’’ہم کورونا کے بارے میں جانتے ہیں، لیکن کام کرنا بند نہیں کر سکتے۔ ہمیں کسانوں کے لیے کام کرنا ہے۔ ہمارے اور کسان کے لیے کھیتی ہی ایک واحد امید ہے۔ اگر ہم کام نہیں کریں گے، تو زندہ کیسے رہیں گے؟‘‘ شبھدرا ساہو نے کہا۔
شبھدرا ایک ٹھیکہ دارن ہیں، جو چھتیس گڑھ کے دھمتری شہر سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور، بلیارا گاؤں کی ۳۰ زرعی مزدور عورتوں کی ایک ٹیم کی قیادت کرتی ہیں۔
ہم ان سے ایک دوپہر، ۲۰ جولائی کے آس پاس، دھان کے کھیتوں کے درمیان ایک سڑک پر ملے تھے، جہاں پر وہ ایک ٹریکٹر سے پہنچی تھیں۔ وہ ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں کام کرنے جا رہی تھی، اور جلد بازی میں تھیں – دھان کے پودے کی روپائی غروب آفتاب سے پہلے کی جانی تھی۔
’’ہم فی ایکڑ ۴ ہزار روپے کماتے ہیں،‘‘ شبھدرا نے کہا، ’’اور ایک ساتھ مل کر ہر دن دو ایکڑ میں دھان کی روپائی کرتے ہیں۔‘‘ یعنی گروپ کے ہر ایک مزدور کو تقریباً ۲۶۰ روپے یومیہ مزدوری ملتی ہے۔
خریف کے موسم میں دھان کی روپائی چل رہی ہے، اور جب ہم ملے تھے، تو وہ تقریباً ۲۰-۲۵ ایکڑ میں دھان کی روپائی کر چکے تھے۔ یہ کام مزید کچھ دنوں تک جاری رہے گا۔
وسط جولائی میں کسی اور دن، دھمتری شہر سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور، کولیاری-کھرینگا گاؤں کی سڑک پر، ہم زرعی مزدوروں کے ایک دیگر گروپ سے ملے۔ ’’اگر ہم کام نہیں کریں گے، تو بھوکے مر جائیں گے۔ ہم [کووڈ- ۱۹ کے خطرہ کے سبب] گھر پر محفوظ رہنے کی آسائش حاصل نہیں کر سکتے،‘‘ دھمتری بلاک کے کھرینگا گاؤں کی بھوکھن ساہو نے کہا۔ وہ ۲۴ مزدوروں کے ایک گروپ کی لیڈر-ٹھیکہ دارن ہیں۔ ’’ہم مزدور ہیں اور ہمارے پاس صرف ہاتھ پیر ہیں۔ لیکن کام کرتے وقت، ہم جسمانی دوری بنائے رکھتے ہیں...‘‘
وہ اور دیگر عورتیں سڑک کے دونوں طرف بیٹھی ہوئی تھیں اور دوپہر کے کھانے میں چاول، دال اور سبزی کھا رہی تھیں، جسے وہ گھر سے لے آئی تھیں۔ وہ صبح ۴ بجے اٹھتی ہیں، کھانا بناتی ہیں، گھر کے سبھی کام نمٹاتی ہیں، صبح کا کھانا کھاتی ہیں اور صبح ۶ بجے کھیت پر پہنچ جاتی ہیں۔ وہ ۱۲ گھنٹے بعد، شام کو ۶ بجے گھر لوٹتی ہیں۔ پھر سے کھانا بناتی اور دیگر کام کرتی ہیں، بھوکھن نے اپنے اور دیگر عورتوں کے کام کے دن کے بارے میں بتایا۔
’’ہم روزانہ تقریباً دو ایکڑ میں روپائی کرتے ہیں، اور ۳۵۰۰ روپے فی ایکڑ پاتے ہیں،‘‘ بھوکھن نے کہا۔ گروپ کی یہ فی ایکڑ اجرت (اس موسم میں، دھمتری میں) الگ الگ ہے، ۳۵۰۰ روپے سے لیکر ۴ ہزار روپے تک، اور یہ بات چیت اور گروپ میں مزدوروں کی تعداد پر منحصر ہے۔
بھوکھن کے شوہر کچھ سال پہلے ایک مزدور کے طور پر کام کرنے کے لیے بھوپال گئے تھے اور پھر کبھی نہیں لوٹے۔ ’’انہوں نے ہمیں اس گاؤں میں اکیلا چھوڑ دیا۔ وہ ہمارے رابطہ میں نہیں ہیں،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ان کا بیٹا کالج میں ہے، اور بھوکھن کی واحد آمدنی سے ہی ان کی فیملی کے دو لوگوں کا گزارہ چل رہا ہے۔
اسی سڑک پر، ہم زرعی مزدوروں کے ایک اور گروپ سے ملے – جس میں زیادہ تر عورتیں، اور کچھ مرد تھے – جو روپائی کے لیے دھان کے پودے کھیتوں میں لے جا رہے تھے۔ ’’یہی ہمارا ذریعہ معاش ہے۔ اس لیے ہمیں کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم کام نہیں کریں گے، تو فصل کون اُگائے گا؟ ہر کسی کو کھانا چاہیے،‘‘ دھمتری گاؤں کے درّی گاؤں کی ٹھیکہ دارن سبیتا ساہو نے کہا۔ ’’اگر ہم کورونا سے ڈریں گے، تو ہم کام بالکل بھی نہیں کر پائیں گے۔ پھر ہمارے بچوں کو کون کھلائے گا؟ اور ہمارا کام ایسا ہے کہ ہم ویسے بھی [دھان کے کھیتوں میں] دوریاں بنائے رکھتے ہیں۔‘‘ جولائی کے وسط میں، جب میں ان سے ملا تھا، تب سبیتا اور ان کے گروپ کی ۳۰ عورتیں ۳۶۰۰ روپے فی ایکڑ کی اجرت سے ۲۵ ایکڑ میں دھان کی روپائی کر چکی تھیں۔
’’کوئی کام [لاک ڈاؤن کے عروج پر ہونے کے دوران] دستیاب نہیں تھا۔ اس وقت سب کچھ بند تھا۔ پھر خریف کا موسم آیا اور ہم کام پر واپس آ گئے،‘‘ کھرینگا گاؤں کی ایک زرعی مزدور، ہیرونڈی ساہو نے کہا۔
دھمتری کے محنت مکمہ کے ایک افسر نے مجھے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران، ۲۰ جولائی تک، تقریباً ۱۷۰۰ لوگ ملک کے مختلف حصوں سے دھمتری ضلع میں لوٹ آئے تھے۔ ان میں طلبہ، نوکری پیشہ لوگ، اور تقریباً ۷۰۰ مہاجر مزدور شامل تھے۔ چھتیس گڑھ میں اب تک کووڈ- ۱۹ کے تقریباً ۱۰ ہزار ۵۰۰ معاملوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ دھمتری کے چیف میڈیکل اور ہیلتھ آفیسر، ڈاکٹر ڈی کے ٹورے نے مجھے بتایا کہ ضلع میں کووڈ- ۱۹ کے اب تک ۴۸ معلوم معاملے ہیں۔
ہیرونڈی کے گروپ میں درّی گاؤں سے چندریکا ساہو بھی تھیں۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے؛ ایک کالج میں ہے، دو کلاس ۱۰ اور ۱۲ میں ہیں۔ ’’میرے شوہر بھی ایک مزدور تھے، لیکن ایک دن ایک حادثہ میں ان کا پیر ٹوٹ گیا،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’اس کے بعد وہ کام نہیں کر سکتے تھے اور تین سال پہلے خود کشی کر لی۔‘‘ چندریکا اور ان کے بچے پوری طرح سے ان کی کمائی پر منحصر ہیں؛ انہیں بیوہ پنشن کے طور پر ۳۵۰ روپے ماہانہ ملتے ہیں، اور فیملی کے پاس بی پی ایل راشن کارڈ ہے۔
ہم نے جتنے بھی مزدوروں سے بات کی، وہ سبھی کووڈ- ۱۹ کے بارے میں جانتے تھے؛ کچھ نے کہا کہ وہ پرواہ نہیں کرتے، دیگر نے کہا کہ ویسے بھی کام کرتے وقت وہ ایک دوسرے سے دوری بنائے رکھتے ہیں، اس لیے یہ ٹھیک ہے۔ ’’ہم سیدھے سورج کے نیچے کام کرتے ہیں، اس لیے ہمیں کورونا ہونے کا امکان کم ہے،‘‘ سبیتا کی ٹیم کے ایک مرد مزدور، بھوجبل ساہو نے کہا۔ ’’ایک بار اگر ہو گیا، تو یہ آپ کی جان لے لے گا،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’لیکن ہم اس سے ڈرتے نہیں ہیں کیوں کہ ہم مزدور ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دھان کی بوائی اور روپائی تقریباً ۱۵ دنوں تک جاری رہے گی۔ ’’اس کے بعد کوئی کام نہیں ہوگا۔‘‘ دھمتری اور کورُد ضلع میں ایسے واحد بلاک ہیں، جہاں تھوڑی بہت سینچائی کی سہولت ہے، اس لیے یہاں کے کسان دو بار دھان اُگاتے ہیں، اور کھیتی کا کام دو موسموں میں دستیاب ہوتا ہے۔ ’’ہمیں مزید کام کی ضرورت ہے،‘‘ بھوجبل نے کہا۔
مترجم: محمد قمر تبریز