سلطنت زعفرانی میں کبھی شاہِ ارغوانی بڑی شان (و کدورت) سے حکومت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے نہ خود کھایا، نہ کسی کو کھانے دیا، اس لیے سب کی (عدم) صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کیوں؟ ایک حرف غائب دکھائی دے رہا ہے؟ اوہ، اچھا! وہ تو مغربی ریاستوں کے پست قد جاگیردار گوتی ڈانی کو نیلام کر دیا گیا۔

ایک دن مابدولت کے جانثار سپہ سالار تامی ہاشا نے ایک برا خواب دیکھا کہ دھیرا ہلگاں سلطنت پر قابض ہونے کی فراق میں ہے۔ یقیناً یہ ایک خطرناک بات تھی، کیوں کہ دھیرا ہلگاں کا تعلق ایک ایسی بد ذات نسل سے تھا جو جمہوریت اور نہ جانے کیسی کیسی بری روایتوں میں یقین رکھتی تھی۔ پھر کیا تھا، جلدی جلدی جادوگروں کی ایک میٹنگ بلائی گئی، اور انہوں نے ایک کرشمائی حل ڈھونڈ نکالا! طے ہوا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور محبت و عقیدت کی علامت گئیا ماتا کے خالص گوبر سے ۱۰۸ فٹ لمبی اگربتی بنائی جائے۔

اور، اس کے بعد گئیا ماتا کی آنتیں تک پونچھ لی گئیں، تمام ضروری سامان جمع کیے گئے۔ پھر بتی جلائی گئی۔ لیکن یہ خوشبو! کتنی بھینی، میٹھی، کسانوں سے نفرت میں لتھڑی، جملہ بر اندام بو! ایسا کہا جاتا ہے کہ پھر لوبان کا دھواں آہستہ آہستہ پورے آسمان میں چھا گیا، جہاں بھوک چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ شاہ ارغوانی نے خود گوتی ڈانی اور تامی ہاشا کے ساتھ رقص کیا۔ اور، شاید اس طرح بدشگونی ٹل گئی؛ یا شاید نہیں ٹلی، کسے معلوم؟ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس کے بعد وہ سلطنت زعفرانی ہمیشہ (غیر) ترقی یافتہ رہی۔

جوشوا کی آواز میں یہ نظم سنیں

بادشاہ سلامت رہیں!

۱)
کام سے کس کا تُک ملتا ہے، نام سے چلتی گولی؟
کرتا قصیدہ، پڑھتا مرثیہ؟ یا ہے ہنسی ٹھٹھولی؟
گوبر کا ہے تنا،
ای وی ایم پر ہے ٹکنا۔
دھوپ ایک سو آٹھ فٹ کی، دھو-دھو کر ہے جلنا۔

۲)
کروڑوں کی واہ سے، تھوڑوں کی آہ سے
یہ تو جلے گی پینتالیس دن چاہ سے
بھگون نروتّر ہیں،
شردھا پوتّر ہے
سر جس کا کٹتا ہے شمبوک دلِدّر ہے۔

۳)
بابری کی گنبد پر بھگوا دیش کا جھنڈا
وہاٹس ایپ کے ساتھ میں چلتا، گئیا اور بجرنگی ڈنڈا،
لیکن، یہ بدبو کیسی ہے؟
جنّت کی ہے یا دوزخ ہے؟
چلو بتاؤ! زور زور سے ملک کے کان میں چلّاؤ!

۴)
ایک سو آٹھ فٹ کا نارنگی پھٹھا
چُنا تھا راجا، نکلا چوٹّا۔
گھر میں ہم نے مگر تھا پالا،
چلو دکھاؤ، تصویر اٹھاؤ!
ایک سو آٹھ فٹ کا بڑا نرالا۔

۵)
ڈگر ڈگر پر نظر اٹھاتی ہر کسان کی بھوک،
بھگوا دیش کی نگری میں دنگے فتوے کی چھوٹ،
اگر ایک ہے ایک ہے بتّی –
ڈھہتی ہے چپ چاپ میں بستی –
وامی اور کانگی کی سمجھ میں، بدھی کی شکتی ہے کمتی۔

مترجم: قمر صدیقی

Poems and Text : Joshua Bodhinetra

جوشوا بودھی نیتر پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) کے ہندوستانی زبانوں کے پروگرام، پاری بھاشا کے کانٹینٹ مینیجر ہیں۔ انہوں نے کولکاتا کی جادوپور یونیورسٹی سے تقابلی ادب میں ایم فل کیا ہے۔ وہ ایک کثیر لسانی شاعر، ترجمہ نگار، فن کے ناقد اور سماجی کارکن ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Joshua Bodhinetra
Editor : Pratishtha Pandya

پرتشٹھا پانڈیہ، پاری میں بطور سینئر ایڈیٹر کام کرتی ہیں، اور پاری کے تخلیقی تحریر والے شعبہ کی سربراہ ہیں۔ وہ پاری بھاشا ٹیم کی رکن ہیں اور گجراتی میں اسٹوریز کا ترجمہ اور ایڈیٹنگ کرتی ہیں۔ پرتشٹھا گجراتی اور انگریزی زبان کی شاعرہ بھی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Pratishtha Pandya
Illustration : Atharva Vankundre

اتھرو وان کُندرے، ممبئی کے قصہ گو اور خاکہ نگار ہیں۔ وہ جولائی سے اگست ۲۰۲۳ تک پاری کے ساتھ انٹرن شپ کر چکے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Atharva Vankundre
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique