’’ابھی کچھ دن پہلے، رسل وائپر سانپ میرے پیر کے بالکل قریب آ گیا تھا، اور مجھ پر حملہ کرنے ہی والا تھا۔ خوش قسمتی سے میں نے اسے وقت پر دیکھ لیا،‘‘ دتاتریہ کسوٹے بتاتے ہیں، جو کہ مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع میں شیندور گاؤں کے ایک کاشتکار ہیں۔ وہ رات میں اپنے کھیت کی سینچائی کر رہے تھے تبھی یہ خطرناک سانپ ان کے قریب آ گیا تھا۔
کرویر اور کاگل تعلقہ میں، کسوٹے جیسے کاشتکاروں کے لیے سینچائی کی خاطر رات میں موٹر پمپ چلانا زندگی کا ایک معمول بن چکا ہے، کیوں کہ یہاں پر بجلی کی سپلائی کا کوئی بھروسہ نہیں رہتا کہ کب آئے گی اور کتنی دیر کے لیے آئے گی۔
بجلی کی سپلائی کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے: بجلی کبھی رات میں آتی ہے، تو کبھی دن میں، اور وہ بھی الگ الگ وقت کے لیے آتی ہے۔ اصولی طور پر تو بجلی کی سپلائی آٹھ گھنٹے ہونی چاہیے، لیکن کبھی کبھی یہ بہت کم وقت کے لیے آتی ہے، اور بعد میں اس کی بھرپائی بھی نہیں کی جاتی۔
نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ گنّے کی فصل، جسے بڑی مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی سینچائی وقت پر نہیں ہو پاتی، جس کی وجہ سے فصل برباد ہو جاتی ہے۔ کاشتکار خود کو بے یار و مددگار محسوس کرنے لگے ہیں؛ وہ اپنے بچوں کو کاشتکاری کو ذریعہ معاش کے طور پر اپنانے سے منع کر رہے ہیں۔ نوجوانوں نے قریب کے مہاراشٹر انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (ایم آئی ڈی سی) میں ماہانہ ۷۰۰۰ سے ۸۰۰۰ روپے پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
کرویر کے ایک نوجوان کاشتکار، شری کانت چوہان کہتے ہیں، ’’اتنا کام کرنے اور مشکلات سے گزرنے کے باوجود، کاشتکاری اب منافع بخش پیشہ نہیں رہ گیا ہے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ صنعتوں میں کام کیا جائے اور اچھی تنخواہ حاصل کی جائے۔‘‘
بجلی کی کٹوتی سے کولہاپور کے کسانوں اور ان کی روزی روٹی پر پڑنے والے اثرات پر مبنی ایک مختصر فلم۔
مترجم: محمد قمر تبریز