لکھنؤ کینٹ اسمبلی حلقہ میں اپنی انتخابی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے، مہا نگر پبلک انٹر کالج کی جانب تیزی سے قدم بڑھاتی ہوئی ریتا باجپئی کہتی ہیں، ’’ایک منٹ بھی لیٹ نہیں ہو سکتے، ورنہ ہماری کلاس لگ جائے گی۔‘‘ یہ انٹر کالج اُن کے گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے، جسے پولنگ اسٹیشن بنایا گیا تھا، حالانکہ وہ خود اپنا ووٹ کسی اور جگہ ڈالتی ہیں۔
وہ ایک بھاری بیگ لٹکائے، صبح کے ساڑھے پانچ بجے اس پولنگ اسٹیشن کی طرف جا رہی تھیں۔ اس بیگ میں ڈیجیٹل تھرمامیٹر، سینیٹائزر کی بوتلیں، استعمال کے بعد پھینک دیے جانے والے کئی جوڑی دستانے اور ماسک رکھے ہوئے تھے، جنہیں وہاں تقسیم کیا جانا تھا۔ چونکہ ۲۳ فروری کو، اسمبلی انتخابات کے چوتھے مرحلے میں، اتر پردیش کے نو ضلعوں کے ۵۸ دیگر حلقوں کے ساتھ ساتھ لکھنؤ میں بھی ووٹنگ ہونی تھی، اس لیے اُن کے لیے یہ ایک مصروف دن تھا۔
اتر پردیش کے انتخابات اب ختم ہو چکے ہیں – اور نتائج کا بھی اعلان ہو چکا ہے۔ لیکن وہاں کی خواتین کے ایک بہت ہی بڑے گروپ کے لیے جو نتائج ابھی آنے والے ہیں – وہ کافی پریشان کن، اور شاید مہلک بھی ہو سکتے ہیں۔ انہیں یہ خوف ستا رہا ہے کہ ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کے اسمبلی انتخابات میں اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے انہیں جن حالات میں دھکیل دیا گیا تھا، اس کے نتائج کافی خطرناک ہو سکتے ہیں۔
یہ خواتین، ۱۶۳۴۰۷ آشا (منظور شدہ سماجی صحت سے وابستہ کارکنان) ہیں، جنہیں پولنگ بوتھ پر کام کرنے کے لیے مجبور کیا گیا اور وہ بھی بغیر کسی تحریری آرڈر کے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں پولنگ مراکز پر صاف صفائی برقرار رکھنے کی تو ذمہ داری سونپی گئی تھی، لیکن خود اُن کے لیے ایسا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ یعنی، انہیں یہ خطرناک کام ایک ایسی ریاست میں سونپا گیا، جہاں ابھی کچھ دنوں پہلے ہی، اپریل-مئی ۲۰۲۱ میں کووڈ۔۱۹ سے تقریباً ۲ ہزار اسکولی اساتذہ کی موت ہوئی تھی۔ اُس سال اپریل میں ہونے والے پنچایتی انتخابات میں، جب وبائی مرض اپنے عروج پر تھا، پنچایتی انتخابات کے دوران ریاست کے تمام سرکاری ٹیچروں کو اُن کی مرضی کے خلاف، پولنگ اہلکاروں کے طور پر کام کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
موت کی آغوش میں جا چکے ٹیچروں کے پریشان حال کنبوں کو معاوضہ کے لیے لڑنا پڑا، تب جا کر ان میں سے کئی کو ۳۰ لاکھ روپے ملے۔ لیکن، آشا کارکنوں کی تشویش یہ ہے کہ انہیں سزا کے طور پر یہ جو ڈیوٹی دی گئی تھی، اور جس کی وجہ سے ان میں سے کئی خواتین اپنا ووٹ تک نہیں ڈال پائیں، اُنہیں اگر کسی خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑا، تو وہ اپنی لڑائی کیسے لڑیں گی جب کہ ان کے پاس بطور ثبوت نہ تو کوئی تحریری دستاویز ہے اور نہ ہی سرکاری آرڈر یا ہدایات۔
اور جس نتیجہ سے وہ ڈر رہی ہیں، وہ کچھ اور نہیں بلکہ کووڈ۔۱۹ کا ہی خطرہ ہے۔ انہوں نے انتخاب کے ابتدائی مراحل کے دوران اپنے جیسی آشا کارکنوں پر اس کے اثرات کا اندازہ لگانا ابھی شروع نہیں کیا ہے۔
*****
لکھنؤ کی ۱۳۰۰ سے زیادہ آشا کارکنان جس پرائمری ہیلتھ سینٹر (پی ایچ سی) سے جڑی ہوئی ہیں، وہاں سے انہیں زبانی آرڈر اور ڈیوٹی سے متعلق ہدایات موصول ہونے کے بعد پولنگ بوتھ پر تعینات کر دیا گیا تھا۔ انہیں انتخاب سے متعلق یہ ذمہ داریاں ریاست کے محکمہ صحت کی طرف سے سونپی گئی تھیں۔
ریتا بتاتی ہیں، ’’ہمیں چندن نگر پی ایچ سی میں بلایا گیا اور ووٹنگ کے دن صاف صفائی برقرار رکھنے کے لیے زبانی ہدایات دی گئیں۔ ہم سے انفیکشن روکنے والی دوائیں چھڑکنے، [ووٹروں کا] درجہ حرارت چیک کرنے، اور ماسک تقسیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔‘‘
اتر پردیش کی تمام آشا کارکنوں کو ۱۰ فروری سے ۷ مارچ، ۲۰۲۲ تک ہونے والے اسمبلی انتخابات کے دوران ایسی ہی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔
لکھنؤ کے سروانگین وکاس انٹر کالج پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی کے لیے تعینات کی گئیں، ۳۶ سالہ پوجا ساہو بتاتی ہیں، ’’صرف ایک کاغذ تھا، جس پر آشا کارکنوں کا نام، اور جس [پولنگ] اسٹیشن پر انہیں تعینات کیا گیا ہے، اس کا نام لکھا ہوا تھا، لیکن اس کاغذ پر کسی کا دستخط نہیں تھا۔‘‘
چترکوٹ شہر میں ۲۷ فروری کو انتخابی ڈیوٹی انجام دینے والی، ۴۱ سال کی شانتی دیوی پوچھتی ہیں، ’’آپ ہی بتائے، اگر پولنگ اسٹیشن پر بھگدڑ مچ گئی، یا ہمیں کچھ ہو گیا، تو اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ تحریری لیٹر کے بغیر ہم یہ کیسے ثابت کر پائیں گے کہ ہمیں ڈیوٹی پر بلایا گیا تھا؟‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’آشا کارکنوں کو اپنی آواز اٹھانے سے ڈر لگتا ہے۔ ایسے میں، اگر میں زیادہ بولوں گی، تو میں بھی خطرے میں پڑ جاؤں گی۔ ظاہر ہے، مجھے اکیلے ہی آنا اور جانا پڑتا ہے۔‘‘
پھر بھی، شانتی دیوی نے جب اپنے پولنگ بوتھ پر دیگر عملہ کو حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرتے ہوئے دیکھا، تو انہوں نے اپنی آواز بلند کی۔ انہوں نے پریزائڈنگ افسر سے سوال کیا کہ اگر آشا کارکنان بھی دستخط کرنا چاہیں، تو کہاں کریں۔ شانتی دیوی بتاتی ہیں، ’’یہ سن کر وہ لوگ ہمارے اوپر ہنسنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں الیکشن کمیشن کی طرف سے مقرر نہیں کیا گیا ہے، اسی لیے ہمیں اپنی موجودگی کا دستخط کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس ضلع میں شانتی دیوی جیسی ۸۰۰ سے زیادہ آشا کارکن ہیں، جنہیں ایسے ہی تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔
اُدھر چترکوٹ میں، جب ۳۹ سال کی آشا کارکن کلاونتی نے پی ایچ سی کے اسٹاف سے ڈیوٹی لیٹر کے بارے میں پوچھا، تو انہیں ڈانٹ کر خاموش کر دیا گیا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے شوہر ایک سرکاری پرائمری اسکول میں اسسٹنٹ ٹیچر ہیں اور میں نے تقریباً ایک ہفتہ پہلے اُن کا ڈیوٹی لیٹر دیکھا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے بھی ویسا ہی لیٹر ملے گا، کیوں کہ مجھے بھی ڈیوٹی پر لگایا گیا ہے۔ لیکن پی ایچ سی سے سینیٹائزر وغیرہ لینے کے بعد، جب میں نے تحریری آرڈر کے بارے میں پوچھا، تو پربھاری [پی ایچ سی انچارج] لاکھن گرگ، اور بی سی پی ایم [بلاک کمیونٹی پروسیس مینیجر] روہت نے کہا کہ آشا کارکنوں کو کوئی لیٹر نہیں ملے گا، اور ڈیوٹی پر آنے کے لیے زبانی آرڈر ہی کافی ہے۔‘‘
الیکشن کے دن، کلاونتی کو پولنگ اسٹیشن پر ۱۲ گھنٹے تک ڈیوٹی دینی پڑی۔ لیکن وہاں پر ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی اُن کا کام ختم نہیں ہوا۔ پی ایچ سی کی اے این ایم (آگزیلیئری نرس مڈ وائف) نے انہیں فون کیا۔ کلاونتی بتاتی ہیں، ’’گھر واپس آنے کے بعد، اے این ایم نے فون کرکے مجھے الٹی میٹم دیا۔ اس نے کہا کہ مجھے پورے گاؤں کا سروے کرنا ہے اور اگلے دن، شام تک رپورٹ جمع کرنی ہے۔‘‘
بات صرف اتنی سی نہیں ہے کہ پولنگ بوتھ پر اُن کی موجودگی کو کوئی کام نہیں سمجھا جاتا، دقت یہ ہے کہ انہیں اس کی کوئی اجرت بھی نہیں ملتی ہے۔ حالانکہ، پولنگ اسٹیشنوں پر آشا کارکنوں نے بھی اتنی ہی دیر تک کام کیا، جتنی دیر تک دوسرے عملہ نے۔ یوپی آشا یونین کی صدر، وینا گپتا کہتی ہیں، ’’وہ ہمیں لیٹر اس لیے نہیں دیں گے، کیوں کہ لیٹر جاری کرتے ہی انہیں بھتہ بھی دینا پڑے گا۔ الیکشن ڈیوٹی پر تعینات سبھی اسٹاف کو بھتہ ملا، لیکن آشا اور آنگن واڑی کارکنوں کو نہیں ملا۔ ڈیوٹی کے مقام پر جانے کے لیے سفر کا کرایہ بھی انہیں اپنی ہی جیب سے دینا پڑا، اور اس طرح ان کا استحصال کیا گیا۔‘‘
لیکن، یہ پہلی بار نہیں تھا۔
*****
قومی صحت کے مشن میں کلیدی رول ادا کرنے والی آشا کارکنان، سال ۲۰۰۵ سے ہی صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچہ میں سب سے آگے رہی ہیں، پھر بھی انہیں سب سے کم تنخواہ ملتی ہے اور حد سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ یہی نہیں، انہیں سرکار کی اندیکھی، بے حسی، اور بعض دفعہ سخت نا انصافی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جب کورونا وائرس کا وبائی مرض پورے ملک میں تباہی پھیلا رہا تھا، تب آشا کارکنوں کو ضروری کام انجام دینے کے علاوہ گھر گھر جا کر ٹیسٹ کرنے، مہاجر مزدوروں پر نظر رکھنے، وبائی مرض سے متعلق طور طریقوں کی تعمیل کو یقینی بنانے، مریضوں کی کووڈ۔۱۹ سے متعلق نگہداشت اور ٹیکہ لگانے میں مدد کرنے، اور اعداد و شمار جمع کرکے انہیں پی ایچ سی تک پہنچانے کی اضافی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں۔ اس کے لیے انہوں نے کام کے گھنٹوں سے بھی زیادہ دیر تک ڈیوٹی انجام دی، اور وہ بھی خراب تحفظاتی لباس اور تاخیر سے ملنے والی تنخواہوں کے ساتھ – آپ خود ہی تصور کر سکتے ہیں کہ دن بھر میں آٹھ سے ۱۴ گھنٹے فیلڈ میں رہنے اور اوسطاً ۲۵ سے ۵۰ گھروں کا دورہ کرنے میں (ہفتہ کے اختتامی دنوں میں بھی) انہیں ذاتی طور پر کتنا خطرہ رہتا ہوگا۔
چترکوٹ میں ۳۲ سال کی آشا کارکن، رتنا کہتی ہیں، ’’پچھلے سال [۲۰۲۰] سے ہی ہمارے کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ تو، ہمیں اضافی کام کا پیسہ بھی ملنا چاہیے، نا؟‘‘ یوپی میں آشا کارکنوں کو ہر مہینے بطور اعزازیہ ۲۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔ صحت کی متعدد اسکیموں کے تحت، کار کردگی کی بنیاد پر ملنے والے انسینٹو کے ساتھ، وہ ہر مہینے ۵۳۰۰ روپے کما سکتی ہیں۔
مارچ ۲۰۲۰ کے آخر میں، مرکزی حکومت نے کووڈ۔۱۹ کے مدنظر، صحت کے نظام سے متعلق تیاریوں اور ایمرجنسی رسپانس پیکیج کے تحت آشا کارکنوں کی خاطر ماہانہ ۱۰۰۰ روپے کے ’کووڈ انسینٹو‘ کا اعلان کیا تھا، جسے جنوری سے جون ۲۰۲۰ تک کے لیے ادا کیا جانا تھا۔ ایمرجنسی پیکیج کی مدت میں توسیع کے بعد، انسینٹو کی یہ رقم مارچ ۲۰۲۱ تک ادا کی جانی تھی۔
مئی میں، صحت اور خاندانی فلاح و بہبود کی وزارت (ایم او ایچ ایف ڈبلیو) نے ریاستوں کو ہدایت دی کہ وہ پچھلے مالی سال کے بچے ہوئے فنڈ سے کووڈ انسینٹو کی اپریل تا ستمبر ۲۰۲۱ کی یہ رقم ادا کر دیں۔ لیکن کووڈ ایمرجنسی پیکیج کا دوسرا مرحلہ جب یکم جولائی، ۲۰۲۱ سے ۳۱ مارچ، ۲۰۲۲ تک نافذ کیا گیا، تو آشا کارکنوں سمیت صف اول کے تمام کارکنوں کو انسینٹو حاصل کرنے والوں کی فہرست سے باہر کر دیا گیا۔
اپریل ۲۰۲۰ میں، آشا کارکنوں کے کام کرنے سے متعلق حالات اور ان کی تنخواہوں کے بارے میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلا کہ ۱۶ ریاستوں میں سے ۱۱ ریاستیں ایسی ہیں، جنہوں نے کووڈ انیسنٹو کی بقایا رقم ادا نہیں کی ہے۔ ۵۲ آشا کارکنوں اور آشا یونین کی لیڈروں سے انٹرویو کرنے کے بعد تیار کی گئی اس سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے، ’’کوئی بھی ریاست امیونائزیشن (یعنی جسم کو انفیکشن یا بیماریوں سے محفوظ بنانے کا عمل) جیسی سرگرمیوں کے لیے باقاعدہ انسینٹو نہیں دے رہی تھی، کیوں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ سرگرمیاں روک دی گئی تھیں۔‘‘
وبائی مرض سے متعلق تمام اضافی کاموں کو انجام دینے کے بعد بھی، رتنا کو ابھی تک جون ۲۰۲۱ سے ’کووڈ انسینٹو‘ کے پیسے نہیں ملے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’مجھے صرف ۲۰۰۰ روپے ملے ہیں، جو پچھلے سال [۲۰۲۱ٗ] کے اپریل اور مئی ماہ کے لیے ہیں۔ ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے، آپ خود ہی جوڑ کر پتہ لگا سکتی ہیں کہ کتنے پیسے ابھی باقی ہیں۔‘‘ رتنا کو کم از کم ۴۰۰۰ روپے کی انسینٹو والی رقم ملنا باقی ہے۔ اور یہ پیسہ تبھی ملے گا جب اے این ایم، ادائیگی والی پرچی پر اپنے دستخط کر دے گی – جو کہ اپنے آپ میں ایک اتنہائی مشکل کام ہے۔
رتنا کہتی ہیں، ’’آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ اے این ایم کو اپنی ادائیگی والی پرچی پر دستخط کرنے کے لیے منانا، اور یہ سمجھانا کتنا مشکل ہے کہ ہم نے اپنے تمام کام مکمل کر دیے ہیں۔ اگر ایمرجنسی یا صحت کی خرابی کی وجہ سے میں کسی دن کام پر نہ آؤں، تو وہ کہے گی ’تم نے اس مہینے اچھی طرح کام نہیں کیا‘ اور اُس مہینے کی ۱۰۰۰ روپے کی انسینٹو والی رقم کاٹ لے گی، حالانکہ صف اول کی کارکن کے طور پر مہینے کے بقیہ ۲۹ دنوں تک کام کرنے کی وجہ سے آشا کارکن اس انسینٹو کی حقدار ہے۔‘‘
پورے ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں، ۱۰ لاکھ سے زیادہ آشا کارکن اپنے کام کو تسلیم کروانے کے لیے ایک ایسے نظام سے لڑ رہی ہیں، جو کم محنتانہ والے اُن کے کام کی بدولت پھل پھول رہا ہے۔ جیسا کہ سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’وہ [آشا کارکنان] کم از کم مزدوری کے قانون کے دائرے میں نہیں آتیں، اسی لیے وہ باضابطہ سرکاری ملازمین کو ملنے والے زچگی سے متعلق فوائد اور دیگر اسکیموں سے مستفید نہیں ہو پاتیں۔‘‘
بڑے افسوس کی بات ہے کہ کووڈ۔۱۹ کے دوران مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے وبائی مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے بنائی گئی حکمت عملیوں میں جن آشا کارکنوں نے بنیادی رابطہ کے طور پر کیا، خود اُن کارکنوں کو طبی توجہ حاصل کرنے اور علاج کرانے میں بھی اکثر و بیشتر دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وبائی مرض کے دوران اپنی ڈیوٹی انجام دیتے وقت کئی آشا کارکنوں کی موت ہو گئی تھی۔
مئی ۲۰۲۱ میں اپنی ماں شانتی دیوی کو کھو دینے والے، ۲۳ سال کے سورج گنگوار اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پچھلے سال [۲۰۲۱] اپریل کے آخری دنوں میں میرے گھر سے فون آیا کہ ممّی بیمار ہیں۔ یہ سنتے ہی، میں دہلی سے بھاگا ہوا بریلی آیا۔ تب تک انہیں اسپتال میں داخل کیا جا چکا تھا۔‘‘ دہلی کی ایک پرائیویٹ کمپنی میں بطور انجینئر کام کرنے والے سورج، اب اپنی تین رکنی فیملی میں واحد کمانے والے رکن بچے ہیں۔
گنگوار کہتے ہیں، ’’میں جب گھر پہنچا، تو ہمیں بالکل بھی پتہ نہیں تھا کہ ممّی کووڈ۔۱۹ پازیٹو ہیں۔ ہم نے ۲۹ اپریل کو ان کا آر ٹی پی سی آر کروایا، تب جا کر ہمیں اس کے بارے میں معلوم ہوا۔ اس کے بعد اسپتال نے انہیں اپنے یہاں رکھنے سے منع کر دیا، جس کی وجہ سے ہمیں انہیں گھر واپس لانا پڑا۔ ۱۴ مئی کو جب اُن کی حالت بہت زیادہ بگڑنے لگی، تو ہم نے انہیں اسپتال لے جانے کی دوبارہ کوشش کی، لیکن راستے میں ہی ان کی موت ہو گئی۔‘‘ ان کی ماں ملک کی اُن لاکھوں صف اول کی کارکنان میں شامل تھیں، جن کی ٹیسٹ رپورٹ پازیٹو آنے کے بعد بھی سرکاری اسپتالوں میں ان کا کوئی علاج نہیں ہو پایا اور اس طرح ان کی موت ہو گئی۔
لوک سبھا میں ۲۳ جولائی، ۲۰۲۱ کو ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، وزیر مملکت برائے صحت بھارتی پروین پوار نے بتایا کہ اپریل ۲۰۲۱ تک کورونا وائرس کی وجہ سے ۱۰۹ آشا کارکنوں کی موت ہو چکی ہے – اس سرکاری بیان میں یوپی سے ایک بھی موت کا ذکر نہیں تھا۔ لیکن، کووڈ۔۱۹ سے ہونے والی آشا کارکنوں کی موت کی کل تعداد کا کوئی بھی قابل اعتبار ڈیٹا عوامی طور پر دستیاب نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے ۳۰ مارچ، ۲۰۲۰ سے پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کے تحت، کووڈ۔۱۹ سے مرنے والے صف اول کے کارکنوں کے اہل خانہ کو ۵۰ لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا، لیکن یہ رقم بھی ان میں سے کئی لوگوں کو نہیں مل پائی ہے۔
سورج کہتے ہیں، ’’میری ماں فیلڈ میں جانے کے لیے ایک دن بھی ناغہ نہیں کرتی تھیں، اور بطور آشا کارکن اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری سے نبھاتی تھیں۔ پورے وبائی مرض کے دوران وہ رات دن کام کرتی رہیں، لیکن اب جب کہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہیں، محکمہ صحت کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں معاوضہ نہیں مل سکتا۔‘‘
سورج اور ان کے والد نے بریلی کے نواب گنج
کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کے چیف میڈیکل آفیسر (سی ایم او) اور دیگر اسٹاف سے ملاقات
کرنے اور مدد حاصل کرنے کی کئی بار کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہو پائے۔ ہمیں اپنی
ماں کی آر ٹی پی سی آر رپورٹ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ دکھاتے ہوئے، وہ کہتے ہیں: ’’سی
ایم او نے کہا کہ ہمیں معاوضہ تبھی مل سکتا ہے جب ہمارے پاس اسپتال سے حاصل کیا
گیا ایسا ڈیتھ سرٹیفکیٹ ہو، جس میں ان کی موت کا سبب کووڈ۔۱۹ بتایا گیا ہو۔ اب
ویسا سرٹیفکیٹ کہاں سے لائیں، جب کہ کسی بھی اسپتال نے انہیں داخل ہی نہیں کیا
تھا؟ ایسی فرضی اسکیموں سے کیا فائدہ، جس میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہو کہ
ضرورت مندوں کو کوئی مدد نہیں ملے گی؟‘‘
*****
ابھی پچھلے سال کی یہ ہولناک یادیں دھندلی بھی نہیں ہوئی ہیں کہ ایک بار پھر اسمبلی انتخابات کے دوران یوپی کی ایک لاکھ ۶۰ ہزار سے زیادہ آشا کارکنوں کو بلا اجرت، ضروری اور خطرناک کام میں لگا دیا گیا۔ ان کے یونین کی صدر، وینا گپتا اسے سوچا سمجھا فیصلہ مانتی ہیں۔ ’’اگر آپ مجھ سے پوچھیں، تو میں یہی کہوں گی کہ ۱۲ گھنٹے کی بلا اجرت ڈیوٹی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ریاست کی ایک حکمت عملی ہے کہ یہ عورتیں اپنی ڈیوٹی میں پھنسی رہیں اور ووٹ نہ ڈال پائیں – کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ جس طرح انہوں نے آشا کارکنوں کے مطالبات کو نظر انداز کیا ہے، اور جس طرح وہ ہمارا اعزازیہ ادا کرتے ہیں، اس کی وجہ سے یہ عورتیں ان کے خلاف جا سکتی تھیں۔‘‘
لیکن، ریتا اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے پر عزم تھیں۔ انہوں نے اُس وقت پاری (پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا) کو بتایا تھا، ’’میں شام کو چار بجے اپنے پولنگ اسٹیشن پر جا کر ووٹ ڈالنے کا من بنا رہی ہوں۔ لیکن میں تبھی جا سکتی ہوں، جب میری غیر موجودگی میں کوئی اور آشا کارکن یہاں آ کر ڈیوٹی انجام دے۔ میرا پولنگ اسٹیشن، یہاں سے تقریباً چار کلومیٹر دور ہے۔‘‘ دوسری تمام آشا کارکنوں کی طرح، انہیں بھی اپنی غیر موجودگی میں کسی اور کارکن کا انتظام خود سے ہی کرنا تھا، جس کے لیے محکمہ صحت کی طرف سے انہیں کوئی مدد نہیں ملنے والی تھی۔
آشا کارکنوں کو پولنگ اسٹیشن پر صبح سویرے ہی پہنچنا پڑتا تھا، لیکن وہاں پر نہ تو ان کے صبح کے ناشتہ کا کوئی انتظام کیا گیا اور نہ ہی دوپہر کے کھانے کا۔ لکھنؤ کے عالم باغ کی آشا کارکن، پوجا نے تب پاری کو بتایا تھا، ’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ڈیوٹی پر تعینات دوسرے اسٹاف کے لیے تو لنچ کے پیکیٹ آئے اور انہوں نے ہمارے سامنے کھایا بھی، لیکن مجھے کچھ بھی نہیں ملا۔‘‘
ڈیوٹی پر تعینات دیگر سبھی اسٹاف کو دن میں ۳ بجے کے آس پاس لنچ کے پیکیٹ ملے، لیکن آشا کارکنوں کو نہ تو کوئی لنچ ملا اور نہ ہی گھر جا کر دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے چھٹی۔ عالم باغ کی آشا کارکنوں کے ایک وہاٹس ایپ گروپ سے ہمیں میسجز دکھاتے ہوئے، پوجا نے کہا، ’’آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ ہم تمام لوگ کیسے لنچ بریک کی مانگ کر رہے تھے۔ وہ ہمیں گھر جانے اور دوپہر کا کھانا کھا کر واپس آنے کی اجازت دے سکتے تھے۔ ہمارے گھر یہاں سے بہت زیادہ دور نہیں ہیں۔ ہر آشا کارکن کو ان کے گھر کے آس پاس ہی ڈیوٹی دی جاتی ہے۔‘‘
ریتا کے ساتھ اُسی پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی انجام دے رہیں، جنرل نرس اور مڈ وائف، یا جی این ایم، انو چودھری کو کافی غصہ آ گیا جب انہوں نے دیکھا کہ ڈیوٹی پر تعینات پولیس اور دیگر سرکاری عملہ کو تو کھانا مل رہا ہے، لیکن انہیں نہیں۔ وہ شکایت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’کیا ہمارے ساتھ یہ اچھا برتاؤ ہو رہا ہے؟ ہمیں کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا۔ ہمیں وہ سہولیات کیوں نہیں مل رہی ہیں جو ڈیوٹی پر تعینات دوسروں لوگوں کو ملتی ہیں؟‘‘
چترکوٹ میں انتخابی ڈیوٹی میں لگائی گئی آشا کارکنوں کو ایک اور ذمہ داری سونپی گئی تھی: کہ وہ پولنگ بوتھ سے کوڑے دان کو بھی باہر نکالیں۔ ضلع کے پی ایچ سی میں جن آشا کارکنوں کو بلا کر یہ ڈیوٹی دی گئی تھی، ان میں شیوانی کشواہا بھی شامل ہیں۔ ان عورتوں کو سینیٹائزر وغیرہ کے علاوہ ایک بڑا ڈسٹ بن بھی دیا گیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’انہوں نے ہمیں کچھ پی پی پی کٹ بھی دیے، جو ہمیں پولنگ اسٹیشن پر آنے والے اُن ووٹروں کو تقسیم کرنے تھے، جن کا کووڈ ٹیسٹ پازیٹو آیا ہو۔ اور ہمیں اپنے پولنگ اسٹیشن پر دن بھر رہنے کے لیے کہا گیا، یعنی صبح ۷ بجے سے شام کے ۵ بجے تک۔ اس کے بعد، ہمیں استعمال شدہ اور بغیر استعمال شدہ پی پی ای کٹ والے ڈسٹ بن کو کھوٹہا ذیلی مرکز پر جمع کرانے کے لیے کہا گیا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام بھرے ہوئے کوڑے دان کو لے کر اُس مرکز کے احاطہ تک پہنچنے کے لیے انہیں تقریباً ایک کلومیٹر پیدل چلنا پڑا۔
کشواہا اپنی باتیں بیان کرتے وقت غصے سے کانپ رہی تھیں۔ ’’ہماری ذمہ داری صاف صفائی کو یقینی بنانا ہے، تو ہم یہ کام کرتے رہیں گے۔ لیکن ہمیں کم از کم ایک مناسب لیٹر تو دیجئے، جیسا کہ آپ نے دوسرے اسٹاف کو دیا ہے۔ اور جب آپ دوسرے سرکاری ملازمین کو الیکشن ڈیوٹی کے پیسے دے رہے ہیں، تو ہمیں کیوں نہیں؟ آپ نے ہمیں اپنا غلام سمجھ رکھا ہے کیا؟‘‘
جگیاسا مشرا ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے توسط سے صحت عامہ اور شہریوں کی آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کوئی ادارتی کنٹرول نہیں کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز