سُبّیّا (۶۰ سالہ) گزشتہ کئی سالوں سے اپنے آس پاس کے کسانوں کو اپنے کھیتوں میں لگے برگد کے درختوں (فیگس بینگالینسس) کو فروخت کرتا دیکھ کر بے چین ہو جاتے تھے۔ تقریباً ۲۰ سال پہلے سبیا نے بھی اپنے دو ایکڑ کے کھیت میں برگد کی ایک قلم لگائی تھی۔ وہ پودا ایک لمبے چوڑے درخت کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ اور اس کی شاخیں اور پتیاں کسی بڑے شامیانے کی طرح پھیل چکی تھیں، جو گرمی کے دنوں میں سایہ اور پناہ دونوں دیتی تھیں۔

لیکن اس بار یہ نوبت آئی کہ خود سبیا کا برگد ہی فروخت ہو گیا – اور وہ بھی صرف ۸۰۰۰ روپے میں۔ یہ سودا ان کو مجبوراً اپنی بیوی کا علاج کرانے کے لیے کرنا پڑا۔ دو سال پہلے گوری گنیش ہبّا (کرناٹک کا ایک تہوار) سے پندرہ دن پہلے سبیا کی ۵۶ سالہ بیوی اپنی بکریاں چراتے وقت ایک پتھر پر پاؤں پڑنے سے توازن کھو بیٹھیں اور ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔

’’میں ریوڑ سے بھٹکے ایک میمنہ کے پیچھے دوڑ پڑی، اور میری نظر اس پتھر پر نہیں پڑی۔ گرنے کے بعد، میں اٹھ کر خود کھڑی نہیں ہو سکی،‘‘ اس منحوس دن کو یاد کرتے ہوئے مہادیوما بتاتی ہیں۔ ’’مجھے بہت تیز درد ہو رہا تھا۔ شکر ہے، وہاں سے گزر رہے لوگوں نے میری مدد کی اور مجھے میرے گھر پہنچایا۔‘‘

اس واقعہ نے دونوں کی پہلے سے ہی نازک چل رہی حالت کو مزید بگاڑ دیا۔

Left: Mahadevamma uses a walker to stroll in the front yard of her house.
PHOTO • Rangaswamy
Right: Subbaiah had to sell the beloved banyan tree he planted and nurtured on his field to raise funds for Mahadevamma’s medical treatment
PHOTO • Rangaswamy

بائیں: مہادیوما اپنے گھر کے سامنے کے کھلے حصے میں ٹہلنے کے لیے واکر کی مدد لیتی ہیں۔ دائیں: سبیا کو مہادیوما کے علاج کا خرچ اٹھانے کے لیے اپنے پیارے برگد کے درخت کو بیچنے کی نوبت آ گئی جسے انہوں نے اپنے کھیت میں لگایا تھا اور بڑی محنت سے اس کی دیکھ بھال کرتے تھے

سبیا اور مہادیوما، ہوناسانلو گاؤں میں رہتے ہیں، جو میسورو-اوٹی شاہراہ پر آباد ننجن گڈ شہر سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ ان کا تعلق آدی کرناٹک (اے کے) برادری سے ہے، جو کرناٹک میں درج فہرست ذات میں شامل ہے۔ ان کی ۲۰ سال کی ایک بیٹی پوترا اور ۱۸ سال کا ایک بیٹا ابھیشیک ہے۔

پوترا نے ۸ویں جماعت تک پڑھائی کی ہے۔ ابھیشیک پیدائشی طور پر کم سنتا تھا۔ بعد کے برسوں میں اس کے اس مسئلہ نے زیادہ سنگین شکل اختیار کر لی اور اب، جب دوسرے لوگ بات چیت کر رہے ہوں، تو وہ دونوں کانوں سے تقریباً نہیں کے برابر سن پاتا ہے۔ اسی لیے وہ بولنا بھی نہیں سیکھ پایا۔ ابھیشیک صرف اشاروں کنایوں میں بات کرتا ہے، اور گھر سے کہیں باہر نکلتے ہوئے اسے بہت ہوشیار رہنا پڑتا ہے کیوں کہ اسے گاڑیوں کے آنے جانے یا ان کے ہارن (سیٹی) کی آواز نہیں سنائی دیتی ہے۔

سُبّیا نے اپنے بیٹے کا داخلہ منڈیا ضلع کے پانڈو پورہ تعلقہ میں چیناکرلی گاؤں کے گیان وکاس اسپیشل رہائشی اسکول میں کرا دیا، جسے خاص طور پر قوت گویائی و سماعت سے محروم افراد کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ ابھیشیک نے اب ۱۲ویں کلاس تک کی پڑھائی مکمل کر لی ہے۔ اب وہ اپنا وقت گھر پر ہی گزارتا ہے اور فیملی کی گائے کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ آس پڑوس کے شہروں اور قصبوں میں نوکری کی تلاش بھی کرتا رہتا ہے، تاکہ فیملی کے خرچ میں ہاتھ بٹا سکے۔

دوسری طرف، مہادیوما کے علاج پر ہونے والے خرچ کا سیدھا اثر فیملی کی معمولی سی بچت پر پڑا۔ اپنا برگد کا درخت فروخت کر دینے کے بعد بھی سبیا کو اپنی دو ایکڑ خشک زمین گاؤں کے ایک دوسرے کسان، سوامی کو تین سال کے پٹہ پر دینی پڑی جس کے عوض انہیں ۷۰ ہزار روپے ملے۔

Mahadevamma (left) in happier times pounding turmeric tubers to bits. She used to earn Rs. 200 a day working on neigbouring farms before her fracture and subsequent injuries left her crippled.
PHOTO • Ramya Coushik
Right: (From left to right) Pavithra, Subbaiah, Mahadevamma and Abhishek in front of their home
PHOTO • Rangaswamy

مہادیوما (بائیں) اپنے اچھے دنوں میں ہلدی کی گانٹھوں کو کوٹ کر ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتی ہوئیں۔ کولہے کی ہڈی ٹوٹنے سے پہلے وہ آس پاس کے کھیتوں میں کام کرکے روزانہ ۲۰۰ روپیے کما لیتی تھیں۔ دائیں: اپنے گھر کے آگے (بائیں سے دائیں) پوترا، سبیا، مہادیوما اور ابھیشیک

گہری جانچ پڑتال کے بعد میسورو کے کے آر اسپتال کے ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ مہادیوما کا آپریشن کرنا پڑے گا، لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیوں کہ وہ اس وقت اینیمیا یعنی خون کی کمی کے ساتھ ساتھ تھائرائیڈ میں بھی مبتلا تھیں۔ بہرحال، ۱۵ دنوں تک اسپتال میں داخل رہنے کے بعد ضروری دواؤں کی خوراک اور آپریشن کے لیے دوبارہ چھ ہفتوں کے اندر آنے کی ہدایت کے ساتھ انہیں اسپتال سے چھٹی دے دی گئی۔

مہادیوما جسمانی طور پر اس پریشانی اور درد کو برداشت کرنے کے قابل نہیں تھیں، اس لیے میاں بیوی نے آپریشن کرنے کی بجائے اپنے گھر سے تقریباً ۱۳۰ کلومیٹر دور، پڑوس کے تمل ناڈو کے ایروڈ ضلع کے سنگیری پلایم گاؤں میں متبادل علاج کرانے کا فیصلہ لیا۔ سنگیری پلایم ہڈیوں کے روایتی طبی مراکز کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہاں جانے پر مہادیوما کے پیر کو ایڑی سے کولہے تک قمچیوں سے باندھ دیا گیا اور ٹوٹے ہوئے کولہے پر آیورویدک تیل انڈیلا جاتا تھا۔ یہ طریقہ علاج کوئی سستا نہیں تھا۔ سبیا اور مہادیوما کو علاج کے چار سیشن کے لیے ہر ۱۵ویں دن ایک کرایے کی کار سے سنگیری پلایم جانا پڑتا تھا۔ علاج کے ہر ایک سیشن کے لیے فیملی کو ۶۰۰۰ روپے ادا کرنے پڑتے تھے اور سنگیری پلایم آنے جانے کے لیے ۴۵۰۰ روپے کار کے کرایے کے لیے الگ سے لگتے تھے۔

علاج سے دوسری پیچیدگیاں بھی شروع ہو گئیں۔ قمچیوں کے دھار دار کنارے مہادیوما کے پیر کے گوشت میں لگاتار چبھتے رہتے تھے، اور ان کی رگڑ سے ان کی جلد میں زخم ہو گیا۔ یہ زخم آہستہ آہستہ اتنا گہرا ہو گیا کہ اندر سے ان کی ہڈیاں دکھائی دینے لگیں۔ اس کے بعد سبیا، مہادیوما کو ننجن گڈ کے ایک پرائیویٹ کلینک لے گئے۔ وہاں ان زخموں کے علاج میں انہیں ۳۰ ہزار روپے الگ سے خرچ کرنے پڑے، لیکن ان کے پیروں کے زخم نہیں بھرے۔

بدقسمتی سے اپنے زخمی پیروں کے سہارے گھر میں چلنے کی کوشش کرتی ہوئیں مہادیوما دو بار اور گر پڑیں، جس کی وجہ سے ان کی تکلیفیں زیادہ بڑھ گئیں۔ ان کے گھٹنے بری طرح زخمی ہو گئے جن کا قریب میں علاج کرانے میں ان کے ۴۰ ہزار روپے خرچ ہو گئے۔ علاج کے بعد وہ ابھی بھی اپنے گھٹنے پوری طرح سے نہیں موڑ پاتی ہیں۔

Left: Mahadevamma's x-ray showing her fracture.
PHOTO • Rangaswamy
Right: Her wounded foot where the splint pressed down.  Mahadevamma can no longer use this foot while walking
PHOTO • Rangaswamy

بائیں: مہادیوما کا ایکس رے، جس میں ان کی ٹوٹی ہوئی ہڈی بالکل صاف دکھائی دے رہی ہے۔ بائیں: ان کا زخمی پیر جہاں قمچیاں چبھتی تھیں۔ مہادیوما اب اپنے اس پیر کا استعمال چلنے کے لیے نہیں کر پاتی ہیں

اپنی دو ایکڑ فصل کو پٹہ پر دینے کے بعد سُبیا اس زمین سے ہونے والی آمدنی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پہلے مانسون کے موسم میں وہ زمین پر کپاس، مکئی، چنا، ہرا چنا، دال اور لوبیا وغیرہ کی فصل لگا کر ٹھیک ٹھاک کمائی کر لیتے تھے۔ انہیں ایک مقامی سیلف ہیلپ گروپ سے ۴ فیصد کے شرح سود پر ایک لاکھ روپے کا قرض لینا پڑا ہے، جس کے عوض انہیں ۳۰۰۰ روپے ماہانہ کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ پورا قرض چکانے کے لیے انہیں ۱۴مہینے اور قسطیں چکانی ہوں گی۔ پٹہ پر دی گئی زمین کو واپس لینے کے لیے پٹہ کی رقم کے طور پر انہیں ۷۰ ہزار روپے الگ سے ادا کرنے ہوں گے۔

جس دن کام مل جائے اس دن سُبیا کی کمائی ۵۰۰ روپے ہوتی ہے۔ عموماً انہیں مہینے میں ۲۰ دن ہی کام مل پاتا ہے۔ وہ آس پاس کے علاقے میں زرعی مزدور اور گاؤں میں کسی زیر تعمیر عمارت میں دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ گنّے کی کٹائی کے موسم میں سبیا چینی کارخانوں میں گنے کے ٹکڑے کرنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ مہادیوما اپنے گھر کا کام پورا کرنے کے بعد آس پاس کے کھیتوں سے گھاس کاٹنے اور گھاس پھوس چننے جیسے کام کرکے یومیہ ۲۰۰ روپے کی کمائی کر لیتی تھیں اور گھر کی آمدنی میں ایک اہم حصہ داری نبھاتی تھیں۔ لیکن اب تو کوئی سہارا نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے چل پانا بھی ممکن نہیں ہے۔

ان کی دودھ دینے والی گائے، جو ہر مہینے ۲۰۰ لیٹر دودھ دیتی تھی اور گھر کی آمدنی میں ۶۰۰۰ روپے کی حصہ داری کرتی تھی، نے گزشتہ دو سالوں سے کوئی بچہ نہیں دیا ہے۔ فیملی کی آمدنی کو ایک جھٹکا اس کی وجہ سے بھی لگا ہے۔

ان کی پوری فیملی ہوناسانلو گاؤں کے ایک کنارے پر ایک پتلی سی گلی میں بنے اکلوتے کمرے کے چونا کی پتائی والے مکان میں رہتی ہے۔

ان واقعات سے پہلے سبیا کے من میں اپنے بیٹے کے بارے میں کئی امیدیں تھیں۔ وہ اسے کسی ایسے اسکول میں داخلہ دلانا چاہتے تھے، جہاں سماعت سے محروم بچوں پر خاص دھیان دیاجاتا ہے۔ ’’وہ صرف بول نہیں پاتا ہے، ورنہ وہ کافی ہوشیار ہے،‘‘ وہ اپنے بیٹے کے بارے میں جب بتاتے ہیں، تو ان کی آنکھوں میں ایک فخریہ چمک دکھائی دینے لگتی ہے۔ لیکن ان کو افسوس ہے کہ وہ اس کے مستقبل کے لیے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔

Left: Subbaiah at work. He earns Rs. 500 for a day of work that starts at 9 a.m. and stretches till 5 a.m.
PHOTO • Rangaswamy
Right: Mahadevamma stands with the support of a walker along with Subbaiah in front of the single-room house they share with their two children
PHOTO • Rangaswamy

بائیں: سبیا اپنا کام کرتے ہوئے۔ جس دن انہیں کام ملتا ہے اس دن وہ صبح ۹ بجے سے شام ۵ بجے تک کام کرتے ہوئے ۵۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔ دائیں: مہادیوما اپنے شوہر سبیا کے ساتھ ایک واکر کی مدد سے اپنے ایک کمرے کے گھر کے سامنے کھڑی ہیں۔ ان کے دو بچے بھی ان کے ساتھ ہی اسی گھر میں رہتے ہیں

ان کی بیٹی پوترا کھانا پکاتی ہے اور صاف صفائی کرتے ہوئے گھر کی دوسری چیزوں کا خیال رکھتی ہے۔ پوترا کی شادی کی امیدیں بہت کم ہیں، اس کے فکرمند والد بتاتے ہیں کیوں کہ سبیا کی فیملی شادی میں ہونے والے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔

’’اسے اسپتال لے جانے میں مجھے ایک طرف سے ۵۰۰ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس پر ایکس رے اور دواؤں کا خرچ الگ لگتا ہے۔ ہم نے اپنی ساری بچت پہلے ہی اس کے علاج میں خرچ کر ڈالی ہے۔ اب ہم پیسے کہاں سے لائیں گے؟‘‘ مایوسی کے عالم میں سبیا کہتے ہیں۔

درخت کے کٹنے کا انہیں آج بھی گہرا افسوس ہے۔ ’’اس درخت کو میں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا اور بڑا کیا تھا۔ کاش! میں اسے نہیں بیچتا، لیکن میرے پاس کوئی دوسرا متبادل ہی کہاں تھا؟‘‘

مہادیوما کو جس لمبے علاج کی ضرورت ہے، اس کا خرچ اٹھا پانا ان کی فیملی کے لیے بہت مشکل ہے۔ اچھا علاج کرانے اور اسے جاری رکھنے کے لیے انہیں پیسوں کی بہت ضرورت ہے۔ پیسوں کی ضرورت انہیں اپنی زمین پر دوبارہ قبضہ کرنے اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے اور انہیں خود کفیل بنانے کے لیے بھی ہے۔

’’میں اپنے گھر کے سامنے کے کھلے احاطہ میں کسی سہارے کے بغیر شاید کبھی نہیں چل پاؤں گی۔‘‘ مایوس مہادیوما کہتی ہیں۔

’’چار بالغوں کی فیملی کو چلانے کے لیے میں اکیلا کمانے والا آدمی ہوں۔ میں نہیں چاہوں گا کہ میرے دشمن کو بھی کبھی ایسا دن دیکھنا پڑے۔ مجھے میری مشکلوں کا کوئی خاتمہ نہیں دکھائی دیتا ہے،‘‘ یہ کہتے ہوئے سبیا پوری طرح سے ٹوٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ramya Coushik

رامیا کوشک، بنگلور میں مقیم ایک کمیونی کیشن کنسلٹینٹ ہیں۔ وہ قدرت اور قدرتی کھیتی سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Ramya Coushik
Editor : Vishaka George

وشاکھا جارج، پاری کی سینئر ایڈیٹر ہیں۔ وہ معاش اور ماحولیات سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔ وشاکھا، پاری کے سوشل میڈیا سے جڑے کاموں کی سربراہ ہیں اور پاری ایجوکیشن ٹیم کی بھی رکن ہیں، جو دیہی علاقوں کے مسائل کو کلاس روم اور نصاب کا حصہ بنانے کے لیے اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز وشاکا جارج
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique