رائے پور کے مضافات میں موجود اینٹ بھٹوں میں دوپہر کے کھانے کا وقت چل رہا ہے۔ مزدور یا تو تیزی سے اپنا کھانا کھانے میں مصروف ہیں یا پھر اپنی عارضی جھونپڑیوں کے اندر آرام کر رہے ہیں۔
ایک عورت اپنی پھوس کی جھونپڑی سے باہر نکلتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’ہم ستنا سے ہیں۔‘‘ یہاں کے زیادہ تر مزدوروں کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے۔ وہ ہر سال نومبر-دسمبر میں فصل کا موسم ختم کر کے چھتیس گڑھ کی راجدھانی آ جاتے ہیں اور مئی-جون یعنی چھ مہینے تک یہیں رہتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق، ہندوستان میں اینٹ بھٹہ کی وسیع صنعت میں ایک سے ۳ء۲ کروڑ مزدوروں کو روزگار ملتا ہے (سلیوری اِن انڈیاز برکس کنس، ۲۰۱۷ ) ۔
اس سال جب یہ مزدور گھر واپس جائیں گے، تب تک مرکز میں نئی حکومت بن چکی ہوگی۔ یہ طے نہیں ہے کہ لیڈروں کا انتخاب کرنے میں ان مہاجر مزدوروں کا کوئی رول ہوگا بھی یا نہیں۔
نام نہ شائع کرنے کی شرط پر اس عورت نے پاری کو بتایا، ’’ووٹ دینے کے وقت ہمیں اطلاع دی جائے گی۔‘‘
انہیں یہ اطلاع شاید مزدوروں کے ٹھیکہ دار سنجے پرجاپتی دیں گے۔ جھونپڑیوں سے تھوڑے فاصلہ پر کھڑے وہ ہمیں بتاتے ہیں، ’’ہمیں ستنا میں ووٹنگ کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ اگر ہمیں پتہ چلے گا، تو ہم انہیں بتا دیں گے۔ سنجے اور یہاں کے کئی مزدور پرجاپتی برادری (مدھیہ پردیش میں دیگر پس ماندہ طبقہ کے طور پر درج) سے ہیں۔
اپریل کی کڑی دھوپ میں جہاں درجہ حرارت تقریباً ۴۰ ڈگری سیلسیس تک چلا جاتا ہے، بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور اینٹیں ڈھالنے، پکانے، ڈھونے اور لوڈ کرنے جیسے محنت طلب کام کرتے ہیں۔ قومی حقوق انسانی کمیشن ( ۲۰۱۹ ) کی ایک رپورٹ سے پتہ چلا کہ اینٹ بنانے والے مزدور تقریباً ۴۰۰ روپے یومیہ کماتے ہیں۔ اگر کوئی جوڑا کام کرتا ہے، تو انہیں ۷۰۰-۶۰۰ روپے تک کی ادائیگی کر دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہاں کے مزدوروں میں جوڑی میں کام کرنا عام بات ہے۔
مثال کے طور پر، رامجس اپنی بیوی پریتی کے ساتھ یہاں ہیں۔ ایک چھوٹے سے شیڈ کے نیچے بیٹھے تقریباً ۲۰ سال کے رامجس اپنا موبائل فون چیک کرنے میں مصروف ہیں؛ انہیں ووٹنگ کی تاریخ کا صحیح علم نہیں ہے، اور کہتے ہیں کہ مئی میں کسی وقت ہوگا۔
’’ستنا جا کر ووٹ ڈالنے کے لیے ہم ۱۵۰۰ روپے خرچ کیا کرتے تھے۔ یہ ہمارا حق ہے۔‘‘ ہم نے پوچھا کہ کیا سبھی مزدور جاتے ہیں۔ رامجس کی بجائے سنجے درمیان میں لقمہ دیتے ہیں، ’’سبھی جاتے ہیں۔‘‘
ستنا میں ۲۶ اپریل کو ووٹنگ ہوئی تھی اور اس رپورٹر نے ۲۳ اپریل کو مزدوروں سے بات کی تھی۔ تب ان میں سے کسی کے پاس ٹرین کا ٹکٹ نہیں تھا۔
رامجس کا تعلق مہاجر مزدوروں کے خاندان سے ہے۔ ان کے والد بھی چھتیس گڑھ میں اینٹ بھٹوں پر کام کرتے تھے۔ رامجس جب ۱۰ویں جماعت میں تھے، تب ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ تین بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے چھوٹے رامجس نے اسکولی تعلیم مکمل کر کے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے بڑے بھائی بھی ستنا ضلع میں اپنے گاؤں میں مزدوری کرتے ہیں۔ رامجس پانچ سال سے مہاجر مزدور کے طور پر کام کر رہے ہیں اور تہواروں یا ایمرجنسی میں ہی گھر جاتے ہیں۔ بھٹہ پر کام ختم ہونے کے بعد بھی وہ یہیں رہتے ہیں اور چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔ مردم شماری (۲۰۱۱) کے مطابق، مدھیہ پردیش میں ۲۴ لاکھ ۱۵ ہزار ۶۳۵ لوگوں نے روزگار کے لیے مہاجرت کی۔
لیکن، صرف دوسری ریاستوں کے مہاجر مزدور ہی نہیں ہیں جو شاید اپنے جمہوری حق کا استعمال کرنے سے محروم رہ جائیں۔
رائے پور میں چناؤ پرچار دھیما رہا ہے، حزب اختلاف کی تقریباً کوئی موجودگی نہیں ہے۔ شہر کے باہری علاقوں میں موجود اینٹ بھٹوں کے آس پاس کہیں بھی پوسٹر بینر نظر نہیں آتے۔ کوئی لاؤڈ اسپیکر ووٹ مانگنے والے امیدواروں کے آنے کا اعلان بھی نہیں کرتا۔
چھتیس گڑھ کے ضلع بلودا بازار کی ایک عورت کام سے چھٹی لے کر ایک درخت کے نیچے بیٹھی ہیں۔ وہ یہاں اپنے شوہر اور چار بچوں کے ساتھ آئی ہیں۔ وہ نومبر ۲۰۲۳ میں ہوئے چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات کے بارے میں بتاتی ہیں، ’’میں نے تین چار مہینے پہلے ووٹ ڈالا تھا۔‘‘ مگر وہ کہتی ہیں کہ پولنگ کے وقت وہ اپنے گاؤں جائیں گی۔ اسمبلی انتخابات کے دوران ان کے گاؤں کے سرپنچ نے مدعو کرنے کے ساتھ سفر اور کھانے کے لیے ۱۵۰۰ روپے بھیجے تھے۔
وہ کہتی ہیں، ’’جو ہمیں فون کرتا ہے، وہی ہمارے لیے پیسے بھی بھیجتا ہے۔‘‘ رائے پور لوک سبھا حلقہ انتخاب کے تحت بلودا بازار ضلع میں ۷ مئی کو ووٹنگ ہونی ہے۔
مترجم: قمر صدیقی