کووڈ۔۱۹ ٹیسٹ میں پازیٹو پائے جانے کے آٹھ دن بعد، رام لنگ سناپ کا جس اسپتال میں علاج چل رہا تھا، وہاں اُن کا انتقال ہو گیا۔ لیکن ان کی موت وائرس سے نہیں ہوئی تھی۔
انتقال سے چند گھنٹے قبل، ۴۰ سالہ رام لنگ نے اسپتال سے اپنی بیوی، راجو بائی کو فون کیا تھا۔ ’’انہیں جب اپنے علاج پر آنے والے خرچ کا پتہ چلا، تو وہ رونے لگے،‘‘ ان کے ۲۳ سالہ بھتیجے، روی مورالے بتاتے ہیں۔ ’’انہوں نے سوچا کہ اسپتال کا بل ادا کرنے کے لیے انہیں اپنا دو ایکڑ کھیت بیچنا پڑے گا۔‘‘
راجو بائی کے بھائی، پرمود مورالے کہتے ہیں کہ رام لنگ کو مہاراشٹر کے بیڈ شہر کے دیپ اسپتال میں ۱۳ مئی کو داخل کرایا گیا تھا۔ ان کے علاج کے لیے اسپتال نے ایک لاکھ ۶۰ ہزار روپے کا بل بنایا۔ ’’ہم نے کسی طرح دو قسطوں میں پیسے ادا کر دیے، لیکن اسپتال دو لاکھ روپے مزید مانگنے لگا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’انہوں نے فیملی کو بتانے کی بجائے مریض سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ ان پر بوجھ ڈالنے کی ضرورت کیا تھی؟‘‘
اسپتال کا یہ بل جو فیملی کی سالانہ آمدنی کا تقریباً دو گُنا تھا، اس کا خیال رام لنگ پر بھاری پڑا۔ ۲۱ مئی کو بھیڑ بھاڑ کے وقت، وہ کووڈ وارڈ سے باہر نکلے اور اسپتال کے گلیارے میں خود کو پھانسی لگا لی۔
۲۰ مئی کی رات کو جب انہوں نے اپنی بیوی، ۳۵ سالہ راجو بائی کو فون کیا تھا، تو انہوں نے اپنے پریشان شوہر کو دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے ان سے کہا تھا کہ وہ وہ اپنی موٹر سائیکل فروخت کر سکتے ہیں یا مغربی مہاراشٹر کی چینی کی ایک فیکٹری سے پیسے قرض لے سکتے ہیں، جہاں دونوں پہلے کام کرتے تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ رام لنگ جلد از جلد صحت یاب ہو جائیں، لیکن شاید انہیں پیسے چُکانے کو لیکر یقین نہیں تھا۔
رام لنگ اور راجو بائی ہر سال بیڈ ضلع کے کائج تعلقہ میں واقع اپنی بستی سے ہجرت کرکے مغربی مہاراشٹر کے گنّے کے کھیتوں پر کام کرنے جایا کرتے تھے۔ نومبر سے اپریل تک سخت محنت کرنے کے بعد، وہ ۱۸۰ دنوں میں ایک ساتھ تقریباً ۶۰ ہزار روپے کماتے تھے۔ اُن کی غیر موجودگی میں، ۸ سال سے ۱۶ سال کی عمر کے اُن کے تین بچے رام لنگ کے والد کی نگرانی میں رہتے تھے۔ رام لنگ کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔
بیڈ شہر سے۵۰ کلومیٹر دور اپنی بستی، ٹنڈالا چیوڑی میں واپس لوٹنے کے بعد، رام لنگ اور راجو بائی اپنے کھیت پر جوار، باجرا اور سویابین اُگاتے تھے۔ رام لنگ ہفتے میں تقریباً تین دن بڑے کھیتوں پر ٹریکٹر چلاکر، یومیہ ۳۰۰ روپے بھی کماتے تھے۔
رام لنگ جب بیمار پڑے، تو اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والی اس فیملی کا پہلا متبادل تھا بیڈ کے سول اسپتال جانا۔ ’’لیکن وہاں کوئی بستر خالی نہیں تھا،‘‘ روی بتاتے ہیں۔ ’’اس لیے ہمیں ان کو پرائیویٹ اسپتال میں لے جانا پڑا۔‘‘
دوسری لہر کے دوران کورونا وائرس جتنی تیزی سے پھیلا، اس نے دیہی ہندوستان میں صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے کی پول کھول دی۔ مثال کے طور پر، بیڈ میں صرف دو بڑے سرکاری اسپتال ہیں جو اس ضلع کی ۲۶ لاکھ کی آبادی کا احاطہ کرتے ہیں۔
چونکہ سرکاری اسپتالوں میں کووڈ کے مریضوں کی بہت زیادہ بھیڑ تھی، اس لیے لوگوں کو پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ کرنا پڑا، حالانکہ وہ ان کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔
کئی لوگوں کے لیے ایک بار کی ایمرجنسی، لمبی مدت کے قرض میں تبدیل ہو گئی۔
امریکہ میں واقع ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کی مارچ ۲۰۲۱ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ’’ہندوستان میں جو لوگ غریب ہیں (جن کی یومیہ آمدنی ۲ ڈالر یا اس سے کم ہے)، کووڈ۔۱۹ بحران کی وجہ سے ان کی تعداد میں ۷۵ ملین کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غریبوں کی یہ تعداد، اور سال ۲۰۲۰ میں ہندوستانی متوسط طبقہ کی تعداد میں جو ۳۲ ملین کی کمی آئی ہے، ان دونوں کو ملاکر عالمی سطح پر غریبی میں جو اضافہ ہوا ہے، یہ تعداد اس کا ۶۰ فیصد ہے۔
بیڈ اور عثمان آباد میں وبائی مرض کا اثر خاص طور سے نمایاں ہے۔ یہ دونوں مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ خطہ کے پڑوسی ضلعے ہیں، جو پہلے سے ہی ماحولیاتی تبدیلی، پانی کی کمی اور زرعی بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور اب اس میں کووڈ بھی جڑ گیا ہے۔ ۲۰ جون، ۲۰۲۱ تک بیڈ میں کووڈ کے ۹۱ ہزار ۶۰۰ معاملے درج کیے گئے اور ۲۴۵۰ لوگوں کی موت ہوئی ہے، جب کہ عثمان آباد میں کووڈ کے کل ۶۱ ہزار معاملے اور ۱۵۰۰ سے زائد اموات درج کی گئیں۔
حالانکہ، کاغذ پر غریبوں کا پوری طرح خیال رکھا جا رہا ہے۔
مہاراشٹر حکومت نے پرائیویٹ اسپتالوں کی فیس کو لیکر ایک حد مقرر کی ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کووڈ کے مریضوں کی بچت کا سارا پیسہ علاج کرانے پر نہ خرچ ہو جائے۔ اسپتالوں کو جنرل وارڈ کے بستر کے لیے یومیہ ۴۰۰۰ روپے، انتہائی نگہداشت والی اکائی (آئی سی یو) کے بیڈ کے لیے ۷۵۰۰ روپے اور وینٹی لیٹر کے ساتھ آئی سی یو بیڈ کے لیے ۹۰۰۰ روپے یومیہ سے زیادہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔
ریاست کی صحت بیمہ اسکیم – مہاتما جیوتی راؤ پھُلے جن آروگیہ یوجنا (ایم جے پی جے اے وائی) کے تحت (ڈھائی لاکھ روپے تک) طبی اخراجات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے جو لوگ اہل ہیں اُن میں ایک لاکھ روپے سالانہ سے کم آمدنی حاصل کرنے والے کنبے اور بیڈ اور عثمان آباد جیسے زرعی بحران کا سامنا کر رہے ۱۴ ضلعے شامل ہیں۔ ایم جے پی جے اے وائی کے نیٹ ورک میں ۴۴۷ اسپتالوں کو شامل کیا گیا ہے، جن میں سرکاری اور پرائیویٹ دونوں اسپتال شامل ہیں۔ اس اسکیم کے تحت نشان زد کیے گئے امراض کا مفت علاج اور آپریشن کیا جاتا ہے۔
لیکن اپریل میں، عثمان آباد کے چیرایو اسپتال نے ایم جے پی جے اے وائی کے تحت ۴۸ سالہ ونود گنگاونے کا علاج کرنے سے منع کر دیا تھا۔ ’’یہ اپریل کا پہلا ہفتہ تھا اور عثمان آباد میں [کووڈ کے] معاملے کافی زیادہ تھے۔ کہیں بھی خالی بستر حاصل کرنا مشکل تھا،‘‘ ان کے بھائی، ۵۰ سالہ سُریش گنگاونے بتاتے ہیں، جو ونود کو پرائیویٹ اسپتال لیکر گئے تھے۔ ’’چیرایو اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کہا، ’ہمارے پاس اسکیم نہیں ہے، تو بتائیں آپ کو بستر چاہیے کہ نہیں‘۔ اُس وقت، ہم ڈرے ہوئے تھے اس لیے ہم نے اُن سے علاج شروع کرنے کے لیے کہا۔‘‘
سُریش عثمان آباد ضلع پریشد کے محکمہ صحت میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے جب آزادانہ طور پر چھان بین کی، تو پتہ چلا کہ یہ اسپتال ایم جے پی جے اے وائی کے پینل میں شامل ہے۔ ’’میں نے اسپتال سے اس بابت سوال کیا، لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کو اسکیم چاہیے یا بھائی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم نے باقاعدگی سے بل جمع نہیں کرائے، تو وہ علاج روک دیں گے۔‘‘
ونود ۲۰ دنوں تک اسپتال میں تھے، جن کی دواؤں، لیب ٹیسٹ اور اسپتال کے بستر کے لیے گنگاونے فیملی نے ساڑھے ۳ لاکھ روپے ادا کیے۔ اس فیملی کے پاس عثمان آباد ضلع کے مضافات میں چار ایکڑ قابل کاشت زمین ہے۔ ۲۶ اپریل کو جب ونود کا انتقال ہوا، تو بقول سریش، اسپتال نے ان سے مزید ۲ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے یہ رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس بات کو لیکر ان کے اور اسپتال کے ملازمین کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا۔ ’’میں نے کہا کہ میں لاش نہیں لے جاؤں گا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ونود کی لاش اسپتال میں دن بھر پڑی رہی جب تک کہ اسپتال نے مزید پیسے کا اپنا مطالبہ واپس نہیں لے لیا۔
چیرایو اسپتال کے مالک، ڈاکٹر ویریندر گَوَلی کہتے ہیں کہ ونود کو صحت بیمہ اسکیم کے تحت اس لیے داخل نہیں کیا گیا تھا کیوں کہ سُریش نے اُن کا آدھار کارڈ جمع نہیں کرایا تھا۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے، سریش کہتے ہیں: ’’اسپتال نے ایم جے پی جے اے وائی کے بارے میں پوچھے گئے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔‘‘
ڈاکٹر گَوَلی بتاتے ہیں کہ چیرایو میں بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ’’لیکن جب معاملے بڑھنے لگے، تو [ضلع] انتظامیہ نے ہم سے کووڈ کے مریضوں کو بھی داخل کرنے کی درخواست کی۔ ہمیں زبانی طور پر ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کہا گیا، اور اگر کوئی پریشانی آئے، تو انہیں دوسرے اسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے کہا گیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
لہٰذا، اسپتال میں داخل ہونے کے ۱۲-۱۵ دنوں کے بعد جب ونود کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی، تو بقول گولی، انہوں نے ان کی فیملی کو مشورہ دیا کہ وہ انہیں کسی دوسرے اسپتال میں لے جائیں۔ ’’انہوں نے منع کر دیا۔ ہم نے اپنی طرف سے انہیں بچانے کی پوری کوشش کی۔ لیکن ۲۵ اپریل کو انہیں دل کا دورہ پڑا جس کی وجہ سے اگلے دن ان کی موت ہو گئی۔‘‘
ونود کو دوسرے اسپتال لے جانے کا مطلب تھا عثمان آباد میں ایک اور آکسیجن بیڈ تلاش کرنا، سُریش کہتے ہیں۔ فیملی پہلے ہی ایک ہفتہ سے ذہنی کرب میں مبتلا تھی۔ ونود اور سریش کے ۷۵ سالہ والد، وِٹھل گنگاونے کا کچھ دن پہلے ہی کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن فیملی نے ونود کو اس کے بارے میں نہیں بتایا۔ ’’وہ پہلے ہی ڈرے ہوئے تھے،‘‘ ونود کی بیوی، ۴۰ سالہ سُوَرنا کہتی ہیں۔ ’’ان کے وارڈ میں جب بھی کسی مریض کی موت ہوتی تھی، تو وہ پریشان ہو جاتے تھے۔‘‘
ونود اپنے والد سے ملنے کے لیے بار بار کہتے تھے، ان کی ۱۵ سالہ بیٹی کلیانی بتاتی ہیں۔ ’’لیکن ہر بار ہم کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتے تھے۔ اُن کے انتقال سے دو دن قبل، ہم اپنی دادی [ونود کی والدہ، لیلاوتی] کو اسپتال لے گئے تھے تاکہ وہ انہیں دیکھ سکیں۔‘‘
اس سفر کے دوران، لیلاوتی نے اپنی پیشانی پر ایک بِندی بھی لگا لی تھی – حالانکہ ہندو بیواؤں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ ’’ہم نہیں چاہتے تھے کہ اسے کوئی شک ہو جائے،‘‘ وہ کہتی ہیں، جو چند دنوں کے اندر ہی اپنے شوہر اور بیٹے کو کھو دینے کی وجہ سے پوری طرح ٹوٹ چکی ہیں۔
سُورنا، ایک خاتون خانہ، کہتی ہیں کہ فیملی کو مالی خسارہ سے باہر نکلنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی۔ ’’اسپتال کا بل بھرنے کے لیے میں نے اپنے زیورات گروی رکھ دیے اور فیملی کی بچت کے سارے پیسے خرچ کر دیے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ کلیانی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ ’’میں اس کے خواب کیسے پورا کروں؟ اگر اسپتال نے ہمیں اسکیم کا فائدہ دیا ہوتا، تو میری بیٹی کا مستقبل خطرے میں نہیں پڑتا۔‘‘
ضلع میں اس اسکیم کے رابطہ کار، وجے بھوٹیکر بتاتے ہیں کہ یکم مئی سے ۱۲ مئی کے درمیان عثمان آباد کے پرائیویٹ اسپتالوں میں ایم جے پی جے اے وائی کے تحت کووڈ۔۱۹ کے صرف ۸۲ مریضوں کا علاج کیا گیا۔ بیڈ ضلع کے رابطہ کار، اشوک گائیکواڑ بتاتے ہیں کہ وہاں ۱۷ اپریل سے ۲۷ مئی کے درمیان پرائیویٹ اسپتالوں میں ۱۷۹ مریضوں نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔ یہ تعداد اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی کل تعداد کا محض چھوٹا سا حصہ ہے۔
بیڈ کے امبے جوگائی شہر میں کام کرنے والی ایک دیہی ترقیاتی تنظیم، ’مانَو لوک‘ کے سکریٹری، انیکیت لوہیا کہتے ہیں کہ صحت عامہ کے نظام کو بہتر اور مضبوط کیا جانا چاہیے تاکہ لوگوں کو پرائیویٹ اسپتالوں میں نہ جانا پڑے۔ ’’ہمارے ابتدائی طبی مراکز (پی ایچ سی) اور گاؤں کے ذیلی مراکز میں اسٹاف کی کافی کمی ہے، اس لیے لوگوں کو صحت سے متعلق خدمات اچھی طرح حاصل نہیں ہو پاتیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کی آمد کے بعد سے، ممبئی میں واقع ایم جے پی جے اے وائی کے دفتر کو پورے مہاراشٹر سے ۸۱۳ شکایتیں موصول ہوئیں – جن میں سے زیادہ تر پرائیویٹ اسپتالوں کے خلاف تھیں۔ ابھی تک، ان میں سے ۱۸۶ شکایتوں کا ازالہ کیا جا گیا ہے اور اسپتالوں نے مریضوں کے کل ۱۵ لاکھ روپے واپس کر دیے ہیں
’’یہاں تک کہ بڑے سرکاری اسپتالوں میں بھی اسٹاف کی شدید کمی ہے اور ڈاکٹروں اور نرسوں کو مریضوں کو جتنی توجہ دینی چاہیے، اتنی وہ دے نہیں پا رہے ہیں،‘‘ لوہیا بتاتے ہیں۔ ’’کئی معاملوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ پرائیویٹ اسپتالوں کا خرچ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہونے کے باوجود وہاں کا رخ اس لیے کرتے ہیں کیوں کہ سرکاری اسپتال انہیں بھروسہ نہیں دلا پاتے۔‘‘
اسی لیے، مئی میں جب وِٹھّل پھڑکے کووڈ کی وجہ سے بیمار پڑے، تو انہوں نے نزدیکی سرکاری اسپتال میں بستر تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہاں دو دن پہلے ہی ان کے بھائی لکشمن کا انتقال ہو گیا تھا، کووڈ کی وجہ سے انہیں نمونیا ہو گیا تھا۔
لکشمن نے اپنے اندر کووڈ کی علامات اپریل ۲۰۲۱ کے آخر میں محسوس کرنی شروع کیں۔ جب ان کی صحت تیزی سے بگڑنے لگی، تو وٹھل انہیں اپنے ہوم ٹاؤن، پرلی سے ۲۵ کلومیٹر دور، امبے جوگائی کے سوامی رامانند تیرتھ دیہی سرکاری میڈیکل کالج (ایس آر ٹی آر ایم سی اے) لے گئے۔ لکشمن اسپتال میں صرف دو دن رہے۔
سرکاری اسپتال میں اپنے بھائی کی موت سے خوفزدہ، وٹھل کو جب سانس لینے میں دقت ہونے لگی تو انہوں نے پرائیویٹ اسپتال کا رخ کیا۔ ’’اس اسپتال [ایس آر ٹی آر ایم سی اے] میں آکسیجن روزانہ کم پڑ جاتا ہے۔ آپ جب تک کئی بار چیخیں نہیں، یہاں کے ڈاکٹر اور اسٹاف کے لوگ توجہ نہیں دیتے۔ وہ ایک ہی بار میں بہت زیادہ مریضوں کو دیکھتے ہیں،‘‘ لکشمن کی بیوی، ۲۸ سالہ راگنی کہتی ہیں۔ ’’لوگ اس وائرس سے ڈرے ہوئے ہیں اور انہیں توجہ کی ضرورت ہے۔ انہیں ایسے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے جو انہیں بھروسہ دلائیں۔ اس لیے وٹھل نے [پرائیویٹ اسپتال میں علاج کرانے کے لیے] پیسے کے بارے میں نہیں سوچا۔‘‘
وٹھل صحت یاب ہو گئے اور انہیں ایک ہفتہ کے اندر اسپتال سے چھٹی مل گئی، لیکن یہ راحت زیادہ دنوں کی نہیں تھی۔
اسپتال نے ان سے ۴۱ ہزار روپے وصول کیے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے اپنی دواؤں کے اوپر ۵۶ ہزار روپے خرچ کیے – جو لکشمن کی تقریباً ۲۸۰ دنوں کی کمائی کے برابر ہے۔ انہوں نے اسپتال سے تھوڑی رعایت کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ’’ہمیں بل ادا کرنے کے لیے قرض لینا پڑا،‘‘ راگنی بتاتی ہیں۔
وٹھل اور لکشمن پرلی میں آٹو رکشہ چلاکر اپنی آمدنی حاصل کرتے تھے۔ ’’لکشمن اسے دن میں چلاتے تھے، اور وٹھل رات میں،‘‘ راگنی بتاتی ہیں۔ ’’دونوں میں سے ہر ایک روزانہ ۳۰۰-۳۵۰ روپے کما لیتے تھے۔ لیکن مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن لگنے کے بعد انہوں نے کچھ بھی نہیں کمایا۔ آٹورکشہ کی سواری کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ صرف ہم ہی جانتے ہیں کہ ہم نے کیسے گزارہ کیا۔‘‘
راگنی ایک خاتون خانہ ہیں اور ان کے پاس ایم اے کی ڈگری ہے، لیکن انہیں یقین نہیں ہے کہ وہ اپنے دو بچوں – سات سالہ کارتکی اور نوزائیدہ مُکند راج – کی پرورش کیسے کریں گی۔ ’’مجھے ڈر ہے کہ لکشمن کے بغیر میں ان بچوں کی پرورش کیسے کر پاؤں گی۔ مجھے اُن کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے بھی پیسے قرض لینے پڑے تھے۔‘‘
دونوں بھائیوں کا یہ آٹو رکشہ اس فیملی کے ایک کمرے کے گھر کے بغل میں درخت کے نیچے کھڑا ہے۔ اس گھر میں وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے قرض کو واپس چکانے کے لیے یہ آٹورکشہ پیسے کمانے کا واحد ذریعہ ہے۔ لیکن قرض سے چھٹکارہ پانے میں لمبا وقت لگ سکتا ہے، کیوں کہ ان کے پاس پیسے ختم ہو چکے ہیں اور پرلی کی تنگ سڑکوں پر اس آٹو رکشہ کو چلانے والا ایک ڈرائیور کم ہو گیا ہے۔
دریں اثنا، عثمان آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، کوستوبھ دیوے گاؤنگر پرائیویٹ اسپتالوں کے ذریعے حد سے زیادہ پیسے وصول کرنے کے مسئلہ کو حل کر رہے ہیں۔ انہوں نے ۹ مئی کو عثمان آباد شہر کے سہیادری ملٹی اسپیشلٹی ہاسپیٹل کو یہ کہتے ہوئے ایک نوٹس بھیجا کہ یکم اپریل سے ۶ مئی تک اسپتال نے اپنے یہاں کل ۴۸۶ مریضوں کو داخل کیا تھا، لیکن ان میں سے کووڈ کے صرف ۱۹ مریضوں کا علاج ایم جے پی جے اے وائی کے تحت کیا گیا۔
اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے سہیادری اسپتال کے ڈائرکٹر، ڈاکٹر دِگّج ڈپکے دیش مکھ نے مجھ سے کہا کہ ان کی قانونی ٹیم مجسٹریٹ کے نوٹس پر غور کر رہی ہے۔
دسمبر ۲۰۲۰ میں، دیوے گاؤنکر نے ایم جے پی جے اے وائی کو نافذ کرنے والی اسٹیٹ ہیلتھ ایشیورینس سوسائٹی کو لکھا تھا کہ وہ شینڈگے ہاسپیٹل اور ریسرچ سنٹر کے پینل میں شامل ہونے کو منسوخ کر دے۔ انہوں نے اپنے مکتوب کے ساتھ اسپتال کے خلاف شکایت کرنے والے مریضوں کی فہرست بھی منسلک کی تھی۔ یہ اسپتال عثمان آباد شہر سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور، اُمرگا میں ہے۔
شینڈگے اسپتال کے خلاف موصول ہونے والی شکایتوں میں سے ایک شکایت یہ تھی کہ اس نے کئی مریضوں کی شریان کے خون میں موجود گیس کا فرضی ٹیسٹ کیا تھا۔ اسپتال پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ اس نے دھوکہ دیکر ایک مریض کا بل وینٹی لیٹر بیڈ کے لیے بنا دیا تھا۔
مجسٹریٹ کی کارروائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ اسپتال ایم جے پی جے اے وائی نیٹ ورک کے پینل میں نہیں ہے۔ تاہم، اس کے مالک ڈاکٹر آر ڈی شینڈگے کا کہنا ہے کہ دوسری لہر کے دوران اپنی عمر کی وجہ سے وہ اس پینل سے خود ہی باہر ہو گئے تھے۔ ’’مجھے ذیابیطس بھی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں، اور اپنے اسپتال کے خلاف شکایتوں کی جانکاری سے انکار کرتے ہیں۔
پرائیویٹ اسپتالوں کے مالکوں کا کہنا ہے کہ ایم جے پی جے اے وائی مالی اعتبار سے صحیح اسکیم نہیں ہے۔ ’’ہر آپریشنل اسکیم کو وقت کے ساتھ اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسے متعارف کرائے ہوئے نو سال ہو چکے ہیں، لیکن ریاستی حکومت کے ذریعے [سال ۲۰۱۲ میں] پہلی بار شروع کیے جانے کے بعد سے اس کے پیکیج کی لاگتوں کو آج تک اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے،‘‘ ناندیڑ میں مقیم پلاسٹک سرجن، ڈاکٹر سنجے کدم کہتے ہیں۔ وہ ہاسپیٹل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے رکن ہیں، جسے حالیہ دنوں ریاست کے پرائیویٹ اسپتالوں کی نمائندگی کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ ’’اگر آپ ۲۰۱۲ سے مہنگائی پر غور کریں، تو اس کے حساب سے ایم جے پی جے اے وائی پیکیج کی رقم کافی کم ہے – نارمل چارجز کے نصف سے بھی کم،‘‘ وہ وضاحت کرتے ہیں۔
پینل میں شامل اسپتال کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ۲۵ فیصد بستر اُن مریضوں کے لیے محفوظ رکھے، جو ایم جے پی جے اے وائی کے تحت اپنا علاج کرا رہے ہیں۔ ’’اگر ۲۵ فیصد کا کوٹہ پورا ہو جائے، تو اسپتال اس اسکیم کے تحت کسی مریض کو داخل نہیں کر سکتا،‘‘ ڈاکٹر کدم کہتے ہیں۔
ایم جے پی جے اے وائی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، ڈاکٹر سُدھاکر شنڈے بتاتے ہیں کہ ’’پرائیویٹ اسپتالوں میں بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے متعدد واقعات کا پتہ چلا ہے۔ ہم اس کی تفتیش کر رہے ہیں۔‘‘
مارچ ۲۰۲۰ میں کورونا وائرس کی بیماری آنے کے بعد، ممبئی میں واقع ایم جے پی جے اے وائی کے دفتر کو پورے مہاراشٹر سے ۸۱۳ شکایتیں موصول ہوئیں – جن میں سے زیادہ تر پرائیویٹ اسپتالوں کے خلاف تھیں۔ ابھی تک، ۱۸۶ شکایتوں کا ازالہ کیا جا چکا ہے اور اسپتالوں نے مریضوں کے کل ۱۵ لاکھ روپے لوٹا دیے ہیں۔
مانَو لوک کے لوہیا کا کہنا ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو، بدعنوانی اور حد سے زیادہ فیس وصول کرنے والے پرائیویٹ اسپتالوں کو با رسوخ لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ ’’اسی لیے عام لوگوں کو ان کے خلاف کارروائی کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔‘‘
لیکن جس دن صبح کو رام لنگ سناپ کی خودکشی کی وجہ سے موت ہو گئی تھی، اُن کے ناراض گھر والے چاہتے تھے کہ دیپ اسپتال کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ اُس دن جب یہ لوگ وہاں پہنچے، تو اسپتال میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ ’’اسٹاف کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ لاش پولیس کے حوالے کر دی گئی ہے،‘‘ روی بتاتے ہیں۔
فیملی کے لوگ وہاں سے سیدھے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے پاس گئے اور شکایت درج کرائی کہ اسپتال نے رام لنگ سے پیسے مانگ کر انہیں خود کشی کے لیے اُکسایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسپتال کی لاپروائی کی وجہ سے اُن کی یہ المناک موت ہوئی، کیوں کہ اس وقت وارڈ میں اسپتال کا کوئی اسٹاف موجود نہیں تھا۔
دیپ اسپتال نے پریس کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ رام لنگ ایک ایسی جگہ پر چلے گئے تھے، جہاں وارڈ اسسٹنٹ انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ ’’یہ الزام غلط ہے کہ اسپتال نے ان سے بار بار پیسے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسپتال نے فیملی سے صرف ۱۰ ہزار روپے لیے تھے۔ ان کی خودکشی افسوس ناک ہے۔ ہم ان کی ذہنی حالت کا اندازہ نہیں لگا سکے،‘‘ بیان میں آگے کہا گیا تھا۔
پرمود مورالے اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اسپتال نے ۱۰ ہزار روپے کا بل دیا تھا۔ ’’لیکن انہوں نے ہم سے ایک لاکھ ۶۰ روپے وصول کیے۔‘‘
رام لنگ خوش نظر آ رہے تھے، راجو بائی بتاتی ہیں۔ ’’مرنے سے ایک یا دو دن پہلے انہوں نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ انہوں نے انڈے اور گوشت (مٹن) کھائے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے بارے میں بھی پوچھا تھا۔‘‘ پھر انہوں نے اسپتال کی فیس کے بارے میں سنا۔ انہوں نے اپنا درد آخری فون کال میں اپنی بیوی کو بتایا تھا۔
’’پولیس نے کہا تھا کہ وہ معاملے کو دیکھیں گے، لیکن اسپتال کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے،‘‘ پرمود بتاتے ہیں۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ غریبوں کو حفظانِ صحت کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز