وہ مکمل پی پی ای گیئر میں آئے، جیسے کہ جنوبی ۲۴ پرگنہ میں واقع ان کے گاؤں میں کسی اور سیارے کے لوگ اتر رہے ہوں۔ ’’وہ مجھے پکڑنے کے لیے آئے جیسے کہ میں کوئی جانور ہوں،‘‘ ہرن چندر داس کہتے ہیں۔ ان کے دوست انہیں ہارو کہتے ہیں – بلکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ اب ان کے دوست نہیں ہیں۔ حال ہی میں، وہ ان کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں۔ ’’اور لوگوں نے میری فیملی کو کیرانے کا سامان اور دودھ کی سپلائی بند کر دی۔ ہمیں کئی طرح سے پریشان کیا گیا اور ہم نے کئی راتیں بنا سوئے گزاریں۔ ہمارے سبھی پڑوسی خوف زدہ ہیں۔‘‘ ہرن چندر کا کووڈ- ۱۹ ٹیسٹ پازیٹو نہیں آیا تھا، پھر بھی ان کے ساتھ یہ سب ہوا۔
ان کا جرم: وہ ایک اسپتال میں کام کرتے ہیں۔ اور زیادہ تر طبی ملازمین ایسی ہی مخالفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ شاید ضلعی سطح کے وہ ملازم بھی، جو ان کے متاثر ہونے کے شک میں انہیں تلاش کرتے ہوئے آئے تھے۔
’’ہر کوئی ڈر رہا تھا کہ چونکہ میں اسپتال میں کام کرتا ہوں، اس لیے میں انفیکٹیڈ ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
تقریباً ۳۰ سال کے ہرن چندر، کولکاتا کے انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (آئی سی ایچ) کے مین ٹیننس روم میں کام کرتے ہیں۔ یہ ایک ٹرسٹ کے ذریعے چلایا جا رہا غیر منافع بخش اسپتال ہے، جو کولکاتا شہر کے علاوہ دیہی اور مضافاتی علاقوں کے بچوں کو خدمات فراہم کرتا ہے۔ یہ ہندوستان کا پہلا بچوں کی طبی نگہداشت کا ادارہ ہے، جسے پارک سرکس علاقے میں ۱۹۵۶ میں قائم کیا گیا تھا۔ بچوں کی جو فیملی ۲۲۰ بستروں والے اس اسپتال میں علاج کرانے آتے ہیں، ان کے لیے کسی اور اسپتال میں جانا یا وہاں کا خرچ برداشت کرنا مشکل ہے۔
کووڈ- ۱۹ اور لاک ڈاؤن نے ان کے لیے آئی سی ایچ تک پہنچنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔ ’’یہاں پہنچنا ایک مسئلہ ہے،‘‘ رتن بسواس کہتے ہیں، جو جنوبی ۲۴ پرگنہ کے ایک گاؤں سے ابھی آئے ہیں۔ ’’میں پان کے ایک کھیت میں یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتا تھا۔ امفن [۲۰ مئی کو آنے والا سمندری طوفان] نے اس کھیت کو بربادکر دیا اور میں نے اپنی آمدنی کا ذریعہ کھو دیا۔ اب میرے چھوٹے بچے کو اس کے کانوں کے پیچھے یہ انفیکشن ہو گیا ہے، اس لیے ہم اسے یہاں لائے ہیں۔ ٹرین سروِس دستیاب نہیں ہونے کے سبب، اس اسپتال تک پہنچنا مشکل تھا۔‘‘ داس جیسے لوگ اسپتال تک پہنچنے کے لیے بس اور رکشہ کے علاوہ کچھ دوری پیدل بھی طے کرتے ہیں۔
آئی سی ایچ کے ڈاکٹر وارننگ دے رہے ہیں کہ ابھی اور بھی مسائل آنے والے ہیں۔
فی الحال خون کی سپلائی میں کوئی کمی نہیں ہے، لیکن یہ بحران پیدا ہونے والا ہے، ہیمیٹولوجی شعبہ کے ڈاکٹر تارک ناتھ مکھرجی کہتے ہیں۔ ’’لاک ڈاؤن کے دوران خون عطیہ کے کیمپ کم ہو گئے ہیں۔ عام دنوں میں، ہر مہینے [جنوبی بنگال کے علاقے میں] ۶۰ سے ۷۰ خون عطیہ کے کیمپ لگتے ہیں۔ لیکن گزشتہ چار مہینوں میں – تقریباً ۶۰ کیمپ ہی لگے ہیں۔ اس سے کبھی نہ کبھی تھیلیسیمیا کے مریض، خاص طور سے دیہی علاقوں کے لوگ متاثر ہوں گے۔‘‘
’’کووڈ- ۱۹ بچوں کی طبی نگہداشت کے نظام کے لیے ایک بڑے بحران کے طور پر ابھرا ہے،‘‘ اسپتال میں اِمّیونولوجی کی ماہر، ڈاکٹر رینا گھوش کہتی ہیں، ’’لاک ڈاؤن کے سبب، دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں کئی طبی اور ٹیکہ کاری کے کیمپوں کو بند کرنا پڑا۔ مجھے ڈر ہے کہ آنے والے برسوں میں، نمونیا، خسرہ، چھوٹی چیچک اور کالی کھانسی جیسی بیماریوں سے متعلق معاملے بڑھ سکتے ہیں۔ ہم نے ہندوستان میں پولیو کو بھلے ہی ختم کر دیا ہے، لیکن یہ بھی متاثر کر سکتا ہے۔
’’ٹیکہ کاری کے عمل میں رکاوٹ اس لیے آ رہی ہے کیوں کہ سرکار نے دیگر طبی خدمات والے شعبوں کے ملازمین کو دوسرے کاموں میں لگا دیا ہے – انہیں کووڈ ڈیوٹی پر رکھا گیا ہے۔ اس لیے ٹیکہ کاری کا پورا عمل متاثر ہو رہا ہے۔‘‘
پہلے سے ہی ضرورت مند بچوں کو اسپتال کے آس پاس دیکھنا، یہ تجزیہ تشویش ناک ہے۔ مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد ۱۲-۱۴ سال کی عمر کے لوگوں کی ہے، حالانکہ کئی مریض بہت چھوٹے ہیں۔
’’میرے بچے کو لیوکیمیا ہے، اس کی اہم کیموتھیراپی کی کئی تاریخیں چھوٹ گئی ہیں،‘‘ نرمل مونڈل (بدلا ہوا نام) بتاتی ہیں۔ وہ مشرقی مدناپور کے ایک گاؤں کی ہیں اور کہتی ہیں، ’’کوئی ٹرین سروس دستیاب نہیں ہے اور میں کار کا کرایہ برادشت نہیں کر سکتی۔‘‘ ان کا دورہ اس خوف سے بھی متاثر ہوا ہے کہ ’’اگر میں اس کے علاج کے لیے اسپتال آتی ہوں، تو کورونا وائرس ہمیں بھی پکڑ لے گا۔‘‘
’’بچوں پر کووڈ کا اثر بہت زیادہ دکھائی نہیں دے رہا ہے، اور بچے زیادہ تر علامت کے بغیر محسوس ہوتے ہیں،‘‘ آئی سی ایچ میں بچوں کی طبی نگہداشت کے ماہر، ڈاکٹر پربھاس پرسون گیری کہتے ہیں۔ ’’لیکن کبھی کبھی ہم ان میں سے کچھ کو کووڈ ٹیسٹ میں پازیٹو پاتے ہیں – جو درحقیقت کسی اور علاج کے لیے یہاں آئے ہیں۔ ہمارے پاس سانس کی تکلیف والے بچوں کے لیے ایک الگ آئیسولیشن یونٹ ہے۔‘‘
دریں اثنا، ڈاکٹر بھی بدنامی کے شکار ہیں۔ ڈاکٹر تارک ناتھ مکھرجی کے بغل میں کھڑی سوما بسواس (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں: ’’چونکہ میرے شوہر ایک ڈاکٹر ہیں [دوسرے اسپتال میں] اور میں یہاں کے عملہ میں شامل ہوں، اس لیے ہم اب اپنے والد کے گھر پر رہتے ہیں۔ ہم اپنے ہی فلیٹ میں لوٹنے کے قابل نہیں ہیں کیوں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے پڑوسی اعتراض کریں گے۔‘‘
عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) نے ۱۸ مارچ کو ہی وارننگ دی تھی کہ ’’کچھ طبی ملازمین کو، بدقسمتی سے، اپنی فیملی یا معاشرہ کے ذریعے بدنام کیے جانے یا خوف کے سبب ان سے دوری بنائے جانے کا تجربہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ پہلے سے ہی چنوتی بھری حالت کو مزید مشکل بنا سکتا ہے۔‘‘
یہاں کے طبی ملازمین کا تجربہ اس وارننگ کو صحیح ثابت کر رہا ہے۔
ان میں سے کچھ لوگ چونکہ ارد گرد کے گاؤوں سے آتے ہیں، اس لیے انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کو طبی ملازمین کے کنبوں کے اندر کی پریشانیوں؛ ٹرانسپورٹ سے متعلق ان کے تکلیف دہ مسائل؛ اپنے پیشہ کے سبب سماجی بدنامی – اور ان سب چیزوں کے دردناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان سب کی وجہ سے ایک عجیب صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اسپتال کے بستر پر لوگ کم ہیں، مریضوں کی تعداد واقعی میں کم ہو گئی ہے – لیکن دباؤ بڑھ گیا ہے ۔ اسپتال کے ایک ناظم کا کہنا ہے کہ سردست ’’او پی ڈی [باہر کے مریضوں کا شعبہ]، جو عام طور پر ایک دن میں تقریباً ۳۰۰ مریضوں کو خدمات مہیا کرتا تھا، اب وہاں صرف ۶۰ مریض آ رہے ہیں‘‘ – یہ ۸۰ فیصد کی کمی ہے۔ بستروں پر مریضوں کی تعداد ۲۲۰ سے گھٹ کر تقریباً ۹۰ ہو گئی ہے، یعنی ۶۰ فیصد کی کمی۔ لیکن، ناظم کہتے ہیں، ’’ہمیں کل ملازمین کے تقریباً ۴۰ فیصد سے کام چلانا پڑے گا۔‘‘
اسٹاف کی کل تعداد ۴۵۰ ہوگی، جس میں ۲۰۰ نرسیں، ۶۱ وارڈ اسٹنٹ، ۵۶ صفائی ملازمین اور دیگر شعبوں کے ۱۳۳ ملازمین شامل ہیں۔ اور آئی سی ایچ سے مختلف سطحوں پر تقریباً ۲۵۰ ڈاکٹر جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے، ۴۰-۴۵ کل وقتی اِن-ہاؤس کام کرتے ہیں، اور ۱۵-۲۰ صلاح کار روزانہ آتے ہیں۔ بقیہ رضاکارانہ او پی ڈی خدمات اور دیگر شعبوں میں سرجن، (تعلیمی اسپتال میں) فیکلٹی کے طور پر دورہ کرتے ہیں۔
لاک ڈاؤن نے ان سبھی کے لیے سنگین چیلنجز کھڑے کیے ہیں۔ جیسا کہ ڈپٹی چیف آپریٹنگ آفیسر، آرادھنا گھوش چودھری بتاتی ہیں، ’’مریضوں اور ملازمین کی صحت کا انتظام کرنا، مختلف کاموں کے لیے طبی ملازمین کو تعینات کرنا، یہ سب اب ایک مسئلہ ہے۔ ملازمین میں سے کئی یہاں تک پہنچنے یا اپنے گھر لوٹنے کے قابل نہیں ہیں کیوں کہ کوئی ٹرین دستیاب نہیں ہے اور، پہلے، کوئی بس سروِس بھی نہیں تھی۔‘‘ چند طبی ملازمین اسپتال کے احاطہ میں ہی قیام کیے ہوئے ہیں، جب کہ کچھ ملازمین جو پہلے سے ہی اپنے گاؤوں میں تھے، وہ ’’سماجی بدنامی سے بچنے کے لیے‘‘ اپنی ڈیوٹی پر لوٹے نہیں ہیں۔
اسپتال کو اب مالی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آئی سی ایچ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے، جہاں ڈاکٹر اپنی خدمات کے لیے کوئی اجرت نہیں لیتے ہیں اور دیگر فیس بہت کم ہے۔ (یہ اسپتال اکثر انتہائی غریب لوگوں کی فیس پوری طرح سے معاف کر دیتا ہے)۔ بستر پر مریضوں کی کمی اور او پی ڈی میں آنے والوں کی تعداد میں گراوٹ کے سبب، وہ چھوٹے ذرائع بھی محدود ہو گئے ہیں – لیکن کووڈ کے سبب اسپتال کے اخراجات میں موجودہ لاگتوں سے کم از کم ۱۵ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
’’اس میں صفائی، پی پی ای اور کووڈ سے متعلق دیگر لاگتیں شامل ہیں،‘‘ آرادھنا گھوش چودھری بتاتی ہیں۔ ان بڑھتی ہوئی لاگتوں کو وہ اپنے مریضوں پر نہیں تھوپ سکتے کیوں کہ ’’ہم یہاں پر جس گروپ کی خدمت کرتے ہیں، وہ زیادہ تر دیہی اور مضافاتی علاقوں کے بی پی ایل [خط افلاس کے نیچے کے افراد] ہیں۔ وہ اسے کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟‘‘ ان کے پاس تھوڑی بہت جو بھی آمدنی تھی، لاک ڈاؤن نے اسے ختم کردیا ہے۔ ’’کبھی کبھی ہمارے ڈاکٹر اپنی جیب سے اس حالت میں بڑھتی اضافی لاگت کی ادائیگی کرتے ہیں۔ فی الحال، عطیہ سے ہمارا کام چل رہا ہے، لیکن اس کی مقدار اتنی نہیں ہے کہ اس سے لمبے وقت تک ہمارا کام چل سکے۔‘‘
برسوں سے صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر میں ناکامی اب ہمیں پریشان کر رہی ہے، آئی سی ایچ کے ڈپٹی ڈائرکٹر ارونالوک بھٹاچاریہ کہتے ہیں۔ مختلف اسباب کے درمیان، وہ کہتے ہیں، ’’پہلی صف کے طبی ملازمین اور عام مریض ہی حقیقی متاثرین ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز