باکس آفس پر ایک نیا ریکارڈ بنانے والی فلم ’دنگل‘ نے صرف ہریانہ کے لوگوں کو ہی متاثر نہیں کیا، بلکہ یہ فلم ملک کے دیگر حصوں میں کُشتی میں دلچسپی رکھنے والی لڑکیوں کے لیے بھی حوصلہ کا باعث بنی ہے۔ اس نے پہلوان لڑکیوں میں جوش اور نئی توانائی پیدا کی ہے – اور ہم نے فیض آباد میں یہ منظر قریب سے دیکھا، جہاں ہم نے کُشتی کے اس مقابلہ میں حصہ لینے والی ۱۹ سالہ شیوانگی اور ۲۰ سالہ انجلی سے بات کی۔
اتر پردیش کے فیض آباد ضلع کے گوسائیں گنج میں ہر سال ’مہا دنگل‘ کے نام سے، عام طور پر جنوری اور فروری میں کُشتی کا ایک مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ مقابلہ گزشتہ چار سالوں سے ہو رہا ہے، لیکن اس میں پہلی بار لڑکیاں بھی حصہ لے سکتی تھیں۔ لہٰذا، گورکھپور کی شیوانگی اور لکھنؤ کی انجلی اپنی قسمت آزمانے وہاں پہنچ گئیں۔
ہم نے انہیں ہوا میں پینترے بازی کرتے اور پھر کمال کے داؤ لگاتے ہوئے دیکھا۔ لوگ شور مچا رہے تھے اور قیاس لگا رہے تھے کہ ان میں سے کون خطاب جیتے گا، اور کس کا کھیل سب سے عمدہ ہے۔
گورکھپور کی رہنے والی قومی سطح کی کھلاڑی، شیوانگی اپنا اعتماد دکھاتی ہیں۔ وہ ایک پیشہ ور پہلوان ہیں، جو ہمیں بتاتی ہیں کہ وہ اب تک ۷۰ میڈل جیت چکی ہیں جو ان کے گھر میں پڑے ہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں نے ریاستی سطح کے میچ میں کبھی شکست نہیں کھائی ہے۔ میں جس مقابلہ میں بھی حصہ لیتی ہوں، اس میں جیتتی ضرور ہوں۔‘‘ گورکھپور میں ویسے تو کُشتی کا کوئی مناسب میدان نہیں ہے، لیکن شیوانگی نے وہیں پر مشق کرتے ہوئے کئی سال گزارے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتی ہیں، ’’ہمیشہ چٹائی موجود رہتی ہے۔‘‘ ریاستی سطح کے میچوں کے لیے ہونے والے سیلیکشن کے دوران اُن کا انتخاب ٹرائل کے لیے ہو گیا تھا، اور اب وہ مزید باقاعدہ ٹریننگ حاصل کر رہی ہیں۔ شروع میں، انہیں اپنی فیملی کی حمایت حاصل نہیں تھی، لیکن اب حاصل ہے – کیوں کہ گھر میں اُن ۷۰ میڈل کو رکھنے کی جگہ بنانی پڑی۔ شیوانگی اب نوجوان لڑکیوں کو کُشتی کے ساتھ ساتھ ایتھلیٹکس کی بھی ٹریننگ دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ایتھلیٹکس بھی پسند ہے۔
انجلی بڑے شہر کی لڑکی ہیں؛ وہ گھر پر نسبتاً زیادہ جوش سے بولتی ہیں، لیکن کہتی ہیں کہ انعام کی تعریف تبھی ہوتی ہے جب انہیں دیکھا جا سکے۔ شیوانگی کی طرح وہ بھی اپنی کُشتی کے پیشہ کو لیکر پر اعتماد ہیں: ’’اب میں بہت اچھا کر رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اگر میں ایسا ہی کرتی رہی، تو میرے راستے میں اور بھی بڑے اور بہتر مواقع آئیں گے۔‘‘ (انجلی نے اس سال کے گوسائیں گنج مہا دنگل کا لڑکیوں کا خطاب جیت لیا ہے)
اس سال کے مقابلہ میں ’مہا دنگل‘ کے منتظمیں، ہنومان پرساد سونی اور سورج بھان سنگھ پر ’عامر خان کا اثر‘ صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ ہم نے سنا کہ ٹکٹ کے کافی اچھے پیسے ملے، اور ’نوجوانوں کی طاقت کا مثبت استعمال‘ ہوا۔ سنگھ نے دنگل کے وقت سماجی رشتوں کے تازہ ہونے کی بات کہی، جو کہ ان کے اس پیغام میں موجود ہے: ’’آج نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر شراب کی لت لگ چکی ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اس قسم کے کھیل سے ان کے اندر زندگی کے تئیں ایک صحت مند سوچ پیدا ہوگی۔‘‘
سونی نے کہا کہ انہیں فیض آباد کے لوگوں سے امید ہے کہ وہ ’’اسے [کُشتی کو] مزید بلندیوں تک لے جائیں گے... یہ ہمارا روایتی کھیل ہے، اور ہمیں اس کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘
جب ان سے عورتوں کی شرکت کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے رضامندی میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’کھیل میں عورتیں بین الاقوامی سطح پر ہمارے ملک کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ وہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ پھر یہاں کیوں نہیں؟ اسی لیے ہم نے سوچا کہ ہمیں بھی انہیں شرکت کرنے اور کُشتی لڑنے کی اجازت دینی چاہیے۔ عورتیں – انہیں ہر جگہ ہونا چاہیے۔‘‘
ہندی میں یہ اسٹوری تھوڑا مختلف انداز میں ’خبر لہریا‘ پر یکم فروری، ۲۰۱۷ کو شائع ہوئی تھی۔
مترجم: محمد قمر تبریز