پہلے ان کے والد بیمار پڑے۔ پھر اگلے دن ان کی ماں کو بخار ہو گیا۔ پرشوتم میسل کے ماں باپ کو کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر کے دوران، جب مئی ۲۰۲۱ میں یکے بعد دیگرے بخار ہوا، تو وہ کافی پریشان ہو گئے۔ پرشوتم کی بیوی، وجے مالا بتاتی ہیں، ’’گاؤں کے کئی لوگ ٹیسٹ کے بعد پہلے ہی پازیٹو پائے گئے تھے۔ اس وقت کافی خوف کا ماحول تھا۔‘‘
پرشوتم نے رپورٹ پڑھی تھی کہ بیڈ کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ وجے مالا کہتی ہیں، ’’انہیں معلوم تھا کہ اپنے ماں باپ کو پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرانا پڑے گا، اور علاج پر کافی پیسے خرچ ہوں گے۔ اگر کوئی آدمی اسپتال میں ایک ہفتہ بھی گزارتا ہے، تو اس کا بل لاکھوں [روپے] میں آتا ہے۔‘‘ اس سے کہیں زیادہ، جو پرشوتم سال بھر میں کماتے تھے۔
غریبی کے باوجود، اس فیملی نے بغیر کوئی قرض لیے اپنی زندگی بسر کی۔ اسپتالوں کے بل کے لیے قرض لینے کا خیال ۴۰ سالہ پرشوتم کو پریشان کرنے لگا۔ وہ پرلی تعلقہ میں واقع اپنے گاؤں، ہیوڑا گووردھن سے ۱۰ کلومیٹر دور، سرسالا میں چائے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے۔ لیکن مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض شروع ہونے کے بعد ان کی دکان اکثر و بیشتر بند ہی رہتی تھی۔
جس رات پرشوتم کی ماں کو بخار ہوا، وہ سو نہیں پائے اور رات بھر کروٹیں بدلتے رہے۔ اور صبح کے تقریباً چار بجے انہوں نے اپنی بیوی سے کہا: ’’اگر کووڈ ہوا، تب کیا ہوگا؟‘‘ ۳۷ سالہ وجے مالا یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ جگے ہوئے تھے اور گھر کی ٹن سے بنی چھت کو دیکھے جا رہے تھے۔ جب انہوں نے ان سے کہا کہ پریشان نہ ہوں، ’’تو انہوں نے کہا کہ ’کوئی بات نہیں‘، اور مجھ سے کہا کہ جا کر سو جاؤ۔‘‘
اس کے فوراً بعد، پرشوتم گھر سے روانہ ہو گئے اور اپنی چائے کی دکان کی طرف چل پڑے۔ پاس کی ایک خالی جھونپڑی میں، وہ رسی کا ایک پھندا اپنے گلے میں ڈال کر چھت سے لٹک گئے اور جان دے دی۔
پرشوتم کے پاس کوئی زرعی زمین نہیں تھی، اس لیے چائے اور بسکٹ بیچنا ہی ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا۔ ان کی فیملی کا تعلق متنگ برادری سے ہے، جو مہاراشٹر کی ایک پس ماندہ دلت ذات ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں ایک بینڈ میں بھی کام کرتے تھے، جو اکثر شادیوں میں باجا بجاتا ہے۔ ان کی سات رکنی فیملی ان ہی پر منحصر تھی۔ وجے مالا بتاتی ہیں، ’’چائے کی دکان سے وہ ہر مہینے ۵ سے ۸ ہزار روپے کماتے تھے۔‘‘ اور اس میں بینڈ سے کمائی ہوئی رقم کو شامل کرنے کے بعد ان کی سالانہ آمدنی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے تھی۔
ان کی ۷۰ سالہ ماں، گنگو بائی غمگین لہجے میں کہتی ہیں، ’’میرا بیٹا ایک اچھا موسیقار تھا۔‘‘ پرشوتم ترہی بجاتے تھے اور بعض دفعہ کی بورڈ اور ڈرم بھی بجا لیتے تھے۔ ان کے ۷۲ سالہ والد، بابو راؤ بتاتے ہیں، ’’میں نے اسے شہنائی بجانا بھی سکھایا تھا۔‘‘ بابو راؤ نے گاؤں کے ۲۵-۳۰ لوگوں کو آلات موسیقی بجانا سکھایا ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں ’استاد‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
لیکن کووڈ کی وجہ سے بینڈ کو کوئی کام نہیں مل رہا تھا۔ وجے مالا کہتی ہیں: ’’لوگ وائرس سے خوفزدہ ہیں، لیکن ان کے پاس ایک کپ چائے خریدنے یا شادیوں میں بینڈ والوں کو بلانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔‘‘
امریکہ کے پیو ریسرچ سنٹر کے ذریعے شائع کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’ہندوستان میں جو لوگ غریب ہیں (جن کی یومیہ آمدنی ۲ ڈالر یا اس سے کم ہے) کووڈ۔۱۹ کساد بازاری کی وجہ سے ان کی تعداد میں تقریباً ۷۵ ملین کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘ مارچ ۲۰۲۱ میں شائع ہوئی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غریبوں کی یہ تعداد، اور ہندوستان میں متوسط طبقہ میں ۲۰۲۰ میں ہونے والی تقریباً ۲۳ ملین کی کمی کی وجہ سے عالمی سطح پر غریبی میں ۶۰ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
لوگوں کی قوت خرید میں کمی بیڈ میں ہر جگہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس ضلع میں بڑے پیمانے پر کھیتی ہوتی ہے اور یہاں کے کسان خشک سالی کی وجہ سے ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے سے قرض اور پریشانی کے شکار ہیں۔ کووڈ۔۱۹ نے ان کنبوں کا بوجھ مزید بڑھا دیا ہے جو پریشان حال دیہی اقتصادیات میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پرشوتم حالانکہ اپنے معاش کے لیے براہ راست کھیتی پر منحصر نہیں تھے، لیکن ان کے زیادہ تر گاہک کسان تھے۔ اور جب ان کی آمدنی کا ذریعہ ختم ہو گیا، تو اس کا سیدھا اثر کاشتکار معاشرہ کے ساتھ رہنے والے لوگوں پر پڑنے لگا، جس میں موچی (چمار)، بڑھئی، حجام، کمہار، چائے بیچنے والے اور دوسرے لوگ شامل ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ اب اپنے معاش کو لیکر فکرمند ہیں۔
بیڈ تعلقہ کے کمکھیڑا گاؤں میں اپنی دکان پر، ۵۵ سالہ لکشمی واگھمارے دن کی خاموشی کو دیکھ کر کووڈ سے پہلے کے وقت کو یاد کرتی ہیں۔ وہ تشویش بھرے لہجہ میں کہتی ہیں، ’’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہماری حالت اتنی خراب ہو جائے گی۔‘‘
لکشمی اور ان کے شوہر، ۵۵ سالہ نیورُتّی واگھمارے کئی قسم کی رسیاں بناتے ہیں۔ میاں بیوی نیو بدھسٹ (سابق دلت) ہیں اور ان کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ وہ پوری طرح سے اپنی دستکاری پر منحصر ہیں، جو کہ ان کا پشتینی پیشہ ہے۔ وبائی مرض شروع ہونے سے پہلے، وہ گاؤوں کے ہفتہ وار بازاروں میں اپنی رسیاں فروخت کرتے تھے۔
نیورُتّی کہتے ہیں، ’’بازار میں آپ ہر کسی کو تلاش نہیں کر سکتے تھے۔ یہ سرگرمی سے بھرا ہوتا تھا۔ مویشیوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی، کسان سبزیاں بیچتے تھے، اور کمہار مٹی کے برتن فروخت کیا کرتے تھے۔ ہم رسی بیچتے تھے۔ مویشی خریدنے کے بعد، کسان عام طور سے رسی خریدتے ہیں جس سے وہ اپنے مویشیوں کو باندھتے ہیں۔‘‘
کورونا وائرس شروع ہونے سے پہلے، یہ بازار دیہی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی تھے، جہاں اشیاء کی خرید و فروخت آسانی سے ہوتی تھی۔ لکشمی بتاتی ہیں، ’’ہم ہفتہ میں چار بازاروں میں شرکت کرتے تھے، اور ۲۰ ہزار روپے کی رسیاں فروخت کر لیتے تھے۔ ہمیں ۴۰۰۰ روپے کا منافع [اوسطاً ہر ہفتے] ہوتا تھا۔ کووڈ کے بعد، ہم ہر ہفتے ۴۰۰ روپے کی رسّی بیچتے ہیں، اس لیے منافع کے بارے میں تو بالکل بھی مت پوچھئے۔‘‘ اس سال اپریل میں، لکشمی اور نیورُتّی نے ۵۰ ہزار روپے میں اُس ٹیمپو کو فروخت کر دیا جس سے وہ اپنی رسیاں لے جایا کرتے تھے۔ لکشمی کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔‘‘
رسیاں بنانا کافی مشکل کام ہے جس میں ہنر کی ضرورت پڑتی ہے۔ کووڈ سے پہلے، لکشمی اور نیورُتّی کام کرانے کے لیے مزدور رکھتے تھے۔ اب، ان کا بیٹا تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتا ہے، اور ہر مہینے ۳۵۰۰ روپے کماتا ہے ’’تاکہ ہم زندہ رہ سکیں،‘‘ لکشمی کہتی ہیں۔ ’’گھر پر ہمارے پاس جو رسیاں پڑی ہوئی ہیں وہ پرانی اور بد رنگ ہو رہی ہیں۔‘‘
کمکھیڑا سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور، پڈل سنگی گاؤں میں کانتا بائی بھوتڑمل کو بھی بازار کی کافی یاد ستاتی ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ اپنے ذریعے بنائے گئے جھاڑو کو کہاں بیچا جائے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اپنے جھاڑو لیکر بازار جایا کرتی تھی اور انہیں بیچنے کے لیے گاؤں گاؤں بھی جاتی تھی۔ بازار ابھی تک کھلے نہیں ہیں، اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پولیس ہمیں سفر کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ اگر کوئی ہمارے گاؤں آتا ہے، صرف تبھی ہم اپنے جھاڑو اسے فروخت کر سکتے ہیں۔ اس سے بھلا میں کتنے پیسے کما لوں گی؟‘‘
وبائی مرض سے قبل، کانتا بائی ہر ہفتے ۱۰۰ جھاڑو فروخت کر لیتی تھیں – ان میں سے ہر ایک کو ۴۰-۵۰ روپے میں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب ایک کاروباری کبھی کبھار ہم سے خریدنے آتا ہے اور ایک پیس کے ۲۰ سے ۳۰ روپے دیتا ہے۔ پہلے میں جتنا فروخت کر لیتی تھی اب اس کا آدھا بھی نہیں بیچ پاتی ہوں۔ فی الحال ہر گھر کی یہی حالت ہے – یہاں پر [گاؤں میں] ہم ۳۰-۴۰ لوگ جھاڑو بناتے ہیں۔‘‘
عمر گزرنے کے ساتھ ۶۰ سالہ کانتا بائی کی آنکھوں کی روشنی بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے، لیکن پیسہ کمانے کے لیے انہیں جھاڑو بنانا ہی پڑتا ہے۔ بڑی تیزی سے جھاڑو کو باندھنا جاری رکھتے ہوئے وہ مجھ سے کہتی ہیں، ’’اس وقت میں آپ کو ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتی۔ میرے دو بیٹے کام نہیں کرتے۔ میرے شوہر کچھ بکریاں چراتے ہیں، لیکن کام ایسے ہی چل رہا ہے۔ ہمارا معاش بنیادی طور پر جھاڑو بنانے پر منحصر ہے۔‘‘
میں نے جب ان سے پوچھا کہ وہ بغیر ٹھیک سے دیکھے ہوئے جھاڑو کیسے بنا لیتی ہیں، تو وہ جواب دیتی ہیں، ’’میں نے زندگی بھر یہی کام کیا ہے۔ پوری طرح نابینا ہو جانے کے بعد بھی میں یہ کام کر سکتی ہوں۔‘‘
کانتا بائی بھیڑ بھاڑ والے بازار کے کھلنے کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ وہ وہاں پر اپنے جھاڑو فروخت کر سکیں۔ بازار کھلنے سے بابو راؤ کو بھی فائدہ ہوگا، جو ریٹائرمنٹ کے بعد پرشوتم کی خودکشی سے ہوئی موت کے بعد ان کی چائے کی دکان چلانے کے لیے باہر نکلے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’لوگ عام طور پر بازار سے اپنے گھروں کی طرف لوٹتے وقت ایک کپ چائے کے لیے یہاں رکتے ہیں۔ اب مجھے فیملی کا خرچ چلانا ہے، وہ میری ذمہ داری ہیں۔‘‘
بابو راؤ اب پرشوتم اور وجے مالا کے نوجوان بچوں – پرینکا، ونائک اور ویشنوی کو لیکر فکرمند ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں، ’’ہم ان کے لیے دو وقت کے کھانے کا انتظام کرنے کو کیسے یقینی بنائیں؟ اس بات کو کیسے یقینی بنائیں کہ وہ آگے کی تعلیم جاری رکھ سکیں؟ وہ [پرشوتم] اتنا گھبرا کیوں گیا تھا؟‘‘
پرشوتم کی موت کے ایک ہی ہفتہ کے اندر، بابو راؤ اور گنگو بائی کی طبیعت ٹھیک ہو گئی تھی اور ان کا بخار اتر گیا تھا۔ انہیں اسپتال نہیں جانا پڑا جیسا کہ ان کے بیٹے پر خوف طاری ہو گیا تھا۔ بابو راؤ اور گنگو بائی نے احتیاط کے طور پر اپنا کووڈ۔۱۹ ٹیسٹ بھی کرایا، لیکن دونوں کی رپورٹ نگیٹو آئی تھی۔
اسٹوری کی اس سیریز کو، رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ کے توسط سے پولٹزر سنٹر کی م دد حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز