ہاتنے کے سرکاری اسپتال کے مین گیٹ کے سامنے ایک آٹو رکشہ کھڑا ہے، جس میں بیٹھی ایک عورت بار بار بیہوش ہو رہی ہے۔ دوسری عورت اپنا سینہ پیٹتے ہوئے چیخ رہی ہے: ’’ ماجھا سونیا، ماجھا سونیا، کُٹھے گیلا رے ماجھا سونیا [میرا سونا، میرا سونا، کہاں چلا گیا میرا سونا؟]‘‘ چاروں طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ کچھ کنبے کاغذی کارروائی پورا کرنے کی کوشش میں گروہوں میں جمع ہو گئے ہیں۔ کچھ دوسرے اسپتالوں میں بستر کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مئی کی ابتدا ہے اور پیر کے روز دوپہر کے وقت کافی گرمی ہے۔ اور مہاراشٹر کے پالگھر ضلع کے ہاتنے گاؤں میں ریویرا اسپتال کے باہر پوری طرح سے افراتفری کا ماحول ہے۔

گرو چودھری اسپتال کے احاطہ کے باہر ایک درخت کے نیچے بنے سیمنٹ کے چبوترے پر بیٹھے ہیں اور لگاتار فون کر رہے ہیں۔ وہ اپنے بہنوئی کی موت کی خبر دے رہے ہیں۔ ’’ دیوالا پریہ جھالا کال راتری [کل رات اُن کا انتقال ہو گیا]،‘‘ وہ فون پر یہی جملہ بار بار دوہرا رہے ہیں۔ ’’وہ میرے لیے بھائی کی طرح تھے،‘‘ وہ اُداس اور غمزدہ ہوکر مجھ سے کہتے ہیں۔ ’’اس ویڈیو کو دیکھیں۔ وہ یہاں ٹھیک ہیں۔ میری بہن اسپتال میں ان کے ساتھ تھی۔ ان کی آکسیجن بوتل سے لگاتار رستی رہی... وہ ڈاکٹر سے کہتی رہی کہ آکر اس کی جانچ کریں...‘‘

فیملی کے ریویرا آنے سے پہلے گرو کے بہنوئی، ۳۵ سالہ وامن دیگھا کو ۲۳ اپریل کو ان کے گاؤں کے پاس دو چھوٹے اسپتالوں میں لے جایا گیا تھا۔ ’’وہ ٹھیک سے سانس نہیں لے پا رہے تھے۔ انہیں کچھ دنوں سے تیز بخار بھی تھا، اس لیے ہم گھبرا گئے اور ان کی جانچ کرانے کا فیصلہ کیا،‘‘ گرو بتاتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر نے کہا کہ انہیں نمونیا ہے، کووڈ بھی ہو سکتا ہے، اس لیے انہیں فوراً داخل کرانا ہوگا۔ ارد گرد کے کسی بھی اسپتال میں بستر یا آکسیجن نہیں تھا۔‘‘

فیملی کو پالگھر کے موکھاڈا تعلقہ میں واقع ان کے گاؤں تاکپاڑہ سے اسی ضلع کے وکرم گڑھ تعلقہ میں ریاستی اسپتال، ریویرا سے ایمبولینس سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر کا سفر کرنا پڑا۔ یہ تعلقہ میں کووڈ کے لیے بنایا گیا واحد اسپتال ہے، جہاں کووڈ کے مریضوں کے لیے ۲۰۰ بستر ہیں (ان میں سے آدھے آئیسولیشن بیڈ اور باقی آکسیجن، وینٹی لیٹر یا آئی سی یو والے ہیں؛ اس سے متعلق ڈیٹا ضلع کی سرکاری ویب سائٹ پر پوری طرح سے واضح نہیں ہے)۔

Malati Digha, Vaman's grieving wife (left) and relatives outside ReVera Hospital in Vikramgad: 'He could have recovered...'
PHOTO • Shraddha Agarwal
Malati Digha, Vaman's grieving wife (left) and relatives outside ReVera Hospital in Vikramgad: 'He could have recovered...'
PHOTO • Shraddha Agarwal

وکرم گڑھ میں ریویرا اسپتال کے باہر وامن کی غمزدہ بیوی، مالتی دیگھا (بائیں) اور ان کے اہل خانہ: ’وہ ٹھیک ہو سکتے تھے...‘

’’کووڈ ٹیسٹ میں تین بار نگیٹو آنے کے باوجود، انہیں کووڈ وارڈ میں داخل کیا گیا۔ اندر کے بستروں پر چادر یا تکیے نہیں تھے۔ ان کے پاس گرم پانی تک نہیں تھا۔ وہ ۱۰ دنوں تک وارڈ میں رہے۔ مرنے سے ایک دن پہلے، وہ پیشاب نہیں کر پا رہے تھے۔ ان کی حالت اچانک بگڑ گئی۔ میری بہن ڈاکٹروں کو بتانے کی کوشش کرتی رہی، لیکن وہ سبھی مصروف تھے اور کچھ سننے کو تیار نہیں تھے،‘‘ گرو کہتے ہیں۔

