دسمبر ۱۹۶۸ کے آخری ہفتہ میں، وین منی گاؤں کی کیل وین منی بستی میں زمینداروں کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کر رہے مزدوروں کا غصہ پھوٹ پڑا۔ تمل ناڈو کے ناگ پٹینم ضلع کے دلت اور بے زمین مزدور ہڑتال پر تھے اور اُجرت بڑھانے، زرعی زمین پر کنٹرول حاصل کرنے، اور جاگیرداروں کے ظلم کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ زمینداروں کی طرف سے کیا ردِعمل دیکھنے کو ملا؟ انہوں نے اس بستی کے ۴۴ دلت مزدوروں کو زندہ جلا دیا۔ امیر اور طاقتور زمیندار درج فہرست ذات کی اس نئی سیاسی بیداری کو برداشت نہیں کر پائے اور انہوں نے نہ صرف پڑوسی گاؤوں کے دوسرے مزدوروں سے کام کروانا طے کیا، بلکہ بڑے پیمانے پر بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا۔

۲۵ دسمبر کی رات کو زمینداروں نے بستی کا چاروں طرف سے محاصرہ کرتے ہوئے اس پر حملہ کر دیا اور بھاگنے کے تمام راستے بند کر دیے۔ اپنی جان بچانے کے لیے ۴۴ مزدور جس جھونپڑی میں چھپ گئے تھے، اسے باہر سے بند کرکے حملہ آوروں نے اس میں آگ لگا دی۔ مارے گئے لوگوں میں سے آدھے بچے تھے، جن کی عمر ۱۶ سال سے کم تھی – ان میں ۱۱ لڑکیاں اور ۱۱ لڑکے شامل تھے۔ دو مزدوروں کی عمر ۷۰ سال سے زیادہ تھی۔ ہلاک ہونے والے کل ۴۴ افراد میں سے ۲۹ خواتین اور ۱۵ مرد تھے۔ سبھی دلت اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) کے حامی تھے۔

سال ۱۹۷۵ میں، مدراس ہائی کورٹ نے قتل کے معاملے میں تمام ۲۵ ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ لیکن اس غیر معمولی ظلم کو درج کرنے والی عظیم ہستیوں میں سے ایک، میتھلی شو رامن نے مضبوطی اور تفصیل کے ساتھ اس کے بارے میں لکھنا جاری رکھا، جس سے نہ صرف قتل کا یہ واقعہ منظر عام پر آیا، بلکہ اس نے طبقہ اور ذات سے متعلق ظلم و ستم کے زیریں اسباب پر بھی روشنی ڈالی۔ اس حادثہ کو بیان کرنے والی نظم ہم ایسے وقت میں شائع کر رہے ہیں جب کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے ۸۱ سال کی عمر میں میتھلی شو رامن کا گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا۔

سدھنوا دیش پانڈے کی آواز میں یہ نظم سنیں

ہوا میں لہراتی، پتھر سی چوالیس مٹھیاں

جھونپڑیاں، جن میں چھت نہیں۔
جھونپڑیاں، جن میں دیوار نہیں۔
جھونپڑیاں، خاک میں بدل گئیں۔
بدل گئیں راکھ میں۔

ہوا میں لہراتی، پتھر سی چوالیس مٹھیاں
دلت بستی میں کھڑی،
جیسے غصے سے بھری کوئی یاد،
جیسے تاریخ سے جنگ کا کوئی بگل،
جیسے آنکھ میں ٹھہرا آنسو، ٹھنڈا اور ڈراؤنا
۲۵ دسمبر، ۱۹۶۸ کی اس منحوس رات کی دیتی گواہی
کرسمس کا دن مبارک نہیں تھا یقیناً
اُن ۴۴ کی کہانی کو غور سے سنو؛
ایک سنو، ہر ایک سنو۔

جھونپڑیاں، جن میں چھت نہیں۔
جھونپڑیاں، جن میں دیوار نہیں۔
جھونپڑیاں، خاک میں بدل گئیں۔
بدل گئیں راکھ میں۔

اُس منظر کی طرف چلتے ہیں جب دھان کے کھیتوں کی چار بار پیمائش ہوئی۔
چار کافی نہیں، نہیں ہے کافی، انہوں نے کہا،
زمین نہیں جن کے پاس اور جو بھوکے ہیں، ان کا پیٹ بھرنے کو کافی نہیں۔
جن کے پاس کھانا نہیں، نہ ہی زمین۔
نہ بیج، نہ خود کی جڑیں،
جن کی بھوک میں شامل ہے ٹوٹی پیٹھوں کا دعویٰ،
ان کی محنت، ان کا پسینہ، ان کی محنت کا پھل۔
جو اس بات کے بھوکے تھے کہ ان کے اونچی ذات کے پڑوسی
زمیندار، یہ سچ دیکھ پائیں۔

جھونپڑیاں، جن میں چھت نہیں۔
جھونپڑیاں، جن میں دیوار نہیں۔
جھونپڑیاں، خاک میں بدل گئیں۔
بدل گئیں راکھ میں۔

اُن میں سے کچھ لال رنگ کے کپڑوں میں تھے
ہنسیا اور ہتھوڑا لیے
اور ذہن میں ان کے دوڑتے خیالات۔
سب غریب تھے اور پاگل تھے سب کے سب
دلت مرد اور دلت عورت،
دلیر بچے مزدوروں کے۔
انہوں نے کہا، ہمیں ایک ہونا ہوگا،
ہم اب مالکوں کے کھیتوں کی کٹائی نہیں کریں گے۔
اپنی اُداسیوں کا گیت گاتے انہیں کتنا معلوم تھا
فصل کس کی تھی، اور کسے کاٹنی تھی۔

جھونپڑیاں، جن میں چھت نہیں۔
جھونپڑیاں، جن میں دیوارنہیں۔
جھونپڑیاں، خاک میں بدل گئیں۔
بدل گئیں راکھ میں۔

مالک تو شاطر تھے،
چوکس اور بے رحم
پڑوسی گاؤوں سے لی مدد کرایے پر
اور کہا، ’’معافی کی بھیک مانگو‘‘۔
’’کس بات کی خاطر؟‘‘ مزدوروں نے پلٹ کر بول دیا۔
اس لیے زمینداروں نے انہیں قید کر دیا –
ڈرے ہوئے مردوں، عورتوں، اور بچوں کو،
کل ۴۴، جھونپڑی میں سمٹ گئے تھے۔
گولیاں برسائی گئیں، لگا دی گئی آگ۔
وہ پھنسے رہ گئے اندر،
اور آگ کی لپٹوں میں تبدیل ہو گئے
آدھی رات کے وقت۔
۲۲ بچے، ۱۸ عورتیں، اور ۴ مرد
اعداد میں کر لیے گئے شامل
جنہیں مار دیا گیا تھا بے رحمی سے
کیل وین منی کے قتل عام میں۔
وہ اب اخباروں کی کترن میں زندہ ہیں،
ناولوں اور تحقیقی رسالوں میں درج ہوتے ہیں

جھونپڑیاں، جن میں چھت نہیں۔
جھونپڑیاں، جن میں دیوار نہیں۔
جھونپڑیاں، خاک میں بدل گئیں۔
بدل گئیں راکھ میں۔

*نظم میں استعمال کیا گیا بند – جھونپڑیاں، جن میں چھت نہیں/ جھونپڑیاں، جن میں دیوار نہیں/ جھونپڑیاں، خاک میں بدل گئیں/ بدل گئیں راکھ میں – سال ۱۹۶۸ کے اس قتل عام پر میتھلی شو رامن کے ذریعے تحریر کردہ مضمون کے ابتدائی سطور ہیں۔ اس مضمون کا عنوان تھا، ’جینٹل مین کلرز آف کیل وین منی‘ (یعنی کیل وین منی کے سفید پوش قاتل)۔ اسے ’اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں ۲۶ مئی، ۱۹۷۳ کو شائع کیا گیا تھا (جلد ۸، نمبر ۲۳، صفحہ ۹۲۶-۹۲۸)۔

*ان سطور کو سال ۲۰۱۶ میں ’لیفٹ ورڈ بک‘ پبلی کیشن سے شائع ہوئی میتھلی شو رامن کی کتاب ’ہانٹیڈ بائی فائر: ایسیز آن کاسٹ، کلاس، ایکسپلائٹیشن اینڈ امینسی پیشن‘ میں بھی استعمال کیا گیا۔

آڈیو: سدھنوا دیش پانڈے، جن ناٹیہ منچ سے وابستہ اداکار اور ڈائرکٹر ہیں۔ ساتھ ہی، وہ لیفٹ ورڈ بکس کے ایڈیٹر بھی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Poem and Text : Sayani Rakshit

سیانی رکشت، نئی دہلی کی مشہور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرس ڈگری کی پڑھائی کر رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Sayani Rakshit
Painting : Labani Jangi

لابنی جنگی مغربی بنگال کے ندیا ضلع سے ہیں اور سال ۲۰۲۰ سے پاری کی فیلو ہیں۔ وہ ایک ماہر پینٹر بھی ہیں، اور انہوں نے اس کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی ہے۔ وہ ’سنٹر فار اسٹڈیز اِن سوشل سائنسز‘، کولکاتا سے مزدوروں کی ہجرت کے ایشو پر پی ایچ ڈی لکھ رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique