’’اگر کووڈ- ۱۹ نہیں گیا، تو یہ میرے کھیتوں میں دھان کی آخری فصل ہو سکتی ہے،‘‘ عبدالرحمن نے کہا۔ وہ وسطی کشمیر کے گاندر بل ضلع کے ناگ بل گاؤں میں، فیملی کے کھیت پر دن میں سخت کام کرنے کے بعد تھک چکے ہیں اور پانی پی رہے ہیں، جو ان کی بیوی، حلیمہ نے ان کے لیے اسٹیل کے گلاس میں ڈالا ہے۔
وہ فیملی کے چھوٹے سے کھیت – ایک ایکڑ سے بھی کم – پر ۱۰ سال کے بعد کام کر رہے تھے۔ ’’میں نے خود سے یہاں کام کرنا بند کر دیا تھا کیوں کہ مہاجر مزدور [عام طور سے بہار اور اترپردیش کے] کم وقت میں زیادہ کام کرتے ہیں، جس سے مجھے پیسے کی بچت ہوتی ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’لیکن اب، اگر ’باہر کے مزدور‘ نہیں آتے ہیں، تو مجھے دھان کی کھیتی چھوڑنی پڑ سکتی ہے،‘‘ سابق سرکاری ملازم، ۶۲ سالہ عبدالرحمن نے کہا۔
’’میں تقریباً ۱۵ برسوں بعد فصل کی کٹائی کے موسم میں اپنے کھیت پر ہوں۔ ہم دھان کی کٹائی کرنا بھی بھول گئے ہیں،‘‘ ۶۰ سالہ حلیمہ نے کہا۔ پچھلے مہینے فصل کٹائی کے دوران، وہ اپنے شوہر اور بیٹے، ۲۹ سالہ علی محمد کے لیے دو کلومیٹر دور واقع اپنے گھر سے کھانا لا رہی تھیں۔ ان کا بیٹا دیگر وقت میں ریت کھودنے اور تعمیراتی مقام پر یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتا ہے۔
وسطی کشمیر کے دھان کے کھیتوں میں، مہاجر مزدوروں کو عام طور پر ایک کنال (۸ کنال ۱ ایکڑ کے برابر ہوتا ہے) میں لگی دھان کی فصل کو کاٹنے کے ۱۰۰۰ روپے ملتے ہیں، اور ایک ٹیم کی شکل میں کام کرنے والے ۴-۵ مزدور ایک دن میں ۴-۵ کنال کاٹ لیتے ہیں۔ مقامی مزدور زیادہ پیسے مانگتے ہیں – یومیہ مزدوری کے طور پر فی کس ۸۰۰ روپے، اور چار مزدور عام طور پر ایک دن میں ۱ کنال (شاید ہی کبھی ڈیڑھ یا ۲) کاٹتے ہیں۔ یعنی فی کنال کل ۳۲۰۰ روپے۔
مارچ سے لاک ڈاؤن – جو ۵ اگست، ۲۰۱۹ کو دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کے سبب کئی مہینوں کی تالا بندی، جب تمام غیر مقامی لوگوں کو ۲۴ گھنٹے کے اندر کشمیر چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا، کے فوراً بعد آیا – کا مطلب ہے کہ شاید ہی کوئی مہاجر مزدور کھیتی کے کام کے لیے دستیاب ہے۔ کچھ ہی مزدور رک گئے تھے اور انہوں نے اپریل- مئی میں دھان کی بوائی کے موسم میں کھیتوں میں کام کیا تھا – لیکن یہاں کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اگست- ستمبر میں کٹائی کا کام زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
ناگ بل سے تقریباً دو کلومیٹر دور، داریند گاؤں میں اشتیاق احمد راتھر، جن کے پاس سات کنال زمین ہے اور جو دہاڑی مزدور کے طور پر بھی کام کرتے ہیں، نے کہا، ’’اس کٹائی کے موسم میں ایک کنال کے لیے چار مقامی مزدوروں کی ٹیم ۳۲۰۰ روپے لے رہی ہے۔ ہم اتنا برداشت نہیں کر سکتے۔ اور ابھی، ہمیں صرف یومیہ مزدور ہی مل رہے ہیں، جو دھان کاٹنے کا تجربہ نہیں رکھتے۔ لیکن ہم مجبور ہیں، ہمیں اگلے سال کی بوائی کے لیے اپنی زمین کو تیار رکھنے کے لیے فصل کی کٹائی کرنی ہوگی۔ اسی کام کے لیے، مہاجر مزدور صرف ۱۰۰۰ روپے لیتے تھے۔‘‘
احمد راتھر اور یہاں کے کچھ دیگر کسان ربیع کے موسم میں سرسوں، مٹر اور کچھ دیگر فصلیں اُگاتے ہیں، لیکن گاندر بل کے جن کسانوں کے پاس چھوٹے چھوٹے کھیت ہیں، وہ عام طور پر دھان کی کھیتی ہی کرتے ہیں، خاص کر اس کی تین قسموں کی – شالیمار- ۳، شالیمار- ۴ اور شالیمار- ۵، زرعی ڈائرکٹر سید الطاف اعجاز اندرابی بتاتے ہیں۔
زرعی ڈائرکٹر کے دفتر کے ذریعے مہیا کرائے گئے اعداد و شمار کے مطابق، کشمیر میں ۱ اعشاریہ ۴۱ لاکھ ہیکٹیئر زمین پر دھان کی کھیتی کی جاتی ہے – جو کہ زیر کاشت کل زمین (۴ اعشاریہ ۹۶ لاکھ ہیکٹیئر) کا تقریباً ۲۸ فیصد ہے۔ ’’دھان یہاں کی بنیادی [غذائی] فصل ہے، اور اس کا میٹھا ذائقہ کشمیر کے باہر کہیں اور نہیں ملتا ہے،‘‘ اندرابی بتاتے ہیں۔ پانی سے بھرپور وادی کشمیر میں دھان کی پیداوار تقریباً ۶۷ کوئنٹل فی ہیکٹیئر ہے۔ یہ فصل بہت سے لوگوں کو مزدوری کا کام فراہم کرتی ہے، اور یہاں کے زیادہ تر کسان اپنے خود کے کھانے کے لیے فصل کا استعمال کرتے ہیں، خاص کر سردیوں کے سخت مہینوں کے دوران۔
لیکن اس سال، عبدالرحمن اور راتھر جیسے کسان، جن کے پاس زمین کے چھوٹے ٹکڑے ہیں، کو دو سطحوں پر نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب، انہیں یا ان کے اہل خانہ کو یومیہ مزدوری – جو یہاں پر عام طور سے ۶۰۰ روپے یومیہ ہے – اینٹ بھٹوں، ریت نکالنے والی جگہوں اور تعمیراتی مقامات پر کام کرنے سے ہونے والی کئی مہینے کی کمائی کا نقصان ہوا ہے۔ اور حالیہ فصل کٹائی کے ہفتوں میں، ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں بچا ہے کہ وہ مقامی مزدوروں کو اتنی ہی اجرت پر کام پر رکھیں، جنہیں وہ مشکل سے برداشت کر سکتے ہیں۔
جدوجہد کرنے والوں میں وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع کے کاری پورہ گاؤں کے ۳۸ سالہ ریاض احمد میر بھی ہیں۔ انہوں نے لاک ڈاؤن کے سبب اپنی ریت کھودنے والی نوکری کھو دی اور اپنے ۱۲ کنال سے اچھی پیداوار کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ’’میں نے اپنی زمین سے امید لگا رکھی تھی، لیکن [ستمبر کی شروعات میں] بے موسم بارش نے میری زیادہ تر فصل کو نقصان پہنچایا ہے،‘‘ انہوں نے کچھ ہفتے پہلے مجھے بتایا تھا۔ ’’کاش مہاجر مزدور یہاں ہوتے، تو میں تیزی سے فصل کاٹنے کے ان کے ہنر سے اپنا کچھ دھان بچا پاتا۔‘‘
اور داریند گاؤں میں، ۵۵ سالہ عبدالحمید پارّے، جو اپنے چار کنال کھیت پر کام کر رہے ہیں، پر امید ہیں: ’’یہ پہلی بار ہے جب مہاجر مزدور کشمیر کے دھان کے کیتوں سے غائب ہیں۔‘‘ (وہ پچھلے سال دستیاب تھے، بھلے ہی ان کی تعداد کم ہو گئی تھی۔) ’’ہم نے کرفیو، لاک ڈاؤن، ہڑتالوں میں کام کیا ہے، لیکن یہ کووڈ کا وقت مختلف ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم مستقبل میں مہاجر مزدوروں کو اپنے دھان کے کھیتوں میں دوبارہ دیکھیں گے۔‘‘
یہ امیدیں پوری ہو سکتی ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں میں، دیگر ریاستوں کے مزدوروں نے وادی میں داخل ہونا شروع کر دیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز