چین کی سرحد سے ملحق، مشرقی لداخ کی ہنلے وادی میں پیما رنچن ’تاشی دیلیک‘ (’آداب‘ یا ’سلامتی‘ کیلئے تبتی زبان کا لفظ) کہتے ہوئے، افق کی جانب روانہ ہو جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ پشمینہ (کشمیرہ) بکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہے۔ یہ تمام بکریاں دن بھر چرنے کے بعد اپنے گھروں کی جانب لوٹ رہی ہیں۔
پیما، چانگپا قبیلہ کے لیڈر کرما رنچن کی دوسری اولاد ہیں اور اس قبیلہ کے تقریباً ۲۸۰ کنبوں کے ساتھ ہنلے وادی میں رہتی ہیں۔ خانہ بدوش زندگی بسر کرنے والے چانگپا، یاک اور بھیڑ پالتے ہیں۔ نومبر سے مئی تک، جب لمبی سردیاں پڑتی ہیں تو یہ لوگ زیادہ تر اپنے گھروں میں ہی رہتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں چانگپا اپنے جانوروں کو چرانے کے لیے اونچے پہاڑی میدانوں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے اُن سے میری ملاقات ہنلے وادی کے نالانگ چراگاہ میں ہوئی تھی۔ یہ وادی ۱۴ ہزار فیٹ کی بلندی پر، چانگ تھانگ سطح مرتفع پر واقع ہے۔ سطح مرتفع پا پٹھار مشرق کی جانب تبت کے اندر کئی سو کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے – یہ بڑے تبتی سطح مرتفع کا حصہ ہے۔
چانگپا خواتین جانوروں کو چرانے کے موسم میں خیمہ گاڑنے سے لے کر جلانے کی لکڑیاں ڈھونے، جانوروں کو چرانے، بکریوں کا دودھ نکالنے وغیرہ، ہر قسم کے کام کرتی ہیں۔ اتنی مصروفیت کے باوجود، وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے اور کھانا بنانے کے لیے بھی وقت نکال لیتی ہیں۔
تبتی سطح مرتفع کئی قسم کے خانہ بدوش چرواہا قبیلوں کا مسکن ہے؛ ان میں مغربی ہمالیہ کے چانگپا (ملاحظہ کریں کشمیرہ بنانے والے چانگپا ) اور مشرقی کوہستانی سلسلہ میں بروکپا (ملاحظہ کریں بروکپا: ’جنگل ہماری ماں ہے‘ ) شامل ہیں۔ یہ قبیلے پہاڑی چٹانوں اور وادیوں کی وجہ سے بھلے ہی تقسیم ہو گئے ہوں، لیکن ثقافتی، نسلی اور روحانی رشتوں سے آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔
ایک دوسرے سفر کے دوران، میں نے مشرقی ہمالیہ کے جنگلاتی ڈھلوانوں کا دورہ کیا، جہاں میری ملاقات مونپا قبیلہ سے تعلق رکھنے والے بروکپا خانہ بدوشوں سے ہوئی۔ وہ عام طور سے اروناچل پردیش کے مغربی کیمانگ اور توانگ ضلعوں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ بھی گرمیوں کے موسم میں اونچے چراگاہوں کی طرف چلے جاتے ہیں اور سردی شروع ہوتے ہی نیچے اتر جاتے ہیں اور اپنے یاک کے ساتھ، مغربی کیمانگ ضلع میں واقع لاگام جیسی اپنی مستقل بستیوں میں لوٹ جاتے ہیں۔
اُس چھوٹی سی بستی تک پہنچنے کے لیے مجھے آٹھ گھنٹے پیدل چلنا پڑا۔ راستے میں میری ملاقات ۷۰ سالہ یاما تسیرنگ سے ہوئی۔ انہوں نے کہا، ’’میں بوڑھی ہو چکی ہوں، اور [بلندیوں کی طرف] اتنا چل نہیں سکتی۔ اس لیے میں گھر کے کام کاج سنبھالتی ہوں، جیسے چھُرپی [یاک کے دودھ کا پنیر] بنانا اور اپنے پوتے پوتیوں کو سنبھالنا۔ ضرورت پڑنے پر، گرمیوں کے دوران میں اوپر کی طرف جاتی ہوں۔‘‘
پچھلے سال، مئی کے مہینہ میں، میں دوبارہ اروناچل پردیش گیا اور چاندر کا دورہ کیا، جو ۱۱۱۵۲ فیٹ کی اونچائی پر واقع ایک بستی ہے۔ اس بار میں نے لیکی سوزوک کے گھر میں قیام کیا، جو دو بچوں کی ماں ہیں اور ان کے پاس ۳۰ یاک ہیں۔ بروکپا عورتیں بھی وہی سارے کام کرتی ہیں، جو چانگپا قبیلہ کی عورتیں کرتی ہیں۔ وہ اپنی کمیونٹی کی زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہیں اور اپنے ریوڑ یا بچوں سے متعلق فیصلے لینے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔ مجھے وہ منظر یاد ہے، جب چاندر میں ایک گومپا (ایک چھوٹی بدھسٹ عبادت گاہ) بنانے کے لیے تمام بروکپا عورتیں جمع ہو گئی تھیں۔
کچھ دنوں کے بعد، میں نے سرد پہاڑوں سے گجرات میں واقع کچھّ کے خشک اور گرم علاقے کا دورہ کیا، جہاں میری ملاقات ایک اور خانہ بدوش فقیرانی جاٹوں کے چرواہا قبیلہ سے ہوئی (ملاحظہ کریں چراگاہوں کی لامتناہی تلاش )۔ یہ کچھّی اور کھرائی اونٹ پالتے ہیں۔ ان کے ہجرت کرنے کی ترتیب زیادہ پیچیدہ ہے اور اونٹ کی قسم اور پانی کی دستیابی پر منحصر ہے۔ وہاں کئی بار جانے کے بعد مجھے ان کا اعتماد حاصل ہو سکا۔ اس طرح، وہاں کے کئی لوگوں سے میری ملاقات ہوئی، جن میں سے ایک جاٹ حسینہ بھی تھیں۔ وہ اور ان کے شوہر جاٹ ایوب ۸۰ اونٹوں کا ریوڑ سنبھالتے ہیں، اور انہیں چرانے کے لیے بھچئو تعلقہ کے اندر سال بھر گھومتے رہتے ہیں۔ یہ قبیلہ قدامت پسند ہے اور ان کی عورتیں باہری لوگوں سے زیادہ بات چیت نہیں کرتیں۔ لیکن، ان کی موجودگی ہر جگہ دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ لکھپت تعلقہ کی دھرنگاوندھ بستی میں میری ملاقات ناسی بیبئی شیر محمد جاٹ سے ہوئی۔ وہ اچھی ہندی بولتی ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا، ’’ہمارے چراگاہ کافی کم ہو گئے ہیں۔ ہم اپنی روایتی زندگی چھوڑنے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ ہمیں مدد کا انتظار ہے… مجھے امید ہے کہ ہماری باتیں سنی جائیں گی۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز