وسط ممبئی سے تقریباً ۹۵ کلومیٹر دور، تھانے ضلع کے نمباولی گاؤں میں سپریا پہاڑی کی گود میں ہمارا گریل پاڑہ ہے۔ وارلی آدیواسیوں کی اس چھوٹی سے بستی میں صرف ۲۰-۲۵ گھر ہیں۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی، پاڑہ نے روایتی طریقے سے دیوالی منائی۔ اس ماہ کے آغاز میں، ہر کوئی تہوار کی تیاری میں مصروف تھا۔
واگھ برسی ، برکی تیولی ، موٹھی تیولی اور بلی پرتی پاڑہ ہماری برادری کے لیے دیوالی کے چار اہم دن ہیں۔ ہم نے انھیں اس سال ۵ سے ۸ نومبر تک منایا۔
وارلی شیر کو اپنا دیوتا مانتے ہیں، اور واگھ برسی پر ہم شیر کی پوجا کرتے ہیں۔ آدیواسی پاڑہ عام طور پر جنگل میں واقع ہیں۔ ماضی میں، وارلی گزر بسر کے لیے پوری طرح سے جنگل پر منحصر تھے۔ وہ اپنے مویشیوں کو چرانے جنگل لے جایا کرتے، جیسا کہ آج بھی ان میں سے بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ انھوں نے شیر سے ان پر حملہ نہ کرنے کی پرارتھنا کی – اور خوف کی وجہ سے ان کے معتقد ہو گئے۔
وسط ممبئی سے تقریباً ۹۵ کلومیٹر دور، تھانے ضلع کے نمباولی گاؤں میں سپریا پہاڑی کی گود میں ہمارا گریل پاڑہ ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی، پاڑہ نے اپنے روایتی طریقے سے دیوالی منائی
گو دیوی مندر میں لکڑی کا ایک تخت ہے، جس کے بیچ میں شیر کی ایک تصویر کندہ ہے۔ گاؤں کے لوگ اپنے بھگوان کی پوجا کرنے کے لیے یہاں ناریل توڑتے ہیں، اگربتی اور چراغ جلاتے ہیں۔ کچھ ہی دوری پر پاڑہ کے پاس کے جنگل میں، سندور سے رنگا ہوا ایک بڑا پتھر ہمارا واگھیا (شیر) تیرتھ استھل ہے۔
برکی تیولی (’چھوٹا چراغ‘) کے دن، میری ماں پرمیلا جنگل سے کچھ چروٹی جمع کرتی ہیں۔ میری ماں ۴۶ سال کی ہیں؛ وہ اینٹ کے بھٹوں میں کام کرتی تھیں، اور کالے گڑ سے بنی شراب بناتی اور بیچتی تھیں، لیکن اب ہماری جنگلاتی زمین کے ایک ٹکڑے پر کھیتی کرتی ہیں۔ وہ اس جنگلی پھل کو بیچ سے کاٹتی ہیں – چروٹی ککڑی کی ایک قسم ہے، لیکن چھوٹا اور کڑوا ہوتا ہے – اور اس کے اندر کے گودے کو باہر نکال کر چراغ کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ایک چھوٹی پیالی بناتی ہیں۔
پھر گائے کے گوبر اور مٹی کو ملا کر چراغ کے لیے ایک گول، کھوکھلا ہولڈر بنایا جاتا ہے، جسے بووالا کہتے ہیں۔ اسے دیوار کے اوپر ایک اونچائی پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ ہولڈر کو گیندا کے پھولوں سے سجایا جاتا ہے۔ شام کو، چراغ کو اس بووالا کے اندر رکھ کر جلایا جاتا ہے۔ اونچی جگہ پر ہونے کے سبب، چراغ چاروں طرف روشنی پھیلا دیتا ہے۔
ماضی میں، ہمارے پاڑہ کے سبھی گھر کروی کے ڈنڈوں اور لکڑی سے بنائے جاتے تھے۔ چھت کے اوپر چھپر ہوتا تھا۔ اس وقت، گوبر کا بووالا جھونپڑی کو آگ پکڑنے سے بچاتا تھا۔ (سال ۲۰۱۰ کے آس پاس، ہماری بستی میں کنبوں نے اندرا آواس یوجنا کے تحت سیمنٹ اور اینٹ کے گھروں کی تعمیر شروع کر دی۔)
برکی اور موٹھی تیولی (’بڑا چراغ‘) دونوں ہی موقعوں پر، بستی کے اندر کے گھروں کے سامنے کی دیواروں کو چراغوں سے سجایا جاتا ہے۔ ان دونوں ہی راتوں میں، تیولی کی روشنی پاڑہ کے اندھیرے کو دور کر دیتی ہے – مویشیوں کے باڑے میں، شینکائی (گوبر رکھنے کی جگہ) میں اور برادری کے کنویں کے کنارے – ہر جگہ، چراغ کی لو ہوا میں لہراتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
بلی پرتی پاڑہ کے دن، صبح سے ہی جشن شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ’دمب‘ مذاق کا دن ہوا کرتا تھا، جس میں ایک جلی ہوئی بیڑی سے (نقصان پہنچائے بغیر) فیملی کے انجان ممبران کو داغا جاتا تھا۔ ’’ہر کسی کو صبح جلدی اٹھنا پڑتا، تیزی سے غسل کرنا ہوتا تھا۔ سو رہے لوگوں کو جگانے کے لیے دمب دیا جاتا تھا،‘‘ رام پارید بتاتے ہیں۔ وہ میرے چچا ہیں، ان کی عمر ۴۲ سال ہے۔ ان کی فیملی اینٹ بھٹوں پر کام کرتی تھی؛ اب وہ ٹھیکہ مزدور ہیں اور مانسون کے دوران جنگل کی زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔
بلی پرتی پاڑہ کے دن، ہر کوئی اپنے سامنے کے آنگن کو گوبر سے لیپتا ہے اور مویشیوں کے باڑے کو صاف کیا جاتا ہے۔ ہمارے سبھی مویشیوں کو سجایا جاتا ہے اور ان کی پوجا ہوتی ہے۔ ’’یہ ایک آدیواسی روایت ہے،‘‘ اشوک کاکا گریل کہتے ہیں، جو تقریباً ۷۰ سال کے ہیں اور مویشی پالتے ہیں، ان کا ہاتھ پکے ہوئے چاول کے پانی اور گیرو سے بنے پتلے گھول میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس لال بھورے رنگ کا استعمال جانوروں کے اوپر ہاتھ کا پنجہ چھاپنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان کے سینگ کو بھی اسی گھول سے رنگا جاتا ہے۔
پاڑہ میں جہاں مرد مویشیوں کو سجانے میں مصروف ہیں، وہیں عورتیں دیوالی کے دوران خاص طور سے پکایا جانے والا کھانا بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ پان موڑی، چولی اور کرنڈے لذیذ کھانے ہیں۔ یہ سبھی ان اشیاء کے استعمال سے بنائے جاتے ہیں، جو آدیواسیوں نے خود اُگائے ہیں۔
’’ہمارے چھوٹے کھیتوں سے کاٹی گئی دھان کی نئی فصل کا آٹا پیسا جاتا ہے۔ اس میں ہم کدو کش کیا ہوا کھیرا اور تھوڑا گڑ ملاتے ہیں۔ پھر آٹے کے اس پیڑے کو چائے کی پتی کے بیچ لپیٹ کر ابالا جاتا ہے،‘‘ میری ماں پرمیلا پان موڑی بنانے کا طریقہ بتاتی ہیں۔ ’’اور جب یہ تیار کیا جا رہا ہو، تو گھر میں جھاڑو نہیں لگانا چاہیے، ورنہ پان موڑی کبھی نہیں پکے گی!‘‘
