بھگولی ساہو پوال یا گھاس کے دو بنڈل لے کر شنکرداہ گاؤں سے دھمتری شہر تک، موسم کے حساب سے تقریباً روزانہ جاتے ہیں۔ وہ پوال یا گھاس کو کانوڑ نامی ایک چھڑی سے باندھتے ہیں، جسے وہ اپنے کندھوں پر رکھتے ہیں۔ چھتیس گڑھ کی راجدھانی، رائے پور سے تقریباً ۷۰ کلومیٹر دور، دھمتری میں بھگولی بنڈلوں کو چارے کے طور پر ان لوگوں کو بیچتے ہیں، جو جانور پالتے ہیں یا مویشیوں کے مالک ہیں۔
وہ دھمتری برسوں سے آتے جاتے رہے ہیں – ہفتہ میں چار دن، کبھی کبھی چھ دن، سبھی موسموں میں، صبح سائیکل سے اسکول جاتے ہوئے بچوں اور کام کی تلاش میں شہر کی طرف جاتے مزدوروں، کاریگروں اور تعمیراتی جگہوں پر کام کرنے والوں کے ساتھ۔
بھگولی اپنی عمر کے ۷۰ویں سال میں ہیں۔ دھمتری پہنچنے میں انھیں تقریباً ایک گھنٹہ کا وقت لگتا ہے، جو تقریباً ساڑھے چار کلومیٹر دور ہے۔ کسی کسی دن انھیں یہی سفر دو بار کرنا پڑتا ہے – یعنی کل ۱۸ کلومیٹر۔ اس میں کسانوں سے پوال خریدنے یا نہر کے پاس، دھان کے کھیتوں یا سڑک کے کنارے اُگنے والی جنگلی گھاس کاٹنے میں لگنے والا وقت شامل نہیں ہے۔
میں نے انھیں برسوں تک اس سڑک پر دیکھا ہے، اور سوچا کہ وہ اس عمر میں اتنا مشکل کام کیوں کر رہے ہیں؟ ’’ہم بہت غریب لوگ ہیں اور زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے تھوڑا سا کما لیتے ہیں۔ دھمتری سے لوٹتے وقت، میں گھر کے لیے بازار سے کچھ سبزیاں خریدتا ہوں،‘‘ وہ مجھ سے کہتے ہیں۔ ہم کچھ دیر ساتھ چلتے ہیں اور میں ان کے ساتھ گھر تک جاتے ہوئے تھک جاتا ہوں۔ وہاں راستے میں، وہ کہتے ہیں، ’’میں کسانوں سے ۴۰-۶۰ روپے میں پوال خریدتا ہوں اور اسے دھمتری میں بیچتا ہوں۔‘‘ دن کے آخر میں، بھگولی ۸۰ روپے سے ۱۲۰ روپے کے درمیان کماتے ہیں۔
کیا آپ کو بڑھاپے کی پنشن ملتی ہے، میں پوچھتا ہوں۔ ’’ہاں، میری بیوی اور مجھے ماہانہ ۳۵۰ روپے کی بڑھاپے کی پنشن ملتی ہے، ہر ایک کو۔ لیکن یہ ہمیں لگاتار نہیں ملتی، کبھی کبھی ہمیں پنشن کے پیسے دو سے چار مہینے کی دیری سے ملتے ہیں۔‘‘ اور انھیں یہ صرف پچھلے چار سالوں سے ہی مل رہی ہے۔
جب ہم بھگولی کے گھر پہنچتے ہیں، تو ان کا بیٹا دھنی رام ساہو سائیکل سے یومیہ مزدوری کے کام کی تلاش میں نکلنے ہی والا ہوتا ہے۔ وہ دھمتری کے وسط میں ’کلاک سرکل‘ جائے گا، جہاں ٹھیکہ دار تقریباً ۲۵۰ روپے کی یومیہ مزدوری میں محنت کشوں کو کام پر رکھنے کے لیے آتے ہیں۔ میں جب ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ کتنے سال کے ہیں، تو ان کا جواب ان کے والد کی طرح ہی ہوتا ہے۔ ’’میں جاہل ہوں اور مجھے اپنی عمر کا پتہ نہیں ہے۔ بس اندازہ لگا لیتا ہوں،‘‘ دھنی رام کہتے ہیں، جو شاید ۳۰ سال کے ہیں۔ وہ کتنے دن کام کرتے ہیں؟ ’’اگر مجھے ہفتہ میں دو یا تین دن کام مل جائے، تو یہ بہت اچھی بات ہے!‘‘ والد شاید بیٹے کے مقابلے زیادہ – اور مشکل – کام کرتے ہیں۔
بھگولی کی بیوی کھیدن ساہو، گھر کے کام میں مصروف ہیں اور دھنی رام کے دو بیٹوں کو اسکول کے لیے تیار کر رہی ہیں – وہ کلاس ۱ اور کلاس ۲ میں ہیں۔ میں بھگولی سے پوچھتا ہوں کہ کیا ان کا گھر ان کے یا ان کے والدین کے ذریعے بنایا گیا تھا۔ ’’میرے ذریعے۔ ہمارے پرانے گھر کو میرے والد نے مٹی سے بنایا تھا۔ بعد میں، میں نے اس گھر کو مٹی، گارے اور اینٹوں سے بنایا۔‘‘ بھگولی یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے والد ایک کسان کے لیے چرواہے کا کام کرتے تھے، اور ان کی بیٹی شادی شدہ ہے اور اپنے سسرال میں رہتی ہے، وہ کہتے ہیں۔
کیا انھیں پردھان منتری آواس یوجنا کے توسط سے گھر مل سکتا ہے؟ ’’ہم نے درخواست دی ہے۔ ہم نے کئی بار پنچایت میں جا کر سرپنچ اور دیگر ممبران سے گزارش کی، لیکن بات نہیں بنی۔ اس لیے میں نے فی الحال یہ خیال چھوڑ دیا ہے۔‘‘
لیکن، وہ کہتے ہیں، ’’بڑا اکال‘‘ (۱۹۶۵-۶۶ کی بڑی خشک سالی) کے دوران سرکار گاؤں والوں کی مدد کے لیے آئی تھی، جب انھیں ریاست سے گیہوں اور جوار ملا تھا۔ اس نے، بھگولی کہتے ہیں، ان کی زندگی کو بچایا، جیسا کہ ساوان (ایک باجرا) اور مچھریا بھاجی (ایک سبزی) نے، جو جنگلی گھاس پھوس کی طرح اُگتے ہیں۔
فیملی کے پاس کبھی کوئی زمین نہیں رہی – نہ تو بھگولی کے والد کی نسل کے دوران، نہ خود ان کی اور نہ ہی ان کے بیٹے کی نسل کے دوران۔ ’’ہمارے پاس ان ہاتھ پیروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، میرے والد کے پاس یہی ایک اثاثہ تھا اور ہمارے پاس بھی صرف یہی ہے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)