جب آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرا بابو نائیڈو نے ۲ دسمبر، ۲۰۱۶ کو اننت پور ضلع کے پینوکونڈہ بلاک کے ایرامانچی علاقے میں نو تعمیر شدہ گولاپلی آبی ذخائر کا افتتاح کیا، تو مقامی کسانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیوں کہ انہیں لگا کہ اب ان کے کھیتوں کو پانی مل جائے گا۔
ایرامانچی سے ۵ کلومیٹر دور گٹورو گاؤں کے مکّاجی پلی ٹانڈہ (ایس ٹی گاؤں) کے ایک سگالی (درج فہرست قبیلہ) کسان ایس بالو نائک ان میں سے ایک تھے۔ بالو، جو اپنی عمر کے ۴۰ کی دہائی کے آخر اور ۵۰ کی دہائی کے اوائل میں چل رہے تھے، کو یقین تھا کہ یہ ذخائر ان تین ناکام بورویل کی کمی کو دور کر دے گا اور انہیں پھر سے کارآمد بنادے گا، جو انہوں نے اپنی زمین میں کھودے تھے۔ گولاپلی کا یہ آبی ذخیرہ پانی کی نہروں کی ہانڈری نیوا سُجلا شراونتی اسکیم کا حصہ ہے، جس میں کرشنا ندی سے ۶ء۱ ٹی ایم سی (ہزار ملین کیوبک فٹ) پانی اسٹور کیے جانے کی امید ہے، اور زراعت، پینے کے پانی کی فراہمی اور زیر زمین پانی کی سطح کو بڑھانے کا کام کرتا ہے۔
اننت پور میں گزشتہ دو دہائیوں میں معمولی بارش ہوئی ہے، ضلع کے تمام ۶۳ منڈلوں میں مسلسل پانچ برسوں سے خشک سالی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اننت پور ضلع میں زراعت کا مکمل انحصار بارش کے پانی اور بورویل (کنووں) پر ہے اور زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے۔
بالو کی بیوی ایس سلمّا پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم سب لوگ چار یا پانچ بار ڈیم دیکھنے ان کے ساتھ گئے تھے۔‘‘ کسانوں کو اس وقت یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ نیا آبی ذخائر بنیادی طور پر کوریا کی ملٹی نیشنل کمپنی ’کیا موٹرز‘ کی جانب سے علاقے میں قائم کی جانے والی کار فیکٹری کو بجلی فراہم کرے گا۔ حکومت ایک خصوصی اقتصادی ژون (ایس ای زیڈ) کے لیے تقریباً ۲۲۰۰ ایکڑ زمین کو تحویل میں لینے کے ارادے سے اس علاقے کا سروے کرا رہی تھی۔ اس میں سے تقریباً ۶۰۰ ایکڑ زمین کیا فیکٹری کے لیے مختص کی گئی تھی۔ بالو کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنی تین ایکڑ زمین سے محروم ہو جائیں گے، جس کی رجسٹری ان کی بیوی کے نام پر ہے۔ وہ اس بات کو سمجھ گئے تھے، لیکن امید کر رہے تھے کہ اپنی بقیہ تین ایکڑ زمین پر کھیتی کرنا جاری رکھ پائیں گے۔
جب تحویل میں لی گئی زمین کی قیمت طے کرنے کے لیے میٹنگ کا اعلان ہوا، تو بالو اپنے سسرال نرسم پلی میں تھے۔ علاقے میں حکومتی سرکلر کا اعلان کرنے والے ایچ انجنپّا بتاتے ہیں، ’’میں نے اگلی صبح اسے [ان کے موبائل فون پر] کال کیا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ یہ میٹنگ اضافی زمین کو تحویل میں لینے کی بابت ہے، تو اس نے مجھ سے پوچھا، ’اس زمین کو بھی؟‘ تو میں نے اس سے کہا کہ ہاں، بالکل!‘‘ بالو کو اسی وقت یہ احساس ہوگیا کہ ایرامانچی میں ان کی باقی ماندہ زمینیں بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گی۔