کرنڈے کو بونے کے لیے، مانسون کے دوران مٹی کا ایک چھوٹا، سپاٹ ٹیلہ بنایا جاتا ہے۔ دیوالی کے وقت تک نئے کرنڈے اُگ آتے ہیں۔ کچھ کالے ہوتے ہیں تو کچھ سفید، کچھ گول ہوتے ہیں تو کچھ ٹیڑھے میڑھے۔ ان کا ذائقہ آلو کی طرح ہوتا ہے۔ اور جنگلاتی زمین کے ایک حصہ میں، چولی کی کھیتی کے لیے خشک پتیاں، گھاس اور سوکھے گوبر کو جلا کر کھیت تیار کیے جاتے ہیں۔ کھیت کو جوتا جاتا ہے اور وہاں چولی (کالے رنگ کی پھلیاں)، جسے ہم چولا کہتے ہیں، بوئی جاتی ہے۔ بلی پرتی پاڑہ کے دن، سوکھے کرنڈے اور چولا کو پانی میں تھوڑا نمک ملا کر ابالا جاتا ہے۔
کھانا پکانے کے بعد، عورتیں مویشیوں کے باڑے میں جاتی ہیں۔ دھان کے ڈنٹھل، موسل، لوہے کی چھڑ سے کھدائی ہوتی ہے اور کچھ گیندے کے پھول باہر رکھے جاتے ہیں۔ مویشی جیسے ہی باہر نکلتے ہیں، چروٹی پھل ان کے پیروں کے نیچے پھینکے جاتے ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ مویشیوں کے کھروں سے کچلے گئے چروٹی کے بیج میٹھے پھل دیں گے۔
مویشی زراعت کا اٹوٹ حصہ ہیں؛ فصل کو گھر تک لانے میں وہ کسانوں کے ساتھ کڑی محنت کرتے ہیں۔ وارلیوں کا ماننا ہے کہ، یہ گناہ کرنے والوں کو اپنے مویشیوں کو بددعا دینے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ برائی دور کرنے کے لیے، آدیواسی ’اگنی پوجا‘ کرتے ہیں، جس میں سبھی مویشیوں – گائے، بیل، بھینس اور بکریوں – کو برادری کے ذریعے دھان کے پوال سے جلائی گئی آگ کے بیچ سے گزارا جاتا ہے۔
اس دن وارلی اپنے دیوتاؤں – واگھیا (شیر)، ہیروا (ہریالی)، ہمائی (پہاڑ کی دیوی)، کنساری (اناج)، نرن دیو (محافظ) اور چیڈوبا (برائی سے حفاظت کرنے والے دیوتا) – کی پوجا کرتے ہیں۔ گیندے کے پھول کو پہلے پاک کیا جاتا ہے، پھر چولا، کرنڈے اور پان موڑی کے ساتھ دیوتاؤں کو چڑھایا جاتا ہے۔ اسی وقت سے، کئی وارلی عورتیں مانسون شروع ہونے تک اپنے بالوں میں گیندے کے پھول لگا سکتی ہیں۔ اس کے بعد اگلی دیوالی تک پوجا یا زیبائش کے لیے گیندے کے پھولوں کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔
آدیواسی جنگل کے اپنے چھوٹے سے کھیتوں پر، پورے مانسون محنت کرتے ہیں۔ وہ پہاڑیوں کے پتھریلے علاقے میں کڑی محنت کرتے ہیں۔ دیوالی تک، سبھی فصلیں – چاول، اڑد، جوار وغیرہ – کٹائی کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔ اگر، قدرت کی مہربانی سے پیداوار اچھی ہوئی، تو کئی کنبے اپنی اپج بیچ کر کچھ اضافی آمدنی بھی کما لیتے ہیں۔ اور اسی خوشی میں آدیواسی دیوالی مناتے ہیں۔ نئی فصل کی پوجا کرنے کے بعد ہی وہ کھانا شروع کرتے ہیں۔
لیکن مانسون ختم ہونے کے بعد کھیتوں میں کام نہیں ہوتا ہے۔ خود کو زندہ رکھنے کے نئے طریقوں کے بارے میں سوچنے کا یہی وقت ہوتا ہے۔ اگلے کچھ مہینوں تک کام کرنے کے لیے کچھ لوگ آس پاس کے گاؤں میں اینٹ کے بھٹوں کی طرف رخ کرتے ہیں، یا ممبئی کے شمالی علاقوں میں تعمیراتی مقامات پر جاتے ہیں، دیگر لوگ پتھر کی کانوں اور چینی کے علاقوں میں کام کرنے جاتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)