بوٹّر سرینگھ گاؤں کے باہر کھڑے بٹّو مالن کہتے ہیں، ’’انہوں نے ہمارے لیے دہلی کے دروازے بند کیے تھے۔ اب پنجاب کے ہر گاؤں کے دروازے ان کے لیے بند ہیں۔‘‘
بٹو مالن شری مکتسر صاحب ضلع کے گاؤں مالن کے پانچ ایکڑ کے کسان ہیں۔ وہ جس ’وہ‘ اور ’ان‘ کا ذکر کر رہے ہیں، وہ مرکز کی برسر اقتدار پارٹی بی جے پی ہے، جو پنجاب میں لوک سبھا انتخاب میں الگ تھلگ پڑ گئی ہے۔ اور دہلی نے جس ’ہم‘ کو داخل ہونے سے روکا تھا، وہ لوگ نومبر ۲۰۲۰ میں قومی راجدھانی کی طرف مارچ کرنے والے ہزاروں کسان ہیں۔
قومی راجدھانی کے دروازے پر ہوئے کسانوں کے آندولن اور ٹینٹوں میں آباد قصبوں کی یادیں پنجاب میں گہری پیوست ہیں۔ اس ریاست کے ہزاروں کسان تین سال پہلے احتجاج اور امید کے ایک لمبے سفر پر نکلے تھے۔ ٹریکٹروں و ٹریلروں کے قافلے میں سینکڑوں میل کا سفر کر کے وہ صرف ایک ہی مطالبہ کے ساتھ راجدھانی میں جمع ہوئے تھے، یعنی تینوں زرعی قوانین کو ردّ کروانا جنہوں نے ان کی روزی روٹی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔
دہلی کے دروازے پر پہنچتے ہی انہیں اندیکھی کی بڑی دیوار کا سامنا کرنا پڑا تھا، جسے ان کی دلیلیں ان سنی کرنے والی سرکار نے کھڑا کیا تھا۔ تقریباً ایک سال تک ان کی راتیں اکیلے پن کی سردی اور نا انصافی کی تپیش سے گھری رہیں، پھر چاہے درجہ حرارت محض ۲ ڈگری سیلسیس رہا ہو یا ۴۵ ڈگری سیلسیس، لوہے کے ٹریلر و ٹرالی ان کے آشیانے بن گئے تھے۔
تقریباً ۳۵۸ دنوں کے اتار چڑھاؤ کے دوران دہلی کے چاروں طرف لگے ان کیمپوں میں ہلاک ہونے والے کسانوں کی ۷۰۰ سے زیادہ لاشیں پنجاب گئیں، جن میں سے ہر ایک ان کی جدوجہد کی قیمت کی جیتی جاگتی مثال تھی۔ مگر اس سے آندولن پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کی قربانی اور جدوجہد کے سبب حکومت کو ایک سال کے انکار اور بہت سی بندر گھڑکیوں کے بعد گھنٹوں پر آنا پڑا۔ وزیر اعظم نے ۲۹ نومبر ۲۰۲۱ کو تین قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اب پنجاب وہی حساب برابر کرنے کے موڈ میں ہے۔ اور بٹو مالن اور ان کے جیسے کئی کسانوں نے دہلی میں جو برداشت کیا تھا، آج وہ اس کا بدلہ لینے کو تیار دکھائی دے رہے ہیں۔ بٹو ہر مارے گئے کسان کا حساب چکانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ۲۳ اپریل کو بوٹر سرینگھ گاؤں میں فرید کوٹ سے بی جے پی امیدوار ہنس راج ہنس کا دلیری سے سامنا کیا۔
دہلی میں بیٹھی حکومت نے نومبر ۲۰۲۰ میں قومی راجدھانی کی طرف مارچ کرنے والے ہزاروں کسانوں کو شہر میں داخل ہونے سے منع کر دیا تھا۔ سال ۲۰۲۴ میں کسانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہی حساب برابر کرنے کا وقت آ گیا ہے
ہنس کو بٹو کے سوالوں اور تنقیدوں کی بوچھار جھیلنی پڑی تھی، ’’ہم جانوروں پر بھی گاڑی چڑھانے کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، مگر لکھیم پور کھیری میں [اجے مشرا] ٹینی کے بیٹے نے بے رحمی سے کسانوں پر جیپ چڑھا کر انہیں کچل کر ان کی جان لے لی تھی۔ کھنوری اور شمبھو میں گولیاں برسائی گئی تھیں۔ پریت پال کا جرم کیا تھا؟ ان کی ہڈیاں ٹوٹیں، جبڑا ٹوٹا، اور یہ سب اس لیے کیوں کہ وہ لنگر پروسنے گئے تھے۔ وہ پی جی آئی [اسپتال] چنڈی گڑھ میں ہیں۔ کیا آپ ان سے ملنے گئے؟‘‘
’’پٹیالہ کے ایک ۴۰ سال کے آدمی اور دو چھوٹے بچوں کے والد نے آنسو گیس کے گولے سے آنکھیں گنوا دیں۔ ان کے پاس صرف تین ایکڑ زمین ہے۔ کیا آپ ان کے گھر گئے؟ نہیں۔ کیا آپ میں سنگھو جانے کی ہمت تھی؟ نہیں۔‘‘ ہنس راج ہنس کے پاس سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
پورے پنجاب میں ہزاروں بٹو گاؤوں کے دروازوں پر بی جے پی امیدواروں کے آنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں، اور ہر ایک گاؤں اب بوٹر سرینگھ گاؤں جیسا لگتا ہے۔ پنجاب میں یکم جون کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ بی جے پی نے پہلے ۱۳ میں سے ۹ انتخابی حلقوں کے لیے امیدوار اتارے تھے، مگر ۱۷ مئی کو اس نے اپنی فہرست میں چار اور نام شامل کر لیے۔ ان سبھی کا کسان کالے جھنڈوں، نعروں اور سوالوں کے ساتھ استقبال کر رہے ہیں اور کئی گاؤوں میں انہیں گھسنے نہیں دیا جا رہا ہے۔
پٹیالہ ضلع کے گاؤں ڈکالا میں چار ایکڑ زمین والے کسان رگھبیر سنگھ کہتے ہیں، ’’ہم پرنیت کور کو اپنے گاؤں میں نہیں آنے دیں گے۔ ہم نے ان خاندانوں سے بھی بات کی ہے جو کئی دہائیوں سے ان کے وفادار رہے ہیں۔‘‘ پرنیت کور پٹیالہ سے چار بار رکن پارلیمنٹ رہیں اور پنجاب کے سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ کی بیوی ہیں۔ دونوں نے ۲۰۲۱ میں کانگریس چھوڑ دی تھی اور پچھلے سال بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔ دوسرے بی جے پی امیدواروں کی طرح ان کا بھی کئی جگہ کالے جھنڈوں اور ’مرداباد‘ کے نعروں سے استقبال ہو رہا ہے۔
امرتسر، ہوشیار پور، گرداس پور، اور بھنٹڈا میں بھی یہی حال ہے، جہاں ان کی پارٹی کے امیدوار یہ مشکل سبق سیکھ رہے ہیں۔ اپنی امیدواری کا اعلان ہونے کے ایک مہینہ بعد تین بار کانگریس رکن پارلیمنٹ اور اب لدھیانہ سے بی جے پی کے امیدوار رونیت سنگھ بٹو کے لیے گاؤوں میں پرچار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ملک کے دوسرے حصوں میں لیڈر اقلیتوں کے خلاف اور ’جذبات کو ٹھیس پہنچانے‘ والی بیان بازی کر رہے ہیں۔ پنجاب میں کسان ان سے ۱۱ سوال پوچھتے ہیں (اسٹوری میں نیچے دیکھیں)۔ ان کے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے لیے قانونی گارنٹی؛ سال بھر چلی جدوجہد کے دوران مرنے والے کسانوں، لکھیم پور کے شہیدوں؛ شبھ کرن کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، جو کھنوری میں سر میں گولی لگنے سے مارے گئے تھے؛ اور کسانوں پر قرض کے بوجھ کے بارے میں سوال کیے جاتے ہیں۔
صرف کسان ہی نہیں، زرعی مزدور بھی مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کے امیدواروں کے لیے پریشانی کا سبب ہیں۔ منریگا مزدور یونین، پنجاب کے صدر شیر سنگھ پھرواہی کہتے ہیں، ’’بی جے پی نے بجٹ کم کر کے منریگا کو ختم کر دیا ہے۔ وہ نہ صرف کسانوں، بلکہ زرعی مزدوروں کے لیے خطرناک ہے۔‘‘
اور اس لیے، ان کا ’علاج‘ چل رہا ہے۔ زرعی قوانین ۱۸ مہینے پہلے ردّ کی گئے تھے، مگر اس کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ یہ قوانین تھے – زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔ کسانوں کو خدشہ ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں پچھلے دروازے سے پھر سے نافذ کیا جا رہا ہے۔
ووٹنگ میں کچھ ہی دن بچے ہیں۔ پنجاب میں پرچار اب بھی زوروں پر ہے اور ساتھ ہی کسانوں کا احتجاج بھی جاری ہے۔ گزشتہ ۴ مئی کو سرندر پال سنگھ نام کے ایک کسان کی بی جے پی امیدوار پرنیت کور کی مخالفت کرتے ہوئے پٹیالہ کے سیہرا گاؤں میں موت ہو گئی تھی۔ کسانوں کا الزام ہے کہ جب پرنیت کور کے محافظوں نے سڑک خالی کرانے کی کوشش کی، تو ان کی موت ہوئی۔ حالانکہ، کور نے الزاموں سے انکار کیا ہے۔
گیہوں کی کٹائی کا کام ختم کر کے کسان اب نسبتاً آزاد ہیں اور آنے والے دنوں میں اس ناٹک کے اور بھی حصے دیکھنے کو ملیں گے۔ خاص کر سنگرور جیسے علاقوں میں، جہاں کی مٹی مزاحمت کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے اور جہاں بچوں کو تیجا سنگھ سوتنتر، دھرم سنگھ پھکڑ اور جاگیر سنگھ جوگا جیسے جنگجو کسان لیڈروں کی حوصلہ افزا کہانیاں سنا کر بڑا کیا جاتا ہے۔
آگے مصیبتیں اور بھی ہیں۔ بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو ایکتا اُگراہاں) کے لیڈر جھنڈا سنگھ جیٹھوکے نے حال ہی میں برنالا میں اعلان کیا، ’’بس ایک ہفتہ اور انتظار کریں اور آپ انہیں نہ صرف گاؤوں، بلکہ پنجاب کے شہروں سے بھی کھدیڑے جاتے دیکھیں گے۔ یاد رکھنا کہ کیسے انہوں نے دہلی میں ہمارا راستہ دیواروں اور کیلوں (میخ) سے روکا تھا۔ ہم رکاوٹوں یا کیلوں سے نہیں، بلکہ انسان کی دیوار کھڑی کر کے جواب دیں گے۔ لکھیم پور کی طرح وہ ہم پر گاڑی چڑھا سکتے ہیں، مگر ہم اپنے جسم کے ساتھ اپنے گاؤوں میں ان کا گھسنا روکنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
شرومنی اکالی دل کے لیڈر بکرم سنگھ مجیٹھیا کہتے ہیں کہ انہیں انصاف پسند کسانوں کا احسان مند ہونا چاہیے۔ ’’انہوں نے گاؤوں میں ان کا داخل ہونا روکا ہے۔ وہ بی جے پی لیڈروں کا استقبال آنسو گیس کے گولوں اور ربڑ کی گولیوں سے نہیں کر رہے، جیسا کہ انہوں نے دہلی میں کسانوں کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
پرانی اور نئی مزاحمت اور کارروائی کی یادیں پنجاب میں گہری ہیں۔ ابھی ۲۸ مہینے پہلے ہی اسی ریاست کے لوگوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو فیروز پور کے ایک فلائی اوور پر روکا تھا۔ آج وہ ان کی پارٹی کے امیدواروں کو گاؤوں میں روک رہے ہیں۔ ستیہ پال ملک کو مودی سرکار نے دو بار الگ الگ ریاستوں کا گورنر بنایا تھا۔ جس نے انہیں یہ عہدہ دیے تھے وہ اسی پارٹی سے کہتے ہیں، ’’پنجابی اپنے دشمنوں کو آسانی سے نہیں بھولتے۔‘‘
مترجم: قمر صدیقی