’’کیا آپ کو لگتا ہے کہ لوگ اس سال گنیش کی مورتیاں خریدیں گے؟‘‘ وشاکھا پٹنم کی کمّاری ویڈھی (کمہاروں کی گلی) میں رہنے والے یو گوری شنکر سوال کرتے ہیں۔ ’’ہم بھگوان میں آستھا رکھتے ہیں اور ہر سال یہ مورتیاں بناتے ہیں۔ اور ان کی مہربانی سے، ہم نے کم از کم تھوڑا منافع کمایا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن اس سال، ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی بھگوان نہیں ہے، صرف لاک ڈاؤن اور وائرس ہے۔‘‘
آندھرا پردیش کے اس شہر میں، ۶۳ سالہ شنکر اپنے ۴۲ سالہ بیٹے ویر بھدر اور ۳۶ سالہ بہو مادھوی کے ساتھ، اپنے گھر پر ہر سال اپریل میں گنیش کی مورتیاں بنانا شروع کر تے ہیں۔ لیکن وبائی مرض کے سبب، وہ اس سال جون کے وسط میں یہ کام شروع کر سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ عام طور پر جولائی سے اکتوبر کے درمیان (جو کہ کمہاروں کے لیے تہواروں کا موسم ہوتا ہے)، ونایک چترتھی اور دیوالی سے جڑے آرڈر کی ڈلیوری کرکے ہر مہینے ۲۰-۲۳ ہزار روپے کماتے ہیں۔ اس سال، ونایک (گنیش) چترتھی سے بمشکل ۴۸ گھنٹے پہلے، انہیں مورتیوں کے لیے ایک بھی تھوک آرڈر نہیں ملا تھا۔
تقریباً ۱۵ سال پہلے، کمہاروں کی گلی اس ذریعہ معاش سے جڑے ۳۰ کُمّارا کنبوں کی سرگرمی سے گلزار رہتی تھی۔ اب صرف چار ہی کنبے بچے ہیں۔ اور ان کنبوں نے مارچ کے آخری ہفتہ میں شروع ہوئے لاک ڈاؤن کے دوران اپنی حالت کو مزید خراب ہوتے دیکھا ہے۔
’’ہمیں ان تاجروں سے تھوک آرڈر ملتا ہے، جو مورتیوں کی تقسیم کرتے ہیں، لیکن اس سال ہمیں کوئی آرڈر نہیں ملا ہے،‘‘ مادھوی کہتی ہیں، جو آندھرا پردیش کے شریکا کولم ضلع سے ہیں۔ ان کے شوہر کے دادا دادی یہاں ایک گاؤں سے آئے تھے، جو اب وجے نگرم ضلع میں ہے۔
ان کے گھر میں چھوٹی گنیش کی مورتیوں کی قیمت ۱۵ سے ۳۰ روپے کے درمیان ہے، جو ان کے سائز پر منحصر ہے۔ گزشتہ ۴-۵ برسوں سے، ان کی فیملی کو تہوار کے اس موسم میں صرف چھوٹی گنیش کی مورتیوں کی فروخت سے ماہانہ ۷-۸ ہزار روپے کا منافع ہوتا تھا۔
یہ فیملی ایک دن میں ایسی ۱۰۰ مورتیوں کو ایک ساتھ ڈھالتی ہے۔ ’’جن میں سے شاید ۶۰ سے ۷۰ پوری طرح ٹھیک نکلتی ہیں۔ کچھ مورتیاں پینٹ کرتے وقت ٹوٹ جاتی ہیں،‘‘ شنکر بتاتے ہیں۔ مادھوی نے مجھے ایک نئی مورتی دکھائی، جس کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ ’’ٹوٹی ہوئی مورتیوں کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’وہ ہماری بیکار کوششوں کی نشانی ہیں۔‘‘ ان کے گھر کے باہر دُرگا کی تین بڑی، ٹوٹی، آدھی پینٹ کی ہوئی مورتیاں بھی ہیں۔
وہ کئی چھوٹی چیزیں بھی بناتے ہیں، جن میں برتن، گولک، مٹی کے جار، کپ اور مٹی کے دیگر سامان شامل ہیں۔ مختلف قسم کے یہ سامان ان کے گھر کے باہر ایک دوسرے کے اوپر بے ترتیبی سے رکھے جاتے ہیں۔ ہر ایک کی قیمت ۱۰ سے ۳۰۰ روپے تک ہوتی ہے۔ ’’آج کل ان کو خریدنے والے لوگ بہت زیادہ نہیں ہیں۔ ہر کوئی اسٹیل یا تانبے کا سامان خریدتا ہے۔‘‘
’’ان سے ہونے والی آمدنی ہر ماہ ۷۰۰-۸۰۰ روپے سے زیادہ نہیں ہے،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔ ’’ہم گنیش چترتھی اور دیوالی سے ہونے والی کمائی پر منحصر ہیں۔‘‘ اس سے جب کمائی نہیں ہوتی، تو وہ گہری پریشانی میں پڑ جاتے ہیں۔
’’۷-۸ سال پہلے، ہم ہر چھ مہینے میں تقریباً ۵۰۰ مٹکے بناتے تھے۔ لیکن اب ہم مشکل سے ۱۰۰-۱۵۰ بنا پاتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ پچھلے سال، فیملی نے ۵۰۰ مٹکے (گھڑے)، ۲۰۰ گلدان، اور مٹی کے کچھ دیگر سامان فروخت کیے تھے۔ شنکر کا اندازہ ہے کہ ۲۰۱۹ میں ان سے ان کی کمائی ۱۱-۱۳ ہزار روپے ہوئی تھی۔ اس سال، انہوں نے – لاک ڈاؤن سے پہلے - صرف ۲۰۰ مٹکے اور ۱۵۰ گلدان فروخت کیے ہیں۔
مادھوی کو اپنے دو بچوں کی تعلیم کی فکر ہے۔ ’’کسی طرح، مجھے لگتا ہے کہ یہ آن لائن کلاسز انہیں معقول علم فراہم نہیں کریں گی،‘‘ وہ مٹی کو گوندھتے ہوئے مجھ سے کہتی ہیں۔ ان پچھلے دو مہینوں میں انگریزی میڈیم کے پرائیویٹ اسکول نے، جس میں ان کے بچے پڑھتے ہیں، لاک ڈاؤن کے دوران بند رہنے کے باوجود ان سے بار بار ماہانہ فیس کا مطالبہ کیا۔ ’’لیکن ہم پیسے ادا نہیں کر سکتے،‘‘ مادھوی کہتی ہیں۔
وہ کیسے کر سکتے تھے؟ دونوں لڑکوں کی فیس مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ ہے، جس میں کلاس ۷ میں پڑھنے والے ۱۳ سالہ گوپی نارائن کی ماہانہ فیس ۸ ہزار روپے اور کلاس ۳ میں پڑھنے والے ۸ سالہ شروَن کمار کی ماہانہ فیس ۴۵۰۰ روپے کی ادائیگی شامل ہے۔
’’ہم تقریباً ہر سال اپنے پوتے کی تعلیم کے لیے پیسے قرض لیتے ہیں – تقریباً ۷۰-۸۰ ہزار روپے،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے رشتہ داروں یا دوستوں سے قرض لیتے ہیں، تاکہ سود نہ دینا پڑے۔
شنکر اور ان کی فیملی مٹی کی بڑی مورتیاں بناتی ہے، عام طور پر گنیش کی، جو ۵-۶ فٹ اونچی اور ان میں سے ہر ایک کی قیمت ۱۰-۱۲ ہزار روپے ہوتی ہے۔ ’’حالانکہ، پولیس نے کہا کہ ہم بڑی مورتیوں کو گھر کے باہر نہ رکھیں۔ اور اس لیے، ہمیں ان کے لیے آرڈر نہیں ملے ہیں،‘‘ وہ اداسی سے مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’بڑی مورتیوں سے ہی ہمیں اچھا منافع ملتا ہے۔‘‘
مین روڈ سے الگ ہونے کے سبب، حالیہ برسوں میں کمہاروں کی گلی پر لوگوں کی توجہ بہت کم گئی ہے، اور کچھ ہی لوگ یہاں آئے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے، جب اس بڑے علاقے کو – جس کے اندر کمہاروں کی یہ گلی واقع ہے – ایک ایکٹیو کورونا وائرس علاقہ قرار دیا گیا تھا، تب شنکر کے یہاں آنے والے لوگ پولیس کے تھے۔
’’کچھ دنوں پہلے، انہوں نے مجھے برتن اور مٹی کے دیگر سامانوں کو فروخت بند کرنے کے لیے کہا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’عجیب بات ہے، کیوں کہ میرے پاس شاید ہی کوئی گاہک آتا ہے۔ شاید ہفتہ میں ایک – یا ایک بھی نہیں۔‘‘ وہ اَکّائے پالم کی مین روڈ پر ایک ٹھیلہ پر اپنی ’دکان‘ لگاتے ہیں، جہاں وہ بہت سارے دیئے اور دیگر چھوٹے، سجاوٹی اور پینٹ کیے ہوئے سامانوں کی نمائش کرتے ہیں۔ مٹی کے زیادہ تر بڑے، عام طور سے آرائشی سامان، ان کے گھر کے باہر رَیک پر رکھے ہیں۔
’’اب پولیس نے ہمیں ان سامانوں کو بھی اندر رکھنے کے لیے کہا ہے۔ لیکن میں انہیں کہاں رکھوں؟‘‘ شنکر پوچھتے ہیں۔ ان کے گھر کا زیادہ تر حصہ گنیش کی نئی بنائی گئی مورتیوں کے ساتھ ساتھ مٹی کے دیگر سامانوں، اور گزشتہ برسوں کے بچے ہوئے کچھ سامانوں سے بھرا ہوا ہے۔
’’مٹی کے برتن کئی لوگوں کو سستے لگتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس میں ایک بڑی رقم لگانی پڑتی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ ایک جوا ہے،‘‘ مادھوی کہتی ہیں۔
کُمّاری ویڈھی کے کمہار ہر سال ایک ٹرک مٹی (تقریباً ۴-۵ ٹن) ۱۵ ہزار روپے میں خریدتے ہیں۔ اس مٹی (اور دیگر اشیاء) کے لیے، شنکر مقامی ساہوکاروں سے پیسے قرض لیتے ہیں – ۳۶ فیصد کی سالانہ شرح سود پر۔ گنیش چترتھی اور دیوالی کے آخر میں، وہ مورتیوں اور دیئوں کو فروخت کرنے سے ہوئی کمائی سے انہیں پیسے واپس کر دیتے ہیں۔ ’’اگر میں اس موسم میں زیادہ نہیں فروخت کر پایا، تو میں انہیں پیسے واپس نہیں کر پاؤں گا،‘‘ وہ فکرمندی کے ساتھ کہتے ہیں۔
جس مٹی کو وہ خریدتے ہیں، اسے پانی میں ملاکر اپنے پیروں سے گوندھنے سے پہلے ۲-۳ دنوں تک دھوپ میں سُکھاتے ہیں۔ عام طور پر مادھوی اسے پیروں سے گوندھتی ہیں۔ ’’اس میں تقریباً ۴-۵ گھنٹے لگتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ اس کے بعد، پلاسٹر آف پیرس کے سانچوں کا استعمال کرکے مورتیوں کو شکل دی جاتی ہے۔ ’’پہلے، یہ سانچے ۳-۴ سال تک چلتے تھے۔ لیکن اب وہ خراب کوالٹی کے ہوتے ہیں اور انہیں ہر سال بدلنا ضروری ہے،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔ ہر ایک سانچے کی قیمت تقریباً ایک ہزار روپے ہے۔
مورتیوں کو سانچے میں ڈھالنے کے بعد ایک ہفتہ تک خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خشک ہو جانے کے بعد، انہیں پینٹ کیا جاتا ہے۔ ’’پینٹ اور [تہوار کے موسم کے لیے] دیگر ضروری اشیاء خریدنے کے لیے ہمیں ۱۳-۱۵ ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔ ’’اس سال میں نے ابھی تک کوئی خریداری نہیں کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ کوئی نہیں خریدے گا۔ لیکن میرا بیٹا اس کے برعکس سوچ رہا ہے۔ بہرحال، ہمیں زندہ رہنے کے لیے بیچنا ہی پڑے گا۔‘‘
’’عام طور پر، لوگ ہمیں جون میں ہی مورتیوں کے لیے پیسے ادا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اپریل سے ہی ہماری کوئی کمائی نہیں ہوئی ہے،‘‘ شنکر بتاتے ہیں۔ ’’یہاں تک کہ ہم چھوٹے برتن اور دیگر سامان فروخت کرکے جو تھوڑا بہت کماتے تھے، وہ بھی صفر ہو گیا ہے۔‘‘
دو چار گھر آگے شری نواس راؤ کا تین کمروں کا مکان ہے۔ فی الحال، اس کا ایک بڑا حصہ بغیر پینٹ کی ہوئی گنیش کی مورتیوں سے بھرا ہوا ہے۔ مٹی کا برتن بنانے کے ساتھ ساتھ، ۴۶ سالہ شری نواس راؤ ۱۰-۱۲ سال پہلے پاس کے ایک پرائیویٹ کالج میں کلرک کی نوکری کرنے لگے۔
ان کی بیوی، ۳۸ سالہ ایس ستیہ وتی لگاتار مٹی کے برتن بنانے میں مصروف ہیں۔ ’’مٹی کے برتن بنانا ہماری کل ورتی [ذات کا پیشہ] ہے اور یہ ہمیں کم از کم تھوڑی آمدنی فراہم کرتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی ہے، میں صرف برتن، دیئے اور مورتیاں بنانا جانتی ہوں۔ ہماری فیملی میں کل نو ممبران ہیں، جن میں میری تین بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ ہم سبھی صرف ان کی کمائی پر پوری طرح منحصر نہیں رہ سکتے۔‘‘
ستیہ وَتی گنیش کی صرف چھوٹی مورتیاں بناتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو ۳۰ روپے میں فروخت کرتی ہیں۔ ’’اب تک، میں نے ۴۰ مورتیاں بنائی ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں – جولائی کے وسط میں ہماری ملاقات سے پہلے، ۱۰ دنوں میں۔ عام طور پر، تہوار کے موسم میں انہیں فروخت کرنے سے انہیں ۳-۴ ہزار روپے کا منافع ہوتا ہے۔
شری نواس راؤ کو مئی سے ان کی تنخواہ – ۷ ہزار روپے – نہیں ملی ہے، لیکن وہ جون سے کالج میں کام کرنے جا رہے ہیں۔ ’’مجھے امید ہے کہ اس مہینے میری تنخواہ مل جائے گی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اپنے خالی وقت میں، وہ مورتی بنانے میں اپنی بیوی کی مدد کرتے ہیں۔ ’’مورتیاں جتنی ہوں گی، اتنی ہی کمائی بھی ہوگی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ شری نواس کا ماننا ہے کہ آرڈر نہ ملنے کے باوجود وہ اس سال بھی اپنی مورتیاں فروخت کر سکتے ہیں۔ ’’برا وقت چل رہا ہے،‘‘ وہ دلیل دیتے ہیں، ’’اس لیے کئی لوگ بھگوان سے پرارتھنا کرنا اور پوجا پاٹھ کرنا چاہیں گے۔‘‘
ستیہ وَتی کو اپنی دو بڑی بیٹیوں کی فکر ہے، جن کی عمر ۱۵ اور ۱۶ سال ہے۔ ’’وہ دونوں ۱۰ویں کلاس پاس کر چکی ہیں۔ بہت سارے اوسط کالج عام فیس مانگ رہے ہیں – ہر ایک کے لیے تقریباً ۴۵ ہزار روپے ایک سال کے – حالانکہ ابھی صرف آن لائن کلاسز چل رہی ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہم نے ابھی تک ان کا داخلہ کہیں نہیں کرایا ہے۔ ہم امید کر رہے ہیں کہ فیس کم ہو جائے گی۔‘‘ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی – جو ۱۰ سال کی ہے اور کلاس ۴ میں پڑھتی ہے – کو ایک انگریزی میڈیم کے پرائیویٹ اسکول میں بھیجنے پر انہیں ۲۵ ہزار روپے ہر سال بطور فیس ادا کرنے پڑتے ہیں۔
وہ اس وقت کو یاد کرتی ہیں، جب کُمّاری ویڈھی میں لوگ خوش رہتے تھے، خاص کر گنیش چترتھی اور دیوالی سے پہلے۔ ’’یہ گلی خوشی اور آدھی گیلی مٹی کی خوشبو سے بھر جاتی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن اب صرف چار کنبے ہی بچے ہیں، جو مٹی کے برتن بناتے ہیں۔‘‘
اس موسم میں یہاں پر واحد غرقابی گن پتی کی ہی نہیں، بلکہ قرض میں ڈوبے ان کنبوں کی بھی ہو سکتی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز