یشودا بائی جورور اپنی شام خنزیروں کو ہانکنے میں گزارتی ہیں۔ ’’وہ کھیت میں ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’یہ کھیت دراصل ہمارے کام کا نہیں ہے۔ لیکن خود کو مصروف رکھنے کے لیے مجھے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
جورور، جن کی عمر ۷۰ سال سے زیادہ ہے، مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے ہٹکرواڈی گاؤں میں واقع اپنے گھر میں گزشتہ چند مہینوں سے اکیلی رہ رہی ہیں۔ ’’میرے دو بیٹے اور ان کی بیویاں اپنے پانچ بچوں کے ساتھ بارامتی [تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر دور، مغربی مہاراشٹر] میں ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’انھوں نے گنّا کاٹنے کے لیے ہمارا گاؤں اکتوبر کے اخیر میں چھوڑا اور اب مارچ کے اخیر میں واپس لوٹیں گے۔‘‘
مراٹھواڑہ، خاص کر بیڈ ضلع کے کسان، ہر سال گنّا کے کھیتوں پر مزدوری کرنے کے لیے موسم کے حساب سے چلے جاتے ہیں، کیوں کہ اب گھر کا خرچ چلانے کے لیے کھیتی کرنا کافی نہیں ہے۔ بطور مزدور، ایک ٹن گنّا کاٹ کر ان میں سے کچھ لوگ ۲۲۸ روپے کما سکتے ہیں، یا پھر پانچ مہینوں میں ۶۰ ہزار روپے تک کما سکتے ہیں۔ بہت سے کنبوں کے لیے یہ ہر سال ان کی بہتر آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔
’’دو ایکڑ کھیت سے ہماری سالانہ آمدنی ۱۰ ہزار روپے بھی نہیں ہے،‘‘ چشمہ لگائے ہوئے جورور کہتی ہیں۔ ’’کھیتی کے موسم میں بھی، ہم زیادہ تر زرعی مزدوری [سے ہونے والی آمدنی] پر منحصر رہتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں پانی بھی آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔‘‘ سال کے ۶-۷ مہینے، جب ان کے بیٹے اور ان کے کنبے ہٹکر واڈی میں رہتے ہیں، تو وہ بنیادی طور سے اپنے گھریلو استعمال کے لیے جوار، باجرا اور ارہر جیسے غذائی اجناس اُگاتے ہیں۔ جوروار جب گھر پر اکیلی ہوتی ہیں، تو انہی فصلوں پر انحصار کرتی ہیں۔
ایک طرف جہاں کچھ گنّا مزدور – ٹھیکہ دار گنّا کاٹنے کے لیے صرف میاں بیوی کو کام پر لیتے ہیں، خاص کر اس لیے کہ فی کس مزدوری زیادہ ہو جائے گی – مراٹھواڑہ کے اندر ہی نقل مکانی کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف زیادہ تر مزدور سینکڑوں کلومیٹر کی دوری طے کرکے مغربی مہاراشٹر کے ستارا، سانگلی اور کولہار پور ضلعوں تک یا کرناٹک کے بیلگام ضلع چلے جاتے ہیں۔ (دیکھیں گنّا کے کھیتوں تک لمبی سڑک )۔ اتنے سارے بالغوں کے سفر میں ہونے کی وجہ سے، خود ان کے گاؤوں ویران اور سنسان ہو جاتے ہیں۔ صرف بوڑھے لوگ پیچھے چھوٹ جاتے ہیں، بعض معاملوں میں چھوٹے بچے بھی، اگر گھر پر ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی موجود ہو۔
کسان کارکن اور پربھنی ضلع میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے لیڈر، راجن چھیر ساگر کہتے ہیں کہ مراٹھواڑہ میں تقریباً ۶ لاکھ کسان اور مزدور جو گنّا کاٹتے ہیں، ان میں سے آدھے کا تعلق بیڈ سے ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ٹریڈ یونینوں نے اس کا اندازہ طلبہ کی اس تعداد سے لگایا جو اسکول چھوڑ دیتے ہیں، اور مہاراشٹر میں ۱۵۰ دنوں کے موسم میں گنّے کی کٹائی کے لیے اوسطاً جتنی مزدوری کی ضرورت پڑتی ہے، اس سے بھی۔
’’مہاراشٹر میں چار ایسے علاقے ہیں جہاں نقل مکانی سب سے زیادہ ہوتی ہے،‘‘ چھیر ساگر کہتے ہیں، ندر بار ضلع کے شہادا تعلقہ اور شولا پور ضلع کے سانگولا تعلقہ کے درمیان؛ جلگاؤں کے چالیس گاؤں تعلقہ سے ناندیڑ کے کِنواٹ تعلقہ تک کا راستہ؛ ستپوڑہ رینچ؛ اور بالا گھاٹ رینج میں بارش کے ژون کا حوالہ دیتے ہوئے۔
مراٹھواڑہ کے بالا گھاٹ میں شامل ہے احمد نگر کے پاتھر ڈی سے ناندیڑ کے کندھار تک کا علاقہ۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے جہاں کی زمینیں بنجر ہیں اور بارش کم ہوتی ہے۔ زیادہ تر رینج بیڈ کے ۳۰۰ کلومیٹر کے اندر ہے جہاں پر اوسطاً بارش ۶۷۴ ملی میٹر ہوتی ہے، مراٹھواڑہ کی ۷۰۰ ملی میٹر کی اوسط بارش سے بھی کم۔ بیڈ کے شیرور تعلقہ میں اوسط بارش صرف ۵۷۴ ملی میٹر ہوتی ہے۔ دیگر اسباب کے علاوہ، بارش اور سینچائی کی کمی کسانوں کو بڑی تعداد میں، موسم کے حساب سے کام کرنے کے لیے دوسری جگہوں پر جانے پر مجبور کرتی ہے۔
پانی کی قلت کے ساتھ شامل ہے بڑھتی ہوئی پیداواری قیمتیں، مناسب اور صحیح کریڈٹ سسٹم کی غیر موجودگی، اور ریاستی امداد کی کمی۔ مرکزی حکومت نے کپاس، سویا بین، ارہر اور باجرا سمیت، فصلوں کے لیے جو کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) طے کی ہے، وہ کسانوں کی پیداواری قیمتوں سے میل نہیں کھاتی، اسی لیے مزدوروں کے طور پر ان کی تعداد دو گنی ہوتی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر، زرعی اخراجات اور قیمتوں کے کمیشن کی پرائس پالیسی فار خریف کراپس رپورٹ (۲۰۱۷-۱۸) کے مطابق، جوار کی قیمت فروخت ہے ۱۷۰۰ روپے فی کوئنٹل، جب کہ اس کی پیداواری لاگت ہے ۲۰۸۹ روپے۔ کپاس جیسی نقدی فصل اُگانا بھی اب فائدہ مند نہیں ہے، کیوں کہ اس کی ایم ایس پی بھی پیداواری قیمت جتنی ہی ہے، جس کی وجہ سے اچھا مانسون ہونے کے باوجود منافع کا امکان کم رہتا ہے۔
گنّے کی کٹائی کے پانچ مہینے کے موسم کے دوران، تعلقوں کے گاؤوں جیسے دھارور، وڈونی، پرلی، شرور، پاٹودا اور آشٹی، یہ سبھی بالا گھاٹ رینج میں ہیں، پر امن رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہٹکرواڈی بھی ہے، جہاں کی آبادی تقریباً ۱۲۵۰ ہے۔ اونچے پہاڑ کی تنگ، ناہموار سڑکوں سے ہوتے ہوئے اس گاؤں تک سفر کرتے ہوئے راستے میں صرف کار انجن کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ گاؤں میں پہنچنے پر بھی ہمیں چاروں طرف خاموشی ہی دیکھنے کو ملی، اور اس خاموشی کو چڑیوں کی چہچہاہٹ اور گرم ہوا کی وجہ سے پتوں کی آوازوں نے توڑا۔ ہمارے قدموں کی چاپ تیز آواز میں سنائی دے رہی تھی۔
’’اگر گاؤں میں کوئی مر بھی جائے، تو دوسرے لوگوں کو اس کا پتہ کئی دن بعد چلتا ہے،‘‘ جوروار ہنستے ہوئے کہتی ہیں، تب ان کے چہرے کی جھریاں مزید گہری ہو جاتی ہیں۔ اگر انھیں کوئی میڈیکل ایمرجنسی پیش آ جائے، تو انھیں سست رفتار ایمبولینس سروِس کو کال کرنا پڑے گا، تاکہ وہ ان کو نو کلومیٹر دور، رائیموہا گاؤں کے سرکاری اسپتال لے جا سکے۔ جورور اور ان جیسے دیگر لوگوں کو ضرورت پڑنے پر اپنے گاؤں اور پڑوسی گاؤوں میں باقی بچے چند نوجوان لڑکوں پر منحصر رہنا پڑتا ہے – جن میں سے کچھ ہائی اسکول میں ہیں، کچھ چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔ بعض معاملوں میں، دوسری جگہ چلے جانے والے ان کے بچے کچھ پیسے بھی چھوڑ جاتے ہیں جس سے تنہائی کے ان مہینوں میں ان کے بزرگ والدین کو تحفظ کا تھوڑا احساس ہوتا ہے۔
