ناریل کے ۲۵ میٹر اونچے درخت سے نیچے کی طرف دیکھتے ہوئے ہمایوں شیخ ہندی میں آواز لگاتے ہیں، ’’ہٹ جاؤ! ورنہ آپ کو چوٹ لگ جائے گی۔‘‘
جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ درخت کے نیچے اب کوئی نہیں ہے، تو وہ اپنے خمدار چاقو کو خوبصورتی سے گھماتے ہیں، اور اس طرح دھڑ، دھڑ کی آواز سے ناریل نیچے گرنے لگتے ہیں۔
چند ہی منٹوں میں کام مکمل ہو جاتا ہے اور وہ درخت سے واپس زمین پر اتر جاتے ہیں۔ چار منٹ کے اندر درخت پر چھڑنے اور نیچے اتر جانے کی ان کی یہ غیر معمولی رفتار اس لیے ممکن ہو پاتی ہے کیوں کہ ہمایوں روایتی ناریل توڑنے والوں کے برعکس، ایک میکنیکل متبادل استعمال کرتے ہیں، جسے ناریل کے درخت پر چڑھنے اور نیچے اترنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
وہ جس آلہ کا استعمال کرتے ہیں وہ ایک جوڑی پیر سے ملتا جلتا ہے اور اس میں پیروں کو ٹکانے کے لیے جگہ بنی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک لمبی رسی لگی ہوئی ہے، جو تنے کے گرد لپیٹ دی جاتی ہے۔ اس سے ہمایوں کو ناریل کے درختوں پر چڑھنے میں ایسی آسانی ہوتی ہے گویا وہ سیڑھیاں چڑھ رہے ہوں۔
وہ کہتے ہیں، ’’میں نے [آلہ کا استعمال کرتے ہوئے] ایک دو دن میں ہی چڑھنے کا طریقہ سیکھ لیا تھا۔‘‘
مغربی بنگال کے نادیہ ضلع کے گول چند پور گاؤں سے تعلق رکھنے والے مہاجر مزدور ہمایوں کو اپنے گاؤں میں ناریل کے درختوں پر چڑھنے کی عادت تھی، اسی لیے ان کے لیے اس آلہ کی مدد سے درخت پر چڑھنے کے بارے میں سیکھنا آسان ہو گیا۔
وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے اسے [آلہ کو] ۳۰۰۰ روپے میں خریدا اور پھر یہاں اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ دنوں تک اس کام کو کرنے کے لیے جاتا رہا۔ جلد ہی میں نے کام پر اکیلے ہی جانا شروع کر دیا۔‘‘
ہمایوں کوئی مقررہ رقم نہیں کماتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’کسی دن میں ۱۰۰۰ روپے کماتا ہوں، تو کسی دن ۵۰۰ روپے اور کبھی تو کچھ بھی نہیں کما پاتا ہوں۔‘‘ ہمایوں ایک گھر میں چڑھنے کے لیے جتنے درخت ہوتے ہیں، اس کی تعداد کے حساب سے پیسے لیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اگر صرف دو درخت ہوں، تو میں ۵۰ روپے فی درخت کے حساب سے پیسے لوں گا۔ لیکن اگر درختوں کی تعداد زیادہ ہو، تو میں ریٹ کم کر کے فی درخت ۲۵ روپے کر دیتا ہوں۔ میں [ملیالم] نہیں جانتا، لیکن میں ریٹ کے بارے میں کسی طرح بات کر لیتا ہوں۔‘‘
وہ کہتے ہیں، ’’گھر پر [مغربی بنگال میں]، ہمارے پاس درختوں پر چڑھنے کے لیے ایسا سامان نہیں ہے۔‘‘ اور مزید کہتے ہیں کہ یہ کیرالہ میں مقبول ہو رہا ہے۔
وہ جس آلہ کا استعمال کرتے ہیں وہ ایک جوڑی پیر سے ملتا جلتا ہے اور اس میں پیروں کو ٹکانے کے لیے جگہ بنی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک لمبی رسی لگی ہوئی ہے، جو تنے کے گرد لپیٹ دی جاتی ہے۔ اس سے ہمایوں کو ناریل کے درختوں پر چڑھنے میں ایسی آسانی ہوتی ہے گویا وہ سیڑھیاں چڑھ رہے ہوں
ہمایوں تین سال قبل [۲۰۲۰ کے اوائل میں]، وبائی مرض سے ٹھیک پہلے کیرالہ آئے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا، تو اس وقت کھیتوں میں دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتا تھا۔‘‘
وہ کیرالہ آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کام کاج کے لیے کیرالہ اچھا ہے۔‘‘
اس کے بعد کہتے ہیں، ’’پھر کورونا آ گیا اور ہمیں واپس جانا پڑا۔‘‘
مارچ ۲۰۲۰ میں کیرالہ حکومت نے مہاجر مزدوروں کے لیے مفت ٹرینوں کا انتظام کیا تھا، جس سے وہ اپنے گھر مغربی بنگال لوٹ آئے تھے۔ پھر، اسی سال اکتوبر میں واپس کیرالہ آ گئے۔ اس بار یہاں آنے کے بعد، انہوں نے ناریل توڑنے کا کام شروع کر دیا۔
وہ روزانہ صبح ساڑھے ۵ بجے اٹھتے ہیں اور سب سے پہلے کھانا پکاتے ہیں۔ ہمایوں بتاتے ہیں، ’’میں صبح کو نہیں کھاتا۔ کچھ چھوٹا ناشتہ کرتا ہوں اور پھر کام پر چلا جاتا ہوں، اور واپس آکر کھانا کھاتا ہوں۔‘‘ لیکن ان کے واپس آنے کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’’کبھی کبھی تو میں صبح ۱۱ بجے ہی گھر واپس آ جاتا ہوں اور کبھی واپس لوٹنے میں دن کے ۴-۳ بج جاتے ہیں۔‘‘
مانسون کے دوران، ان کی آمدنی گھٹ بڑھ سکتی ہے، لیکن اس آلہ کی وجہ سے انہیں مدد ملتی ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’’برسات کے موسم میں درختوں پر چڑھنے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے، کیوں کہ میرے پاس میری مشین ہے۔‘‘ لیکن اس موسم میں بہت کم لوگ ناریل توڑنے والوں کو بلاتے ہیں۔ ہمایوں بتاتے ہیں، ’’عام طور پر، جب بارش شروع ہوتی ہے تو مجھے کام کم ملتا ہے۔‘‘
اسی لیے مانسون کے دوران وہ اپنے گاؤں گول چند پور چلے آتے ہیں، جہاں ان کی پانچ رکنی فیملی رہتی ہے، جس میں ان کی بیوی حلیمہ بیگم، ماں اور تین بچے ہیں۔ ان کے تینوں بچے – ۱۷ سالہ شانور شیخ، ۱۱ سالہ صادق شیخ، نو سالہ فرحان شیخ – ایک اسکول میں پڑھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’میں موسم کے لحاظ سے مہاجرت کرنے والا مزدور نہیں ہوں۔ سال کے ۱۰-۹ مہینے میں کیرالہ میں رہتا ہوں اور صرف دو ماہ کے لیے گھر [مغربی بنگال میں] گھر آتا ہوں۔‘‘ لیکن جتنے دن وہ باہر رہتے ہیں، انہیں اپنے گھر والوں کی یاد ستاتی ہے۔
ہمایوں کہتے ہیں، ’’میں دن میں کم از کم تین بار گھر پر فون کرتا ہوں۔‘‘ انہیں گھر کا کھانا بھی یاد آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں یہاں بنگال جیسا کھانا نہیں بنا سکتا، لیکن کوشش کر رہا ہوں۔‘‘
’’فی الحال، میں چار مہینے میں [جون میں] گھر جانے کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز