وہ کسان بھی ہیں۔ اگر ان کے سینے پر فخر سے سجے ہوئے تمغے نہیں ہوتے، تو وہ دہلی کے دروازے پر موجود کسانوں کے مجمع میں کہیں گم ہو جاتے۔ وہ ہیرو ہیں، جنہیں پاکستان کے ساتھ ہونے والی ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگ میں ان کی شجاعت کے لیے اعزاز سے نوازا گیا تھا، ان میں سے کچھ ۱۹۸۰ کی دہائی میں سری لنکا میں بھی اپنی خدمات فراہم کر چکے ہیں۔ وہ غصے میں ہیں اور ظاہر ہے، انہیں سب سے زیادہ غصہ اس بات پر ہے کہ سرکار اور میڈیا کے طاقتور طبقوں کے ذریعے ان احتجاجیوں کو ’ملک مخالف‘، ’دہشت گرد‘ اور ’خالصتانی‘ کہا جا رہا ہے۔
پنجاب کے لدھیانہ ضلع کے گل گاؤں کے بریگیڈیئر ایس ایس گل (ریٹائرڈ) مجھ سے کہتے ہیں، ’’یہ افسوس ناک ہے کہ سرکار نے پر امن احتجاج کر رہے کسانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ وہ دہلی پہنچنا چاہتے تھے، لیکن سرکار نے انہیں روک دیا، جو بد اخلاقی اور غلط تھا۔ انہوں نے بیریکیڈز لگائے، سڑکیں کھودیں، ان پر لاٹھی چارج کیا اور ان کسانوں پر پانی کی بوچھار کا استعمال کیا۔ کس لیے؟ کیوں؟ ایسا کرنے کی وجہ کیا تھی؟ یہ کسانوں کے مصمم عزم کا ہی نتیجہ ہے کہ انہوں نے ان تمام رکاوٹوں کو پار کر لیا ہے۔‘‘
اپنی سرگرم ملازمت کے دوران ۱۳ تمغے جیتنے والے جنگ کے ہیرو، ۷۲ سالہ گل کی فیملی میں ۱۶ رکن اور کچھ ایکڑ زمین ہے۔ انہوں نے ۱۹۷۱ کی جنگ میں حصہ لیا تھا اور اس کے بعد دیگر فوجی کارروائیوں میں اپنی خدمات فراہم کیں، جس میں ۱۹۹۰ کی دہائی میں پنجاب میں دہشت گردی مخالف مہم بھی شامل ہے۔
’’کسانوں سے ان قوانین کے بارے میں نہ تو پوچھا گیا اور نہ ہی اس پر ان کی کوئی صلاح لی گئی،‘‘ بریگیڈیئر گل کہتے ہیں۔ ’’یہ دنیا کے سب سے بڑے انقلابات میں سے ایک ہے، جو اس وقت دہلی کے دروازے پر جاری ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ سرکار ان قوانین کو ردّ کیوں نہیں کر رہی ہے۔ اسے تو یہ کام پہلے ہی کر دینا چاہیے تھا۔‘‘
لاکھوں کسان اُن تین قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جسے مرکزی حکومت سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں لیکر آئی تھی، پھر ۱۴ ستمبر کو انہیں پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو قانون کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ تینوں قوانین ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔
اس نے کسانوں کو ناراض کر دیا ہے، جو ان قوانین کو کارپوریٹ کے فائدہ کے لیے اپنے معاش کو قربان کرنے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
نئے قوانین کم از کم امدادی قیمت، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی اہم شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، یہ قوانین کسانوں کی مول تول کرنے کی پہلے سے ہی محدود طاقت کو کم کرتے ہوئے زراعت میں کارپوریٹ اداروں کے دائرہ اختیار کو بڑھاتے ہیں۔
