ستی منی رات کو سونے سے پہلے، اپنے گھر پر ایک سرسری نگاہ دوڑا لیتی ہیں: ان کے ضروری کاغذات اور اچھے کپڑے پلاسٹک میں لپیٹ کر دیواروں پر ٹنگے ہوئے ہیں؛ کھانا بنانے کے برتن زمین سے دو فٹ اونچے سیمنٹ کے تختوں پر رکھے ہوئے ہیں۔

کوچی، کیرالہ کے گاندھی نگر کے تیورا-پیرندور (ٹی پی) نہر کے ایک کنارے پر آباد پی اینڈ ٹی کالونی میں رہائش پذیر ۶۵ سالہ ستی کہتی ہیں، ’’صبح ۲ بجے اٹھنے پر میں نے کئی بار اپنے گھر کو پانی سے بھرا پایا ہے۔ میں نے ان تکیوں اور چادروں کی گنتی چھوڑ دی ہے، جنہیں دھونے کے باوجود ان کی بدبو اور سیاہ دھبے نہیں گئے اور انہیں پھینکنا پڑا۔‘‘

ٹی پی نہر شمال میں پیرندور پوزہ سے کوچی کے جنوب میں تیورا تک بہتی ہے۔ اور شہر کے بند پانی (بیک واٹر) میں گرنے سے پہلے تقریباً ۸۴ء۹ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ یہ نہر کوچی کی ۱۱ بڑی آبی گزرگاہوں میں سے ایک ہے، جن میں سے کچھ کو حکومت ایرناکولم اور اس کے گرد نواح کی ٹریفک کی بھیڑ کو کم کرنے کے لیے آبی گزرگاہوں کے طور پر فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پچھلی تین دہائیوں میں کوچی شہر کی آبادی دوگنی ہو کر ۱ء۲ ملین تک پہنچ گئی ہے، اور ایک میٹر سے بھی کم گہرائی والی ٹی پی نہر خراب ہوتے ہوتے کھلے گٹر میں بدل گئی ہے۔ میٹرو کے تعمیراتی کام اور بہاؤ میں کمی کی وجہ سے دو مقامات پر اسے بند کر دیا گیا ہے۔ نہر سے ملحقہ ہسپتالوں، مقامی بازاروں، صنعتوں اور گھروں کا فضلہ براہ راست اس نہر میں خالی کیا جاتا ہے۔ تقریباً ۶۳۲ پانی نکاسی کی پائپ اور گلیوں سے نکلنے والے ۲۱۶ نالے اس نہر میں گھریلو گندگی، صنعتی فضلے اور بارش کا پانی خارج کرتے ہیں۔ کناروں پر لگے خشک کچرے کے ڈھیر کی وجہ سے نہر کی چوڑائی کئی جگہوں پر سکڑ کر محض ۸ میٹر رہ گئی ہے۔

ستی کا گھر پی اینڈ ٹی کالونی میں باقی تمام گھروں کی طرح نہر کے کنارے ایرناکولم جنکشن ریلوے اسٹیشن کے پیچھے واقع ہے۔ یہ کالونی تقریباً ۲۵۰ میٹر لمبی پورمبوک اراضی (غیر مقبوضہ اراضی جو حکومت کی ملکیت ہے یا عوامی مقاصد کے لیے مخصوص ہے) پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ پورمبوک کی زمین پر عارضی گھر بنانا کرایے کے مکان کا ایک سستا متبادل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں نے اپنے پھوس اور ترپال کے گھروں کو مقامی گرجا گھروں کی جانب سے فراہم کردہ عطیات سے دو دہائی قبل کنکریٹ کے بلاکس اور ٹن کی چھتوں کا استعمال کرتے ہوئے نیم پکے گھروں میں تبدیل کر لیا ہے۔

'I have woken up many times to find water flooding my home', says Sathi; she and her husband Mani live next to this canal where all the waste of the area is dumped
PHOTO • Adarsh B. Pradeep
'I have woken up many times to find water flooding my home', says Sathi; she and her husband Mani live next to this canal where all the waste of the area is dumped
PHOTO • Adarsh B. Pradeep

ستی کہتی ہیں، ’سو کر اٹھنے کے بعد میں نے کئی بار اپنے گھر کو پانی سے بھرا پایا ہے۔ وہ اور ان کے شوہر منی اس نہر کے کنارے رہتے ہیں جہاں علاقے کا سارا کچرا پھینکا جاتا ہے

اپنے گھر کے پیچھے نہر کے گندے سرمئی پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ستی کہتی ہیں، ’’جب میں پہلی بار یہاں آئی تھی، تو یہاں کا پانی صاف تھا اور ہم کبھی کبھار اچھی خاصی مچھلیاں پکڑ لیتے تھے۔ بعض لوگ اکثر ان مچھلیوں کو بیچ بھی دیتے تھے۔ آج یہاں کوئی مچھلی نہیں ہے، اس میں صرف نالے کے پائپ گرتے ہیں۔‘‘  تمام گھروں کے کچن اور ٹوائیلٹ کا فضلہ براہ راست اس نہر میں گرتا ہے۔ ستی مزید کہتی ہیں، ’’جب بھی میں نے گندے پانی میں قدم رکھا ہے، میری ٹانگوں میں خارش ہونے لگتی ہے۔‘‘

ستی بطور ایک گھریلو ملازمہ کام کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں دو گھروں میں کام کرکے ۴۵۰۰ روپے ماہانہ کما لیتی تھی۔ نہر میں سیلاب آنے پر میرا گھر سے نکلنا مشکل ہو جاتا تھا اور اس دن کی مزدوری چلی جاتی تھی۔ میرا سارا دن پانی کے ذریعے [میرے گھر میں] لائی گئی پھٹے چٹے پلاسٹک کی گندگی، گھریلو کچرا اور قریبی بس ڈپو کی گِریز کی چکنائی صاف کرنے میں گزر جاتا تھا۔‘‘

ان کے شوہر کے ایس منی کی عمر ۶۹ سال ہے۔ وہ دہاڑی مزدور تھے۔ تہواروں کے موسم میں وہ ۱۶۰کلومیٹر دور پَٹنم تھِٹّا ضلع میں واقع سبریمالا مندر کے باہر چائے اور ناشتے کی ایک چھوٹی سی عارضی دکان کرایے پر لے کر چلاتے تھے۔ ستی کا کہنا ہے کہ ان کی باقاعدہ کمائی بحیثیت دہاڑی مزدور ۳۰۰۰ روپے سے بڑھ کر تہواروں کے موسم میں چند مہینوں (نومبر سے فروری تک) کے اندر ۲۰ ہزار روپے تک پہنچ جاتی تھی۔

منی پچھلے چند برسوں سے صاحب فراش ہیں۔ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں۔ انفیکشن کی وجہ سے کچھ سال قبل ان کی بائیں ٹانگ کا نچلا حصہ کاٹنا پڑا تھا۔ یہ جوڑا دمّہ اور ذیابیطس کی دوائیوں پر ہر مہینے ۲۰۰۰ روپے خرچ کرتا ہے۔ ستی کہتی ہیں، ’’ہم دونوں ریاست کی جانب سے ۱۴۰۰ روپے ماہانہ ملنے والی بڑھاپے کی پنشن کے حقدار ہیں۔ لیکن منی پچھلے چار مہینوں سے اپنی پنشن حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ کمزور ہو گئے ہیں اور وہ صحیح طریقے سے اپنا دستخط نہیں کر سکتے۔‘‘ ستی کہتی ہیں کہ اب ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ پنشن ہے، جو ان کے گھر سے دو کلومیٹر دور یونین بینک کی ایک برانچ میں ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے۔

بنیادی طور پر کوچی کے شمال میں واقع پراوُور سے تعلق رکھنے والی ستی، ۴۶ سال قبل شادی کے بعد پی اینڈ ٹی کالونی میں رہنے آئی تھیں۔ اس جگہ کے انتخاب کی وضاحت کرتے ہوئے ستی کہتی ہیں، ’’یہ جگہ ہمیں شہر تک آسانی سے رسائی فراہم کرتی تھی اور سفر کے اخراجات میں بھی بچت ہوجاتی تھی۔‘‘

Left: during high tide, the canal overflows. Right: Invasive weeds grows in the stagnant water, where mosquitoes, files, snakes and rats proliferate
PHOTO • Adarsh B. Pradeep
Left: during high tide, the canal overflows. Right: Invasive weeds grows in the stagnant water, where mosquitoes, files, snakes and rats proliferate
PHOTO • Adarsh B. Pradeep

بائیں: مد (ہائی ٹائیڈ) کے دوران، نہر لبریز ہو جاتی ہے۔ دائیں: ٹھہرے ہوئے پانی میں بے تحاشہ بڑھنے والے پودے اگ آتے ہیں، جہاں مچھر، مکھیاں، سانپ اور چوہے پھلتے پھولتے ہیں

منی کی ۶۱ سالہ بہن، تلسی کرشنن ان کی پڑوسن ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’تقریباً ۵۰ سال قبل جب ہم پہلی بار یہاں آئے تھے، تو یہاں صرف دو گھر تھے، اب ۸۵ گھر ہیں جن میں ۸۱ خاندان رہتے ہیں۔ مقامی انتخابات کے لیے کرائے گئے ایک حالیہ سروے نے یہاں کے تمام مکینوں کو کالونی کی تفصیلات سے پہلی بار روشناس کرایا ہے۔

ہڈیوں کی بیماری، آسٹیوپوروسس کی وجہ سے تلسی کا کھڑا ہونا اور چلنا پھرنا مشکل ہوگیا ہے۔ تلسی کہتی ہیں، ’’جب بھی تیز بارش ہوتی ہے مجھے پانی سے گزر کر مین سڑک [اونچے مقام] تک پہنچنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس لیے میں اور میرے شوہر اپنی بیٹی کے گھر آ گئے ہیں۔ لیکن ہم کب تک اس کے ساتھ رہ سکتے ہیں؟‘‘ ان کی بیٹی ریکھا ساجن پی اینڈ ٹی کالونی سے ایک کلومیٹر دور، گاندھی نگر میں رہتی ہیں۔

کالونی کی زمین میونسپل باڈی، گریٹر کوچین ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی سی ڈی اے)، کی ہے۔ یہاں کے مکینوں کے مطابق، ’پی‘  اینڈ ’ٹی‘  کا مطلب ’پاور‘ اور ’ٹیلی کمیونیکیشن‘ ہے۔ یہاں سے صرف ۵۰ میٹر کے فاصلے پر بھارت سنچار نگم لمیٹڈ (بی ایس این ایل) کا ڈپو ہے۔

۷۲ سال کی آجرہ اپنی آنجہانی بیٹی اور داماد کے گھر میں اکیلی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سڑک کے قریب ان کی ایک چھوٹی سی کیرانے کی دکان تھی، لیکن حکومت نے اسے توڑ دیا۔ اب وہ اپنے گھر سے ہی کچھ چیزیں بیچتی ہیں، جس سے ہرروز تقریباً ۲۰۰ روپے کی آمدنی ہو جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہاں بہت سے لوگ ادھار پر سامان خریدتے ہیں، لہٰذا ان کا حساب رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مفلوج ٹانگ اور سانس لینے میں تکلیف کی وجہ سے میرے لیے باہر جاکر مزید سامان خریدنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔‘‘

کیرالہ میں جنوب مغربی مانسون کے موسم (جون تا ستمبر) میں تقریباً ۲۸۵۵ ملی میٹر اوسط بارش ہوتی ہے۔ مانسون کا سیلاب کوچی کی گلیوں کے سیوریج نظام کو کیچڑ اور پلاسٹک سے بند کر دیتا ہے۔ سیلاب زدہ سڑکوں کا پانی نہروں میں گرتا ہے، جس کی وجہ سے نہر بھر جاتی ہے اور کناروں کے اوپر سے بہنے لگتی ہے۔ نہر کا کالا گندا پانی پی اینڈ ٹی کالونی کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ مد (ہائی ٹائیڈ) کی لہر پانی کے حجم کو بڑھا دیتی ہے اور سیوریج کے نظام کو بے اثر کر دیتی ہے۔ کناروں اور پلوں پر تعمیرات میں اضافے اور عمودی یا افقی صفائی کی کمی کے باعث نہر کے کئی حصوں سے سمندری پانی واپس نہیں جاتا اور وہیں ٹھہر جاتا ہے۔

Left: Mary Vijayan remembers a time when her brothers swam in the canals. Right: Aajira's small grocery store was demolished by the government
PHOTO • Adarsh B. Pradeep
Left: Mary Vijayan remembers a time when her brothers swam in the canals. Right: Aajira's small grocery store was demolished by the government
PHOTO • Adarsh B. Pradeep

بائیں: میری وجیئن کو وہ وقت یاد ہے جب ان کے بھائی ان نہروں میں تیراکی کیا کرتے تھے۔ دائیں: آجرہ کی کیرانے کی چھوٹی سی دکان کو حکومت نے توڑ دیا تھا

ٹھہرا ہوا پانی بے تحاشہ اگنے والے آبی پودوں، جیسے واٹر ہائیسنتھ (آئیک ہورنیا کریسیپس)، کو تیزی سے پھیلنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور پانی کے بہاؤ میں رخنہ ڈالتا ہے۔ یہ مچھروں اور مکھیوں کی افزائش کے لیے بھی سازگار ماحول مہیا کرتا ہے۔ ٹوائلیٹ کے پائپ کے ذریعے سانپ اور چوہے گھروں میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ ستی کہتی ہیں، ’’میری اسٹیل کی الماری میں داخل ہوکر چوہوں نے میرے بہت سے کپڑے کتر دیے تھے۔‘‘

جنوری ۲۰۱۷ میں شائع کیرالہ شپنگ اینڈ ان لینڈ نیوی گیشن کارپوریشن کے ایک مقالے میں کہا گیا ہے کہ ’’گاد کے جماوْ (سلٹیشن)، کم اونچائی کے پل، تجاوزات اور کناروں کی بساوٹوں‘‘ کی وجہ سے نہر کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ اس مقالے میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ’’پانی کے بہاؤ کو یقینی بنانے اور آبی گزرگاہ کو نقل و حمل کے ایک قابل عمل ذریعہ کے طور پر فروغ دینے کے لیے نہر کو چوڑا کرنا ضروری ہے۔‘‘

ستی کی پڑوسن، میری وجیئن کو وہ وقت یاد ہے جب ان کے بھائی نہروں میں تیراکی کرتے تھے۔ وہ اور ان کے شوہر وجیئن کے، جو قریبی ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرتے تھے، ۳۰ برسوں سے اس کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ شادی کے بعد کوچی سے یہاں آ گئے تھے۔ ۶۲ سالہ میری غصے میں کہتی ہیں، ’’یہ نہر درحقیقت پیرندور پوزہ کی ایک معاون نہر ہے۔ لوگ یہاں نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے آتے تھے۔ پانی اتنا صاف تھا کہ ہم پانی کے نیچے سطح پر ایک روپے کا سکہ پڑا ہوا دیکھ سکتے تھے۔ اب اس میں لاش کو تلاش کرنا بھی ناممکن ہے۔‘‘

جب ہم ان سے ملے تو وہ اپنے گھر کی فرش پر بیٹھی لاٹری کے کچھ ٹکٹ گن رہی تھیں۔ ہم سے بات کرنے کے لیے دروازے پر آتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میں ریلوے جنکشن کے آس پاس ان ٹکٹوں کو بیچ کر روزانہ ۱۰۰ سے ۲۰۰ روپے کما لیتی تھی۔‘‘ لیکن جب سے وبائی مرض شروع ہوا ہے ٹکٹوں کی فروخت میں تسلسل نہیں رہ گیا ہے۔

دہاڑی مزدور اجیت سوکمارن کہتے ہیں، ’’حکومت کئی برسوں سے منڈم ویلی [تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور] میں کالونی کے مکینوں کی مستقل  بازآباد کاری کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ میں اس تجویز سے متعلق اس وقت سے سن رہا ہوں جب میری عمر۱۰ سال سے بھی کم تھی۔ اب میرے دو بچے ہیں اور کچھ بھی یہاں سے منتقل نہیں ہوا ہے۔‘‘ اجیت کی بیوی سومیا ایک گھریلو ملازمہ ہیں، جو تقریباً ۶۰۰۰ روپے ماہانہ کماتی ہیں۔ جبکہ اجیت خود روزانہ تقریباً ۸۰۰ روپے کما لیتے ہیں، لیکن انہیں مہینے میں شاذ و نادر ہی ۱۵ دن سے زیادہ کا کام ملتا ہے۔ وہ دونوں اجیت کے والدین کی مالی مدد کرتے ہیں۔ ان کی ماں ۵۴ سالہ گیتا اور والد ۶۰ سالہ سبرامنیم  ان کے پڑوس میں رہتے ہیں۔

Left: A bridge on the canal that reduces its width and slows down the flow of water. Right: Waste dumped by Kochi city residents on the canal banks
PHOTO • Adarsh B. Pradeep
Left: A bridge on the canal that reduces its width and slows down the flow of water. Right: Waste dumped by Kochi city residents on the canal banks
PHOTO • Adarsh B. Pradeep

بائیں: نہر کا ایک پل جس نے نہر کی چوڑائی اور پانی کے بہاؤ کو کم کر دیا ہے۔ دائیں: کوچی شہر کے باشندوں کی طرف سے نہر کے کنارے پھینکا گیا کچرا

ستی یاد کرتی ہیں، ’’۳۱ جولائی ۲۰۱۸ کو کونسلر پورنیما نارائن [۲۰۱۵ سے ۲۰۲۰ تک گاندھی نگر وارڈ کی کونسلر] نے ہر ایک فیملی سے ایک شخص کو منڈم ویلی لے جانے کے لیے ایک بس کا انتظام کیا تھا۔ انہوں نے بس کے کرایے کے طور پر فی کنبہ ۱۰۰ روپے وصول کیے تھے۔ پھر انہوں نے اس جگہ پر سنگ بنیاد رکھی اور پنارائی وجین [کیرالہ کے وزیر اعلیٰ] نے ہم سے وعدہ کیا کہ یہ ۱۰ ماہ کے اندر مکمل ہو جائے گا۔‘‘

تب سے اب تک تقریباً تین سال کا وقت گزر چکا ہے اور یہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی لگنے والے ریلیف کیمپ ہی وہ واحد سہارا ہیں جنہیں انہوں نے دیکھا ہے۔ ۲۰۱۹ میں ایرناکولم میں ۲۳۷۵ اعشایہ ۹ ملی میٹر بارش ہوئی تھی (جو جنوب مغربی مانسون کی معمول کی بارش ۲۰۳۸ ملی میٹر سے ۱۷ فیصد زیادہ تھی) اور ۸ اور ۱۵ اگست کے درمیان سیلاب آگیا تھا۔ نشیبی علاقوں میں بسنے والے ہزاروں لوگوں کو اونچے مقامات پر منتقل کرنا پڑا۔ بارش کے باعث ٹی اینڈ پی نہر میں پانی بھر گیا۔ ستی نے یاد کرتے ہوئے بتایا، ’’میرے پڑوسیوں اور میں نے منی کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر ریلیف کیمپ تک پہنچایا۔ یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا تھا کیونکہ ٹیلی کمیونیکیشن ڈپو کی اونچی چہار دیواری اور ہمارے گھروں کے درمیان کی گلی میں دو لوگوں کے ایک ساتھ چلنے کے لیے بمشکل جگہ ہے۔‘‘

دسمبر ۲۰۲۰ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لیے امیدواروں کی جانب سے ۱۰ ماہ کے فریم ورک کی بات کی گئی تھی، جس کے تحت باز آباد کاری کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد جی سی ڈی اے نے کیرالہ حکومت کے لائف مشن پروجیکٹ کے تحت منڈم ویلی میں ۸۸ اپارٹمنٹس بنانے کا منصوبہ بنایا، تاکہ ’بے زمین‘ لوگ اور وہ لوگ ’جو اپنا گھر نہیں بنا سکتے‘ ان کے لیے مکانات تعمیر کیے جا سکیں۔ تاہم، اس منصوبے کے لیے مواد فراہم کرنے کی ذمہ داری جس کمپنی کو سونپی گئی تھی وہ دیوالیہ ہو گئی۔ نتجتاً اس کی تمام پیداوار اور منصوبے بند ہو گئے۔ جی سی ڈی اے کے چیئرپرسن وی سلیم کہتے ہیں، ’’اب ایک نئی تجویز پیش کی گئی ہے اور ہم نے جانچ کا کام مکمل کر لیا ہے۔ ہم کیرالہ حکومت کی تکنیکی کمیٹی سے کلیئرنس کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

تاہم، کالونی کے مکین شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ تلسی کہتی ہیں، ’’یہاں کوئی ہمیں دیکھنے کے لیے نہیں آتا ہے۔ جس طرح منڈم ویلی کا دورہ ہماری یادوں سے غائب ہوگیا ہے، اسی طرح عہدیداران بھی غائب ہو گئے ہیں۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Adarsh B. Pradeep

آدرش بی پردیپ، چنئی کے ایشین کالج آف جرنلزم سے پرنٹ جرنلزم کی پڑھائی کر رہے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Adarsh B. Pradeep
Translator : Shafique Alam

شفیق عالم پٹنہ میں مقیم ایک آزاد صحافی، مترجم اور کتابوں اور جرائد کے ایڈیٹر ہیں۔ خود کو کل وقتی فری لانسنگ کے لیے وقف کرنے سے قبل، انہوں نے کئی بین الاقوامی پبلشرز کے لیے بطور کاپی ایڈیٹر کام کیا ہے۔ انہوں نے دہلی کے مختلف نیوز میگزینز اور میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا ہے۔ وہ انگریزی، ہندی اور اردو زبانوں کے مترجم ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Shafique Alam