’’تقریباً پورا گاؤں [ہر آدمی] جا چکا ہے،‘‘ جورور کہتی ہیں۔ ’’خود میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ گنّے کاٹا کرتی تھی۔ چند سال پہلے ان کی موت ہو گئی، لیکن ہم لوگوں نے ۱۰ سال پہلے ہی یہاں وہاں جانا چھوڑ دیا تھا۔ اس کام میں بوڑھے لوگوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
دن میں جورور، جو جھک کر چلتی ہیں، اپنا وقت پانی بھرنے، اور اپنے لیے کھانا بنانے میں صرف کرتی ہیں۔ ’’گاؤں کا ہینڈ پمپ اکثر خشک ہو جاتا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’اس لیے گاؤں کے کنویں سے پانی نکال کر لانے کے لیے مجھے تقریباً دو کلومیٹر چلنا پڑتا ہے۔‘‘ ان کی ایک کمرے کی جھونپڑی کے سامنے پتھر کے ایک چبوترے پر بیٹھ کر جس وقت ہم بات کر رہے تھے، تو ہماری آواز سن کر بابو راؤ سدگر، اپنے قریبی گھر سے ہماری طرف آتے ہیں۔ ان کی عمر ۷۰ سال ہے، اور ایک چھڑی کی مدد سے دھیرے دھیرے چلتے ہیں۔ ’’مجھے لوگوں کی بات کرنے کی آواز سنائی دی، اس لیے میرے اندر یہ جاننے کی خواہش پیدا ہوئی کہ کیا چل رہا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’سال کے اس وقت یہاں لوگوں کی بات چیت سننا غیر معمولی بات ہے۔‘‘
سدگر بھی اپنی بیوی چندرا بائی کے ساتھ گاؤں میں ٹھہرے ہوئے ہیں، جب کہ ان کے دو بیٹے گنّے کے کھیتوں پر مزدوری کرنے کے لیے گئے ہوئے ہیں – انھیں صحیح صحیح نہیں معلوم کہ وہ کہاں گئے ہوئے ہیں۔ ’’میرے سات پوتے پوتیاں ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میری بیوی اور میں اب کمزور ہو چکے ہیں۔ ہم مشکل سے اپنی دیکھ بھال کر سکتے ہیں، اسی لیے میرے بیٹوں نے اپنے بچوں کو یہاں نہیں چھوڑا۔ اپنے پوتے پوتیوں کی دیکھ بھال کرنا ہمارے لیے جسمانی طور پر ناممکن ہے۔‘‘
سدگر کے دو پوتے اپنی عمر کے ۲۰ویں سال میں ہیں اور اپنی بیویوں کے ساتھ دور جا کر گنّا کاٹ رہے ہیں۔ پانچ دیگر بچے، جن کی عمر ۸ سے ۱۶ سال ہے، پانچ مہینے تک اسکول نہیں جا پاتے، کیوں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ یہی حال جورور کے پانچ پوتے پوتیوں کا ہے، جن کی عمر ۵ سے ۱۳ سال کے درمیان ہے۔ (دیکھیں دو ہزار گھنٹے تک گنّے کی کٹائی )۔ وہ جب واپس لوٹتے ہیں تو انھیں اپنی ناغہ پڑھائی کو پورا کرنا یا پھر لگاتار تعلیم کو حاصل کر پانا کافی مشکل ہوتا ہے۔
نقل مکانی کے مہینوں میں چونکہ زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو ساتھ لے جاتے ہیں، لہٰذا ہٹکرواڈی کے پرائمری اسکول میں، جو کہ چوتھی کلاس تک ہے، مٹھی بھر طلبہ ہی بچتے ہیں۔ آٹھ سالہ کنال سدگر، جو ہمیں اپنے ساتھ اسکول تک لے گیا، راستے میں ہم نے دیکھا کہ دھول بھری گلیوں میں دونوں جانب لکڑی کے دروازے بند پڑے ہوئے ہیں۔ کنال اپنی ماں کے ساتھ اس لیے رک گیا، کیوں کہ اس کے والد کی چار سال پہلے موت ہو گئی تھی۔ چونکہ ٹھیکہ دار صرف میاں بیوی کو مزدوری کے لیے رکھتے ہیں، اس کی ماں اب پڑوسی گاؤوں میں زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں۔
اسکول میں ہمارے پہنچتے ہی، ۳۱ سال کے ٹیچر، سیتا رام کوکاٹے بھی وہاں پہنچ گئے۔ ’’ہم صرف نو سال کے بچوں کو داخلہ دیتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’لیکن اس عمر کے بچے عام طور سے اپنی ماؤں کے ساتھ جانے پر ضد کرتے ہیں۔ اس سے ان کی تعلیم پر منفی اثر پڑا ہے۔ ان کے والدین چونکہ گنّے کی کٹائی میں مصروف رہتے ہیں، اس لیے ان کی پڑھائی کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں بچتا۔‘‘
بیڈ ضلع میں بچوں کو اس وقت بھی اسکول میں رکھنے کی اکا دکا کوششیں ہوئی ہیں، جب ان کے والدین کام کے لیے کہیں اور چلے گئے ہوں۔ ہٹکر واڈی سے تقریباً چھ کلومیٹر دور، تقریباً ۱۳۵۰ لوگوں کی آبادی والے دھنگر واڈی گاؤں میں، ہیڈماسٹر بھرت ڈھاکنے کو اس سلسلے میں کچھ کامیابی ملی ہے۔ ’’چار سال پہلے، آپ کو اسکول میں ایک بھی بچہ نہیں ملتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اب یہاں آٹھویں کلاس تک ۹۱ بچے داخلہ لے چکے ہیں؛ آج ۸۰ بچے موجود ہیں۔‘‘
’کھیت پر جو کچھ بھی موجود ہے، اس سے میں اپنا کھانا خود پکاتا ہوں۔ میں گنّا نہیں کاٹنا چاہتا۔ میں ایک دواساز بننا چاہتا ہوں،‘ اشوک کہتا ہے
ڈھاکنے بتاتے ہیں کہ انھوں نے مقامی غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے پیسے جمع کیے اور ریاستی حکومت کے ذریعہ قائم کردہ اسکول کمیٹی کے ذریعہ چلائے جا رہے گاؤں کے ہاسٹل کی مرمت کرائی۔ اس کے بعد انھوں نے والدین کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ ’’جن بچوں کے والدین گنّے کی کٹائی کرتے ہیں، ان کے ہر ایک بچہ کو حکومت [ہنگامی وستی گرہ یوجنا، ایک موسمی ہاسٹل پلان کے تحت] ۱۴۱۶ روپے ماہانہ دیتی ہے۔ ظاہر ہے، اتنا ہی کافی نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن ہاسٹل کی مرمت ہو جانے کے بعد، ہم دروازے دروازے گئے اور والدین کو یہ سمجھایا کہ بچوں کا یہاں ٹھہرنا کتنا ضروری ہے۔ جو بچے اپنے والدین کے ساتھ چلے جاتے ہیں، انھیں ابتدائی حساب بھی نہیں آتا۔ انھیں باہری دنیا میں نوکری کیسے ملے گی؟‘‘
ڈھاکنے بتاتے ہیں کہ والدین کو سمجھنے میں تھوڑا وقت لگا۔ ’’کچھ کو پہلے سال میں سمجھایا گیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’پھر جو لوگ یہاں ٹھہرے انھوں نے دوسروں کو اس کے لیے آمادہ کیا۔ دھیرے دھیرے، ہم ان تمام کو سمجھانے میں کامیاب رہے۔‘‘
ہاسٹل کی مرمت ہونے سے پہلے، ۱۶ سالہ اشوک ڈھاکنے، اپنے بڑے بھائی، جس کی عمر اب ۲۰ سال ہے، کے ساتھ رک گیا۔ ’’میرے والدین میری پیدائش کے وقت سے ہی گنّے کی کٹائی کر رہے ہیں،‘‘ وہ بتاتا ہے۔ ’’میں ان کے ساتھ کبھی نہیں گیا۔‘‘ اشوک اب رائیموہا کے ہائی اسکول میں سائنس کی پڑھائی کر رہا ہے، اور نقل مکانی کے موسم میں گھر کے اندر اکیلا رہتا ہے۔ ’’میرے بھائی بھی مزدور کے طور پر کام کرنے باہر گئے ہوئے ہیں،‘‘ وہ بتاتا ہے۔ ’’کھیت پر جو کچھ موجود ہے اس سے میں اپنا کھانا خود پکاتا ہوں۔ میں گنّا نہیں کاٹنا چاہتا۔ میں ایک دواساز بننا چاہتا ہوں۔‘‘
دوسری طرف ہٹکرواڈی میں، جورور اور دیگر لوگ لمبے اور تنہائی کے گھنٹے کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’دوپہر میں، کچھ بزرگ مندر کے باہر جمع ہوتے ہیں اور آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ شام کو، ہم اپنے کھیتوں میں چلے جاتے ہیں [خنزیروں کو ہانکنے کے لیے]،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہمارے پاس کافی وقت ہے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)