دادو سالوے ہم سے کہتے ہیں، ’’پہلے کسی سے ان گیتوں کو پڑھنے کے لیے کہئے، اور اس کے بعد میں انہیں موسیقی دے کر آپ کے لیے گاؤں گا۔‘‘

ستّر سے زیادہ کی تیزی سے ڈھلتی ہوئی عمر کے بعد بھی امبیڈکر نواز تحریک کے ایک مشہور سپاہی کے طور پر وہ اپنی زبردست آواز اور ہارمونیم سے نکلتی دُھن کو اپنا ہتھیار بنا کر سماجی غیر برابری کے خلاف نہ صرف اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں، بلکہ ایک فیصلہ کن سماجی تبدیلی کو ممکن بنانے کے لیے زندگی کے آخری لمحہ تک کوشاں ہیں۔

احمد نگر شہر کے اپنے ایک کمرے کے گھر میں امبیڈکر کے اصولوں کے لیے اپنا سب کچھ نثار کر دینے والے دادو موسیقی کے ساتھ اپنے سفر کے بارے میں ہمیں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ ان کے محترم استاد بھیم شاہیر وامن دادا کرڈک کی فریم میں لگی ایک تصویر دیوار پر بنے ایک ریک پر رکھی ہے، جس میں وہ ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھی آلات موسیقی – ہارمونیم، طبلہ اور ڈھولکی کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔

دادو سالوے نے بھیم نغمہ گانے کے اپنے سفر کی شروعات چھ دہائی سے بھی پہلے کی تھی۔

سالوے کی پیدائش ۹ جنوری، ۱۹۵۲ کو مہاراشٹر کے احمد نگر ضلع کے نالیگاؤں (جو گوتم نگر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) میں ہوا تھا۔ ان کے والد نانا یادو سالوے ہندوستانی فوج میں تھے۔ ماں تلسا بائی ایک خاتون خانہ تھیں اور گھر چلانے میں مدد کرنے کے لیے مزدوری کا کام کرتی تھیں۔

In Dadu Salve's home in Ahmednagar is a framed photo of his guru, the legendary Bhim Shahir Wamandada Kardak , and his musical instruments: a harmonium, tabla and dholaki.
PHOTO • Amandeep Singh
Salve was born in Nalegaon in Ahmadnagar district of Maharashtra
PHOTO • Raitesh Ghate

بائیں: احمد نگر میں دادو سالوے کے گھر میں ان کے استاد اور عظیم بھیم شاہیر وامن دادا کرڈک کی ایک فریم کی ہوئی تصویر، ساتھ میں ان کا ہارمونیم، طبلہ اور ڈھولکی بھی ہے۔ دائیں: سالوے کی پیدائش مہاراشٹر کے احمد نگر کے نالیگاؤں (جسے گوتم نگر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) میں ہوا تھا

ان کے والد جیسے مردوں، جو برطانوی فوج میں نوکری کرتے تھے، نے دلتوں کے سوچنے سمجھنے کے طریقوں میں تبدیلی لانے میں بڑا رول نبھایا۔ ایک مقررہ تنخواہ اور پیٹ بھر کھانے کی گارنٹی والی ایک مستقل نوکری نے تعلیم تک ان کی رسائی کو آسان بنا دیا۔ اب وہ دنیا میں چل رہی سرگرمیوں سے واقف تھے۔ ان سہولیات نے ان کے نقطہ نظر کو بدل دیا اور اب وہ ظلم و استحصال کے خلاف لڑنے کے لیے نئے نظریات سے لیس تھے۔

فوج کی نوکری سے سبک دوش ہونے کے بعد دادو کے والد نے ہندوستانی محکمہ ڈاک میں پوسٹ مین کی نوکری کر لی۔ وہ امبیڈکر نواز تحریک میں بہت سرگرم تھے، جو ان دنوں اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی۔ اپنے والد سے قربت کی وجہ سے دادو اس تحریک کے مقصد کو اپنے اندر شدت سے محسوس کرنے لگے۔

اپنے والدین کے علاوہ، دادو اپنی فیملی کے ایک دوسرے آدمی سے بھی کافی متاثر تھے، اور وہ آدمی ان کے دادا یادو سالوے تھے، جنہیں لوگ کڈو بابا کے نام سے بھی جانتے تھے۔

وہ ہمیں لہراتی ہوئی داڑھی والے ایک بوڑھے آدمی کی کہانی سناتے ہیں، جن سے ایک غیر ملکی خاتون محقق نے ایک بار پوچھا تھا، ’’آپ نے اتنی لمبی داڑھی کیوں بڑھا رکھی ہے؟‘‘ تقریباً ۸۰ سال کے وہ بزرگ اس سوال پر رونے لگے۔ بعد میں خاموش ہونے پر انہوں نے اس خاتون کو اپنی کہانی سنائی۔

’’بابا صاحب احمد نگر ضلع کے دورہ پر آئے تھے۔ میں نے ان سے اپنے گاؤں ہرے  گاؤں کا سفر کرنے کی درخواست کی، جہاں بڑی تعداد میں لوگ ان کا دیدار کرنے کے لیے بیتاب تھے۔‘‘ لیکن بابا صاحب کے پاس وقت کی کمی تھی، اس لیے انہوں نے بزرگ آدمی سے وعدہ کیا کہ وہ ان کے گاؤں اگلی بار ضرور جائیں گے۔ اس بزرگ نے اسی وقت عہد کر لیا تھا کہ وہ تبھی اپنی داڑھی منڈوائیں گے، جب بابا صاحب ان کے گاؤں آئیں گے۔

انہوں نے کئی سالوں تک انتظار کیا اور ان کی داڑھی بڑھتی رہی۔ بدقسمتی سے ۱۹۵۷ میں بابا صاحب چل بسے۔ اس بزرگ نے کہا، ’’داڑھی بڑھتی رہی۔ جب تک میں زندہ ہوں، یہ بڑھتی رہے گی۔‘‘ وہ خاتون امبیڈکر نواز تحریک کی مشہور محقق ایلینار زیلیئٹ تھیں، اور وہ بزرگ کوئی اور نہیں، دادو سالوے کے دادا کڈو بابا تھے۔

*****

دادو جب صرف پانچ دن کے تھے، تبھی ان کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی تھی۔ کسی نے ان کی آنکھوں میں کسی دوا کی کچھ بوندیں ڈال دیں، جس کی وجہ سے ان کی بینائی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ کوئی علاج کام نہ آیا اور وہ دوبارہ کچھ دیکھنے کے لائق نہیں ہو سکے۔ چونکہ انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے پڑھنے کے لیے اسکول جانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔

وہ اپنے علاقے میں اکتاری بھجن گانے والے لوگوں کے قافلہ میں شامل ہو گئے، اور لکڑی، چمڑے اور دھات سے بنا آلہ موسیقی ’دِمڈی‘ بجانے والے۔

دادو یاد کرتے ہی، ’’مجھے یاد ہے ککہ کوئی بابا صاحب کی وفات کا اعلان کرنے آیا ہوا تھا۔ اس وقت میں نہیں جانتا کہ وہ کون تھے، لیکن جب میں نے لوگوں کو روتے ہوئے سنا، تو میں سمجھ گیا کہ مرنے والا ضرور کوئی عظیم شخص تھا۔‘‘

دادو سالوے اپنی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں: ’جب میں صرف پانچ دن کا تھا، تب میری آنکھوں کی روشنی چلی گئی تھی‘

بابا صاحب دیکشت، دتہ گائن مندر کے نام سے احمد نگر میں ایک میوزیکل اسکول چلاتے تھے، لیکن اس اسکول کی فیس بھر پانا دادو کے لیے بہت مشکل تھا۔ اس وقت رپبلکن پارٹی کے ایک رکن اسمبلی آر ڈی پوار، دادو کی مدد کے لیے آگے آئے تھے اور ان کا داخلہ کرایا تھا۔ پوار نے انہیں ایک بالکل نیا ہارمونیم بھی خرید دیا اور دادو ۱۹۷۱ میں سنگیت وشارد کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب رہے۔

اس کے بعد وہ اس وقت کے مشہور قوال، محمد قوال نظامی کے گروپ میں شامل ہو گئے اور ان کے پروگراموں میں گانے لگے۔ یہ دادو کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا۔ کچھ دنوں بعد وہ سنگم نیر کے کامریڈ دتہ دیش مکھ کی سنگیت منڈلی، کلا پتھک میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کامریڈ بھاسکر جادھو کے ذریعے ہدایت کردہ ناٹک ’واسودیوچا دورہ‘ کے لیے بھی گیتوں کو موسیقی دی۔

دادو لوک شاعر کے طور پر معروف کیشو سُکھا اہیر کو بھی بڑے شوق سے سنتے تھے۔ اہیر کے ساتھ ان کے شاگردوں کا ایک جتھہ (قافلہ) بھی تھا، جو ناسک میں کلا رام مندر میں داخلہ نہ ملنے کی مخالفت میں تحریک چلا رہا تھا۔ وہ اپنے گیتوں کے دریعے امبیڈکر نواز تحریک کی حمایت کرتے تھے اور جب اہیر نے بھیم راؤ کرڈک کا ’جلسہ‘ سنا، تب انہیں بھی کچھ گیت لکھنے کا حوصلہ ملا۔

بعد میں اہیر نے اپنے آپ کو پوری طرح سے جلسہ کو وقف کر دیا، اور اپنے گیتوں کے ذریعے دلتوں کو بیدار کرنے کی مہم میں لگ گئے۔

سال ۱۹۵۲ میں امبیڈکر نے شیڈول کاسٹ فیڈریشن کے امیدوار کے طور پر ممبئی سے الیکشن لڑا تھا۔ اہیر نے ’نو بھارت جلسہ منڈل‘ کی شروعات کی، جلسہ کے لیے نئے گیت لکھے اور امبیڈکر کے لیے چناؤ پرچار کیا۔ دادو نے منڈل کے ذریعے منعقد سبھی پروگراموں کو توجہ سے سنا۔

آزادی ملنے کے آس پاس کے دنوں میں احمد نگر بائیں بازو کی تحریک کے ایک قلعہ کے طور پر قائم ہو چکا تھا۔ دادو سالوے کہتے ہیں، ’’ہمارے گھر پر بڑے بڑے لیڈروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور میرے والد ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اس وقت دادا صاحب روپاوتے اور آر ڈی پوار جیسے لیڈر امبیڈکر نواز تحریک میں بہت سرگرم تھے۔ انہوں نے احمد نگر میں تحریک کی قیادت کی تھی۔‘‘

Madhavrao Gaikwad and his wife Sumitra collect material around Wamandada Kardak. The couple  have collected more than 5,000 songs written by hand by Wamandada himself. Madhavrao is the one who took Dadu Salve to meet Wamandada
PHOTO • Amandeep Singh

مادھو راؤ گائکواڑ اور ان کی بیوی سمترا، وامن راؤ کرڈک کی زندگی سے جڑے سامانوں کو جمع کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اس جوڑے نے وامن دادا کے ذریعے خود کے ہاتھ سے لکھے ۵۰۰۰ سے زیادہ گیتوں کو جمع کیا ہے۔ دادو سالوے کو وامن دادا سے ملانے کا کریڈٹ بھی مادھو راؤ کو ہی جاتا ہے

دادو عوامی جلسے میں جاتے تھے اور بی سی کامبلے اور دادا صاحب روپاوتے جیسے لیڈروں کی تقریر سنتے تھے۔ بعد کے دنوں میں دونوں میں کچھ نظریاتی اختلاف ہو گیا اور نتیجتاً امبیڈکر نواز تحریک دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ اس سیاسی واقعہ نے کئی گیتوں کو لکھنے کا موقع فراہم کیا۔ دادو بتاتے ہیں، ’’دونوں ہی گروپ کلگی تُرا [ایسے گیت جن میں ایک گروپ کوئی سوال کرتا یا کوئی خیال ظاہر کرتا ہے اور دوسرا گروپ اس سوال کا جواب دیتا یا پلٹ وار کرتا ہے] میں اچھے تھے۔‘‘

नार म्हातारपणी फसली!

लालजीच्या घरात घुसली!!

یہ بڑھیا اب سٹھیا گئی ہے
اور لال جی کے گھر میں گھس گئی ہے!

اس کا مطلب تھا کہ دادا صاحب کی عقل خراب ہو گئی ہے اور انہوں نے کمیونسٹوں سے ساز باز کر لی ہے۔

اس حملے کا جواب دادا صاحب کا گروپ اس طرح دیتا ہے:

तू पण असली कसली?
पिवळी टिकली लावून बसली!

کیا حال بنایا خود کا، بیوقوف عورت کو دیکھو!
اور اپنی پیشانی کی پیلی بندی کو تو دیکھو!

دادو ان لائنوں کی وضاحت کرتے ہیں:

’’بی سی کامبلے نے پارٹی کے پرچم پر درج نیلے اشوک چکر کو پیلے رنگ کے پورے چاند سے بدل دیا ہے۔ یہ طنز اسی فیصلہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘‘

دادا صاحب روپاوتے، بی سی کامبلے گروپ کے حامی تھے۔ بعد میں وہ کانگریس پارٹی میں شامل ہو گئے۔ اس بات کے لیے ایک گیت میں ان کی تنقید کی گئی تھی۔

अशी होती एक नार गुलजार
अहमदनगर गाव तिचे मशहूर
टोप्या बदलण्याचा छंद तिला फार
काय वर्तमान घडलं म्होरं S....S....S
ध्यान देऊन ऐका सारं

ایک جوان عورت پیاری
مشہور احمد نگر سے آئی
اسے شوق ہے طرز بدلنے کا
معلوم ہے پھر کیا ہوا؟
اپنے کان دو اور سب جان لو…

دادو کہتے ہیں، ’’میں امبیڈکر نواز تحریک کے کلگی تُرا کو سنتے سنتے بڑا ہوا ہوں۔‘‘

Dadu Salve and his wife Devbai manage on the meagre pension given by the state government to folk artists. Despite these hardships, his commitment to the Ambedkarite movement and his music are still the same
PHOTO • Amandeep Singh
Dadu Salve and his wife Devbai manage on the meagre pension given by the state government to folk artists. Despite these hardships, his commitment to the Ambedkarite movement and his music are still the same
PHOTO • Labani Jangi

دادو سالوے اور ان کی بیوی ریاستی حکومت کے ذریعے لوک فنکاروں کو ملنے والی معمولی پنشن کے سہارے گزر بسر کرتے ہیں۔ لیکن ان سبھی پریشانیوں کے بعد بھی امبیڈکر نواز تحریک اور موسیقی کے تئیں ان کے حوصلہ میں کوئی کمی نہیں دکھائی دیتی ہے

*****

سال ۱۹۷۰ دادو سالوے کی زندگی کا ایک فیصلہ کن سال تھا۔ اسی وقت ان کی ملاقات گلوکار وامن دادا کرڈک سے ہوئی، جو ڈاکٹر امبیڈکر کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی تحریک کو مہاراشٹر کے دور افتادہ علاقوں تک لے جانے کا کام کر رہے تھے۔ یہ کام انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک کیا۔

مادھوراؤ گائکواڑ (۷۵) وامن راؤ کرڈک کی زندگی سے جڑے سامانوں کو جمع کرنے کا کام کرتے ہیں۔ دادو سالوے کو وامن دادا سے ملانے کا کریڈٹ بھی انھیں کو ہے۔ مادھو راؤ اور ان کی ۶۱ سالہ بیوی سمترا نے ۵۰۰۰ سے بھی زیادہ گیتوں کو جمع کیا ہے، جنہیں وامن دادا نے خود اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا۔

مادھو راؤ کہتے ہیں، ’’وہ ۱۹۷۰ میں نگر آئے۔ وہ ایک ’گائن پارٹی‘ کی شروعات کرنا چاہتے تھے، تاکہ امبیڈکر کے کاموں اور پیغامات کو دور دور تک پہنچایا جا سکے۔ دادو سالوے، امبیڈکر کے بارے میں گاتے ضرور تھے، لیکن ان کے پاس بہت اچھے گیتوں کی کمی تھی۔ اس لیے، ہم وامن دادا کے پاس گئے اور ان سے کہا، ’ہمیں آپ کے گیتوں کی ضرورت ہے‘۔‘‘

ان کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے وامن دادا نے کہا کہ ان کا لکھا کچھ بھی ان کے پاس منظم شکل میں نہیں ہے۔ ’’میں گیت لکھتا ہوں، ان کو گاتا ہوں اور پھر انہیں وہیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘

مادھو راؤ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اتنے بیش قیمتی خزانے کو اس طرح برباد ہوتے دیکھنا ہمارے لیے تکلیف کی بات تھی۔ انہوں نے (وامن دادا نے) اپنی پوری زندگی امبیڈکر نواز تحریک کے نام وقف کر دی تھی۔‘‘

ان کی تخلیقات کو جمع کرنے کے مقصد سے مادھو راو، وامن دادا کے ہر پروگرام میں دادو سالوے کو اپنے ساتھ لے جانے لگے۔ ’’دادو ان کے ساتھ ہارمونیم پر ساتھ دیتے تھے اور میں ان کے گائے گیتوں کو لکھتا جاتا تھا۔ وہ کام چل رہے پروگرام کے درمیان ہوتا تھا۔‘‘

اس طرح وہ ۵۰۰۰ سے بھی زیادہ گیتوں کو جمع کر شائع کر پانے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن اس کوشش کے بعد بھی کم از کم ۳۰۰۰ گیتوں کو ابھی بھی دن کی روشنی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں اپنی مالی مجبوریوں کے سبب اس کام کو کرنے میں ناکام رہا، لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں نے صرف دادو سالوے کے سبب امبیڈکر نواز تحریک کے اس علم اور خیالات کو محفوظ رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔‘‘

دادو سالوے، وامن دادا کی تخلیقات سے اتنے متاثر تھے کہ ان سے ترغیب لے کر انہوں نے ’کلا پتھک‘ نام سے ایک نئی سنگیت منڈلی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شنکر تباجی تائکواڑ، سنجے ناتھ جادھو، رگھو گنگا رام سالوے اور ملند شندے کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا کام کیا۔ یہ گروپ بھیم سندیش گیان پارٹی کے نام سے پہچانا جانے لگا، اور جس کا مقصد امبیڈکر کے پیغامات کو پھیلانا تھا۔

وہ اس مہم کے لیے گاتے تھے، اس لیے ان کی پیشکش میں کوئی دکھاوا اور کسی کے خلاف کوئی منفی منشا پوشیدہ نہیں ہوتی تھی۔

دادو ہمیں یہ گیت گا کر سناتے ہیں:

اس ویڈیو میں دادو اپنے استاد کے تئیں اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں اور گاتے ہیں: ’میں وامن دادا کا شاگرد ہوں‘

उभ्या विश्वास ह्या सांगू तुझा संदेश भिमराया
तुझ्या तत्वाकडे वळवू आता हा देश भिमराया || धृ ||
जळूनी विश्व उजळीले असा तू भक्त भूमीचा
आम्ही चढवीला आता तुझा गणवेश भिमराया || १ ||
मनुने माणसाला माणसाचा द्वेष शिकविला
तयाचा ना ठेवू आता लवलेश भिमराया || २ ||
दिला तू मंत्र बुद्धाचा पवित्र बंधुप्रेमाचा
आणू समता हरू दीनांचे क्लेश भिमराया || ३ ||
कुणी होऊ इथे बघती पुन्हा सुलतान ह्या भूचे
तयासी झुंजते राहू आणुनी त्वेष भिमराया || ४ ||
कुणाच्या रागलोभाची आम्हाला ना तमा काही
खऱ्यास्तव आज पत्करला तयांचा रोष भिमराया || ५ ||
करील उत्कर्ष सर्वांचा अशा ह्या लोकशाहीचा
सदा कोटी मुखांनी ह्या करू जयघोष भिमराया || ६ ||
कुणाच्या कच्छपी लागून तुझा वामन खुळा होता
तयाला दाखवित राहू तयाचे दोष भिमराया || ७ ||

اپنے ان پیغاموں کو ہمیں دنیا میں لے جانے دو، اے بھیم رایا
اُن سب کو تیرے اصولوں میں ڈھالنے دو، اے بھیم رایا
اس دنیا کو تو نے خود جل کر روشن کیا، او مٹی کے فرزند
ہم تیرے ماننے والے ہیں اور تمہارے کپڑے پہنتے ہیں، اے بھیم رایا
منو نے ہر دوسرے انسان سے نفرت کا پاٹھ تھا پڑھایا
ہے قسم کہ ہم اس خیال کو مٹائیں گے، اے بھیم رایا
تم نے تو ہمیں بدھ کا بھائیچارہ سکھایا تھا
ہم برابری لائیں گے اور غریبوں کے دکھ مٹائیں گے، اے بھیم رایا
کچھ لوگ ہیں جو اس دھرتی کو پھر غلام بنانا چاہتے ہیں
ہم اپنی پوری طاقت سے ان سب سے لڑ جائیں گے، اے بھیم رایا
ان کی خوشیوں اور غصے کی ہمیں ذرا بھی پرواہ نہیں
اپنا سچ بتانے کو ہم ان کا غصہ پی جائیں گے، اے بھیم رایا
کیا وامن کرڈک بیوقوف تھا، جو ان کے الفاظ میں الجھ گیا؟
ہم ان کے ہر چہرے کو آئینہ دکھائیں گے، اے بھیم رایا

دادو کو جہاں بھی پیشکش کے لیے مدعو کیا جاتا تھا، وہاں وہ وامن دادا کے گیتوں کو گاتے تھے۔ لوگ ان کی منڈلی ’کلا پتھک‘ کو بچوں کی پیدائش ہونے پر یا بزرگوں یا بیماروں کی موت ہونے جیسی خاندانی تقریبات اور دیگر مواقع پر امبیڈکر نواز گیت گانے کے لیے بلاتے تھے۔

لوگوں کو دادو کا گیتوں کے ذریعے امبیڈکر نواز تحریک میں تعاون دینا پسند آیا تھا۔ ان کی سنگیت منڈلی کو اپنی پیشکش کے عوض لوگوں سے کسی مالی فائدہ کی امید بھی نہیں تھی۔ لوگ ان کے تئیں اپنا احترام جتانے کے لیے گروپ کے مرکزی کردار کو ایک ناریل دے کر ان کا استقبال کرتے تھے۔ تمام فنکاروں کو چائے ضرور پلائی جاتی تھی۔ بس، اتنا ہی کافی تھا۔ ’’میں گا سکتا تھا، اس لیے میں نے اپنی گلوکاری کو تحریک میں اپنا تعاون دینے کا ذریعہ بنایا۔ میری کوشش وامن دادا کی وراثت کی حفاظت کرتے ہوئے اسے آگے بڑھانے کی رہی۔‘‘

*****

اس ویڈیو میں، دادو کو امبیڈکر پر مبنی گیت گاتے اور یہ بتاتے ہوئے سنیں کہ کس طرح کی تعلیمات نے معاشرہ کو بدل دیا: جو تو نے جنم لیا، او بھیم!

وامن دادا، مہاراشٹر کے بہت سے گلوکاروں کے لیے استاد کی مانند ہیں، لیکن دادو کی زندگی میں ان کی ایک خاص اہمیت ہے۔ نابینا ہونے کے سبب دادو کے لیے ان کے گیتوں کو جمع کرنے کا واحد راستہ انہیں سننا اور دل سے سیکھنا ہی تھا۔ انہیں ۲۰۰۰ سے زیادہ گیت یاد ہیں، اور صرف گیت ہی نہیں، بلکہ اس گیت سے جڑی ہر چھوٹی بڑی باتیں بھی ان کی یادداشت میں تازہ ہیں – مثلاً وہ گیت کب لکھا گیا تھا، اس گیت کا پس منظر کیا تھا، گیت کی بنیادی دھن کیا تھی… دادو یہ سبھی باتیں آپ کو بتا سکتے ہیں۔ انہوں نے وامن دادا کے ان گیتوں کو بھی موسیقی دی ہے جو ذات پات کی مخالفت کرتے ہوئے لکھے گئے ہیں۔ ان گیتوں کو آج پورے مہاراشٹر میں گایا جاتا ہے۔

موسیقی میں اچھی طرح تربیت یافتہ دادو ایک طرح سے وامن دادا سے آگے تھے – وہ گیت کی لے، میٹر اور دھنوں کے تکنیکی پہلوؤں کو بہتر طریقے سے سمجھتے تھے۔ وہ ان باریکیوں پر اپنے استاد سے اکثر صلاح و مشورہ کرتے رہتے تھے۔ اس لیے، وامن دادا کی موت کے بعد بھی دادو نے ان کے متعدد گیتوں کو موسیقی دی اور ان کے کچھ پرانے گیتوں کو دوبارہ تیار کیا۔

ہمیں یہ فرق دکھانے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے وامن دادا کی بنیادی تخلیق گا کر سنائی اور اس کے فوراً بعد اپنی بنائی دُھن سنائی۔

भीमा तुझ्या मताचे जरी पाच लोक असते
तलवारीचे तयांच्या न्यारेच टोक असते

اے بھیم! اگر تمہارے ساتھ بس پانچ لوگ بھی متفق ہوں
تو ان کی آگ باقی سب سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے

وہ وامن دادا کے ایسے محبوب تھے، جنہیں ان کے استاد نے خود اپنی موت کے بارے میں ایک گیت کو موسیقی سے لیس کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔

राहील विश्व सारे, जाईन मी उद्याला
निर्वाण गौतमाचे, पाहीन मी उद्याला

دنیا یہیں رہے گی، بس میں گزر جاؤں گا
اور گوتم کی نجات کا میں گواہ بنوں گا

دادو نے اس گیت کو سکون سے بھری ایک دھن میں ڈھالا اور اپنے جلسہ میں اسے گا کر سنایا۔

*****

موسیقی دادو کی زندگی اور سیاست کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔

انہوں نے اس وقت گانا شروع کیا تھا، جب امبیڈکر پر گائے جانے والے گیت اور لوک گیت مقبول ہو رہے تھے۔ بھیم راؤ کرڈک، لوک شاعر ارجن بھالے راؤ، بلڈھانہ کے کیدار برادرز، پونہ کے راجانند گڈپائلے، شرون یشونتے اور وامن دادا کرڈک ان مقبول عام گیتوں کے ماہر تھے۔

دادو نے ان بے شمار گیتوں کو اپنی آواز اور موسیقی سے سنوارنے کا کام تو کیا ہی، موسیقی کے اس خزانے کو لے کر دور دراز کے گاؤوں کا سفر بھی کیا۔ امبیڈکر کی وفات کے بعد پیدا ہونے والی نسل اگر ان کی زندگی، ان کے کام اور پیغامات سے واقف ہے، تو اس کا بہت بڑا کریڈٹ ان گیتوں کو جاتا ہے۔ دادو نے امبیڈکر کی تحریک کو ان کے بعد کی کئی نسلوں تک پہنچانے اور ان کے خیالی عزم کی تعمیر میں اہم رول نبھایا۔

کھیتوں میں محنت کرتے کسان مزدوروں اور اپنے لیے انصاف کی لڑائی لڑتے دلتوں کی جدوجہد کو متعدد شاعروں نے قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے تتھاگت بدھ، کبیر، جیوتیبا پھولے اور ڈاکٹر امبیڈکر کی زندگی اور فلسفہ کو اپنے گیتوں کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچانے کا کام کیا۔ جو لوگ پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں تھے، ان کے لیے یہ گیت ہی ان کی تعلیم کا ذریعہ تھے۔ دادو سالوے نے اپنی موسیقی اور ہارمونیم کا استعمال بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کے لیے کیا۔ اس طرح یہ گیت لوگوں کے شعور کا اٹوٹ حصہ بن گئے۔

ان گیتوں میں بیان ہوتے پیغام اور شاہیروں کے ذریعے انہیں گانے نے ذات پات کے خلاف چل رہی تحریک کو دیہی علاقوں تک پھیلانے میں مدد کی۔ یہ گیت امبیڈکر کی تحریک کی مثبت بنیاد ہیں اور دادو خود کو اس تحریک کا ایک معمولی سا سپاہی مانتے ہیں، جس کی ذمہ داری برابری کے حق میں لڑنا ہے۔

اسکالر محبوب شیخ ’دادو سالوے کی آواز اور ان کی نظر‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں

انہوں نے ان گیتوں کو کبھی بھی پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا۔ ان کے لیے یہ ایک مہم تھی۔ لیکن آج ۷۲ سال کی عمر میں ان کی زندگی کی قوت ارادی اور حوصلہ پہلے جیسا نہیں رہ گیا ہے۔ سال ۲۰۰۵ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی ایک حادثہ میں موت کے بعد اپنی بیوہ بہو اور تین پوتے پوتیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر ہی آن پڑیں۔ بعد میں جب ان کی بہو نے دوبارہ شادی کرنے کا فیصلہ کیا، تو دادو نے ان کی خواہش کا احترام کیا اور اپنی بیوی دیو بائی کے ساتھ اس ایک کمرہ کے گھر میں رہنے کے لیے آ گئے۔ تقریباً ۶۵ سال کی دیو بائی بیمار رہتی ہیں اور بستر پر ہی پڑی رہتی ہیں۔ یہ بزرگ جوڑی ریاستی حکومت کے ذریعے لوک فنکاروں کو دی جانے والی معمولی پنشن کے سہارے گزر بسر کرتی ہے۔ لیکن ان سبھی پریشانیوں کے بعد بھی امبیڈکر نواز تحریک اور موسیقی کے تئیں ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں دکھائی دیتی ہے۔

دادو موجودہ دور کی موسیقی اور اس کی افادیت سے بہت زیادہ متفق نہیں ہیں۔ ’’آج کے فنکاروں نے موسیقی کو بازار کے مطالبات کے حوالے کر دیا ہے۔ وہ صرف اپنی فیس اور شہرت میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ دیکھنا بے حد تکلیف دہ ہے،‘‘ وہ اداسی میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہتے ہیں۔

امبیڈکر اور وامن دادا کی شخصیت اور فلسفہ کے بارے میں بات کرتے وقت دادو سالوے کے دل میں خود کے گائے گیتوں کے تئیں وابستگی اور ہارمونیم اور موسیقی کے تئیں لگاؤ کو دیکھنا اور ان کے منہ سے کچھ سننا، ان مایوس دنوں میں بھی ایک امید سے بھر دیتا ہے۔

شاہیروں کے لازوال الفاظ اور خود کی دھنوں کے ذریعے دادو نے امبیڈکر کے خیالات کو ایک مقبولیت فراہم کی اور عوامی شعور کو بیدار کیا۔ بعد کے برسوں میں اسی دلت شاہیری نے متعدد سماجی برائیوں، نا انصافی اور بدگمانیوں کے خلاف جدوجہد کا پرچم بلند کرنے کا کام کیا۔ دادو کی آواز انھیں جدوجہد کی چمکتی ہوئی آواز ہے۔

جب ہم اس انٹرویو کے خاتمہ کی جانب بڑھ رہے ہیں، دادو بہت تھکے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پیٹھ واپس بستر پر ٹیک دی ہے۔ جب میں ان سے نئے گیتوں کے بارے میں سوال کرتا ہوں، تو وہ غور سے میری بات سنتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’کسی سے کہو کہ انہیں پڑھ کر بتائے، تب میں ان کی دھن تیار کر دوں گا اور تمہارے لیے گاؤں گا۔‘‘

امبیڈکر نواز تحریک کا یہ سپاہی آج بھی غیر برابری کو مٹانے اور پائیدار سماجی تبدیلی لانے کے لیے آواز بلند کرنے اور ہارمونیم کا استعمال کرنے کے لیے بیتاب ہے۔

یہ اسٹوری بنیادی طور پر مراٹھی میں لکھی گئی تھی۔

اس اسٹوری میں شامل ویڈیو، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے تعاون سے انڈیا فاؤنڈیشن فار آرٹس کے ذریعے آرکائیوز اینڈ میوزیم پروگرام کے تحت چلائے جا رہے ایک پروجیکٹ ’انفلوینشیل شاہیرز، نریٹوز فرام مراٹھواڑہ‘ کا حصہ ہیں۔ اس پروجیکٹ کو نئی دہلی واقع گیتے انسٹی ٹیوٹ (میکس مولر بھون) سے بھی جزوی تعاون حاصل ہوا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Keshav Waghmare

کیشو واگھمارے مہاراشٹر کے پونہ میں مقیم ایک قلم کار اور محقق ہیں۔ وہ ۲۰۱۲ میں تشکیل شدہ ’دلت آدیواسی ادھیکار آندولن (ڈی اے اے اے) کے بانی رکن ہیں، اور گزشتہ کئی برسوں سے مراٹھواڑہ کی برادریوں کی دستاویز بندی کر رہے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Keshav Waghmare
Editor : Medha Kale

میدھا کالے پونے میں رہتی ہیں اور عورتوں اور صحت کے شعبے میں کام کر چکی ہیں۔ وہ پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) میں مراٹھی کی ٹرانس لیشنز ایڈیٹر ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز میدھا کالے
Illustration : Labani Jangi

لابنی جنگی مغربی بنگال کے ندیا ضلع سے ہیں اور سال ۲۰۲۰ سے پاری کی فیلو ہیں۔ وہ ایک ماہر پینٹر بھی ہیں، اور انہوں نے اس کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی ہے۔ وہ ’سنٹر فار اسٹڈیز اِن سوشل سائنسز‘، کولکاتا سے مزدوروں کی ہجرت کے ایشو پر پی ایچ ڈی لکھ رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique