صبح کے تین بجے ہیں اور نندنی نارنجی رنگ کے ترپال کے خیمے کے باہر بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کی ایک سہیلی نے سیل فون کی ٹارچ جلا رکھی ہے، جس کی روشنی میں وہ اپنے چہرے پر میک اپ لگا رہی ہیں۔
سادہ سوتی ساڑی میں ملبوس ۱۸ سالہ نندنی کی چند گھنٹوں بعد شادی ہونے والی ہے۔
گزشتہ شام وہ اور ان کے دولہا، ۲۱ سالہ جے رام، اپنے دوستوں اور کنبہ کے افراد کے ہمراہ بنگلامیڈو (آفیشل طور پر چیروکّنور ایرولر کالونی کے نام سے مشہور) سے ماملّاپورم پہنچے تھے۔ تمل ناڈو کے ضلع تروولور سے تعلق رکھنے والا یہ گروہ ان کئی سو ایرولر کنبوں میں شامل ہے جو چنئی کے جنوب میں ساحل سمندر پر نصب خیموں میں قیام پذیر ہیں۔
مارچ میں جیسے ہی ساحلی تمل ناڈو کی مختصر سردیوں کے بعد گرمی کا موسم شروع ہوتا ہے، ماملّاپورم (جسے پہلے مہابلی پورم کے نام سے جانا جاتا تھا) کی سنہری ریت رنگارنگ منظر پیش کرنے لگتی ہے۔ ساحلی علاقہ باریک ساڑیوں اور ترپالوں سے بنے گھیروں اور خیموں کی ایک بڑی بھول بھلیاں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ان خیموں اور گھیروں کو قریب کے درختوں کی تازہ کٹی ہوئی شاخوں کا استعمال کرکے کھڑا کیا جاتا ہے۔
اس دوران اس مشہور ساحل پر مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کی معمول کی گہما گہمی کی جگہ ایرولروں نے لے لی ہے، جو ریاست بھر سے ماسی مگم کا تہوار منانے یہاں آئے ہیں۔ ایرولر ایک خاص طور پر کمزور قبائلی گروپ (پی وی جی ٹی) ہیں، اور ہندوستان میں درج فہرست قبائل کے شماریاتی پروفائل ، ۲۰۱۳ کے مطابق ان کی آبادی تقریباً دو لاکھ ہے۔ وہ تمل ناڈو کے کچھ اضلاع میں چھوٹی چھوٹی اور الگ تھلگ ٹولیوں میں رہتے ہیں۔
ایرولروں کے گروہ تمل مہینے ماسی (فروری-مارچ) میں دیوی کنّی امّا (جو قبیلے کی سات کنواری دیویوں میں سے ایک ہیں) کی پوجا کرنے کے لیے ماملّاپورم پہنچتے ہیں۔ مَگم ہندو علم نجوم میں ایک ستارے کا نام ہے۔
’’ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ امّاں ناراض ہو جاتی ہیں اور سمندر میں چلی جاتی ہیں،‘‘ جے رام کی نانی وی سروجا کہتی ہیں۔ ’’پھر انہیں واپس بلانے کے لیے ہمیں پوجا کرنی پڑتی ہے۔ ان کا غصہ کم ہو جاتا ہے اور وہ گھر آ جاتی ہیں،‘‘ وہ تفصیل سے بتاتی ہیں۔
اپنے چار سے پانچ دن کے مختصر قیام کے دوران ایرولر لوگ گڑھے میں جمع پانی میں مچھلیاں پکڑتے ہیں اور قریبی جھاڑیوں سے گھونگوں، چوہوں یا پرندوں کا شکار کرتے ہیں اور اپنے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔
شکار، خوردنی پودوں کی تلاش، اور قریبی جنگلات سے لکڑی اور جڑی بوٹیاں جمع کرنا ایرولروں کی روایتی طرز زندگی کا اہم حصہ ہے۔ (پڑھیں: بنگلا میڈو میں دفن خزانے کی کھدائی )
تعمیرات اور کھیتی کی زمین میں توسیع کی وجہ سے جنگلات کے سکڑنے اور اپنی بستیوں کے ارد گرد جنگلات اور جھیلوں تک محدود رسائی کی وجہ سے ایرولر برادری اب زیادہ تر یومیہ اجرت کے کام پر انحصار کرتی ہے، اور کھیتوں، تعمیراتی مقامات، اینٹوں کے بھٹوں اور منریگا (مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون، جو دیہی گھرانوں کو سال میں ۱۰۰ دن کے روزگار کی ضمانت دیتا ہے) سائٹس پر کام کرتی ہے۔ ان میں سے کچھ کو اینٹی وینم (زہر کش دوا) کی تیاری کے لیے سانپوں کو پکڑنے اور سپلائی کرنے کا لائسنس دیا گیا ہے، لیکن یہ کام موسمی اور بے قاعدہ ہوتا ہے۔
اَلمیلو ایک عقیدت مند ہیں، جن کا تعلق چنئی کے مضافاتی علاقے منپکّم سے ہے، جہاں وہ ایک کُپّ میڈو (کچرے کے ڈھیر) کے قریب رہتی ہیں۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والی اس ۴۵ سالہ مزدور نے ہر سال ۵۵ کلو میٹر کا سفر طے کرکے امّن کی پوجا کرنا اپنی زندگی میں شامل کر لیا ہے۔ ’’آس پاس نظر دوڑائیں،‘‘ وہ گھیرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم ہمیشہ سے ایسے ہی زمین پر رہتے آئے ہیں، خواہ چھپکلی ہو یا سانپ۔ اس لیے ہمیں امّاں کے لیے اپنا چڑھاوا ترئی [فرش یا زمین] پر ہی رکھنا ہوتا ہے۔‘‘
طلوع آفتاب سے کئی گھنٹے پہلے پوجا شروع ہو جاتی ہے۔ جلدی بیدار ہونے والے لوگ خیموں کی بھول بھلیوں اور سونے والوں سے بچتے بچاتے پورے چاند کی روشنی کی رہنمائی میں آہستہ آہستہ ساحل کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ ہر کنبہ اپنا چڑھاوا رکھنے کے لیے ساحل پر ایک جگہ مقرر کرتا ہے۔
’’ہم ریت کی سات سڑھیاں بناتے ہیں،‘‘ اَلمیلو کہتی ہیں۔ ہر سیڑھی پر وہ دیوی کو اپنا چڑھاوا پیش کرتے ہیں، جن میں پھول، ناریل، پان کے پتے، بھنے ہوئے چاول اور گڑ ملا چاول کا آٹا شامل ہوتا ہے۔ جب لہریں چڑھاوے سے ٹکراتی ہیں، تو ایرولر یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی اماں یا امّن نے انہیں آشیرواد دے دیا ہے۔
’’اَدھٹّی کُڈوتا، یَتوکّوا [اگر آپ انہیں حکم دیتے ہیں، تو وہ قبول کر لیتی ہیں]،‘‘ اَلمیلو کہتی ہیں۔ کسی دیوی کو حکم دینا عجیب لگ سکتا ہے، لیکن یہ ایک منفرد رشتہ ہے جو ایرولر اپنے دیوی دیوتاؤں کے ساتھ رکھتے ہیں۔ ’’یہ اپنی ماں کو بلانے جیسا ہے۔ آپ ان کے ساتھ تھوڑی چھوٹ لے سکتے ہیں،‘‘ ایک ایرولر کارکن منی گَندن بتاتے ہیں۔
ایرولروں کا خیال ہے کہ دیوی، رسمی پوجا کے دوران کچھ خاص لوگوں کے اوپر آ جاتی ہیں۔ بہت سے عقیدت مند روایتی طور پر زرد یا نارنجی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کنّی امّا ان پر سوار ہیں۔ کچھ مرد ساڑیاں پہنتے ہیں اور اپنے سروں کو پھولوں سے سجاتے ہیں۔
منی گندن ایک ایرولر کارکن تھے، جن کا تعلق تِروتَنی سے تھا۔ ’’ہمارے پاس پجاری نہیں ہوتے۔ کوئی بھی آدمی جو اَمّن کی روح کو بلانے کا فیصلہ کرتا ہے، وہ ہمارا پجاری بن سکتا ہے،‘‘ نومبر ۲۰۲۳ میں وفات پا چکے اس آنجہانی کارکن نے پاری کو بتایا تھا۔
نندنی اور جےرام کی شادی ۷ مارچ ۲۰۲۳ کی صبح تیزی سے منعقد کی گئی ایک سادہ تقریب میں ہوئی تھی۔ اس تقریب کو دو خواتین نے انجام دیا تھا، جن کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ ان پر دیوی کی روح آئی ہوئی ہے۔ ساحل پر دور تک پجاری اپنے ارولواکو یا الہامی کلمات کے ذریعہ شادیاں کراتے ہیں، بچوں کے نام رکھتے ہیں اور انہیں آشیرواد دیتے ہیں۔
ایرولر، جن کے لیے پانی ان کی امّن کی علامت ہے، انہیں پوجا کرنے کے لیے اپنے گھروں میں لے جاتے ہیں۔ وہ سمندر کا پانی پلاسٹک کی بوتلوں میں بھر کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، جسے وہ اپنے گھر کے ارد گرد چھڑکتے ہیں اور ان لوگوں کو دیتے ہیں جو سفر نہیں کر سکے تھے۔
سمندری ہواؤں کی تازگی اور اپنی دیوی کے آشیرواد سے لیس، ایرولر اپنے خیمے سمیٹتے ہیں۔ نندنی اور جے رام کا نوبیاہتا جوڑا خوش ہے۔ وہ اپنی شادی کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے اس سال (۲۰۲۴) واپس آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سروجا کہتی ہیں، ’’وہ ساحل پر کھانا پکائیں گے، سمندر میں نہائیں گے اور مہابلی پورم میں کچھ دن خوشی خوشی گزاریں گے۔‘‘
مترجم: شفیق عالم