پیروویمبا، پہلی نظر میں چمڑے کے کارخانہ کی طرح نظر آتا ہے۔ گائے، بھینس اور بکری جیسے جانوروں کی کھال گاؤں کے آنگن میں سوکھ رہی ہے، جو بتاتی ہے کہ چمڑے کو بیچنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ لیکن، آنگن سے آگے اور گھروں کے اندر جانے پر پتا چلتا ہے کہ کڑچی کولّن برادری کے کاریگر ان کچے چمڑوں سے اعلیٰ معیار کے ڈھول بناتے ہیں۔

پورے جنوبی ہند کے تبلہ بجانے والے، کیرالہ کے پلکّڑ شہر سے ۱۴ کلومیٹر دور واقع پیرویمبا سے ہی چمڑے سے بنائے جانے والے آلات موسیقی خریدتے ہیں۔ ’’ہم موسیقار نہیں ہیں جو ان سازوں کو بجا سکیں، لیکن ہم اچھے معیار والے آلات موسیقی بنانے کے لیے شروتیوں (لے کی اکائی) کو جانتے ہیں،‘‘ مردنگم بنانے والے ۴۴ سالہ کڑچی کولّن، کے منی کندن کہتے ہیں۔ ’’ہم آرڈر ملنے کے بعد ہی آلات موسیقی بناتے ہیں۔ ہم اسے گاہک کی ضرورت کے موافق بناتے ہیں۔ ہم دکانوں یا تجارتی خوردہ فروشوں کو فروخت نہیں کرتے۔‘‘

پیروویمبا کے کڑچی کولّن برادری کے کاریگر مردنگم، مدّلَم، چینڈا، تبلہ، ڈھول، گنجیرہ اور دیگر آلات موسیقی بناتے ہیں، جن کا استعمال زیادہ تر مندروں کی موسیقی اور کرناٹک میوزک میں ہوتا ہے۔ یہ برادری ۲۰۰ سے زیادہ برسوں سے ان آلات موسیقی کو بنا رہی ہے۔ اس سے پہلے، وہ لوہار تھے اور زرعی آلات بناتے تھے، منی کندن بتاتے ہیں۔ کرناٹک میوزک کے مرکز کے طور پر پلکّڑ کی شناخت نے پیرویمبا گاؤں – جو اَب پلکّڑ ضلع کی پیروویمبا گرام پنچایت کے تحت آتا ہے – کے کڑچی کولّن کو بہتر آمدنی کے لیے آلات موسیقی بنانے کی جانب مائل کیا۔

بعد میں، استاد پالگھاٹ ٹی ایس منی ایئر (۱۹۱۲-۱۹۸۱) کے ذریعہ پیروویمبا میں تیار کردہ مردنگم کو بجانے سے مقبولیت حاصل ہونے کے سبب یہاں کی شہرت کیرالہ کے باہر، کرناٹک میوزک کے علاقوں میں پھیل گئی۔ انہوں نے مدراس (اب چنئی) کے موسیقاروں کو اس گاؤں میں مدعو کیا، جن میں سے کئی موسیقار کڑچی کولّن کاریگروں کے مستقل گاہک بن گئے۔ پیروویمبا میں خود ایئر کے مردنگم منی کندن کے والد، کرشنن مروتھل پرمبو بناتے تھے، جو اُن کے گہرے دوست تھے۔

The Kadachi Kollan wash and dry the animal skins in their courtyards in Peruvemba village
PHOTO • P. V. Sujith

پیروویمبا گاؤں میں کڑچی کولّن اپنے آنگن میں جانوروں کی کھال کو دھوتے اور سکھاتے ہیں

اس وقت پیروویمبا گاؤں میں (گرام پنچایت کے ریکارڈ کے مطابق) رہنے والے ۳۲۰ کنبوں میں سے ۸۰ کا تعلق کڑچی کولّن برادری سے ہے۔ سال ۲۰۰۷ میں، گاؤں کے کاریگروں نے چمڑے سے آلات موسیقی بنانے والوں کی ایک ریاستی سطح کی تنظیم – کیرالہ اسٹیٹ وادّیوپکرن نرمان سنگھوم – بنائی تھی۔ تب سے، آلات موسیقی کی قیمت اور ان کی مرمت اور بحالی کے لیے قیمتیں اسی تنظیم کے ممبران کے ذریعہ مشترکہ طور پر طے کی جاتی ہیں۔ وہ ممبران کے درمیان کام کی یکساں تقسیم کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ منی کندن اس تنظیم کے سکریٹری ہیں، جن کے اس گاؤں میں ۶۵ ممبران اور ۱۱۴ شاگرد ہیں۔

پیروویمبا کے کاریگر برسوں سے فنکاروں اور اداروں کے لیے آلات موسیقی کی تعمیر سے مستقل آمدنی حاصل کر رہے تھے۔ لیکن کووڈ- ۱۹ نے اسے بدل دیا۔

جنوری ۲۰۲۰ میں، ہندوستان میں کورونا وائرس کے اولین تین معاملے کیرالہ سے سامنے آنے کے بعد ریاستی حکومت نے سختی سے لاک ڈاؤن لگا دیا تھا۔ فروری کے بعد کوئی بھی گاہک پیروویمبا نہیں آ سکتا تھا، اس لیے گرمیوں میں، جو کہ سب سے زیادہ فروخت والا سیزن ہوتا ہے، کوئی آرڈر نہیں ملا۔

’’کیرالہ میں فروری سے جون تک تہواروں کا موسم ہوتا ہے۔ اس دوران کسی کے ذریعہ ایک بھی خریداری نہیں کی گئی۔ کوئی پوچھ گچھ یا مرمت کا کام نہیں ملا،‘‘ منی کندن بتاتے ہیں۔ کیرالہ میں گرمیوں میں ہونے والے مندروں اور کلیساؤں کی سالانہ تقریب میں تبلہ بجانے والے بڑی تعداد میں – کبھی کبھی ۵۰۰ تک – جمع ہوتے ہیں۔ وہ ایک بار میں گھنٹوں تک پنچری میلم اور پنچ وادّیَم جیسے روایتی آرکیسٹرا کرتے ہیں۔

لاک ڈاؤن کے دوران آلات موسیقی کی فروخت میں کافی گراوٹ آئی۔ ۲۰۲۰ میں پیروویمبا سے صرف ۲۳ آلات موسیقی کی فروخت ہوئی اور وہ بھی تمام لاک ڈاؤن سے پہلے۔ ’’صرف مردنگم اور تبلہ کی ہی فروخت ہوئی، چینڈا ایک بھی فروخت نہیں ہوا،‘‘ منی کندن بتاتے ہیں۔ موازنہ کے طور پر دیکھیں، تو ۲۰۱۹ میں جو ۳۸۰ آلات موسیقی کی فروخت ہوئی تھی، ان میں سے ۱۱۲ چینڈا تھے، جو کہ پنچری میلم آرکیسٹرا کا بنیادی ڈھول ہے۔

Left: K. Manikandan fastens the leather straps of a mridangam. Right: Ramesh and Rajeevan Lakshmanan finish a maddalam
PHOTO • P. V. Sujith
Left: K. Manikandan fastens the leather straps of a mridangam. Right: Ramesh and Rajeevan Lakshmanan finish a maddalam
PHOTO • P. V. Sujith

بائیں: کے منی کندن مردنگم کے چمڑے کی رسیوں کو مضبوطی سے باندھ رہے ہیں۔ دائیں: رمیش اور راجیون لکشمنن مدّلم کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں

چینڈا اور شدھ مدّلم ، جو کتھاکلی رقص ڈراموں میں ڈھول کی آواز فراہم کرتے ہیں، پیروویمبا کے سب سے مقبول آلات موسیقی ہیں۔ نیا مدّلم عام طور پر ۲۵ ہزار روپے میں اور چینڈا ۱۲-۱۵ ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے، ۳۶ سالہ راجیون لکشمنن بتاتے ہیں، جو مدّلم بنانے میں ماہر ہیں۔ کاریگر پرانے مدّلم کے چمڑے کو بدلنے کے ۱۲ ہزار روپے اور رسیوں کو کسنے اور انہیں بدلنے کے لیے ۸۰۰ روپے لیتے ہیں۔ ہر ایک آلہ موسیقی کی فروخت پر آٹھ فیصد کا منافع ہوتا ہے۔

’’کووڈ لاک ڈاؤن سے پہلے، گاؤں کی ہر فیملی ماہانہ ۱۷-۴۰ ہزار روپے کماتی تھی،‘‘ ۶۴ سالہ منی کندن بتاتے ہیں۔

یہ بحران بہت سنگین تھا کیوں کہ ہمارے پاس معاش کے لیے کوئی اور ٹھوس آمدنی نہیں تھی،‘’ راجیون کہتے ہیں۔ لیکن کھیتی سے پیروویمبا کی کڑچی کولّن برادریوں کو لاک ڈاؤن کے دوران کچھ پیسے کمانے میں مدد ملی۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس گاؤں میں آدھا ایکڑ سے لیکر ایک ایکڑ تک زمین ہے، جس پر وہ کیلے اور ناریل کی کھیتی کرتے ہیں۔ مقامی بازاروں میں کیلا ۱۴ روپے درجن اور ناریل ۵۴ روپے درجن فروخت ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے خود کے استعمال کے لیے دھان اُگائے۔

وبائی مرض سے پہلے، آلات موسیقی بنانے والوں کو جانوروں کی کھال حاصل کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ مرکزی حکومت کے جانوروں کے ساتھ بے رحمی کی روک تھام (مویشیوں کے بازاروں کی باقاعدگی) کے لیے ضابطہ، ۲۰۱۷ نے مویشیوں کی کھال کی دستیابی کو کم کر دیا تھا۔ ان ضابطوں کے سبب مویشیوں کی بین ریاستی نقل و حمل متاثر ہوئی تھی، اور تمل ناڈو کے کوئمبٹور ضلع کے ذبیحہ خانوں سے جانوروں کی کھال کی سپلائی پوری طرح بند ہو گئی تھی۔

پیروویمبا کے کاریگر اب تین کلومیٹر دور واقع پتھونگرم کے گوشت کے بازار پر منحصر ہیں۔ ’’چمڑے فروخت کرنے والے بھی بحران میں ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی، تو ہم ان آلات موسیقی کو بنانا بند کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں گے،‘‘ راجیون کے بھائی، ۲۵ سالہ رمیش لکشمنن کہتے ہیں۔

Left: The men of a family work together at home. Right: Applying the black paste on a drumhead requires precision
PHOTO • P. V. Sujith
Left: The men of a family work together at home. Right: Applying the black paste on a drumhead requires precision
PHOTO • P. V. Sujith

بائیں: فیملی کے مرد گھر پر ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ دائیں: ڈھول کے اوپر کالا پیسٹ لگانے کے لیے درستگی کی ضرورت ہوتی ہے

’’پیروویمبا میں کوئی بھی آلات موسیقی گائے کے چمڑے کے بغیر نہیں بنتا،‘‘ ۳۸ سالہ کاریگر، سمود کنّن کہتے ہیں۔ ایک گائے کے چمڑے کی قیمت تقریباً ۴ ہزار روپے ہے۔ ’’تمام چمڑوں میں سے، گائے کی کھال ہر آلہ موسیقی کے لیے ضروری ہے۔ مردنگم میں کم اور مدّلم میں اس کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ گائے کی کھال کا استعمال بھینس یا بکری کی کھال کے ساتھ ملاکر کیا جاتا ہے، اور ہر ایک کی مقدار مختلف قسم کے آلات موسیقی میں الگ الگ ہوتی ہے۔ ’’گائے کی کھال کا استعمال بنیادی طور پر چینڈا اور مدّلم میں ہوتا ہے، جب کہ بکری کی کھال کو مردنگم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گائے کی آنت کا استعمال ایڈکّا بنانے کے لیے کیا جاتا ہے،‘‘ ۴۷ سالہ کے وی وجئن بتاتے ہیں۔

کڑچی کولّن کی فیملی کے تمام لوگ اس عمل میں شامل ہوتے ہیں۔ عورتیں کھال کو دھوتی اور صاف کرتی ہیں اور خشک ہونے کے بعد انہیں نرم کرتی ہیں۔ مرد چمڑے کی پروسیسنگ کرتے ہیں، لکڑی کو شکل و صورت عطا کرتے ہیں اور آلات موسیقی بناتے ہیں۔ وہ اپنے اوزار خود بناتے ہیں، جیسے کہ چھینی، چاقو، بلیڈ، ریمر اور شکنجہ۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی تربیت دی جاتی ہے، یہاں تک کہ انہیں ڈھول کے اوپر بنے کالے گول دائرہ، جسے مشی ئیڈل کہا جاتا ہے، میں پیسٹ لگانا بھی سِکھایا جاتا ہے۔ یہ پسیٹ مقامی سطح پر دستیاب کالے پتھر، پورنک کلّو کے پاؤڈر میں ابلے ہوئے چاول کو ملاکر بنایا جاتا ہے۔ ’’اسے لگانے میں بہت زیادہ درستگی کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ سنود کرشنن کہتے ہیں۔

پیروویمبا میں بنے تمام آلات موسیقی کٹہل کی لکڑی کے ہوتے ہیں۔ یہ درخت پلکّڑ ضلع میں کثرت سے اُگتا ہے۔ کاریگر اس کی لکڑی مقامی کسانوں اور تاجروں سے ۲۷۰۰ روپے فی مکعب میٹر کے حساب سے خریدتے ہیں۔

راجیون بتاتے ہیں کہ شمال مشرقی مانسون (اکتوبر- دسمبر) آنے میں دیری کے سبب کٹہل کی لکڑی کا معیار متاثر ہو رہا ہے۔ ’’یہ آب و ہوا کی تبدیلی کے سبب ہو رہا ہے۔ جانوروں کی کھال سُکھانے کے روایتی طریقے بھی خطرے میں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ کیرالہ زرعی یونیورسٹی، تریشور میں ماحولیاتی تبدیلی تعلیم و تحقیقی اکادمی کے سائنسی افسر، ڈاکٹر گوپا کمار چولائل بتاتے ہیں کہ دسمبر ۲۰۲۰ سے جنوری ۲۰۲۱ کے درمیان کیرالہ میں سو سال میں سب سے زیادہ بارش ہوئی۔

’’ہم نے متبادل کا استعمال کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا ہے۔ ہمارے لیے کٹہل کی لکڑی اور جانوروں کی کھال ضروری ہے،‘‘ منی کندن کہتے ہیں۔ ’’اگر سرکار ملک بھر میں گئوکشی پر پابندی لگاتی ہے، تو ہمیں لوہار کے پرانے پیشہ کی طرف واپس جانا ہوگا۔‘‘ ریاست کے دیگر حصوں – پلکّڑ ضلع کے لکیڈی- پیرور، اور تریشور ضلع کے ویلّرکّڑ اور ویلپّیا – میں آباد کڑچی کولّن برادری کے لوگ آج بھی زرعی اوزار بناتے ہیں۔

Kadachi Kollan craftsmen start learning the craft in their childhood
PHOTO • P. V. Sujith

کڑچی کولّن کے کاریگروں کو بچپن سے ہی آلات موسیقی بنانے کی تربیت ملنی شروع ہو جاتی ہے

کیرالہ حکومت نے ۲۰۱۹ میں کڑچی کولّن ذات کو درج فہرست قبیلہ (ایس ٹی) کی فہرست سے ہٹاکر اسے دیگر پس ماندہ طبقہ (او بی سی) کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔ تب سے، اس برادری کے لوگوں کو ریاست سے حمایت اور دیگر فوائد حاصل ہونا بند ہو گیا ہے۔ ’’ریاستی حکومت کے ذریعہ کیے گئے مطالعوں سے پتا چلا کہ کڑچی کولّن او بی سی زمرے کے ہیں۔ کسی نے دستاویزوں میں چھیڑ چھاڑ کرکے ہمیں ایس ٹی کا درجہ دے دیا ہوگا۔ لیکن اب سرکار سے کوئی مالی مدد یا تعاون نہیں مل رہا ہے،‘‘ منی کندن بتاتے ہیں۔

پلکّڑ کی مشہور ثقافتی تنظیم، سورالیہ کے سکریٹری، ٹی آر اجئن کے مطابق، کرناٹک موسیقی کے مرکز کے طور پر پلکّڑ کی شہرت کے لیے پیروویمبا کے کاریگر اور ان کی روایت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ’’ریاست اور اس کے باہر کے مندر اور موسیقی کے پروگرام اس گاؤں پر منحصر ہیں۔ کسی دوسری جگہ پر اس قسم کے آلات موسیقی نہیں بنائے جاتے۔‘‘

لیکن پیروویمبا کے نوجوانوں نے دیگر پیشوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ ’’اس کام [آلات موسیقی بنانے] میں بہت محنت اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ کڑی محنت پہلی شرط ہے۔ اس لیے نئی نسل دیگر متبادل کی تلاش کر رہی ہے،‘‘ ۲۹ سالہ ایم روی چندرن کہتے ہیں، جن کے ۲۱ سالہ بھائی پلکّڑ کے ایک کالج میں تاریخ سے پوسٹ گریجویشن کر رہے ہیں۔ ’’خاندانی روایت کے طور پر، ہم نے اپنی فیملی میں پلس ٹو [۱۲ویں کلاس] تک تعلیم حاصل کی، اور پھر مستقل طور پر اس پیشہ میں آ گئے۔ نوجوان نسل تقریباً مایوسی کی شکار ہے، اور گاؤں اپنے بے مثال وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کافی جدوجہد کر رہا ہے۔‘‘

منی کندن بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران پیروویمبا کے کڑچی کولّن کنبوں کو حیرت انگیز بحران کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کا ماننا ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔ دسمبر میں، ان کی تنظیم کے پاس مرمت کرنے کے لیے ۱۲ ڈھول آئے، اور جنوری میں نئے آلات موسیقی کے بارے میں پوچھ گچھ شروع ہو گئی تھی۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ ہم فروری کے آخر تک، کم از کم چھوٹے طریقے سے ہی، پٹری پر واپس آ جائیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھے نہیں لگتا کہ ۲۰۲۱ میں ۲۰۲۰ جیسا حال ہوگا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

K.A. Shaji

کے اے شاجی کیرالہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیات، ذات، پس ماندہ برادریوں اور معاش پر لکھتے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز K.A. Shaji
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique