’’ٹیکری بارڈر پر سڑک کے دونوں طرف ۵۰ کلومیٹر تک ٹریکٹروں کی قطار لگ چکی ہے،‘‘ کمل برار نے بتایا۔ وہ ہریانہ کے فتح آباد ضلع کے اپنے گاؤں سے ۲۰ دیگر کسانوں کے ساتھ ۲۴ جنوری کو پانچ ٹریکٹر اور دو ٹرالیوں کے ساتھ ٹیکری پہنچے تھے۔
ہریانہ- دہلی سرحد پر واقع ٹیکری، قومی راجدھانی کے ٹھیک باہر اُن تین اہم مقامات میں سے ایک ہے، جہاں لاکھوں کسان ستمبر ۲۰۲۰ میں پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے زرعی قوانین کو منسوخ کرانے کے لیے ۲۶ نومبر، ۲۰۲۰ سے احتجاج کر رہے ہیں۔
احتجاجی مظاہرہ کے حصہ کے طور پر، کسانوں نے ۲۶ جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر راجدھانی میں غیر معمولی ٹریکٹر ریلی نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
اس ریلی میں شرکت کرنے کا ارادہ رکھنے والوں میں نرمل سنگھ بھی شامل ہیں۔ پنجاب کے فاضلکا ضلع کے ابوہر بلاک میں واقع اپنے گاؤں، وہاب والا سے چار ٹریکٹروں کے ساتھ آئے نرمل سنگھ کو ٹیکری میں پارکنگ کی جگہ ڈھونڈنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ وہ کسان مزدور ایکتا یونین کے بینر تلے، وہاب والا سے ۲۵ لوگوں کے ساتھ آئے ہیں۔ ’’اور بھی کئی لوگ آ رہے ہیں۔ ٹریکٹروں کی تعداد کئی گنا بڑھ جائے گی، آپ دیکھئے گا،‘‘ انہوں نے کہا۔
’’پریڈ کے دن، ۱۰ لوگوں کو ایک ٹریکٹر دیا جائے گا،‘‘ کمل برار نے بتایا۔ ’’یہ ایک پرامن ریلی ہوگی اور ہم پولیس کے ذریعہ دیے گئے راستے کے نقشہ پر چلیں گے۔ پریڈ کے دوران کسی بھی حادثہ یا ناشائستگی پر نظر رکھنے کے لیے کسان لیڈروں کی رہنمائی میں رضاکاروں کی ٹیموں کو ٹریننگ دی جا رہی ہے۔‘‘
ٹریکٹر پریڈ شروع ہونے سے پہلے لنگر (اجتماعی باورچی خانہ) کسانوں کو چائے اور ناشتہ مہیا کرائیں گے، اور راستے میں کوئی کھانا نہیں دیا جائے گا۔
خواتین کسان ریلی کی قیادت کریں گی، جو اس وقت پریڈ کی تیاری کر رہی ہیں – خواتین کی جماعتیں ۲۶ جنوری کی ریلی کےلیے ٹیکری کی سڑکوں پر ٹریکٹر چلانے کی مشق کر رہی ہیں۔
سامنے سے قیادت کرنے والی خواتین میں ہریانہ کے فتح آباد ضلع کے جاکھل بلاک کے ایک گاؤں کی کسان، ۶۵ سالہ راج کور بی بی بھی ہیں۔ ’’سرکار ۲۶ [جنوری] کو عورتوں کی طاقت دیکھے گی،‘‘ انہوں نے کہا۔
بھارتیہ کسان یونین (ایکتا اُگراہاں) کی قیادت میں تقریباً ۲۰ ہزار ٹریکٹروں کا ایک قافلہ ۲۴ جنوری کو دیر رات ٹیکری سرحد پر پہنچا۔ وہ پنجاب کے بھٹنڈا ضلع کے ڈبوالی اور سنگرور ضلع کے کھنوری بارڈر سے ہوتے ہوئے یہاں تک آئے۔
اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ۶۰ سالہ جسکرن سنگھ بھی ہیں، جو ۲۷ نومبر کو پنجاب کے مانسا ضلع کے شیر خان والا گاؤں سے پانچ ٹریکٹروں پر کسانوں کے ایک گروپ کے ساتھ ٹیکری آئے تھے۔ ’’تب سے ہم یہاں بدسلوکی، چوری یا بدتمیزی کی ایک بھی شکایت کے بغیر بیٹھے ہوئے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔
وہ پنجاب کے مانسا ضلع کے اپنے گاؤں سے ٹیکری کے احتجاجی مقام پر آتے جاتے رہے ہیں۔ وہ ۲۳ جنوری کو ۲۵ دیگر کسانوں کے ساتھ ۱۰ ٹریکٹروں سے واپس آ گئے ہیں۔ ’’۲۶ جنوری ایک تاریخی دن ہوگا، جب ملک کے اَنّ داتا (غذا فراہم کرنے والے) ایک بڑی پریڈ نکالیں گے۔ یہ ’لوگوں کا آندولن‘ بن گیا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔
ٹیکری میں یوم جمہوریہ کا انتظار کرنے والوں میں ۴۰ سالہ آرٹسٹ دیوراجن رائے بھی شامل ہیں، جو تین لوگوں کی ایک ٹیم کے ساتھ مغربی بنگال کے ہلدیہ سے ٹرین کے ذریعہ پچھلے ہفتہ احتجاج کے مقام پر پہنچے۔ دیوراجن اپنے ساتھی آرٹسٹ بیجو تھاپر کے ساتھ، سر چھوٹو رام جیسی معروف تاریخی شخصیات کے کٹ آؤٹ بنانے میں مصروف ہیں۔ ’’ہم کسانوں کی حمایت کرنے آئے ہیں۔ ہم اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے یہ تصویریں بنا رہے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ آرٹ کو سماج کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ان میں سے ایک کٹ آؤٹ بابا رام سنگھ کی ہے، جنہوں نے ۱۶ دسمبر کو کُنڈلی بارڈر پر خود کو گولی مار لی تھی۔
ٹیکری پر موجود حامیوں میں مغربی بنگال کے ہلدیہ سے پوسٹ گریجویشن کی طالبہ، اشیتا بھی شامل ہیں۔ وہ ٹریکٹر پر لگانے کے لیے ایک بینر بنا رہی ہیں، جس میں دکھایا گیا ہے کہ یہ قوانین کسانوں اور دیگر کو کیسے متاثر کریں گے۔
ان قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔ یہ تینوں قوانین ہیں زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔
کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ یہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ کتنے کسان پریڈ میں شامل ہونے کے لیے آ رہے ہیں،‘‘ جسپریت کہتے ہیں، جو لدھیانہ ضلع کے بھَینی صاحب سے ۲۱ جنوری کو ٹیکری پہنچے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اپنے گاؤں سے آنے والے وہ واحد شخص ہیں۔ ’’اہم یہ ہے کہ ہر شہر اور گاؤں کو اسے کامیاب بنانے میں تعاون کرنا چاہیے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز