چاہے الو کی دھیمی آواز ہو یا چار قسم کے بیبلر کی چہچہاہٹ، وہ انہیں آسانی سے پہچان سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سفید گردن والے مہاجر سیاہ بگلے کس قسم کے تالاب میں انڈے دیتے ہیں۔
بی سدن کو اسکولی تعلیم درمیان میں ہی چھوڑنی پڑی تھی، لیکن تمل ناڈو کے نیلگری میں اپنے گھر کے آس پاس پائے جانے والے مختلف قسم کے پرندوں سے متعلق علم نے انہیں ماہر طیور بنا دیا۔
’’میرے گاؤں بُکّا پورم میں سِدّن نام کے تین لڑکے تھے۔ جب لوگ کسی سِدّن کے بارے میں معلوم کرنا چاہتے، تو گاؤں والے کہتے، ’کُروی سدّن تو نہیں – وہی لڑکا جو ہر وقت پرندوں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے‘،‘‘ وہ فخریہ انداز میں ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
ان کا اصلی نام بی سدن ہے، لیکن مُدوملئی کے آس پاس کے جنگلات اور گاؤوں میں وہ کُرُوی سدن کے نام سے مشہور ہیں۔ تمل میں ’کُرُوی‘ کا مطلب ہے عصفوری نسل – یعنی پرندوں کا وہ خاندان جس میں تمام پرندوں کی جنس کے تقریباً نصف سے زائد شامل ہیں۔
’’آپ جب بھی مغربی گھاٹ جائیں گے، تو آپ کو چار یا پانچ پرندوں کی آواز ضرور سنائی دے گی۔ آپ کو بس اتنا کرنا ہے کہ خاموشی سے ان آوازوں کو سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں،‘‘ ۲۸ سالہ وجیہ سریش کہتی ہیں۔ وہ نیلگری کے دامن میں آباد انئی کٹّی گاؤں کے پرائمری اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے سدّن سے پرندوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے، جو کہ مدوملئی ٹائیگر ریزرو کے آس پاس رہنے والے کئی نوجوانوں کے لیے ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وجیہ اس علاقے میں کم از کم ۱۵۰ پرندوں کی پہچان کر سکتی ہیں۔
سدّن، بوکا پورم میں رہتے ہیں۔ یہ گاؤں تمل ناڈو کے نیلگری ضلع میں مدوملئی ٹائیگر ریزرو کے بفر ژون میں پڑتا ہے۔ اپنی زندگی کے پچیس سال انہوں نے فاریسٹ گائیڈ، برڈ واچر (پرندوں کو دیکھنے والے) اور کاشتکار کے طور پر گزارے ہیں۔ ۴۶ سال کے یہ ماہر طیور ہندوستان بھر کے ۸۰۰ سے زیادہ پرندوں کے نام بتا سکتے ہیں اور ان میں سے کئی پرندوں کے بارے میں تفصیلی بات کر سکتے ہیں۔ تمل ناڈو میں درج فہرست قبیلہ کے طور پر درج ایرولر (جسے ایرولا بھی کہا جاتا ہے) برادری سے تعلق رکھنے والے سدّن، مدوملئی کے آس پاس کے اسکولوں میں بچوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، انہیں جنگل کی سیر پر لے جاتے ہیں اور پریزنٹیشن کے ذریعے ان کے ساتھ اپنا علم شیئر کرتے ہیں۔
پہلے تو یہ بچے سمجھ نہیں پائے کہ پرندوں میں ان کی اتنی دلچسپی کیوں ہے، ’’لیکن دھیرے دھیرے جب وہ کسی پرندے کو دیکھتے، تو میرے پاس آتے اور اس کے رنگ، سائز اور اس کی آوازوں کے بارے میں بتانا شروع کر دیتے،‘‘ سدن یاد کرتے ہیں۔
راجیش (۳۸) مویار گاؤں کے ایک سابق طالب علم ہیں۔ پرندے دیکھنے کے شوقین سدّن کے ساتھ گزارے گئے اپنے پرانے وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’وہ مجھ سے کہتے تھے کہ گرے ہوئے بانس کے پتّوں پر مت چلنا، کیوں کہ نائٹ جار (پشہ خور) جیسے پرندے درختوں پر بنے گھونسلوں میں نہیں، بلکہ ان پتوں پر انڈے دیتے ہیں۔ پہلے تو میں بس یہ سب باتیں سننا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے بعد، میں دھیرے دھیرے پرندوں کی دنیا کا مزہ لینے لگا۔‘‘
نیلگری میں بہت سی آدیواسی برادریاں آباد ہیں جیسے توڈا، کوٹا، ایرولا، کٹّو نائکن اور پنیا۔ سدّن کہتے ہیں، ’’جب میرے آس پاس رہنے والے قبائلی بچے دلچسپی دکھاتے ہیں، تو میں انہیں کوئی پرانا گھونسلہ دے دیتا ہوں یا اس گھونسلے کی حفاظت کرنے پر مامور کر دیتا ہوں جس میں چوزے ہوں۔‘‘
اسکولوں کے ساتھ ان کا کام ۲۰۱۴ میں شروع ہوا، جب انہیں بوکا پورم سرکاری اسکول کے طلباء کے ساتھ پرندوں کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے مسِن گُڈی ایکو نیچرلسٹس کلب (ایم ای این سی) کے ذریعے مدعو کیا گیا تھا۔ ’’اس کے بعد، آس پاس کے گاؤوں کے کئی اسکولوں نے مجھے فون کرنا شروع کر دیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
’میرے گاؤں بُکّا پورم میں سِدّن نام کے تین لڑکے تھے۔ جب لوگ کسی سِدّن کے بارے میں معلوم کرنا چاہتے، تو گاؤں والے کہتے، ’کُروی سدّن تو نہیں – وہی لڑکا جو ہر وقت پرندوں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے‘
*****
جب سدّن آٹھویں کلاس میں تھے، تو انہیں اسکول چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا پڑا۔ جب وہ ۲۱ سال کے ہوئے، تو محکمہ جنگلات نے انہیں بنگلہ کی رکھوالی کے لیے کام پر رکھ لیا – ان کے کام میں گاؤوں کے آس پاس اور کھیتوں پر ہونے والی ہاتھیوں کی نقل و حرکت سے لوگوں کو آگاہ کرنا، باورچی خانہ میں کام کرنا اور کیمپوں کی تعمیر میں مدد کرنا شامل تھا۔
نوکری کے ابھی دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ سدّن نے یہ کام چھوڑ دیا۔ ’’میری تنخواہ تب ۶۰۰ روپے تھی۔ اور وہ بھی پانچ مہینے تک نہیں ملی، تو مجھے اپنی نوکری چھوڑنی پڑی،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اگر میرے اوپر اتنا دباؤ نہیں ہوتا، تو میں محکمہ جنگلات کے ساتھ اب بھی کام کر رہا ہوتا۔ مجھے وہ کام بہت اچھا لگا۔ میں جنگل کو نہیں چھوڑ سکتا تھا اس لیے فاریسٹ گائیڈ بن گیا۔‘‘
نوے کی دہائی کے آخر میں، جب وہ ۲۳ سال کے تھے، تو انہیں ماہرین فطرت (نیچرلسٹ) کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، جو اس علاقے میں پرندوں کی گنتی کر رہے تھے۔ سدّن کا کام اُن لوگوں کو وہاں سے گزرنے والے ہاتھیوں سے آگاہ کرنا تھا کیوں کہ وہ بتاتے ہیں، ’’پرندوں میں دلچسپی رکھنے والے جب کسی پرندے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں، تب ان کی نظر اپنے آس پاس منڈلا رہے خطروں سے بھٹک جاتی ہے۔‘‘
اُس دن انہیں ایک انوکھا نظارہ دیکھنے کو ملا۔ ’’بڑے آدمی اس چھوٹی سی چڑیا کو دیکھ کر زمین پر لیٹ گئے تھے۔ وہ جس چڑیا کو دیکھ رہے تھے، میں نے اس کے اوپر توجہ مرکوز کی – یہ منی ویٹ تھی، جس کے پیٹ پر سفید رنگ کے بال ہوتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد پرندوں میں سدّن کی دلچسپی بڑھتی ہی چلی گئی۔ انہوں نے تمل اور کنڑ زبان میں ان کے نام سیکھنے شروع کر دیے۔ کچھ سال بعد، اس علاقے میں پرندوں کے بزرگ شائقین، کُٹّپن سدیشن اور ڈینئل ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور انہیں ٹریننگ دی۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے ذریعے ۲۰۱۷ میں شائع ایک تحقیقی مقالہ فاریسٹ گارجیئنس اِن دی ویسٹرن گھاٹس کے مطابق، مغربی گھاٹ ایک ایسا علاقہ ہے، جو ممبئی کے شمال سے کنیا کماری تک پھیلا ہوا ہے، جس میں پرندوں کی ۵۰۸ انواع پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے کم از کم ۱۶ انواع خطرے سے دوچار ہیں، جیسے کہ روفس بریسٹیڈ لافنگ تھرش، نیلگری کے کبوتر، سفید پیٹ والے شارٹ ونگ اور لمبی پونچھ والے گراس برڈ، روفس بیبلر، اور سرمئی رنگ کے سر والی بلبل۔
جنگل میں گھنٹوں وقت گزارنے والے سدّن کہتے ہیں کہ پرندوں کی جو انواع پہلے پائی جاتی تھیں، ان میں سے کئی نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ ’’میں نے اس سیزن میں ایک بھی سرمئی رنگ کے سر والی بلبل نہیں دیکھی ہے۔ پہلے وہ بہت نظر آتی تھیں، لیکن اب نایاب ہو چکی ہیں۔‘‘
*****
اچانک جنگل میں ٹٹیری کی آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ کسی خطرے سے آگاہ کر رہی ہے۔
’’اسی آواز کو سن کر ویرپن لمبے عرصے تک گرفتاری سے بچتا رہا،‘‘ این سیون آہستہ سے کہتے ہیں۔ وہ سدّن کے دوست اور پرندوں کے ماہر ہیں۔ ویرپن جنگلی جانوروں کے غیر قانونی شکار، صندل کی چوری اور کئی دیگر جرائم کے لیے مطلوب (وانٹیڈ) تھا، اور یہاں کے مقامی باشندے بتاتے ہیں کہ وہ ستیہ منگلم کے جنگلوں میں کئی دہائیوں سے ’’اسی آل کاٹی پَروَئی [لوگوں کو آگاہ کرنے والا پرندہ] کی آواز سن کر،‘‘ پولیس سے بچتا رہا۔
این سیون (۵۰) بتاتے ہیں، ’’جنگل میں اگر کوئی باہری آدمی یا شکاری دکھائی دیتا ہے، تو ٹٹیری زور زور سے بولنے لگتی ہے۔ اور جنگل بیبلر جھاڑیوں کے اوپر بیٹھ کر شکاری کا پیچھا کرتے ہیں اور جیسے جیسے جانور حرکت کرتا ہے، چہچہانا جاری رکھتے ہیں۔‘‘ سیون کو جب بھی کوئی چڑیا نظر آتی تھی، تو وہ اس کے بارے میں اپنی کاپی میں لکھ لیتے تھے۔ سیون کہتے ہیں، ’’ہم نے ایک سال تک اسی طرح ٹریننگ حاصل کی۔‘‘ انہیں پرندوں کے نام یاد رکھنے میں دقت پیش آتی تھی، لیکن انہوں نے کوشش کرنا نہیں چھوڑا۔ ’’پرندے ہمارے لیے اہم ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں کر سکتا ہوں۔‘‘
نوے کی دہائی میں، سدّن اور سیون کو بوکّا پورم کے قریب ایک پرائیویٹ ریزورٹ میں ٹریکنگ گائیڈ کی نوکری مل گئی اور پھر وہ دنیا بھر کے پرندوں کے شائقین کے رابطے میں آئے اور ان کے ساتھ گھلنے ملنے لگے۔
*****
سدّن جب مسِن گُڈی کے بازار سے گزرتے ہیں، تو کئی چھوٹے بچے ’’ہیلو ماسٹر!‘‘ کہہ کر ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ان کے زیادہ تر شاگرد مدوملئی کے آس پاس رہنے والے آدیواسی اور دلت ہیں۔
سابق طالب علم اور ایرولا برادری سے تعلق رکھنے والے ۳۳ سالہ آر راج کمار بتاتے ہیں، ’’ہماری چار رکنی فیملی میں اکیلے میری ماں کماتی تھیں۔ وہ اس قابل نہیں تھیں کہ مجھے کوت گیری کے اسکول بھیج سکیں۔‘‘ اس لیے انہیں اسکول چھوڑنا پڑا، جس کے بعد وہ بفر ژون کے آس پاس گھومتے ہوئے اپنا وقت گزارنے لگے۔ ایک دن سدّن نے انہیں سفاری پر ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ ’’دھیرے دھیرے، میں نے ٹریکنگ اور سفاری میں ڈرائیوروں کی رہنمائی کرنا شروع کر دیا۔‘‘
*****
علاقے میں شراب نوشی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ (پڑھیں: نیلگری میں، کم غذائیت کی وراثت ) سدّن کا کہنا ہے کہ آدیواسیوں کی نوجوان نسلیں اگر ان کے اس جنگل والے پیشہ کو اختیار کر لیں، تو وہ شراب کی بوتل سے دور ہو سکتی ہیں۔ ’’شراب کی لت کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب لڑکے اسکول جانا چھوڑ دیتے ہیں، تو ان کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہوتا۔ نوکری کے اچھے مواقع نہیں ہیں، اس لیے وہ شراب پینا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘
سدّن نے مقامی لڑکوں کو جنگل میں دلچسپی لینے اور انہیں شراب سے دور کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ہے۔ وہ تھوڑے فاصلہ پر بیٹھے کانٹے دار دُم والے ایک چھوٹے سیاہ پرندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں ڈرونگو جیسا ہوں۔ یہ بھلے ہی [سائز میں] چھوٹے ہوں، لیکن شکاری پرندوں سے لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز