بیس سال کی عمر تک، انگد سالُنکھے کے دل میں امید کی کرن برقرار تھی۔ پھر فکرمندی ہونے لگی۔ کچھ سال بعد، ناامیدی اور اُداسی نے اس کی جگہ لے لی – اور آخر میں انگد نے شکست قبول کر لی – کہ انھیں نوکری نہیں ملے گی۔
سال ۲۰۰۳ میں، صرف ۱۸ سال کی عمر میں، انگد اپنا گھر چھوڑ کر بیڈ ضلع کے ناگپور گاؤں سے ۱۴ کلومیٹر دور، بیڈ شہر کے کالج چلے گئے تھے۔ ’’میرے والدین نے بیڈ میں کرایے کے لیے اضافی پیسے جمع کیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ انھوں نے ایک ساہوکار سے پیسہ اُدھار لیا، اور مزید گھنٹے کام کیا۔ ’’کالج فیس اور دیگر اخراجات سمیت، انھوں نے تین برسوں میں ۲۰ ہزار روپے خرچ کیے ہوں گے۔‘‘
بی اے کی ڈگری کے ساتھ گریجویشن کرنے کے بعد، انگد نے مہاراشٹر پبلک سروِس کمیشن (ایم پی ایس سی) امتحان کے لیے تیاری کی۔ اسے پاس کرنے کے بعد وہ ریاست میں ایڈمنسٹریٹو اور سول گزیٹیڈ عہدوں کے لیے درخواست بھرنے کے اہل ہو جاتے، جیسے ڈپٹی کلکٹر، ڈپٹی پولس سپرنٹنڈنٹ، سیلز ٹیکس انسپکٹر اور دیگر۔ لیکن امیدواروں کی تعداد دستیاب نوکریوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ ایم پی ایس سی کے چیئرمین، وی این مورے کہتے ہیں، ’’مختلف قسم کے ایم پی ایس سی امتحانات کے لیے [ہر سال] کل ۱۲-۱۴ لاکھ امیدوار حاضر ہوتے ہیں، جب کہ دستیاب نوکریاں صرف ۴-۵ ہزار ہی ہیں۔ ان میں سے ۲ سے ڈھائی لاکھ سول سروسز امتحانات میں شامل ہوتے ہیں [جو کہ ایم پی ایس سی کے ذریعہ منعقد کیے جانے والے ۱۴ امتحانات میں سے ایک ہے]، اور اوسط اسامیاں ہیں ۳۰۰-۳۵۰ – اور ۲۰۱۷-۱۸ کے لیے، [صرف] تقریباً ۱۴۰ [سول سروسز میں]۔‘‘
’’میں نے کڑی محنت کی، رات دن پڑھائی کی،‘‘ اپنے کھیت کے پاس بیل گاڑی پر بیٹھے ہوئے، ۳۴ سالہ انگد کہتے ہیں۔ ’’۲۰۰۷ میں، میرا انتخاب بیڈ کے سرکاری اسپتال میں کلکرک کے لیے ہو گیا تھا، لیکن میری سفارش کرنے والا کوئی نہیں تھا۔‘‘ اس قسم کا سفارشی خط سرکاری عمل کا حصہ نہیں ہے، بلکہ اس نظام کا حصہ ہے جو ’اثر و رسوخ‘ اور نیٹ ورک پر کام کرتا ہے۔
’’میرے والدین کو امید تھی کہ میں کھیتی نہیں کروں گا، بلکہ کہیں اور بس جاؤں گا،‘‘ انگد کہتے ہیں۔ ان کی ۶۰ سالہ ماں، سدھا متی ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ زراعت ۲۰۰۰ کے عشرہ کی ابتدا سے ہی اور بھی غیر یقینی ہوتی جا رہی ہے۔ ’’ہم نے سوچا کہ یہ صرف بدتر ہوتا چلا جائے گا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اس لیے ہم دونوں کی زرعی مزدور بن گئے، اپنے اوپر کم سے کم خرچ کیا تاکہ اس کی پڑھائی کے لیے پیسے بچا سکیں۔‘‘ انگد ان کا اکلوتا بچہ ہے۔
دیہی مراٹھواڑہ میں مہینوں سفر کرتے رہنے کے باوجود مجھے ایسے کوئی ماں باپ نہیں ملے، جو اپنے بچوں کو کسان بنانا چاہتے ہوں۔ کئی کنبوں میں لوگ، بڑے شہروں میں اپنے بیٹوں کو پڑھانے کے لیے پیسے قرض لیتے ہیں، یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ان پیسوں کو واپس نہیں چکا پائیں گے۔ کچھ کنبوں میں بیٹیوں کو بھی یہ موقع ملتا ہے۔ لیکن نوجوانوں کے ذریعے گریجویشن کرتے ہی، نوکری کی تلاش شروع ہو جاتی ہے – عام طور پر یہ تلاش اتنی لمبی اور ناکام ہوتی ہے کہ ان نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی امیدیں اور عزتِ نفس تک زخمی ہو جاتے ہیں۔
’’ہماری زندگی کھیتی میں گزر گئی، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا بیٹا گنیش بھی وہی زندگی بسر کرے جو ہم نے کیا ہے،‘‘ نام دیو کولہے کہتے ہیں۔ وہ بیڈ کے دیوداہی پھل گاؤں میں ایک زرعی مزدور ہیں، ۲۰۰-۲۵۰ روپے یومیہ مزدوری کماتے ہیں، یعنی اوسطاً ۵۰۰۰ روپے ماہانہ۔ تقریباً پانچ سال پہلے، انھوں نے ایک ساہوکار سے ۴ فیصد ماہانہ شرحِ سود پر ۳ لاکھ روپے قرض لیے تھے۔ وہ کسی بینک سے اس لیے رابطہ نہیں کر سکے، کیوں کہ فیملی کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ ’’ہم چوری یا کچھ بھی کریں گے، لیکن اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ گنیش کو گاؤں واپس آنے پر مجبور نہ ہونا پڑے،‘‘ ۶۰ سالہ نام دیو کہتے ہیں۔ ’’ہم نے اس کی تعلیم اور اخراجات پر اب تک ۲ لاکھ روپے خرچ کر دیے ہیں۔‘‘
گنیش کو ۲۰۱۷ میں سائنس کی ڈگری ملی؛ تبھی سے وہ بیڈ شہر میں رہ رہا ہے – جو کہ اس کے گاؤں سے ۷۰ کلومیٹر دور ہے۔ وہاں پر وہ ایک مشترک اپارٹمنٹ میں، جس کا ماہانہ کرایہ ۷۰۰ روپے ہے، رہ کر ایم پی ایس سی کی تیاری کر رہا ہے۔ ’’میرے والدین بوڑھے ہو رہے ہیں،‘‘ وہ کہتا ہے۔ ’’مجھے جلد ہی ایک نوکری کی ضرورت ہے، تاکہ میں ان کی دیکھ بھال کر سکوں۔ میں ان سے ہمیشہ کے لیے پیسے بھیجنے کی امید نہیں کر سکتا۔‘‘
اتنا پیسہ خرچ کرکے انھوں نے انتظار کرنے کو کیوں چُنا؟ ’کھیتی سے کیا ملتا ہے؟ کیا آپ آمدنی کے لیے مطمئن ہو سکتے ہیں؟‘ وہ جواب دیتا ہے
اتنا پیسہ خرچ کرکے انھوں نے انتظار کرنے کو کیوں چُنا، میں پوچھتا ہوں۔ ’کھیتی سے کیا ملتا ہے؟ کیا آپ آمدنی کے لیے مطمئن ہو سکتے ہیں؟‘ وہ جواب دیتا ہے۔ ’’موسم بے ترتیب ہو رہا ہے، زیادہ تر وقت پیداواری لاگت بھی وصول نہیں ہوتی ہے۔ کسان کی زندگی برباد ہو چکی ہے۔ اور جب کسان متاثر ہوتے ہیں، تو زرعی مزدوروں کا حال بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔‘‘
انگد کی طرح، گنیش بھی ایم پی ایس سی امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں۔ ’’یہ اتنا چیلنج بھرا ہے کہ آپ عارضی نوکری کے ساتھ ساتھ اس کے لیے مطالعہ نہیں کر سکتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن اس سال امتحان دینے کے بعد، میں کوئی نوکری نہیں ڈھونڈوں گا، اور امید کروں گا کہ مستقل نوکری مل جائے۔‘‘
ایک خود مختار ادارہ کے ذریعہ ایم پی ایس سی امتحان کا پروگرام بے ترتیب رہا ہے، جس سے امیدواروں میں غیر یقینی کی حالت بنی۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۶ اور ۲۰۱۷ میں، پولس سب انسپکر امتحان کا اعلان نہیں کیا گیا تھا، اور ریاست نے تلاتھی (گاؤں کے اکاؤنٹنٹ) کے عہدہ کے لیے درخواستیں جاری نہیں کیے تھے۔
پھر بھی، ایک مستحکم نوکری کی شدید امید کا مطلب ہے کہ کئی نوجوان طلبہ کوشش کرتے رہتے ہیں – اور کئی اکادمیاں بیڈ شہر میں انھیں ٹریننگ دینے کے لیے ابھری ہیں۔
مارچ میں بیڈ کے پولس گراؤنڈ پر، سینکڑوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پولس فورس کی نوکریوں کے ٹرائل کے لیے انہی اکادمیوں کے ٹرینرس کی نگرانی میں پریکٹس – اسٹریچنگ، تیز دوڑ اور لمبی کود – کر رہے تھے۔ اکیلے کرشن پاٹھک کی یودھا ٹریننگ اکیڈمی میں ۹۰۰ طلبہ ہیں۔ اکادمی کے مالکوں کا اندازہ ہے کہ بیڈ میں ۲۰ سے زیادہ ایسے ادارے ہیں۔ ’’۲۰۱۸ میں [بیڈ میں پولس فورس میں مختلف عہدوں کے لیے] خالی اسامیوں کی تعداد ۵۳ ہے،‘‘ پاٹھک نے ایک افسوس بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’یہاں ایسے بچے ہیں جو برسوں سے کوشش کر رہے ہیں اور تھوڑے سے مارجن سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جسمانی ٹریننگ کی مانگ ہے۔ نوجوان پوری جان لگا رہے ہیں۔ یہ بہت افسوس ناک ہے۔‘‘
ان کے شاگردوں میں سے ایک، ۱۹ سالہ پوجا آچارے، بیڈ شہر سے ۸۰ کلومیٹر دور، اشٹی شہر سے ہیں۔ ’’میں نے یہاں ۸۰۰ روپے ماہانہ پر ایک ہوسٹل کرایے پر لیا ہے، اور میس (کھانے) کا چارج ہے ۱۵۰۰ روپے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ٹریننگ تین مہینے کے لیے ہے، جس کے بعد میں دیکھوں گی کہ مجھے پولس فورس میں نوکری ملتی ہے یا نہیں۔‘‘
پوجا کے والدین کسان ہیں؛ وہ اپنی آٹھ ایکڑ زمین پر جوار اور اَرہر کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہ حمایت کر رہے ہیں، وہ بتاتی ہیں، لیکن لڑکیوں کو صرف ایک موقع ملتا ہے۔ ’’اگر مجھے اس سال نوکری نہیں ملی، تو مجھے واپس جانا ہوگا اور شادی کرنی ہوگی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بے روزگار نوجوان لڑکے ہیں۔‘‘
اس سال کی شروعات میں، بیڈ کے ایک مقامی کارکن، وچِستا بڑھے نے ’سوشکشست بے روزگار‘ نام سے تعلیم یافتہ بے روزگاروں کا ایک نیٹ ورک شروع کیا تھا۔ ’’میں نے بیڈ کی ٹیوشن کلاسوں اور کالجوں میں بات کی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اور ایک پروگرام کا منصوبہ بنایا جہاں ان میں سے ہر کوئی اپنے خیالات کا اظہار کر سکے، تاکہ ہم سرکار کو دکھا سکیں کہ حالت کتنی سنگین ہے۔‘‘
کچھ ہی دنوں کے اندر، بڑھے نے فروری کے آخری ہفتہ میں جس پروگرام کا انعقاد کیا، اس میں ۱۲ویں کلاس یا اس سے اوپر تک کی پڑھائی کر چکے تقریباً ۱۰۰۰ نوجوان شریک ہوئے۔ ’’وہ بیڈ شہر اور ارد گرد کے مقامات سے تھے، جو اُس دن حاضر ہو سکتے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’بیڈ کے ۱۱ تعلقوں میں ایسے نوجوانوں کا شمار کرنے کی کوشش کریں... پورے مراٹھواڑہ کی یہی حالت ہے۔‘‘
پورے ہندوستان میں یہی حالت ہے۔ ممبئی واقع سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اِکنامی کا اندازہ ہے کہ کم از کم ۳۰ ملین لوگ ہندوستان میں نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ حالانکہ نوکریاں موجود نہیں ہیں اور ان کی تعداد میں گراوٹ آ رہی ہے۔ سنٹر فار ڈیولپمنٹ اسٹڈیز ، ترواننت پورم کے ماہر اقتصادیات، وِنوج ابراہم اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں لکھتے ہیں، مختلف ڈیٹا ذرائع سے یہی تصویر ابھر رہی ہے کہ ہندوستان میں روزگار میں مکمل گراوٹ یا روزگار کے فروغ میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے – معاشیات کے تقریباً تمام شعبوں میں۔
اس لیے جہاں کسان بڑھتے زرعی بحران کے سبب اپنے بچوں کو کھیتی سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں نوجوانوں کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے۔ ’’جب انھیں نوکری نہیں ملتی ہے، تو وہ یا تو کھیت میں واپس آ جاتے ہیں یا زیادہ تر نوجوان شہروں یا قصبوں میں تعمیری مزدوروں، ڈرائیوروں یا چوکیداروں کی شکل میں کام کرنے چلے جاتے ہیں،‘‘ بڑھتے کہتے ہیں۔ ’’شہروں میں خوشحال لوگوں کے لیے سستی مزدوری مہیا کرانے کے لیے۔‘‘
اس قسم کے دور میں، ایسے لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو اِن پریشان حال نوجوانوں کا استحصال کرنے لگتے ہیں۔ سال ۲۰۱۳ میں، انگد، ابھی بھی نوکری پانے کی امید کر رہے تھے، بیڈ میں ایک آدمی سے ملے جس نے انھیں ناندیڑ میں گاؤں کے ایک اکاؤنٹنٹ کی شکل میں بھرتی کر لینے کا وعدہ کیا۔ اس کے لیے اس نے ۵ لاکھ روپے کی رشوت مانگی۔ ’’ہم نے اپنی پانچ ایکڑ زرعی زمین میں سے ایک ایکڑ بیچ دیا اور اسے رقم ادا کر دی،‘‘ انگد کہتے ہیں۔ ’’اور وہ غائب ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد، میں نے شکست تسلیم کر لی اور خود کو سمجھایا کہ مجھے یہ قبول کر لینا چاہیے کہ مجھے کبھی نوکری نہیں ملے گی،‘‘ مستقل سرکاری نوکری پانے کی امید پالے انگد کے لیے آدھا عشرہ گزر چکا ہے، اس درمیان انھوں نے زندہ رہنے کے لیے الگ الگ نوکریاں کیں۔
اگلے سال، انھوں نے کھیتی کرنا شروع کیا، کپاس، جوار اور باجرا کی کھیتی کی اور تب سے وہ یہی کر رہے ہیں – اپنے والدین کی طرح وہ بھی اس میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ ’’میرے والد اپنی عمر کے ۶۰ویں سال میں ہیں۔ انھیں دوسرے کے کھیتوں پر مزدور کی شکل میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے لیے میں خود کو ذمہ دار مانتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اگر میرے والدین نے میری تعلیم اور نوکری پر اتنا پیسہ خرچ نہیں کیا ہوتا، تو مجھے لگتا ہے کہ ان کی حالت بہتر ہوتی۔‘‘
انگد کے دو بیٹے ہیں، ۱۰ اور ۱۸ سال کے، اور تین سال کی ایک بیٹی ہے۔ اب وہ اپنے بچوں کے لیے بھی وہی خواب دیکھ رہے ہیں جو کبھی ان کے والدین نے ان کے لیے دیکھا تھا۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)