’’یہ نہ صرف غلط قدم ہے، بلکہ سرکار درحقیقت کارپوریٹوں کی جیب میں چلی گئی ہے،‘‘ لدھیانہ، پنجاب کے لیفٹیننٹ کرنل جگدیش سنگھ برار (ریٹائرڈ) کہتے ہیں۔
اور واضح طور پر، سرکار اور میڈیا کے ذریعہ بدنام کیے جانے سے یہ کافی غم زدہ ہیں۔
’’ہم جب ملک کے لیے لڑائی لڑ رہے تھے، تو یہ کاروباری کہیں دور دور تک موجود نہیں تھے،‘‘ فوج میں اپنی مدت کار کے دوران ۱۰ تمغے جیتنے والے لیفٹیننٹ کرنل برار کہتے ہیں۔ ’’نہ تو راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ تھا، اور نہ ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کا کوئی وجود یا [ان جنگوں میں] کوئی رول تھا۔‘‘ ۷۵ سالہ بزرگ کہتے ہیں، جن کی ۱۰ رکنی فیملی کے پاس موگا ضلع کے کھوٹے گاؤں میں ۱۱ ایکڑ زمین ہے، ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگ لڑ چکے ہیں۔
سنگھو کے اس احتجاجی مقام پر موجود کئی ریٹائرڈ افسر اب کاشتکاری میں سرگرم نہیں ہیں، لیکن ان کی شناخت پوری طرح کسانوں جیسی ہی ہے۔
’’ہم احتجاج کر رہے کسانوں کی حمایت اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ ہماری زندگی کے اوپر ان کا احسان ہے،‘‘ لدھیانہ ضلع کے مُلّن پور ڈھاکہ گاؤں میں ۵ ایکڑ زمین کے مالک، کرنل بھگونت ایس تتلا (ریٹائرڈ) کہتے ہیں۔ ’’ان کسانوں کی وجہ سے ہی ہم نے ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ میں، پاکستان کے خلاف دو بڑی جنگیں جیتیں،‘‘ تمغے حاصل کرنے والے ۷۸ سالہ کرنل تتلا کہتے ہیں۔ ان کا سروس ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ فوج میں رہتے ہوئے حولدار سے کرنل کے رینک تک پہنچے۔
لیفٹیننٹ کرنل برار کہتے ہیں، ’’آپ نوجوانوں کو کیسے پتا چلے گا! ہندوستان نے یہ جنگ صرف اس لیے جیتی کیوں کہ کسانوں نے ہماری مدد کی تھی۔ ۱۹۶۵ میں، پاکستان کے پاس پیٹن ٹینک تھے – جو اس وقت دنیا کے سب سے خوبصورت، سب سے تیز اور جدید ترین ٹینک تھے۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا؛ ہمارے پاس تو جوتے تک نہیں تھے۔ اس کے علاوہ، ہندوستانی فوج کے پاس گولہ بارود لے جانے کے لیے ٹرک یا پھیری نہیں تھی۔ سچ بتاؤں تو، ہمارے پاس پاکستان کے ساتھ ملحق سرحد کی نگرانی کرنے کے لیے پوری فورس بھی نہیں تھی۔‘‘
وہ بتاتے ہیں، ’’ایسے حالات میں پنجاب کے لوگوں، کسانوں نے ہم سے کہا، ’اس کی فکر مت کرو۔ آگے بڑھو، ہم آپ کو پکا ہوا کھانا دیں گے اور آپ کے گولہ بارود کا خیال رکھیں گے‘۔ پنجاب کے سبھی ٹرک اس کام میں لگ گئے، ایک جگہ سے دوسری جگہ تک گولہ بارود کو پہنچایا، اور اس طرح فوج زندہ رہ سکی اور ہندوستان جنگ جیت گیا۔ مشرقی پاکستان، جو اب بنگلہ دیش ہے، میں ۱۹۷۱ کی جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اگر مقامی لوگوں نے ہماری مدد نہیں کی ہوتی، تو جیتنا مشکل ہوتا۔ وہاں بھی [سرحدوں پر] مقامی لوگ کسان ہی تھے۔‘‘ وارنٹ آفیسر (ریٹائرڈ) گرٹیک سنگھ وِرک کی فیملی تقسیم کے وقت پاکستان کے گجرانوالا – جسے پہلوانوں کا شہر کہا جاتا تھا – سے اتر پردیش کے پیلی بھیت ضلع میں آ گئی تھی۔ اس ضلع کے پورن پور گاؤں میں تقریباً ۱۸ ممبران پر مبنی ان کی بڑی، توسیع شدہ فیملی کے پاس تقریباً ۱۷ ایکڑ زمین ہے۔ ان کے دادا (برطانوی دور حکومت میں) اور ان کے والد، دونوں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولس تھے۔ ان کے بھائی ریٹائرڈ ڈائرکٹر جنرل آف پولس ہیں، اور وِرک خود انڈین ایئر فورس میں چلے گئے تھے۔
’’لیکن ہماری جڑیں کسانوں کی ہیں اور ہم اسے کبھی نہیں بھولتے ہیں،‘‘ انڈین ایئر فورس کے سابق افسر کہتے ہیں۔ وہ سرحد کے دوسری طرف بھی کسان تھے، وہ بتاتے ہیں۔ ’’اور ۷۰ سال بعد ہماری یہ حالت ہے – حکومت ہند نے [ان] قوانین کو پاس کیا ہے جو ہمیں ایک بار پھر بے زمین بنا دیں گے۔ ان تمام تاجروں کے لیے جنہیں انسانی قدروں کی کوئی فکر نہیں ہے، وہ صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘‘
’’جب ہم جنگ لڑ رہے تھے، تو ہمارے والدین کھیت پر تھے، کھیتی کر رہے تھے۔ اب ہمارے بچے سرحدوں پر ہیں، اور ہم کھیتی کر رہے ہیں،‘‘ لدھیانہ ضلع کے کرنل جسوندر سنگھ گرچا کہتے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۷۱ کی جنگ میں حصہ لیا تھا اور ان کے نام پانچ تمغے ہیں۔ اب ۷۰ سال کی عمر میں، گرچا ایک انجینئر بھی ہیں، لیکن اپنی شناخت کسان کے طور پر بتاتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی مدد سے جسّووال گاؤں میں کھیتی کرتے ہیں۔
’’اب، ہر دن، سرکار روتی رہتی ہے کہ یا تو چین یا پاکستان ہمارے علاقوں میں داخل ہو رہا ہے۔ ان کی گولیوں کا سامنا کون کرے گا؟ کیا امت شاہ کریں گے یا مودی؟ ہرگز نہیں۔ یہ ہمارے بچے ہیں، جو ان کا سامنا کریں گے،‘‘ لیفٹیننٹ کرنل برار کہتے ہیں۔
’’میں نریندر مودی کی حمایت کر رہا تھا،‘‘ لیفٹیننٹ کرنل ایس ایس سوہی کہتے ہیں، ’’لیکن یہ قدم پوری طرح سے غلط ہے۔ سرکار کھیتی کو پوری طرح سے برباد کر رہی ہے۔‘‘ سوہی پنجاب میں سابق فوجیوں کے شکایت سیل کے صدر ہیں، یہ ایک فلاحی تنظیم ہے جو بزرگوں کے مسائل کو حل کرتی ہے اور شہید فوجیوں کی بیواؤں کی مدد کرتی ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل سوہی ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ کی جنگ لڑ چکے ہیں۔ انہوں نے ۱۲ تمغے جیتے – جس میں ایمرجنسی اور امن کی مہم میں اپنے رول کے لیے اقوام متحدہ کا ایک تمغہ بھی شامل ہے۔ ان کی چار رکنی فیملی کے پاس ہریانہ کے کرنال ضلع کے نیلوکھیڑی گاؤں میں ۸ ایکڑ زمین تھی، جسے انہوں نے کچھ سال پہلے پنجاب کے موہالی میں رہائش اختیار کرنے کے لیے فروخت کر دیا تھا۔
ان کا ماننا ہے، ’’سیاسی رہنماؤں نے کارپوریٹوں سے بہت کچھ لیا اور اس پیسے سے الیکشن لڑا۔ اب وہ ان قوانین کی شکل میں انہیں وہ پیسے لوٹانا چاہتے ہیں۔‘‘ افسوس کی بات یہ ہے کہ، وہ کہتے ہیں، ’’ہندوستان کے بنیادی حکمرانوں کا تعلق تجارتی برادری سے ہے۔ اس لیے، وہ صرف تاجر گھرانوں کے لیے فکرمند ہیں۔‘‘
’’کارپوریٹ نہیں چاہتے کہ کوئی ان کے خلاف بولے،‘‘ لیفٹیننٹ کرنل برار کہتے ہیں۔ ’’اور وزیر اعظم آپ کو بیوقوف بنا رہے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ یہ قوانین کسانوں کی بھلائی کے لیے ہیں۔ میں آپ کو بہار کی مثال دوں گا۔ اس غریب ریاست نے ۱۴ سال پہلے منڈی نظام کو ختم کر دیا تھا [خطرناک نتائج کے ساتھ]۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے اپنے گاؤں میں کھیتی کرنے کے لیے اپنی ۱۱ ایکڑ زمین اپنے بھائی کو دی ہے۔ میں اپنی عمر کی وجہ سے اب کھیتی نہیں کر پا رہا ہوں۔‘‘
’’اپنی ریاست میں ۱۰ ایکڑ زمین کے مالک کسان پنجاب میں ۵ ایکڑ کھیت والوں کے پاس زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں،‘‘ لیفٹیننٹ کرنل برار بتاتے ہیں۔ ’’زمین کے مالک کسانوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنے سے زیادہ شرمناک اور کیا ہو سکتا ہے؟ انہیں بے زمین بنانا،‘‘ جو، ان کا دعویٰ ہے، ان قوانین کا نتیجہ ہوگا۔
کیا حقیقت میں ایسا ہو سکتا ہے، میں نے آل انڈیا فورم فار رائٹ ٹو ایجوکیشن اور لدھیانہ کے شہید بھگت سنگھ کرئیٹیوٹی سنٹر کے چیئر پرسن، پروفیسر جگموہن سنگھ سے پوچھا۔ ’’ہاں، اگر ان قوانین کو منسوخ نہیں کیا جاتا ہے، تویہی ہمارا مستقبل ہوگا۔ جہاں کہیں بھی کارپوریٹوں کی دلچسپی بڑھتی ہے، وہ کسانوں کو ان کی زمین سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال برازیل ہے، جہاں ۱۹۸۰ کی دہائی میں، کسانوں نے اس طرح سے زمین ہڑپنے کے خلاف ایک بڑی تحریک شروع کی تھی،‘‘ انہوں نے مجھے بتایا۔
’’سرکار خیالی کسانوں کو سامنے لاکر ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو کہہ رہے ہیں کہ ’ہم ان قوانین کی حمایت کرتے ہیں‘۔ کیا کوئی کسان واقعی میں ان کی حمایت کر سکتا ہے، مجھے نہیں معلوم،‘‘ بریگیڈیئر گل کہتے ہیں۔
احتجاجیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی، کرنل گرچا آگاہ کرتے ہیں، ’’مذہب کی بنیاد پر، یہ کہتے ہوئے کہ، ’آپ سکھ ہیں یا مسلمان یا ہندو ہیں‘، یا علاقے کی بنیاد پر، ’آپ پنجابی ہیں، ہریانوی یا بہاری ہیں‘۔‘‘
لیفٹیننٹ کرنل برار آگے کہتے ہیں، ’’سرکار ہریانہ اور پنجاب کے لوگوں کو، پرانے آبی تنازع کا استعمال کرتے ہوئے، انہیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ لیکن دونوں ریاستوں کے لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر زمین ہی نہیں بچے گی، تو پانی کا یہاں کیا کام؟‘‘
ان عظیم شخصیات اور جنگ کے ہیرو نے ملک کی حفاظت میں اپنے رول کے لیے ۵۰ سے زیادہ تمغے جیتے ہیں۔ اگر سرکار بضد اور لاپرواہ بنی رہتی ہے، تو وہ اپنے تمغے صدرِ جمہوریہ ہند – مسلح افواج کے سپریم کمانڈر – کو لوٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’’میری صرف یہی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ سرکار کو صحیح سمجھ حاصل ہو اور وہ قوانین کو منسوخ کرکے کسانوں کو گھر واپس بھیج دیں،‘‘ بریگیڈیئر گل کہتے ہیں۔ ’’وہی اس کا خاتمہ ہوگا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز