جب ہندوستان میں ۱۹ویں صدی میں ریلوے آئی، تو الگ الگ علاقائی نیٹ ورک وجود میں آئے۔ اُس وقت گوالیار نوابی ریاست کے سندھیا حکمرانوں نے ’گوالیار لائٹ ریلوے‘ شروع کی تھی۔ یہ ۲۱۰ کلومیٹر کی مسافت پر محیط ہے اور اب یہ دنیا کی سب سے لمبی چھوٹی لائن ہے، جو آج بھی بچی ہوئی ہے۔
اس لائن کی نمبر ۵۲۱۷۱ واحد ٹرین ہے جو شیوپور کلاں کو گوالیار شہر سے جوڑتی ہے۔ یہ اوسطاً ۱۸ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس کے ذریعے پورا سفر طے کرنے میں ساڑھے دس گھنٹے لگیں گے۔
یہ ٹرین، جو کہ اب ہندوستانی ریلوے کا حصہ ہے، گوالیار سے صبح ۶ بج کر ۲۵ منٹ پر روانہ ہوتی ہے۔ میں اسٹیشن پر وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ گیا، ۲۹ روپے کا اپنا ٹکٹ خریدا اور ٹرین میں سوار ہو گیا۔ اس میں پہلے سے ہی مسافروں کی زبردست بھیڑ تھی۔ ’’گوالیار-شیوپور این جی پیسنجر‘‘ میں سات چھوٹے چھوٹے ڈبے ہیں اور اس میں تقریباً ۲۰۰ مسافر کے آس پاس سوار ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ ہر روز اس سے دو گنا زیادہ مسافروں کو ڈھوتی ہے۔ لوگ ٹرین کے ڈبوں میں کھچا کھچ بھر جاتے ہیں، کنارے پر لٹک جاتے ہیں، اور اس کی چھت پر چڑھ جاتے ہیں۔
اتنی بھیڑ بھاڑ کے باوجود، میرے ساتھی مسافروں نے مجھے اس میں سوار ہونے میں مدد کی اور مجھے جگہ دینے کی کوشش کی۔ گھوسی پورہ اسٹیشن پر، میں انجن ڈرائیور کے کیبن میں چلا گیا۔ ڈرائیور انور خان نے کچھ دور تک مجھے اپنے ساتھ سفر کرنے کی اجازت دے دی۔ میں چھت پر چڑھنے کے لیے بھی بیتاب تھا لیکن پتہ چلا کہ اس میں کافی خطرہ ہے۔ راستے میں کئی پُل آتے ہیں، جن کی کراس بیم کو پار کرنا پڑتا ہے اور اس راستے میں اس قسم کی کئی بیمیں کافی نیچے ہیں۔ کئی مسافر اس سے بچنے کی خاطر تھوڑی دیر کے لیے نیچے اتر کر کنارے پر لٹک جاتے ہیں، باقی کراس بیموں سے ٹکرانے سے بچنے کے لیے پیٹھ کے بل چھت پر ہی لیٹ جاتے ہیں۔
یہ ٹرین خوبصورت سرسوں کے کھیتوں سے ہوکر گزری، ندیوں نالوں اور بنجر مناظر کو پار کیا۔ لیکن میرے لیے اس دن کی سب سے یادگار بات یہ رہی کہ لوگ میرے ساتھ بڑی گرمجوشی سے پیش آئے۔
اس فوٹو اسٹوری کا ایک ورژن ۲۲ فروری، ۲۰۱۶ کو Roads & Kingdoms میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز