پچھلے ایک مہینہ سے بھی زیادہ وقت سے، نشا یادو اپنی فیملی کا راشن لینے کے لیے اضافی دوری طے کر رہی ہیں۔ ان کے گھر کے پاس واقع کیرانے کی دکان انہیں راشن فروخت کرنے سے منع کر دیتی ہے۔ ’’جب سے پاپا اسپتال میں بھرتی ہوئے ہیں، راجن والا [کیرانے کی دکان کے مالک] ہمیں اپنی دکان میں داخل نہیں ہونے دیتے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’میرے والد جون کے آخر میں کووڈ- ۱۹ پازیٹو پائے گئے تھے، لیکن وہ اب پوری طرح سے ٹھیک ہو چکے ہیں،‘‘ نشا بتاتی ہیں۔ ’’ہم میں سے باقی لوگ دو ہفتے تک دوسروں سے بالکل الگ تھلگ رہے۔ حالانکہ پاپا ایک مہینہ پہلے ہی ٹھیک ہو گئے تھے، لیکن دکان کے مالک کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان کی دکان میں داخل ہوئے، تو دوسروں میں وائرس پھیلا سکتے ہیں۔ اس لیے اب ہم میں سے ایک کو بارش اور سیلاب کے اس موسم میں، تقریباً ایک میل دور رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے کیرانے کا سامان لانے کے لیے، گھُٹنے تک گہرے گندے پانی سے ہوکر پیدل جانا پڑتا ہے۔‘‘
چھ سال پہلے ۱۱ویں کلاس تک پڑھائی کرنے کے بعد اسکول چھوڑ چکی ۲۴ سالہ نشا، اتر پردیش کے کُشی نگر ضلع کے ہاٹا بلاک کے سوہسا مٹھیا گاؤں میں رہتی ہیں۔ گورکھپور شہر سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر دور واقع ان کا گاؤں، مانسون اور سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
’’ہمارے پھوپھا- پھوپھی ہمارے لیے راشن خریدتے ہیں، جس کے لیے ہم انہیں بعد میں پیسے ادا کرتے ہیں۔‘‘ یہ بات چیت کرتے وقت بھی، نشا اپنی شلوار کی موہری تین چار بار موڑ رہی ہیں – وہ سیلاب کے پانی سے ہوکر چلتے ہوئے اپنے گھر لوٹنے والی ہیں۔ ان کی فیملی کے پاس شام کی چائے کے لیے چینی نہیں بچی ہے۔
نشا اپنی فیملی کی سب سے بڑی اولاد ہیں۔ ان کے والد، ۴۷ سالہ برج کشور یادو، جو فیملی کے واحد کمانے والے رکن ہیں، جون میں دہلی سے لوٹے تھے۔ راجدھانی میں، وہ ایک جینس بنانے والی فیکٹری میں کام کرتے تھے، جہاں پر انہیں ہر مہینے تقریباً ۲۰ ہزار روپے ملتے تھے۔ چھ سال پہلے سانپ کے کاٹنے سے نشا کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ تب سے، وہ اپنے دو چھوٹے بھائیوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ۱۴ سال کا پریانشو ۸ویں کلاس میں ہے اور ۲۰ سالہ انوراگ بی اے سال دوئم میں ہے۔
دونوں اب لاک ڈاؤن سے پریشان ہیں۔ ایک ایسی فیملی میں جہاں یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ دن میں دو وقت کا کھانا ملے گا، ان کے لیے اسمارٹ فون رکھنے اور آن لائن تعلیم حاصل کرنے کا امکان بہت کم ہے۔ ان کے مہاجر مزدور والد کے پاس ایک عام سیل فون ہے۔ دونوں ہی لڑکے آنے والے نئے سیشن کی اپنی فیس ادا نہیں کر سکیں گے۔
’’ہم اس سال پڑھائی نہیں کریں گے۔ اب ہم اسے ترجیح نہیں مانتے۔ ہو سکتا ہے، اگلے سال ہم ایسا کر پائیں،‘‘ انوراگ کہتے ہیں۔
’’پاپا ہر مہینے ہمیں ۱۲-۱۳ ہزار روپے بھیجتے تھے،‘‘ نشا کہتی ہیں۔ ’’لیکن اپریل کے بعد سے، میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ ہم کیسے گزارہ کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی، ہم دن میں صرف ایک بار ہی کھانا کھا پاتے ہیں۔
’’پاپا جون کے آخر میں آئے تھے اور لوٹ رہے مہاجرین کے لیے کوارنٹائن مرکز کے طور پر استعمال کیے جا رہے اسکول میں ان کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ یہ ایک فوری [ریپڈ اینٹیجن] ٹیسٹ تھا جس سے پتا چلا کہ وہ پازیٹو ہیں، اس لیے انہیں وہیں بند کر دیا گیا۔
ایک ہفتے بعد، مزید وسیع [آر ٹی- پی سی آر – ریورس ٹرانس کرپشن پولیمریز چین ری ایکشن] ٹیسٹ میں وہ نگیٹو آئے۔ اس لیے انہیں جلد ہی، ۲ جولائی کو رہا کر دیا گیا۔ وہ ٹھیک ہیں، لیکن ہم ابھی بھی بدنامی جھیل رہے ہیں۔‘‘
’’دہلی سے گورکھپور آنے کے لیے مجھے ٹرک ڈرائیور کو ۴ ہزار روپے دینے پڑے،‘‘ برج کشور کہتے ہیں۔ ’’پھر، یہاں اپنے گاؤں آنے کے لیے بولیرو والے کو ایک ہزار روپے دینے پڑے۔ یہ پیسے میں نے دہلی میں دوستوں سے جو ۱۰ ہزار روپے قرض لیے تھے، اس میں سے ادا کیے۔ مجھے ان پیسوں کی ضرورت تھی کیوں کہ میرے بچے دال روٹی یا نمک چاول کھاکر گزارہ کر رہے تھے۔ لیکن میرے پاس اس میں سے صرف ۵ ہزار روپے بچے تھے اور وہ بھی اس کورونا مرض کے سبب چلے گئے۔ دوائیں بہت مہنگی تھیں۔ چھٹی ملنے کے بعد مجھے گھر لوٹنے کے لیے آٹورکشہ پر بھی ۵۰۰ روپے خرچ کرنے پڑے۔ اور اب میرے پاس کوئی کام نہیں ہے۔
’’مجھے بتائیے، میں دہلی کب واپس جا سکتا ہوں؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔ ’’یہاں، ہماری مدد اور حمایت کرنے کے بجائے، پڑوسی اور دکاندار ہمارا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ میں نے کیا غلطی کی ہے؟‘‘
’’اس ضلع میں یا آس پاس کوئی بڑی فیکٹری نہیں ہے، ورنہ ہم فیملی سے اتنے دور نہیں جاتے اور ہمیں اتنی تکلیف نہیں برداشت کرنی پڑتی،‘‘ برج کشور کہتے ہیں۔
******
سورج کمار پرجاپتی پچھلے کچھ دنوں سے معمول سے کم پانی پی رہے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ کووڈ- ۱۹ سے ٹھیک ہونے پر بھی، وہ اپنے کوارنٹائن مرکز کی گندگی کے سبب دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ ’’پانی پینے لائق نہیں ہے۔ سِنک اور نل پر لوگوں نے پان گٹکھا کھاکر تھوکا ہوا ہے۔ اگر آپ اسے دیکھیں گی، تو یہاں پانی پینے کی بجائے پیاسی رہنا پسند کریں گی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’یہاں‘ اتر پردیش کے سنت کبیر نگر ضلع کے خلیل آباد بلاک کا سینٹ تھامس اسکول ہے، جہاں سرکاری میڈیکل کیمپ میں کووڈ- ۱۹ کے ٹیسٹ میں پازیٹو آنے کے بعد سورج کو کوارنٹائن کیا گیا ہے۔ بی اے سال دوئم کے اس ۲۰ سالہ طالب علم نے بہت زیادہ کھانسی ہونے کے بعد اپنا ٹیسٹ کرایا تھا۔
’’میرے والدین، دو بھائی اور ایک بہن، سبھی خلیل آباد شہر میں رہتے ہیں۔ [ان کے بھائی بہن، سبھی ان سے چھوٹے، سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔] میرے والد چوراہے پر چائے پکوڑا فروخت کرتے ہیں – پچھلے کچھ مہینوں سے ان کی بہت کم کمائی ہو رہی ہے،‘‘ سورج بتاتے ہیں۔ ’’سڑکوں پر کوئی بھی نہیں نکل رہا تھا – تو خریدتا کون؟ جولائی میں کچھ فروخت شروع ہوئی، لیکن یہ بہت محدود ہے۔ سنیچر اور اتوار کو ویسے بھی سب کچھ [غیر ضروری کاروبار کے لیے، سرکاری حکم نامہ کے ذریعے] بند رہتا ہے۔ میں اپنے والد سے ہر دن بوتل بند منرل واٹر بھیجنے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔‘‘
سورج اور تقریباً ۸۰ دیگر لوگوں کو، کووڈ- ۱۹ کے لیے ’فوری‘ [ریپڈ اینٹیجن] ٹیسٹ میں پازیٹو آنے کے بعد اسکول میں کوارنٹائن کر دیا گیا تھا۔ وہ تقریباً ۲۵ فٹ لمبے اور ۱۱ فٹ چوڑے کمرے میں سات دیگر لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
’’ہمیں صبح ۷ بجے ناشتہ میں چائے کے ساتھ بریڈ پکوڑا ملتا ہے اور پھر دوپہر کو ۱ بجے ہم دال روٹی یا چاول کھاتے ہیں۔ حالانکہ، ہمیں بہت پہلے سے بھوک محسوس ہونے لگتی ہے – ہم نوجوان لڑکے جو ٹھہرے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’شام کو ہمیں دوبارہ چائے اور ۷ بجے رات کا کھانا [دال روٹی] ملتا ہے۔ یہاں کھانا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن گندگی ضرور ہے۔‘‘
اسکول کے تقریباً ہر کمرے کے باہر کوڑے کے انبار ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو دیے جانے والے کھانے کے ڈبّے، بچے ہوئے اور بیکار کھانے، ڈسپوزیبل کپ جس میں انہیں کاڑھا (جڑی بوٹیوں کے ساتھ ابلا ہوا پانی) اور چائے ملتی ہے، سبھی گلیاروں میں پڑے ہیں۔ ’’میں نے گزشتہ آٹھ دنوں میں کسی کو یہاں ایک بار بھی جھاڑو لگاتے نہیں دیکھا ہے۔ ہم گندے ٹوائلٹ – پورے کوارنٹائن مرکز میں صرف ایک، اور ۵-۶ پیشاب خانے – کا استعمال کرتے وقت اپنی ناک بند کر لیتے ہیں۔ عورتوں کا ٹوائلٹ بند ہے کیوں کہ یہاں کوئی عورت نہیں ہے۔ کبھی کبھی مجھے متلی آنے لگتی ہے۔
’’ہم اٹینڈنٹ سے فضول میں شکایت کرتے ہیں، لیکن انہیں ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اگر ہمارے آواز بلند کرنے سے انہوں نے کھانا دینا بند کر دیا، تب کیا ہوا؟ مجھے لگتا ہے کہ جیل ایسی ہی ہوگی۔ صرف، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے،‘‘ سورج کہتے ہیں۔
******
کانپور ضلع کے گھاٹم پور بلاک میں اپنے گھر کے باہر غصے سے بھری ہوئی اِدّن نے میڈیکل رپورٹ دکھاتے ہوئے کہا کہ ان کا کووڈ- ۱۹ ٹیسٹ نگیٹو آیا تھا۔
وہ یہاں پڑری لالپور بستی میں اپنے ۵۰ سالہ شوہر اور ۳۰ سالہ بیٹے کے ساتھ، گجرات کے سورت سے ۲۷ اپریل کو لوٹی تھیں۔ تب سے انہوں نے ایک روپیہ بھی نہیں کمایا ہے۔ ’’واپسی کا سفر [تقریباً ۱۲۰۰ کلومیٹر، دو راتوں اور تین دنوں میں] بہت ہی خراب تھا، ۴۵ لوگ ایک کھلے ٹرک میں ٹھونسے ہوئے تھے، لیکن واپس آنا ہمارا سب سے برا فیصلہ تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہم نو سال سے سورت میں تھے، وہاں دھاگے کی ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔‘‘ انہوں نے یوپی اس لیے چھوڑ دیا تھا کیوں کہ یہاں زرعی مزدوری کرکے ان کی بہت کم کمائی ہوتی تھی۔
وہ ایک ہلکے نیلے گھر کے باہر کھڑی ہیں، جس کی باہری دیواروں پر شاید پلاسٹر کبھی نہیں کیا گیا۔ اِدّن کی برہم آواز کو سن کر، کچھ بچے ہمارے چاروں طرف اکٹھا ہو گئے ہیں۔
’ہم مسلمان ہیں‘، وہ [اِدّن] کہتی ہیں۔ ’اس لیے ہمیں بھگا دیا جاتا ہے۔ دوسرے لوگ جو ہمارے مذہب کے نہیں ہیں، انہیں کام مل رہا ہے۔ حال ہی میں، میرے بیٹے کو حجام کی دکان پر بال کاٹنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ اس سے کہا گیا کہ ’تم ہی لوگ‘ کورونا وائرس پھیلا رہے ہو‘
’’سورت میں ہم نے ۴ ہزار روپے میں ایک کمرہ کرایے پر لیا تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ کارخانہ میں، ’’ہم میں سے ہر ایک ۸ ہزار روپے – مشترکہ طور پر ۲۴ ہزار روپے کماتے تھے۔ لوٹنے کے بعد ۲۴۰۰ روپے بھی نہیں کما پا رہے ہیں۔
’’یہاں، اس موسم میں کھیتی کے کام کے لیے، ہمیں اچھے دنوں میں ۱۷۵-۲۰۰ روپے ملتے تھے۔ لیکن وہ کام ۳۶۵ دن نہیں ملتے۔ اسی لیے ہم سالوں پہلے سورت چلے گئے تھے – جب یہاں مزدوری بھی کم تھی۔‘‘
اپنی ۵۰ سال کی عمر میں، ایک پر عزم خاتون کے طور پر وہ کہتی ہیں کہ ان کا کوئی آخری نام نہیں ہے۔ ’’میں اپنی تمام دستاویزوں پر اِدّن ہی لکھتی ہوں۔‘‘
ان کے شوہر کو، جن کا وہ نام نہیں بتانا چاہتیں، مئی کے پہلے ہفتہ میں لوٹ رہے مہاجرین کا ایک سرکاری کیمپ میں لازمی طور پر ٹیسٹ کرنے کے بعد کووڈ- ۱۹ پازیٹو قرار دے دیا گیا تھا۔ ’’تبھی سے زندگی جہنم بن گئی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’ان کا وائرس میں مبتلا ہونا تناؤ بھرا تھا، لیکن اصل مسئلہ ان کے ٹھیک ہونے کے بعد شروع ہوا۔ جب میرے بیٹے اور شوہر نے زرعی مزدوروں کے طور پر کام مانگا، تو زمین مالکوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا، جنہوں نے ان پر وائرس پھیلانے کا الزام لگایا۔ ایک مالک نے مجھے وارننگ دی کہ میں اس کے کھیتوں میں قدم بھی نہ رکھوں اورپھر دیگر زمینداروں سے کہا کہ وہ ہمیں کوئی کام نہ دیں۔
’’ہم مسلمان ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اس لیے ہمیں بھگا دیا جاتا ہے۔ دوسرے لوگ جو ہمارے مذہب کے نہیں ہیں، انہیں کام مل رہا ہے۔ حال ہی میں، میرے بیٹے کو حجام کی دکان میں بال کاٹنے سے منع کردیا گیا تھا۔ اس سے کہا گیا کہ ’تم ہی لوگ‘ کورونا وائرس پھیلا رہے ہو۔‘‘
اِدّن کے شوہر کا مئی کے آخر میں، ایک سرکاری کیمپ میں دوبارہ وائرس ٹیسٹ کیا گیا تھا اور اس بار وہ نگیٹو پائے گئے تھے۔ ان کے پاس ایک دستاویز ہے – ’’دیکھئے، آپ نام پڑھیں، میں انگریزی نہیں پڑھ سکتی۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ ہم اب صحت مند ہیں۔ پھر یہ بھید بھاؤ کیوں؟‘‘
اِدّن نے اس مشکل وقت میں گزارہ کرنے کے لیے اپنی نند سے ۲۰ ہزار روپے کا قرض لیا ہے۔ ’’ان کی شاید ایک خوشحال فیملی میں ہوئی ہے۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ ہم ان کا پیسہ کب لوٹا پائیں گے۔ شاید جب ہم دھاگے کی فیکٹری میں کام کرنے واپس جائیں، تب...‘‘
اس قرض پر سود کتنا ہوگا؟ ’’سود؟ مجھے نہیں معلوم۔ مجھے ان کو ۲۵ ہزار روپے واپس دینے ہوں گے۔‘‘
اِدّن واپس سورت جانے کے لیے اب مزید انتظار نہیں کر سکتیں۔
جگیاسا مشرا، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ایک آزاد جرنلزم گرانٹ کے توسط سے صحت عامہ اور شہری آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورتاژ کے متن پر کوئی ایڈیٹوریل کنٹرول نہیں کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز