صبیح سویرے سنیتا ساہو نے تھوڑی کوشش کے بعد کروٹ بدلی اور پوچھا، ’’بچے کہاں ہیں؟‘‘ ان کے شوہر بودھ رام نے کہا کہ وہ سوئے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے چین کی سانس لی۔ وہ رات بھر سو نہیں پائی تھیں، جس کی وجہ سے بودھ رام تھوڑے فکرمند تھے۔ وہ اکثر مذاق میں ان سے کہتے تھے کہ تم تو کبھی بھی، کہیں بھی سو سکتی ہو۔
لیکن، ۲۸ اپریل کی رات کو جب بودھ رام اور سنیتا کے تینوں بیٹوں (جن کی عمر ۱۲ سے ۲۰ سال کے درمیان ہے) نے باری باری سے، گرم سرسوں کے تیل سے اپنی ماں کے ہاتھ، پیر، سر اور پیٹ کی مالش کرنی شروع کی، تو وہ درد سے کراہ اٹھیں۔ وہ بڑبڑائیں، ’’مجھے کچھ ہو رہا ہے۔‘‘ یہی بودھ رام کی اُس صبح کی یادیں ہیں۔
ساہو فیملی لکھنؤ ضلع کے کھرگاپور جاگیر گاؤں میں ایک جھونپڑی میں رہتی ہے۔ تقریباً دو دہائی قبل وہ چھتیس گڑھ کے بیمیترا ضلع میں واقع اپنے گاؤں، مارو سے آکر چِنہٹ بلاک کے اِس گاؤں میں بس گئے تھے۔ ۴۲ سالہ بودھ رام تعمیراتی مقامات پر راج مستری کا کام کرتے ہیں؛ ۳۹ سالہ سنیتا خاتون خانہ تھیں۔
اپریل میں کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر نے اتر پردیش میں کافی تباہی مچائی تھی۔ ۲۴ اپریل کو ریاست میں اس وبائی مرض کے ۳۸۰۵۵ نئے معاملے درج کیے گئے – جو کہ ایک دن میں اب تک درج کی گئی سب سے بڑی تعداد تھی، حالانکہ اس بات کو لیکر تشویش ظاہر کی جا رہی تھی کہ یوپی میں یہ تعداد کم کرکے بتائی گئی ہے۔
لکھنؤ کے رام منوہر لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (آر ایم ایل آئی ایم ایس) کے شعبہ کمیونٹی میڈیسن کی اسسٹنٹ پروفیسر، رشمی کماری کہتی ہیں، ’’کووڈ کے اصل معاملوں کی تعداد چار سے پانچ گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ معاملے کم اس لیے درج ہو رہے ہیں کیوں کہ رسوائی کی وجہ سے لوگ ٹیسٹ کرانے کے لیے آگے نہیں آ رہے ہیں۔ صحیح تصویر کا پتہ لگانا مشکل ہے۔‘‘
ساہو فیملی کو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ سنیتا کووڈ۔۱۹ سے متاثر نہیں تھیں کیوں کہ یہ فیملی میں کسی اور کو نہیں تھا۔ حالانکہ، سنیتا بخار، بدن درد، اور ڈائریا میں مبتلا تھیں – اور یہی کورونا وائرس کی بھی علامتیں ہیں۔
۲۶ اپریل کی صبح، جب انہوں نے پہلی بار درد اور کمزوری کی شکایت کی تھی، تو بودھ رام انہیں سائیکل پر بیٹھا کر ۳ کلومیٹر دور ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر سے پوچھا بھی کہ کہیں انہیں اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے۔
بودھ رام یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر نے ان سے کہا تھا، ’’آپ انہیں کہاں لے جائیں گے؟ کسی بھی اسپتال میں جگہ نہیں ہے۔ انہیں یہ دوائیں دیجئے، یہ تین دن میں ٹھیک ہو جائیں گی۔‘‘ ڈاکٹر نے پاس کے ہی ایک پیتھالوجی لیب کو فون کرکے ان کے خون کا سیمپل لینے کو کہا۔ کووڈ۔۱۹ کے لیے ان کا ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا۔
اس ٹیسٹ کے لیے ساہو کو ۳۰۰۰ روپے خرچ کرنے پڑے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے مزید ۱۷۰۰ روپے ڈاکٹر کی فیس اور اس کی دوا کے لیے دیے۔ ڈاکٹر نے ٹیبلیٹ اور کیپسول کو دوا کے پتّے سے نکالا اور بھورے رنگ کے کاغذ کے پاؤچ میں پیک کر دیا، اور طاقت کے لیے گہرے بھورے رنگ کے سیال والی ایک شیشی دی۔
اسی دن شام کو ۵ بجے، بودھ رام سائیکل سے ہی سنیتا کو دوبارہ کلینک لے گئے، حالانکہ کمزور ہونے کی وجہ سے وہ وہاں جانے کے لیے بار بار منع کرتی رہیں۔ تب تک ان کے بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ آ چکی تھی۔ رپورٹ میں اینزائم سیرم گلوٹیمک آکسیلو ایسیٹک ٹرانسیمینیس کا لیول کافی بڑھا ہوا تھا، جس سے (دیگر اعضاء کے درمیان) لیورمیں خرابی کا اشارہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ سنیتا کو ٹائیفائیڈ ہے۔ بودھ رام نے طاقت کے لیے ڈرپ چڑھانے کی درخواست کی، لیکن ڈاکٹر نے یہ کہتے ہوئے اسے خارج کر دیا کہ اس کی دواؤں سے وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔
حالانکہ ٹائیفائیڈ اپنے آپ میں صحت سے متعلق ایک عالمی مسئلہ ہے، جیسا کہ ایک تحقیقی مقالہ میں کہا گیا ہے، ’’...کووڈ۔۱۹ کے مریضوں میں [ٹائیفائیڈ کے لیے] فالس پازیٹو ویڈال ٹیسٹ ترقی پذیر ممالک میں صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے... اب ٹائیفائیڈ اور ڈینگو فالس پازیٹو کو احتیاط کے ساتھ سمجھنے اور کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے دوران اس قسم کے مریضوں کی نگرانی اور لگاتار فالو اپ کی ضرورت ہے۔‘‘
احتیاط برتنے کی تصدیق کرتے ہوئے، رام منوہر
لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے کووڈ۔۱۹ اسپتال کے ماہر انیستھیسیا، پروین
کمار داس کہتے ہیں، ’’کووڈ۔۱۹ اور ٹائیفائیڈ اینٹی باڈیز کے درمیان کچھ کراس
پازیٹویٹی ہے۔ جہاں تک ہمارا تجربہ ہے، تقریباً ۱۰ فیصد مریض جنہیں رپورٹ کے مطابق
ٹائیفائیڈ سے متاثر مان لیا گیا تھا، وہ اصل میں کووڈ سے متاثر تھے۔‘‘
سُنیتا، جنہیں ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق ٹائیفائیڈ تھا، کا انتقال ۲۹ اپریل کی صبح اس واقعہ کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہی ہو گیا، جب وہ اپنے بچوں کے بارے میں پوچھ رہی تھیں – یعنی بخار اور دیگر علامتیں ظاہر ہونے کے بمکشل تین دن بعد۔ اس دن جب بودھ رام کو لگا کہ شاید سنیتا کو اب نیند آ گئی ہے، تو انہوں نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا ہی تھا کہ وہ دہاڑیں مار کر رونے لگے، جس سے ان کے بچے اٹھ گئے۔ ’’اور اس طرح وہ ہمیشہ کے لیے سو گئی۔‘‘ یہ ساری باتیں انہوں نے کچھ ہفتے پہلے تب بتائیں جب وہ تکلیف اور ناقابل تلافی نقصان کی یہ کہانی مجھے سلسلہ وار طریقے سے بتا رہے تھے۔
سنیتا کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے فیملی کو ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی، جسے کھرگاپور جاگیر کے پردھان، ربیلا مشرا نے فراہم کیا۔ نیلی روشنائی سے انہوں نے کاغذ پر لکھا، ’۲۹ اپریل، ۲۰۲۱ کو ان کا اپنی جھونپڑی میں انتقال ہوا‘۔ اس میں موت کی وجہ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
اس لیے، سنیتا کی موت کو کووڈ کی وجہ سے ہوئی اموات میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اتر پردیش اور دیگر مقامات پر کووڈ کے معاملوں کی انڈر رپورٹنگ کی تشویش ناک صورتحال کے ساتھ ہی، عالمی سطح پر بھی یہ تشویش کا باعث ہے کہ دنیا بھر میں موت کے صحیح اعداد و شمار درج کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا ماننا ہے، ’’...شاید بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر کووڈ۔۱۹ سے متعلق اموات کے اعداد و شمار کو کم کرکے دکھایا جا رہا ہے۔ ’زیادہ اموات‘ کہنے کا مطلب ہے کہ ’عام‘ حالات میں ہوئی اموات کے مقابلے کہیں زیادہ موتیں ہوئی ہیں۔ یہ نہ صرف تصدیق شدہ اموات کو درج کرتا ہے، بلکہ کووڈ۔۱۹ سے ہوئی ان اموات کو بھی شامل کرتا ہے، جن کا نہ تو پتہ لگایا جا سکا اور نہ ہی رپورٹ کی گئی تھی، ساتھ ہی مکمل طور پر پیدا شدہ بحران کے سبب ہونے والی اموات کو بھی درج کرتا ہے۔ کووڈ۔۱۹ سے ہوئی تصدیق شدہ اموات کے مقابلے یہ زیادہ وسیع اور درست معلومات فراہم کرتا ہے۔‘‘
صحیح طریقے سے تشخیص نہ کیے گئے اور فوری طور پر کووڈ سے جوڑ دیے گئے اس قسم کے بہت سے معاملوں میں دل کی بافتوں میں سوجن پایا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے آکسیجن کی سپلائی رک جاتی ہے اور نتیجتاً دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔
لکھنؤ سے تقریباً ۵۶ کلومیٹر دور، سیتاپور ضلع کے محمود آباد بلاک کے میرا نگر گاؤں کی سرن فیملی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ۲۲ اپریل کی دوپہر میں، ۵۷ سالہ رام سرن کو تیز درد ہوا۔ ان کی بیوی، ۵۶ سالہ رام وتی ہاتھ سے چھوکر درد کی جگہ بتانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
رام وتی اس وقت لکھنؤ میں تھیں – وہ شہر جہاں وہ اپنے شوہر کے ساتھ ۱۶ سال کی عمر میں آئی تھیں۔ شہر کے شمال میں واقع علی گنج علاقے میں جہاں میاں بیوی اپنے تین بچوں کے ساتھ رہتے آئے تھے، رام سرن وہیں اپنی چھوٹی سی دکان میں پانی کی بوتل، چپس، سافٹ ڈرنکس اور سگریٹ فروخت کرتے تھے۔ کچھ مہینے پہلے ان تمام چیزوں کے ساتھ وہ فیس ماسک بھی بیچنے لگے تھے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے دکان بند ہونے کے سبب، رام سرن کئی بار اپنے گاؤں اپنا پشتینی گھر دیکھنے گئے تھے۔ اُس دوران گھر کا خرچ رام وتی کے بطور گھریلو ملازمہ کام کرنے سے ہونے والی کمائی سے چلتا تھا۔
رام سرن نے جب بے چینی کی شکایت کی، تو ان کے بیٹے راجیش کمار، جو فوٹوکاپی کی مشین چلاتے ہیں، انہیں آناً فاناً میں تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور واقع محمود آباد کے کمیونٹی ہیلتھ سنٹر (سی ایچ سی) لے گئے۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے رام سرن کو دو انجیکشن لگائے۔
راجیش اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’میرے والد سانس لینے کے لیے تڑپ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ہمارے پاس ایک چھوٹا آکسیجن سیلنڈر ہے، اس سے کام نہیں چلے گا، اس لیے انہیں فوراً ضلع اسپتال [گاؤں سے تقریباً ۸ کلومیٹر دور] لے جانا ہوگا۔‘‘ ۱۰۸ نمبر (ریاست میں سروس کے لیے مرکزی نمبر) ڈائل کرکے ایمبولینس بلائی گئی۔ ۲۲ اپریل کی دوپہر ڈھائی بجے کے آس پاس جب انہیں ایمبولینس میں شفٹ کیا جا رہا تھا، رام سرن نے تبھی دم توڑ دیا۔
راجیش بتاتے ہیں، ’’وہ لگاتار یہی کہتے رہے، ’میں اب نہیں بچوں گا‘۔ وہ تو بالکل صحت مند تھے، لیکن انہوں نے آخری سانس لی۔‘‘
کوئی ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں جاری کیا گیا اور اسی شام رام سرن کی گاؤں میں ہی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔ بھلے ہی سی ایچ سی کے ڈاکٹر نے ان کے پرچے پر ’کووڈ ۱۹ اینٹیجن ٹیسٹ پازیٹو‘ لکھا تھا، ان کی آخری رسومات بغیر کوئی احتیاط برتے ہی ادا کر دی گئیں، کیوں کہ ان کی فیملی کو ابھی بھی لگتا ہے کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔
رام سرن کو سی ایچ سی میں ضروری دیکھ بھال نہ ملنے سے ریاست کے گاؤوں اور قصبوں میں طبی خدمات کی خستہ حالت کا پتہ چلتا ہے۔ ۱۷ مئی کو الہ آباد ہائی کورٹ کے دو ججوں کی بینچ نے بھی اس طرح کی کمی پر تشویش ظاہر کی تھی۔
لیکن، یہاں بات صرف سی ایچ سی یا ضلع اسپتالوں کی نہیں ہے، جو وبائی مرض میں مناسب طبی خدمات فراہم نہیں کر سکے۔ اور جیسا کہ کچھ مہینے بعد موریہ فیملی کا تجربہ رہا، وبائی مرض کے دوران راجدھانی لکھنؤ میں بھی طبی خدمات کی حالت بہت زیادہ اچھی نہیں تھی۔
۱۲ اپریل کو لکھنؤ کے چنہٹ اسپتال میں داخل ہوئے ۴۱ سال کے سنیل کمار موریہ نے بھی اپنے بھتیجے پون سے کہا: ’’میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔ تم مجھے اس اسپتال میں کیوں رکھ رہے ہو۔ اگر تم مجھے گھر لے چلوگے، تو میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔‘‘
اس سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے، سنیل موریہ کو بخار ہوا تھا۔ انہیں کھانسی بھی آ رہی تھی۔ لیکن، انہیں یہ دقت طویل عرصے سے تھی، اس لیے ان کی فیملی نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ ۳۰ سالہ پون یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے کہا، ’’مجھ میں چلنے کی بھی طاقت نہیں رہ گئی ہے،‘‘ تو ان کی فیملی کو تشویش ہونے لگی۔
موریہ فیملی سنٹرل لکھنؤ کے گومتی نگر علاقے کے پاس واقع چھوٹی جُگولی نام کی جھگی جھونپڑی میں رہتی ہے۔ یہاں پر بہت سے مہاجر کنبے رہتے ہیں۔ سنیل کمار یہاں سلطان پور ضلع کے جے سنگھ پور بلاک میں واقع بیرسنگھ پور گاؤں سے، دو دہائی سے بھی زیادہ وقت پہلے آئے تھے۔ وہ بطور بلڈنگ کنٹریکٹر کام کرتے ہوئے مزدوروں کو تعمیراتی مقامات پر کام دیتے تھے۔
تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے دائرے میں پھیلی گھنی آبادی والی چھوٹی جُگولی اور اس کے ہی ہم نام، بڑی جُگولی کے درمیان ایک پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) اور چھ آنگن واڑی ہیں۔
ان میں سے ایک آنگن واڑی میں تعینات آشا کارکن (منظور شدہ سماجی صحت کارکن) نے کہا کہ وبائی مرض کی شروعات سے ہی یہاں کوئی بیداری کیمپ نہیں لگا، نہ ہی علاقے میں کوئی فیس ماسک اور سینیٹائزر تقسیم کیے گئے۔ انتظامیہ کی کارروائی کے ڈر سے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ تقریباً ۱۵ ہزار کی آبادی والی اس جگہ پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ کورونا سے متاثر ہوئے ہیں، لیکن نہ تو ان کا کوئی ٹیسٹ ہوا ہے اور نہ ہی متاثرین کی فہرست میں ان کے نام درج ہیں۔
جو ۱۵۱۷ کنبے ان کے دائرے میں آتے ہیں، رپورٹ کے مطابق وہاں ایک بھی موت کورونا کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ انہوں نے کچھ مہینے پہلے مجھ سے ایک گفتگو کے دوران بتایا، ’’لوگ سردی، کھانسی اور بخار کی وجہ سے مر رہے ہیں، لیکن کوئی بھی ٹیسٹ نہیں کروانا چاہتا۔ مارچ ۲۰۲۰ میں ہم سے روزانہ ۵۰ گھروں کا سروے کرتے ہوئے کورونا کی علامتوں والے مریضوں کا پتہ لگانے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب میں باہر نہیں جاتی، کیوں کہ اس میں بہت خطرہ ہے۔ میں نے اپنے علاقے میں لوگوں کا ایک گروپ بنا لیا ہے اور ان سے فون پر ہی اپ ڈیٹ دینے کے لیے کہتی ہوں۔‘‘
لہٰذا، جب مقامی طبی کارکن آسانی سے دستیاب نہیں تھے اور پی ایچ سی کے ڈاکٹر کی ڈیوٹی کہیں اور لگا دی گئی تھی، موریہ بیمار پڑے تو آس پاس کوئی نہیں تھا جس سے مدد مانگی جا سکے۔
اس لیے، ادھر ادھر کی بھاگ دوڑ کی بجائے پون، جو خود سائنس گریجویٹ ہیں اور ایک ڈاکٹر کے کلینک پر کام کرتے ہیں، اپنے چچا کو قریب کے ہی ایک پرائیویٹ اسپتال لے گئے۔ وہاں ان سے اینٹیجن ٹیسٹ کے لیے ۵۰۰ روپے لیے گئے، جوکہ نگیٹو آیا۔ پھر وہ انہیں تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور واقع ٹی ایس مشرا میڈیکل کالج اور اسپتال لے گئے، جہاں انہیں بتایا گیا کہ اینٹیجن ٹیسٹ بھروسہ مند نہیں ہے اور اس لیے ان کے چچا کو بیڈ الاٹ نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن، ایمرجنسی وارڈ میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے انہیں ایک نسخہ دیا، جس پر دیگر دواؤں کے ساتھ آئیورمیکٹن، وٹامن سی، اور زنک کی ٹیبلیٹس لکھی تھیں، جو عام طور پر کووڈ۔۱۹ کی علامت ہونے پر دی جاتی ہیں۔
تب تک سنیل موریہ کا آکسیجن لیول ۸۰ تک آ چکا تھا۔ فیملی نے دو اور اسپتالوں میں بیڈ کے لیے کوشش کی، لیکن وہاں انہیں بتایا گیا کہ انہیں وینٹی لیٹر پر رکھے جانے کی ضرورت ہے، جو اُن اسپتالوں کے پاس نہیں تھا۔ تقریباً چار گھنٹے کی دوڑ بھاگ کے بعد جب آخرکار ایک اسپتال انہیں داخل کرنے کے لیے راضی ہو گیا، موریہ تب تک آکسیجن سیلنڈر کے سہارے تھے۔ پھر ایک اور ٹیسٹ کیا گیا، اور اس بار آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ ہوا۔
۱۲ اپریل کو کچھ گھنٹے تک سانس لینے کے لیے جدوجہد کرنے کے بعد سنیل کی موت ہو گئی۔ لکھنؤ میونسپل کارپوریشن کے ذریعے جاری کیے گئے ڈیتھ سرٹیفکیٹ (آخری رسومات کے لیے ضروری) میں موت کا سبب دل کا دورہ بتایا گیا۔ دو دن بعد آئی آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کی رپورٹ میں یہ صاف لکھا ہوا تھاکہ وہ کووڈ۔۱۹ پازیٹو تھے۔
پون کہتے ہیں، ’’ہفتے بھر میں سب ختم ہو گیا۔ بیماری کی جانچ نے ہمیں ہرا دیا۔‘‘
لکھنؤ میں واقع وگیان فاؤنڈیشن، جو شہری بستیوں، بے گھروں اور یومیہ مزدوروں کے لیے کام کرتا ہے، کی پروگرام مینیجر رِچا چندرا کہتی ہیں، ’’وبائی مرض کی دوسری لہر اور طبی خدمات کے لیے مالی وسائل کی کمی نے شہری غریبوں کو صحیح تشخیص کے بغیر ہی موت کے دہانے پر چھوڑ دیا۔ شہری غریب معمولی کام اور سماجی تحفظ حاصل کرتے ہوئے، بیداری کی کمی کے سبب بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں رہتے ہیں – اور اب انہیں کووڈ ٹیسٹیڈ اور کووڈ متاثر کہلانے کا ڈر اور بدنامی مزید ستانے لگی ہے۔‘‘
ٹیسٹنگ سے جڑی تشویشوں میں ایک یہ بات بھی جڑی ہوئی ہے کہ اینٹیجن اور آر ٹی پی سی آر دونوں ہی ٹیسٹ سے غلط نتیجے آ سکتے ہیں۔
رام منوہر لوہیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے مائیکرو بائیو لوجی ڈپارٹمنٹ کی صدر، جیوتسنا اگروال کہتی ہیں، ’’آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ کے غلط نتیجے کے پیچھے کچھ ملے جلے اسباب ہیں۔ یہ ٹیسٹ آر این اے کے پھیلاؤ کے اصول پر مبنی ہے، جو ڈی این اے کے بالکل برعکس بقا کے لیے [نقل و حمل کے دوران] خاص حالت کا مطالبہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی، سواب کلیکشن ٹھیک سے نہیں کیا گیا ہوگا یا استعمال کیے گئے کٹ کو آئی سی ایم آر [انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ] سے منظوری نہیں ملی ہوگی۔ اینٹیجن ٹیسٹ جلدی نتیجہ دیتا ہے، لیکن اس میں آر این اے کا پھیلاؤ نہیں ہوتا، تو یہ ایک طرح سے بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے جیسا ہی ہے۔‘‘
سنٹرل لکھنؤ کے مانک نگر علاقے کے گڑھی کنورا کے رہنے والے ۳۸ سالہ شعیب اختر کی آر ٹی پی سی آر رپورٹ نگیٹو آئی۔
اختر اپریل کے دوسرے ہفتہ میں ہی چیچک سے ٹھیک ہوئے تھے۔ پھر وہ روزہ رکھنے کی ضد کرنے لگے (رمضان ۱۳ اپریل کو شروع ہوا تھا)، حالانکہ ان کی ماں، ۶۵ سالہ صدرالنساء نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔
۲۷ اپریل کو شعیب کو کھانسی آنی شروع ہوئی اور وہ ہانپنے لگے۔ ان کی فیملی کے لوگ انہیں آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ اور سی ٹی اسکین کے لیے ایک پرائیویٹ پیتھالوجی لیب لے گئے، جہاں اس کا خرچ ۷۸۰۰ روپے آیا۔ کووڈ رپورٹ کے نگیٹو آنے کے بعد بھی رپورٹ میں ’وائرل نمونیا‘ کی علامتیں مل رہی تھیں۔ لیکن، نہ تو کسی پرائیویٹ کلینک نے اور نہ ہی کسی سرکاری اسپتال نے انہیں اپنے یہاں داخل کیا، کیوں کہ ان کی کووڈ رپورٹ نگیٹو تھی۔ وہ کووڈ کے معاملوں کو ترجیح دے رہے تھے، اسپتال میں بیڈ خالی نہیں تھے، اور دوسری نان ایمرجنسی خدمات ہولڈ پر تھیں۔
فیملی کے ذریعے گھر پر ہی آکسیجن سیلنڈر کا انتظام کیے جانے کے باوجود، سانس لینے میں پریشانی کے سبب ۳۰ اپریل کو شعیب کی جان چلی گئی۔ صدرالنساء بتاتی ہیں، ’’وہ زور زور سے ہانپنے لگا اور اس کے منھ سے جھاگ نکلنے لگا۔‘‘
وہ اپنے بیٹے کو ایک ’’ہنرمند الیکٹریشین‘‘ کہتی ہیں، جسے حال ہی میں قطر میں کام ملا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس سے پہلے کہ کام کے سلسلے میں اسے ویزہ مل پاتا، موت گھر کے دروازے تک آئی اور اسے دوسری دنیا کا ویزہ دے دیا۔‘‘
اختر کو گھر سے تقریباً تین کلومیٹر دور، پریم وتی نگر کے تکیہ میران شاہ کی زمین میں دفن کر دیا گیا۔ جاری کیے گئے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی۔ حالانکہ، صدرالنساء کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ ان کے بیٹے کو کووڈ۔۱۹ تھا، کیوں کہ چیچک کی وجہ سے ان کی مرض سے لڑنے کی طاقت کمزور ہوئی ہوگی۔
۱۴ جون، ۲۰۲۰ کو حکومت ہند نے ایک نوٹیفیکیشن میں کہا تھا، ’’...اس قسم کے ممکنہ مریضوں کی لاش کو بغیر کسی تاخیر کے ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دیا جائے اور اس کے لیے کووڈ۔۱۹ کی تصدیق کرنے والی رپورٹ کا انتظار نہ کیا جائے۔‘‘
اس کا سیدھا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں میں مرض کی علامتیں موجود ہیں، لیکن ٹیسٹ رپورٹ نگیٹو آئی، ان کی موت کو کووڈ۔۱۹ سے ہوئی اموات کی فہرست میں شمار نہیں کیا گیا۔
اُنّاؤ ضلع کی بیگھاپور تحصیل کے قطب الدین گڑھیوا گاؤں کے رہائشی اشوک کمار یادو کا نام بھی موت کی اسی نظر انداز کی گئی فہرست میں آتا ہے۔ ریاست کے بجلی محکمہ میں ٹھیکہ پر کام کر رہے ۵۶ سالہ اشوک نے مقامی کیمسٹ سے کھانسی اور بخار کی دوا لی۔ انہیں یہ تکلیف ۲۲ اپریل سے ہی تھی۔ جب کھانسی نے مزید خطرناک صورت اختیار کر لی اور جسم میں کمزوری آ گئی، تو ان کی فیملی انہیں ۲۵ اپریل کی رات کو ۴۵ کلومیٹر دور واقع ضلع اسپتال لے گئی۔ ان کا آر ٹی پی سی آر ٹیسٹ ہوا، لیکن انہیں داخل نہیں کیا گیا۔ اگلے دن جیسے ہی وہ بستر سے بیت الخلاء جانے کے لیے اٹھے، لڑکھڑا کر زمین پر گرے اور ان کی اسی وقت موت ہو گئی۔
۵۱ سالہ خاتون خانہ اور ان کی بیوی، وملا کہتی ہیں، ’’ہاں، بس ایک جھٹکے میں ہی۔‘‘
فیملی میں وملا اور تین بیٹے ہیں، جن کی عمر ۱۹ سے ۲۵ سال کے درمیان ہے۔ ان کی فیملی نے بغیر کوئی احتیاط برتے ان کی آخری رسومات ادا کر دیں۔ دو دن بعد آئی ٹیسٹ رپورٹ میں پتہ چلا کہ وہ کووڈ۔۱۹ پازیٹو تھے۔ وہیں ضلع اسپتال سے جاری کیے گئے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کا سبب ’کارڈیو ریسپیریٹری فیلیور‘ (جسم میں آکسیجن کی سپلائی کا بند ہو جانا) لکھا ہوا تھا۔
ریاست کے محکمہ صحت کے ایڈیشنل ڈائرکٹر گرجا شنکر واجپئی، جو لکھنؤ میں کووڈ۔۱۹ کا نظم و نسق دیکھتے ہیں، نے کہا، ’’ہم نے کوشش کی ہے کہ کووڈ۔۱۹ سے ہونے والی ساری موتیں ریکارڈ کی جائیں، پھر بھی یہ سچ ہے کہ ہر معاملے میں ٹیسٹ نہیں کیا جا سکا ہے اور کچھ معاملوں میں نتیجے تاخیر سے آئے ہیں۔ حالانکہ، اب ہم اس معاملے میں زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔‘‘
ابھی بھی، اس قسم کے کتنے معاملوں اور اموات کی رپورٹنگ نہیں ہوئی اور جنہیں کبھی بھی وبائی مرض سے ہوئی اموات میں شمار نہیں کیا جائے گا، شاید اس کا پتہ کبھی نہیں چل پائے گا۔
اُنّاؤ میں دُرگیش سنگھ سے ملے ان پٹ کے ساتھ۔
مترجم: محمد قمر تبریز