وامن تاکپاڑہ گاؤں کے مقامی پنچایت دفتر میں کام کرتے تھے۔ ان کی فیملی میں – وہ ٹھاکر آدیواسی برادری سے ہیں – ۸ اور ۶ سال کے دو بیٹے اور ان کی بیوی، ۳۱ سالہ مالتی دیگھا ہیں۔ وہ، وامن کے والدین کے ساتھ، ان کے دو ایکڑ کھیت میں کام کرتی ہیں، جہاں وہ عام طور سے سبزیاں، باجرا اور چاول اُگاتے ہیں۔ ’’میں ڈاکٹروں کو بلاتے بلاتے تھک گئی۔ آکسیجن ہونے کے باوجود وہ ٹھیک سے سانس نہیں لے پا رہے تھے۔ اندر بہت گندگی تھی۔ اگر ان کی مناسب دیکھ بھال کی جاتی، تو وہ ٹھیک ہو جاتے، لیکن ہم نے انہیں کھو دیا،‘‘ مالتی روتے ہوئے کہتی ہیں۔

حالانکہ، اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے مجھ سے کہا: ’’مریضوں کے رشتہ دار کچھ بھی کہیں گے۔ آپ کو اُن پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں نہیں معلوم کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔‘‘

اسپتال کے باہر دوسرے کونے میں، مینا پاگی زمین پر پڑی ہیں۔ آس پاس موجود کچھ لوگ انہیں پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اٹھنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن اٹھ نہیں پاتیں۔ تھوڑی دیر بعد، وہ بے حرکت ہوکر بیٹھ جاتی ہیں۔ ’’وہ آج صبح سے یہاں سے نہیں ہٹی ہیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے اور اب ان کے ساتھ چار بیٹیاں رہ گئی ہیں،‘‘ ایک کسان اور ان کی فیملی کے قریبی دوست، شو رام مُکنے کہتے ہیں۔

سینہ میں درد ہونے کے بعد یکم مئی کو، ۴۸ سالہ منگیش اور ۴۵ سالہ مینا ایمبولینس سے ریویرا اسپتال آئے۔ اس سے پہلے، شو رام بتاتے ہیں، اُسی دن منگیش نے وکرم گڑھ تعلقہ کے کھوستے گاؤں میں اپنے گھر سے وکرم گڑھ شہر کے ایک اسپتال تک اپنی موٹر سائیکل تقریباً ۱۵ کلومیٹر چلائی تھی۔ مینا بائک پر ان کے ساتھ تھیں۔ تب تک انہیں تیز بخار اور سانس لینے میں تکلیف کی بھی شکایت ہونے لگی تھی۔ دو دن بعد، ۳ مئی کو منگیش کا انتقال ہو گیا۔

The hospital’s Medical Superintendent told me: 'The relatives of the patients will say anything. You should not believe them'
PHOTO • Shraddha Agarwal
The hospital’s Medical Superintendent told me: 'The relatives of the patients will say anything. You should not believe them'
PHOTO • Shraddha Agarwal

اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے مجھ سے کہا: ’مریضوں کے رشتہ دار کچھ بھی کہیں گے۔ آپ کو اُن پر یقین نہیں کرنا چاہیے‘

’’اُس [شہر کے] اسپتال کے ڈاکٹروں نے انہیں ریویرا میں داخل ہونے کے لیے کہا۔ انہوں نے ان کو ایک خط دیا اور ان کے لیے ایک ایمبولنس کا انتظام کیا۔ کئی گھنٹوں کے بعد انہیں ریویرا میں ایک بستر دیا گیا،‘‘ شو رام بتاتے ہیں۔ ’’ان کی بیوی نے مجھے بتایا کہ انہیں آکسیجن کی ضرورت ہے اور اسے دیے جانے کے بعد وہ ٹھیک محسوس کر رہے تھے۔ لیکن ڈاکٹروں نے جانچ کی اور انہیں کووڈ سنٹر میں داخل کر دیا۔ وہاں انہوں نے دو دن کے وقف میں ۱۰-۱۲ انجکشن دیے۔ ہر انجکشن کے بعد ان کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ اس لیے ہم انہیں دوسرے اسپتال لے جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ لیکن [۳ مئی کو] آدھی رات کے بعد ان کی حالت سنگین ہو گئی اور وہ انہیں آئی سی یو میں لے گئے۔ دو گھنٹے کے اندر انہوں نے ان کی بیوی کو بتایا کہ ان کی موت ہو گئی ہے۔‘‘

میں نے اسپتال کے ڈاکٹروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

منگیش پاگی اپنے پیچھے سات لوگوں کی فیملی چھوڑ گئے ہیں – ان کے والدین، مینا اور ان کی ۱۹، ۱۷، ۱۱ اور ۷ سال کی چار بیٹیاں۔ وہ ایک کسان تھے اور فیملی کے ایک ایکڑ کھیت پر چاول، گیہوں اور باجرا کی کھیتی کرتے تھے۔ فیملی کا تعلق کاتکری آدیواسی برادری سے ہے اور اب انہیں پوری طرح سے مینا کی مزدوری پر منحصر رہنا پڑے گا – وہ پاس کے کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور ایک دن میں ۱۵۰-۲۰۰ روپے کماتی ہیں۔ ’’ہمارے گاؤں میں دو مہینے سے [وبائی مرض کی پابندیوں کے سبب] ہمیں کوئی کام نہیں ملا ہے۔ وہ پہلے سے ہی پیسے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے اور اب ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کیسے کام چلائیں گے،‘‘ شو رام کہتے ہیں۔

وامن اور منگیش کو کم از کم اسپتال کا بستر تو ملا تھا، شیام مالی کو تو وقت پر وہ بھی نہیں ملا۔ اپریل کے آخری ہفتے میں، ۲۸ سالہ شیام کو وکرم گڑھ تعلقہ کے یشونت نگر گاؤں میں اپنے گھر پر تیز بخار ہو گیا تھا۔ ’’ہم انہیں مقامی [سرکاری] اسپتال لے گئے۔ وہاں انہیں دوا دی گئی اور وہ بہتر محسوس کرنے لگے تھے۔ ڈاکٹر نے مجھے ٹیسٹ کرانے کے لیے کہا، لیکن وکرم گڑھ میں واحد پیتھالوجی لیب بند تھی۔ کچھ دنوں کے بعد، ایک رات تقریباً ۳ بجے انہیں سانس لینے میں دقت ہونے لگی،‘‘ مہیش مورگھا، ۲۶ اپریل کی علی الصبح اپنی بیوی سُمیتا کے بھائی کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، اسے یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔

Mangesh Pagi’s parents mourn the loss of their son outside ReVera Hospital while his wife, Mina (right) sits stunned
PHOTO • Shraddha Agarwal
Mangesh Pagi’s parents mourn the loss of their son outside ReVera Hospital while his wife, Mina (right) sits stunned
PHOTO • Shraddha Agarwal

ریویرا اسپتال کے باہر منگیش پاگی کے غم میں ڈوبے ہوئے والدین اور ان کی بیوی مینا (دائیں)

’’ہم پہلے انہیں دوسرے سرکاری اسپتال [وکرم گڑھ میں] لے گئے۔ وہاں انہوں نے ہمیں ان کو کووڈ سنٹر لے جانے کے لیے کہا۔ وہ ابھی بھی سانس نہیں لے پا رہے تھے، اور ہم ایک پرائیویٹ اسپتال سے ایمبولنس حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس میں کچھ آکسیجن تھی۔ لیکن ریویرا میں ہمیں ان کے لیے بستر نہیں ملا۔ ہم نے فریاد کی، لیکن ڈاکٹروں نے کہا کہ کوئی بستر خالی نہیں ہے،‘‘ مہیش بتاتے ہیں۔ ریویرا اسپتال میں بستر تلاش کرنے کی یہ پہلی کوشش صبح تقریباً ۸ بجے کی گئی تھی۔

پالگھر ضلع کے آٹھ تعلقہ – ڈہانو، جوہار، موکھاڈا، پالگھر، تلاسری، وسئی، وکرم گڑھ، واڈا – میں تقریباً ۳۰ لاکھ کی کل آبادی کے لیے ہاتنے گاؤں میں واقع ریویرا سمیت ۱۲ وقف کووڈ اسپتال ہیں۔ ان میں کل ۲۲۸۴ آئیسولیشن بیڈ، ۵۹۹ آکسیجن بیڈ، ۴۲ آئی سی یو بیڈ اور ۷۵ وینٹی لیٹر ہیں۔ ضلع کی سرکاری ویب سائٹ سے پتا چلتا ہے کہ ۱۲ مئی کو تقریباً آدھے آئیسولیشن بیڈ اور ساتھ ہی ۷۳ آکسیجن بیڈ دستیاب تھے۔ اُس دن صرف ایک آئی سی یو بیڈ اور ۳ وینٹی لیٹر دستیاب تھے۔

ضلع میں اب تک تقریباً ۱ لاکھ (۹۹۵۳۹) کووڈ کے فعال معاملے اور ۱۷۹۲ اموات درج کی گئی ہیں۔

شیام کے لیے بے صبری سے بستر کی تلاش کے سلسلے میں، پنکج پاٹکر، جن کی شادی شیام کی ایک اور بہن پوجا سے ہے، ایک مقامی سی پی ایم کارکن کے ساتھ، پالگھر ضلع کے واڈا شہر سے آکسیجن سیلنڈر حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ’’ایمبولنس میں آکسیجن ختم ہونے ہی والی تھی کہ ہم دوسرے سیلنڈر کے ساتھ پہنچ گئے،‘‘ پنکج مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہم انہیں بوئیسر [تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور] کے کووڈ سنٹر لے گئے۔ انہوں نے سی ٹی اسکین بھی کرایا، لیکن وہاں بھی ہمیں بستر نہیں ملا۔ ہم نے بھیونڈی اور تھانے کے کسی بھی اسپتال میں بستر پانے کی بھی بہت کوشش کی۔‘‘ یہ شہر وکرم گڑھ سے ۱۰۰ کلومیٹر کے دائرے میں واقع ہیں۔

Sumitra Moragha (left) says: 'No hospital gave him a bed. My brother couldn’t breathe. His new bride [Rupali, right, in blue] hasn’t eaten in days'
PHOTO • Shraddha Agarwal
Sumitra Moragha (left) says: 'No hospital gave him a bed. My brother couldn’t breathe. His new bride [Rupali, right, in blue] hasn’t eaten in days'
PHOTO • Shraddha Agarwal

سمترا مورگھا (بائیں) کہتی ہیں: ’کسی بھی اسپتال نے انہیں بستر نہیں دیا۔ میرا بھائی سانس نہیں لے سکا۔ ان کی نئی دلہن [روپالی، دائیں، نیلے رنگ میں] نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے‘

’’لیکن ہم سنبھال نہیں پائے اور انہیں واپس ریویرا اسپتال لے گئے،‘‘ پنکج کہتے ہیں۔ ریویرا میں بستر تلاش کرنے کی یہ دوسری کوشش دوپہر تقریباً ۳ بجے کی گئی – پہلی کوشش کے تقریباً سات گھنٹے بعد۔ ایمبولنس کا ۸۰۰۰ روپے کرایہ فیملی نے – ان کا تعلق ٹھاکر آدیواسی برادری سے ہے – رشتہ سے داروں سے قرض لیکر ادا کیا۔

ہم وہاں کے ڈاکٹروں سے انہیں داخل کرنے کی فریاد کر رہے تھے، تبھی شیام نے آخری سانس لی،‘‘ پنکج کہتے ہیں۔

’’وہ سانس نہیں لے پا رہے تھے،‘‘ شیام کی بہن سمترا کہتی ہیں۔ ’’انہیں اسپتال لے جایا گیا، لیکن کسی نے انہیں بستر نہیں دیا۔ کسی نے انہیں آکسیجن نہیں دی۔ میرا بھائی سانس نہیں لے سکا۔ ان کی نئی دلہن نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ جاکر دیکھئے، وہ صدمے میں ہے۔‘‘

ایک مقامی آٹوموٹو کمپنی میں کام کرنے والے شیام کی دو مہینے پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔ یشونت نگر گاؤں میں اپنے والدین کے گھر پر ان کی نئی شادی شدہ بیوی، ۲۴ سالہ روپالی، گہرے گلابی رنگ کی پلاسٹک کی کرسی پر اپنے برآمدے میں بیٹھی ہیں۔ ان کی بہن ان کی دیکھ بھال کر رہی ہیں اور یقینی بنا رہی ہیں کہ وہ گریں نہیں۔ اپنے شوہر کے گزر جانے کے بعد سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا ہے، اور غصے سے کہتی ہیں: ’’ہم آکسیجن کے لیے بھیک مانگتے رہے۔ انہیں بس آکسیجن کی ضرورت تھی۔ اگر آپ کو کچھ ہوتا ہے، تو آپ کے لیے ممبئی شہر میں بڑے بڑے اسپتال ہیں۔ لیکن گاؤوں میں ہمیں آکسیجن کون دے گا،‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Shraddha Agarwal

شردھا اگروال پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کی رپورٹر اور کانٹینٹ ایڈیٹر ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Shraddha Agarwal
Editor : Sharmila Joshi

شرمیلا جوشی پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کی سابق ایڈیٹوریل چیف ہیں، ساتھ ہی وہ ایک قلم کار، محقق اور عارضی ٹیچر بھی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز شرمیلا جوشی
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique