریل کو خشک کیا جا رہا ہے۔ دائیں: فروخت کرنے کے لیے ترتیب سے رکھی گئیں مچھلیاں، جن میں فلاؤنڈر، گوٹ فش اور سلور بیڈیز شامل ہیں

’’اگر میں زیادہ مقدار میں مچھلی نہیں فروخت کروں گی، تو میرے بچوں کی فیس کون ادا کرے گا؟‘‘ گیتا دریافت کرتی ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں۔ ایک اسکول جاتا ہے، اور ایک کالج۔ ’’میں اپنے شوہر سے یہ امید نہیں کرسکتی کہ وہ روزانہ مچھلی پکڑنے جائیں گے۔ مجھے صبح ۲ بجے اٹھ کر مچھلی خریدنے اور واپس آکر وقت پر یہاں اپنا اسٹال لگانے کے لیے کاسِمیڈو [نوچی کُپّم سے ۱۰ کلومیٹر شمال میں] جانا پڑتا ہے۔ ورنہ فیس کی کون کہے، ہم کھانا بھی نہیں کھا سکیں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

تمل ناڈو میں سمندر سے مچھلی پکڑنے کے کام میں مصروف ۶۰۸ گاؤوں کے ماہی گیروں کی ۴۸ء۱۰ لاکھ کی آبادی میں سے تقریباً نصف خواتین ہیں۔ اور اس بستی کی خواتین ہی عام طور پر مچھلیوں کے عارضی اسٹال چلاتی ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ آمدنی کا صحیح حساب لگانا مشکل ہے، لیکن نوچی کُپّم کے مچھلی فروش، حکومت کی جانب سے منظور شدہ دور افتادہ بندرگاہ کاسمیڈو یا دیگر اندرونی بازاروں کے مقابلے نسبتاً اچھی کمائی کر لیتے ہیں۔

گیتا بتاتی ہیں، ’’ہفتے کے آخری دن میرے لیے مصروف ترین دن ہوتے ہیں۔ ہر کھیپ کی فروخت سے میں تقریباً ۳۰۰ سے ۵۰۰ روپے کماتی ہوں، اور اسٹال کھلنے کے وقت سے (صبح ۸:۳۰ بجے سے ۹ بجے تک) دوپہر کے ایک  بجے تک تقریباً مسلسل کام کرتی ہوں۔ آپ کو یہ بتانا مشکل ہے کہ میں کتنا کما لیتی ہوں، کیونکہ مجھے صبح کے وقت مچھلی خریدنے اور آنے جانے پر بھی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ میرے خرچے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مجھے کس قسم کی مچھلی اور کس قیمت پر ملتی ہے۔‘‘

مجوزہ انڈور مارکیٹ میں منتقل ہونے کے بعد آمدنی میں کمی کا خوف ان سب کو ہے۔ سمندری ساحل پر ایک ماہی گیر خاتون، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتی ہیں، ’’یہاں اپنی کمائی سے ہم اپنے گھر اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر لیتے ہیں۔ میرا بیٹا بھی کالج جاتا ہے! میں اسے اور اپنے دوسرے بچوں کو کالج کی تعلیم کیسے دوں گی، اگر ہم ایسے بازار میں منتقل ہو جائیں گے جہاں کوئی مچھلی خریدنے آئے گا ہی نہیں؟ کیا حکومت اس کا بھی خیال رکھے گی؟‘‘ وہ پریشان ہیں اور حکومت سے شکایت کرنے کے نتائج سے خوفزدہ ہیں۔

آر اوما (۴۵)، جو بسنت نگر بس اسٹینڈ کے قریب ایک اور انڈور فش مارکیٹ میں منتقل ہونے پر مجبور ہونے والی خواتین میں شامل تھیں، کہتی ہیں، ’’ایک دھاری دار اسکیَٹ فش [اسکیٹوفیگس آرگس] جو نوچی کُپّم میں ۳۰۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے، بسنت نگر مارکیٹ میں ۱۵۰ روپے سے زیادہ میں نہیں فروخت ہوگی۔ اگر ہم اس بازار میں قیمت بڑھائیں گے تو کوئی خریدے گا ہی نہیں۔ یہاں ایک نظر دوڑائیں، بازار گندا ہے، اور مچھلیاں بھی باسی ہیں۔ یہاں آکر کون خریداری کرے گا؟ ہم ساحل پر تازہ مچھلیاں بیچنا پسند کریں گے، لیکن حکام ہمیں اجازت نہیں دیتے۔ انہوں نے ہمیں اس انڈور مارکیٹ میں منتقل کر دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں قیمتیں کم کرنی پڑتی ہیں، باسی مچھلیاں فروخت کرنی پڑتی ہیں اور معمولی کمائی سے کام چلانا پڑتا ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ نوچی کُپّم کی خواتین ساحل پر اپنا اسٹال لگانے کے لیے کیوں لڑ رہی ہیں۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔‘‘

PHOTO • Manini Bansal
PHOTO • Manini Bansal

بائیں: چٹی بابو جب مرینا لائٹ ہاؤس کے علاقے میں سیر کے لیے آتے ہیں، تو وہ اکثر بازار بھی آتے ہیں۔ دائیں: کرشن راج ایک تجربہ کار ماہی گیر ہیں۔ وہ نوچی کُپّم مارکیٹ کی منتقلی کے بارے میں اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہیں

چٹی بابو، جو ساحل کے مچھلی خریداروں میں شامل ہیں، کہتے ہیں، ’’مجھے معلوم ہے کہ نوچی کُپّم مارکیٹ میں تازہ مچھلیاں خریدنے کے لیے میں اضافی قیمت ادا کرتا ہوں، لیکن مجھے یہ برا نہیں لگتا ہے کیوں کہ میں معیار کے بارے میں پوری طرح مطمئن رہتا ہوں۔‘‘ نوچی کُپّم میں پھیلی گندگی اور بدبو کے کو دیکھتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں، ’’کیا کوئم بیڈو مارکیٹ (پھل، پھول اور سبزی منڈی) ہمیشہ صاف رہتی ہے؟ گندگی تمام بازاروں میں ہوتی ہے، کم از کم کھلے ہوادار بازار بہتر ہوتے ہیں۔‘‘

’’ساحل کے بازار سے بدبو آ سکتی ہے،‘‘ سروجا بول پڑتی ہیں، ’’لیکن سورج ہر چیز کو خشک کر دیتا ہے اور پھر اسے جھاڑوں سے صاف کیا جا سکتا ہے۔ سورج گندگی کو صاف کر دیتا ہے۔‘‘

نوچی کُپّم سے تعلق رکھنے والے ۷۵ سالہ ماہی گیر کرشن راج آر کہتے ہیں، ’’کوڑا گاڑیاں آتی ہیں اور عمارتوں سے گھروں کا کوڑا کچرا اکٹھا کرتی ہیں، لیکن بازار کا کوڑا کچرا چھوڑ دیتی ہیں۔ انہیں [حکومت کو] اس [لوپ روڈ مارکیٹ] جگہ کو بھی صاف رکھنا چاہیے۔‘‘

’’حکومت اپنے شہریوں کے لیے متعدد شہری خدمات فراہم کرسکتی ہے، تو اس سڑک کے آس پاس کے علاقوں کو کیوں صاف نہیں کیا جا سکتا؟ کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں کی صفائی کی ذمہ داری ہماری ہے، لیکن ہم اسے اپنے کام کے لیے استعمال نہیں کر سکتے؟‘‘ پالیم پوچھتے ہیں۔

کنّ داسن کہتے ہیں، ’’حکومت صرف امیروں کے مفاد میں کام کرتی ہے، ان کی سیر کے لیے راستے بنواتی ہے، روپ کار اور دوسرے منصوبے لے کر آتی ہے۔ وہ ان کاموں کے لیے حکومت کو پیسے دیتے ہوں گے اور حکومت بیچولیوں کو کام کرنے کے لیے ادائیگی کرتی ہوگی۔‘‘

PHOTO • Manini Bansal
PHOTO • Manini Bansal

بائیں: نوچی کُپّم ساحل پر ایک ماہی گیر اپنے جال سے سارڈین مچھلیاں نکال رہا ہے۔ دائیں: کنّ داسن جال سے اپنی پکڑی ہوئی اینچووی (چھوٹی اور نمکین) مچھلیاں نکال رہے ہیں

’’ساحل کے قریب رہ کر ہی کوئی ماہی گیر اپنی زندگی سنبھال سکتا ہے۔ اگر آپ اسے سمندر سے دور کر دیں گے تو وہ کیسے زندہ رہے گا؟ پھر بھی اگر ماہی گیر احتجاج کرتے ہیں، تو انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر متوسط ​​طبقے کے لوگ احتجاج کریں، تو کبھی کبھی حکومت سن بھی لیتی ہے۔ اگر ہم جیل گئے تو ہمارے گھروالوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘ کنّ داسن پوچھتے ہیں۔ ’’لیکن یہ سب ماہی گیروں کے مسائل ہیں، جنہیں شہریوں کے طور پر نہیں دیکھا جاتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

’’اگر اس جگہ سے انہیں بدبو آتی ہے، تو وہ یہاں نہ آئیں،‘‘ گیتا کہتی ہیں۔ ’’ہمیں کوئی مدد یا احسان نہیں چاہیے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں پریشان اور ہراساں نہ کیا جائے۔ ہمیں پیسہ، مچھلی ذخیرہ کرنے کے باکس، قرضے، کچھ بھی نہیں چاہیے۔ بس ہمیں اپنی جگہ پر رہنے دو، یہی کافی ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

’’نوچی کُپّم میں فروخت ہونے والی زیادہ تر مچھلیاں یہیں سے آتی ہیں، لیکن بعض اوقات ہم انہیں کاسِمیڈو سے بھی لاتے ہیں،‘‘ گیتا کہتی ہیں۔ ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مچھلی کہاں سے آتی ہے،‘‘ ارسو رائے زنی کرتے ہیں، ’’ہم سب یہاں مچھلی بیچتے ہیں۔ ہم ہمیشہ متحد ہیں۔ ہم چیختے چلاتے ہیں اور ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں، لیکن یہ یہاں کا معمول ہے، اور جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو ہم ہمیشہ احتجاج کے لیے متحد ہو جاتے ہیں۔ ہم نہ صرف اپنے مسائل کے لیے، بلکہ دیگر ماہی گیروں کے گاؤوں کو درپیش مسائل کے لیے بھی احتجاج میں شامل ہونے کی غرض سے اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘

لوپ روڈ کے کنارے آباد تین ماہی گیر کُپّموں کے لوگ بھی نئی مارکیٹ میں اسٹال ملنے کو لے کر شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ نوچی کُپّم فشنگ سوسائٹی کے سربراہ رنجیت صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’نئی مارکیٹ میں ۳۵۲ اسٹالیں بننے والی ہیں۔ یہ اسٹال کافی سے زیادہ ہوں گے اگر وہ صرف نوچی کُپّم کے مچھلی فروشوں کو دیے جائیں۔ تاہم، تمام مچھلی فروشوں کو مارکیٹ میں جگہ نہیں ملے گی۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ اس مارکیٹ میں لوپ روڈ کے تین کُپّموں کے تمام مچھلی فروشوں کو جگہ دی جائے گی۔ نوچی کُپّم سے پَٹیناپَکم تک کے پورے علاقے میں تقریباً ۵۰۰ مچھلی فروش ہیں۔ ۳۵۲ اسٹالوں کے الاٹ ہونے کے بعد باقی لوگوں کا کیا ہوگا؟ اس بات کو لے کر کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ کسے جگہ ملے گی اور باقی لوگ کہاں جائیں گے؟‘‘ وہ کہتے ہیں۔

’’میں فورٹ سینٹ جارج [قانون ساز اسمبلی کے مقام پر] میں اپنی مچھلی بیچنے جاؤں گا۔ پوری بستی جائے گی، اور ہم وہاں احتجاج کریں گے،‘‘ ارسو کہتے ہیں۔

اس اسٹوری میں خواتین کے نام، ان کی گزارش پر تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Divya Karnad

دویہ کرناڈ ایک بین الاقوامی انعام یافتہ سمندری جغرافیہ کی ماہر اور حیاتیات کی حامی ہیں۔ وہ ’اِن سیزن فِش‘ کی شریک کار بانی ہیں۔ انہیں لکھنا اور رپورٹنگ کرنا پسند ہے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Divya Karnad
Photographs : Manini Bansal

مانینی بنسل بنگلورو میں مقیم وژوئل کمیونی کیشن ڈیزائنر اور فوٹوگرافر ہیں جو ماحولیات کے تحفظ کے شعبہ میں کام کر رہی ہیں۔ وہ ڈاکیومینٹری فوٹوگرافی بھی کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Manini Bansal
Photographs : Abhishek Gerald

ابھیشیک گیرالڈ، چنئی میں مقیم ایک مرین بائیولوجسٹ ہیں۔ وہ ’فاؤنڈیشن فار ایکولوجی ریسرچ ایڈووکیسی اینڈ لرننگ‘ اور ’اِن سیزن فِش‘ کے ساتھ ماحولیات کے تحفظ اور پائیدار سمندری غذا پر کام کرتے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Abhishek Gerald
Photographs : Sriganesh Raman

شری گنیش رمن ایک مارکیٹنگ پروفیشنل ہیں اور فوٹوگرافی میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ ٹینس کھیلتے ہیں اور الگ الگ موضوعات پر بلاگ بھی لکھتے ہیں۔ ’اِن سیزن فِش‘ میں ان کا کام ماحولیات کے بارے میں سیکھنے سے متعلق ہے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Sriganesh Raman
Editor : Pratishtha Pandya

پرتشٹھا پانڈیہ، پاری میں بطور سینئر ایڈیٹر کام کرتی ہیں، اور پاری کے تخلیقی تحریر والے شعبہ کی سربراہ ہیں۔ وہ پاری بھاشا ٹیم کی رکن ہیں اور گجراتی میں اسٹوریز کا ترجمہ اور ایڈیٹنگ کرتی ہیں۔ پرتشٹھا گجراتی اور انگریزی زبان کی شاعرہ بھی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Pratishtha Pandya
Translator : Shafique Alam

شفیق عالم پٹنہ میں مقیم ایک آزاد صحافی، مترجم اور کتابوں اور جرائد کے ایڈیٹر ہیں۔ خود کو کل وقتی فری لانسنگ کے لیے وقف کرنے سے قبل، انہوں نے کئی بین الاقوامی پبلشرز کے لیے بطور کاپی ایڈیٹر کام کیا ہے۔ انہوں نے دہلی کے مختلف نیوز میگزینز اور میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا ہے۔ وہ انگریزی، ہندی اور اردو زبانوں کے مترجم ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Shafique Alam