۲ فروری ۲۰۱۷ کو صبح ۱۰ بجے کے قریب، بالو اپنی بیوی کے ساتھ پنوکونڈا میں ریونیو ڈویژنل آفیسر (آر ڈی او) کے دفتر پہنچے۔ میٹنگ میں آر ڈی او، مقامی رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی (ایم ایل اے) بھی موجود تھے۔ انجنپا بتاتے ہیں کہ انہوں نے بالو کو اس میٹنگ میں دیکھا – جسے ابھیپرایہ شیکھرنا یا باہمی مشاورت کہا جاتا ہے۔ تاہم، کسانوں کی زمینوں کے لیے قیمتِ خرید کو حتمی شکل دینے کے لیے یہ میٹنگ انہیں خوش کرنے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی۔ بالو اور ان کی بیوی نے پوری کارروائی سنی، بالو بہت زیادہ مشتعل ہوگئے کیوں کہ ان کے بدترین اندیشوں کی یہاں تصدیق ہوگئی تھی۔
ایرامانچی کے دیگر کسانوں کے برخلاف، جنہیں کاشتکاری چھوڑنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، بالو اپنی مونگ پھلی اور ارہر کی فصل کی کاشتکاری جاری رکھنا چاہتے تھے۔ دراصل، انہوں نے پانچ سال قبل اپنی روزی روٹی کے لیے کھیتی کرنا شروع کیا تھا۔ ایسا ایک حادثے کے بعد ہوا، جب ان کے اہل خانہ نے بلوا پتھر نکالنے کا کام بند کردیا – خاندانوں کا ایک گروپ گاؤں کے باہری علاقے میں مٹی سے سُنّم (بلوا پتھر) نکالتا تھا، اور اسے گھروں کی پُتائی کرانے کے لیے سفیدی کے طور پر فروخت کرتا تھا۔ بالو نے تب اپنی بچت کی رقم زمین میں لگا دی تھی۔
خشک سالی کے دوران، جب بالو کے گاؤں کے مرد حضرات نقل مکانی کرگئے، تو وہ گھر پر ہی رہے۔ ان کے بڑے بھائی چکری نائک اور نارائن نائک کہتے ہیں، ’’ہم کبھی کبھی کام کے لیے بنگلورو چلے جاتے تھے، لیکن بالو نے کبھی گاؤں نہیں چھوڑا۔‘‘
ریاستی حکومت کی طرف سے شائع ہونے والی آندھرا پردیش میگزین کے دسمبر ۲۰۱۶ کے ایڈیشن میں ایک نامعلوم سینئر سرکاری اہلکار کے حوالے سے کہا گیا ہے، ’’نیلور، چتور اور اننت پور میں [کیا کمپنی کو] کئی جگہوں کی پیشکش کی گئی تھی۔‘‘ لیکن کیا نے اننت پور ضلع میں اپنی پہلی فیکٹری لگانے کا فیصلہ کیا۔
بالو کے بھتیجے انجینے یولو نائک نے بتایا، ’’اس سال کے شروع میں، جب ڈویژنل ریونیو آفس (ایم آر او) اور آر ڈی او کے نمائندے ان کی زمین کا سروے کرنے آئے، تو بالو نے دستاویزات پر دستخط کرنے یا پاسپورٹ سائز کی تصویر دینے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ شکست تسلیم کرنے اور اپنی تین ایکڑ زمین بیچنے پر راضی ہونے کے بعد بھی بالو پریشان تھے اور اپنی زمین کے سلسلے میں باتیں کیا کرتے تھے۔
فروری میں پینوکونڈہ میں آر ڈی او آفس میں ایک میٹنگ کے دوران بالو کی تشویشات شاید عروج پر تھیں۔ وہ بے چینی محسوس کر رہے تھے، انہوں نے اپنی بیوی سے چائے پینے کی خواہش ظاہر کی، اور چلے گئے۔ سلمّا کو یاد ہے کہ بالو واپس آر ڈی او آفس جا رہے تھے اور ان سے اپنا ہاتھ پکڑنے کو کہا تھا۔ ’’ان کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ میں سمجھ نہیں پائی کہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر وہ اچانک غش کھا کر زمین پر گر گئے۔‘‘
سلمّا کو مدد کے لیے پکارنا اور اپنے شوہر کو آٹورکشہ میں پینوکونڈہ کے سرکاری ہسپتال لے جانا یاد ہے۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے سلمّا کو بتایا کہ ان کے شوہر کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’انہوں نے میرے علم میں لائے بغیر لاش کو ہسپتال سے باہر نکال دیا تھا۔‘‘
بائیں بازو کے کارکن (آل انڈیا ایگریکلچرل ورکرز یونین سے وابستہ) ایس پیڈّنّا جو بالو کی موت کی خبر سن کر ہسپتال گئے تھے، کہتے ہیں، ’’حکمراں جماعت سے وابستہ لوگوں نے لاش کو خفیہ طور پر ہسپتال سے ہٹا دیا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ یہ ایک بڑا مسئلہ بن جائے گا۔‘‘ پیڈنا کے مطابق، ’’بالو کی موت کے بعد تحویل میں لی گئی زمین کا معاوضہ، جو ساڑھے ۷ لاکھ روپے فی ایکڑ تھا، فوری طور پر بڑھ کر ساڑھے ۱۰ لاکھ روپے ہوگیا۔‘‘
دریں اثنا، کیا فیکٹری کے لیے تحویل اراضی کا کام ہنوز جاری ہے، لیکن سرکاری اہلکار بالو کی موت کو اس معاملے سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آر ڈی او کا اس بابت کہنا ہے، ’’وہ ہماری میٹنگ میں شامل نہیں ہوا۔ وہ گاؤں سے آ رہا تھا اور اپنی بیوی کو بتایا کہ اسے درد ہو رہا ہے۔ وہ ہسپتال کے قریب [بس سے] اترے۔ ہسپتال ہمارے دفتر کے بالکل سامنے ہے۔‘‘
بالو کی موت کی خبر ضلع کے اخبارات میں شائع ہوئی اور برسر اقتدار تلگو دیشم پارٹی کے رکن اسمبلی بی کے پارتھا سارتھی نے بھی سوگوار خاندان کو رقم اور زمین دینے کا وعدہ کیا۔ ۳ فروری ۲۰۱۷ کو آندھرا جیوتی اخبار کے ضلعی ایڈیشن میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ’’…ایم ایل اے نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ریاستی حکومت بالو کے لواحقین کو ایک مکان، ۲ لاکھ روپے کا معاوضہ اور مکان بنانے کے لیے زمین کی منظوری دے گی۔‘‘
سلمّا کہتی ہیں کہ انھوں نے ابھی تک کسی سے معاوضے کے بارے میں نہیں سنا ہے۔ اگر انہیں کچھ ملے گا، تو وہ اسے اپنی دونوں بیٹیوں میں سے چھوٹی بیٹی ندیتا بائی کی تعلیم کے لیے استعمال کریں گی۔
سلمّا کہتی ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ اب کیا کرنا ہے۔ انہوں نے مجھے بیٹھنے اور انتظار کرنے کے لیے کہا تھا اور پھر مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ اب میں کہاں جاؤں؟‘‘ اپنے شوہر کی یاد سے پیچھا چھڑانے کے لیے سلمّا کچھ عرصے کے لیے کرنول میں اپنی بڑی بیٹی کے گھر چلی گئی تھیں۔ ’’لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ مجھے گاؤں واپس جانا پڑا۔‘‘ سلمّا یہ بتاتے ہوئے رونے لگتی ہے۔
ندیتا زیادہ مضبوط دل و دماغ کی لڑکی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’میں کڑی محنت کروں گی اور نوکری حاصل کروں گی۔ میرے والد کی یہی خواہش تھی۔‘‘ بالو کے لیے ندیتا بہت پیاری تھی۔ سلمّا یاد کرتی ہیں، ’’وہ مجھ سے کہتے کہ جب بھی وہ آس پاس رہے اپنے گھریلو مسائل پر بات نہ کیا کرو۔‘‘ ندیتا جونیئر کالج کے دوسرے سال (۱۲ویں کلاس) میں ہے، اسے فزکس پسند ہے اور کڑی محنت کرتی ہے۔ وہ ’’زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے‘‘ ۱۰ویں کلاس کے بعد تیلگو میڈیم سے انگلش میڈیم میں شفٹ ہوگئی۔ وہ کہتی ہے "شروع میں یہ بہت مشکل تھا۔ انگریزی میں پڑھائے جانے والے کسی بھی مضمون کو میں سمجھ نہیں پاتی تھی، اپنے ہم جماعتوں سے پوچھ پوچھ کر سیکھا کرتی تھی۔‘‘
بالو، ندیتا سے کہتے تھے کہ وہ اس کی شادی نہیں کریں گے، اسے محنت سے پڑھنا چاہیے اور اچھی نوکری کرنی چاہیے۔ ندیتا کہتی ہے، ’’میں وی آر او کے طور پر نوکری کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
وی آر او گاؤں کا ریونیو افسر ہوتا ہے، جس کے فرائض میں گاؤں کے زمینی محصول کا انتظام شامل ہے۔
مترجم: سبطین کوثر